قسط 1

584 36 42
                                    

"دلِ بسمل"
ازقلم راجپوت اقصیٰ

قسط ۱

اس نے پیشانی پر بکھرے سنہری بالوں کو پی کیپ کی مدد سے ڈھانپ کر آدھا چہرہ ماسک کی مدد سے چھپایا۔سفید فارمل پینٹ کے اوپر اسکن کلر کی ہاف آستینوں والی ٹی شرٹ پر  سیاہ لیڈر کی جیکٹ پہنے ہوئے وہ لبوں پر شریر مسکراہٹ سجائے شاطر دماغ میں تیزی سے کوئی منصوبہ بُن رہا تھا اور پھر سر جھٹک کر گہری نیلی،چیتے سی تیز نگاہوں سے، سامنے تن کر کھڑی پتھریلی دیوار کی لمبائی ناپی اور کچھ قدم پیچھے کو ہوکر تیزی سے دیوار کی جانب بڑھ کر، اپنے ہاتھوں کی مدد سے ایک ہی جست میں دیوار کی دوسری سمت کسی پیشہ ور ایٹھلیٹ کی طرح بغیر کوئی چاپ پیدا کیے کود کر گھٹنوں کے بل بیٹھا اور اگلے ہی لمحے سیدھا ہوتے ہوئے پی کیپ کو مزید آگے کرکے،دبے قدموں سے اس شاندار محل نما عمارت کی سمت بڑھا۔

***

یہ نظر تھی پہلے بھی مضطرب،
یہ کسک تو دل میں کبھو کی ہے،

اس کی مضطرب نگاہیں کبھی اقبال کی جانب اٹھتیں،کبھی تیز دوڑتی رینج روور کے گلاس سے پار نظر آتی سیاہ چارکول کی شفاف سڑک پر اور کبھی بائیں ہاتھ کی کلائی میں بندھی گھڑی پر،دائیں ہاتھ میں پکڑی مہرون جلد والی فائل کو وہ مسلسل اضطرابی کیفیت میں اپنی ٹانگوں پر ہلکے،ہلکے سے مار رہا تھا۔
"مسز آفندی کو خبر ہے کہ میں یہاں آچکا ہوں؟؟"
ناچاہتے ہوئے بھی اس نے سوال کیا۔اقبال نے بیک مرر میں اسے دیکھا۔
"مجھے نہیں لگتا سر...ورنہ وہ آپ سے ملنے کی کوشش ضرور کرتیں...!"
وہ جبڑے بھینچ گیا۔
"ہم..م...م۔ میں چاہتا ہوں انہیں میری یہاں آمد کا علم نہ ہو....!!"
وہ مہرون جلد والی فائل پہلو میں رکھتے‘ موبائل کی جانب متوجہ ہوتے ہوئے اسے ہدایت دے رہا تھا۔اس نے تابعداری سے سر ہلایا۔
"جی بہتر سر...!"
اس نے اس کی جانب دیکھے بغیر سر کو خم دے کر جیسے بات ختم کردی۔
"ویسے سر آپ کو نہیں لگتا کہ آپ السا بی بی کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں؟؟"
اس نے بہت ہمت کرنے کے بعد آخرکار دل میں دبی بات کہہ ہی دی۔ اس نے گہری سانس خارج کرتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔
"ہاں مجھے احساس ہے کہ میں اس کے ساتھ غلط کر رہا ہوں،لیکن میں اب پیچھے نہیں ہٹ سکتا...!"
اس کا لہجہ ہمیشہ کی طرح سرد اور بے لچک تھا۔
"آپ کب تک ایزد کو سزا دیتے رہیں گے؟؟؟اور وہ بھی اس گناہ کی جو اس نے کیا ہی نہیں ہے...!!"
وہ اس کا بچپن کا ساتھی تھا اور سالوں سے اس کا نمک کھا رہا تھا۔ اس لیے اسے صحیح اور غلط میں فرق دکھانا اپنا اولین فرض سمجھتا تھا۔
"میں اس موضوع پر مزید بات نہیں کرنا چاہتا....اور امید کرتا ہوں کہ آج کے آئندہ تم یہ موضوع نہیں چھیڑو گے...!"
اس کا انداز دھیما مگر پرتپش تھا۔
"جی سر...بہتر!"وہ بے ساختہ خاموش ہوا۔
منزل آچکی تھی۔ چوکیدار نے اس کی کار کو دیکھتے ہی تیزی سے آہنی گیٹ کھولا۔ اقبال کے گاڑی پارک کرتے ہی وہ سیاہ کوٹ کو اپنے بازو پر ڈال کر، سیاہ گاگلز آنکھوں پر سجاتے،جھٹکے سے فائل کو اٹھاتے ہوئے گاڑی سے اترا اور سرخ روش پر قدم بڑھائے جس کے دائیں جانب دور تک پھیلا چمکتی امریکن گھاس سے آراستہ سر سبز لان اور ارد گرد رنگ، برنگے پھولوں کے پودے اس کی خوش روئی میں چار چاند لگا رہے تھے جبکہ وسط میں خوبصورت طرز پر بنا چھوٹا سا فوارہ اپنے آپ میں ہی باکمال تھا۔ اقبال بھی تیزی سے ڈرائیونگ سیٹ سے اتر کر اس کے ہمقدم ہوا۔وہ قدم زمین پر جما، جما کر، سیاہ آنکھوں میں بیزاریت لیے تیزی سے اس شاندار، سفید و سیاہ رنگ سے ڈھکی عمارت کی طرف بڑھ رہا تھا۔ سیاہ تھری پیس سوٹ میں اس کی پروقار مردانہ وجاہت اور چہرے پر ہمہ وقت ناچتی مغروریت و تمکنت سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ اس عمارت میں ہونے والے ہر سیاہ و سفید کا حاکم وہ تھا۔ اس عمارت کا مالک وہ تھا۔
"وہ اس وقت کہاں....؟؟"
"گیسٹ روم میں۔"
اس کی ادھوری بات سمجھتے ہی اقبال نے گیسٹ روم کی طرف اشارہ کیا۔
"ہم..م..م..تو پہلے اس سے مل لیتے ہیں...!"
اس نے آنکھوں سے سیاہ چشمہ ہٹاکر کالر پر اٹکایا۔
تیس فٹ اونچے،سنگواں کی لکڑی سے بنے خوبصورت داخلی دروازے کو عبور کرتے ہوئے اس نے جیسے ہی دور تک پھیلی ماربل کے فرش سے سجی لابی کی جانب قدم بڑھایا ایک مانوس سی خوشبو اس کے نتھنوں سے ٹکرائی۔ایک پل کے لیے ہی سہی لیکن اس کے لبوں پر آزردہ سی طمانیت بھری مسکراہٹ پھیل کر سمٹی۔ چند لمحوں کے لیے اس نے اپنا چہرہ اوپر چھت کی جانب اٹھایا اور اس خوبصورت فانوس کو دیکھ کر افسردہ سی سانس خارج کی اور رخ موڑ کر راہداری عبور کرتے ہوئے سب سے پہلے بنے کمرے کی جانب بڑھا،دروازے پر پہنچ کر اقبال کو باہر ہی رکنے کا اشارہ کرتے ہوئے کمرے میں داخل ہوا۔
"کیوں آئے ہو تم یہاں؟"
وہ اسے دیکھتے ہی زخمی ناگن کی طرح پھنکاری۔
"سائن کرو ان پیپرز پر!!!!"
اس کا لہجہ نظر انداز کرتے ہوئے تحکم بھرے لہجے میں کہتے وہی مہرون جلد والی فائل اس کے سامنے پھینکی اور دونوں ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں ڈال کر ٹیبل کی طرف اشارہ کیا۔اس نے نگاہیں اس پر سے ہٹاکر ٹیبل پر پڑی فائل پر ٹکائیں۔
"میں نہیں کروں گی....!!!"وہ چونکی پھر اس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھ کر،چبا چبا کر کہا۔
"اوکے فائن....!!"
وہ ہاتھوں کو ہوا میں معلق کرتے ہوئے طنزیہ مسکرایا پھر اپنے فون کی اسکرین اس کے سامنے کی،وہ جو منہ پھیرنے ہی لگی تھی اسکرین کے پار تین اسلحہ دار آدمیوں کے درمیان گھرے اس شخص کو دیکھ کر اسے سانس لینے میں دشواری ہوئی۔
"وہ کیا نام ہے اس کا...؟ام..م..م..!!!"
اس نے سوچنے کی بھرپور اداکاری کی، پھر چٹکی بجاکر اپنی پیشانی پر دستک دیتے ہوئے اپنی یادداشت کو داد دیتے،جتانے والے انداز میں کہا۔
"ارے ہاں تمہارا نام نہاد شوہر، ڈا بگیسٹ لوزر ایزد آفندی۔"
وہ پوچھ نہیں رہا تھا،بتا رہا تھا۔وہی مخصوص سامنے والے کو چاروں خانے چت کردینے والا بے لچک لہجہ۔ وہ پل بھر کے لیے تھرا کر رہ گئی۔ یہ تو وہ راز تھا جس کا تین لوگوں کے علاوہ کسی کو علم نہ تھا۔ناسمجھی سے اس نے نظریں اٹھاکر اس کے بے تاثر چہرے پر سجی کھوکھلی مسکراہٹ کو پڑھنے کی ناکام کوشش کی۔
"چچ...چچ...چچ...کیسا ہو اگر وہ میری صرف ایک کال سے ہی اس دنیائے فانی سے کوچ کر جائے...ہاں؟ اور پھر تم....!!تم تو نہ گھر کی رہوگی نہ گھاٹ کی....کتنا برا ہوگا نا تمہارے ساتھ؟؟؟!!!"
زہر خند مسکراہٹ لبوں پر سجائے وہ اسے جتا رہا تھا کہ اس وقت اس کی زندگی کا حاکم وہ ہے۔ بے درد، ظالم حکمراں۔
"تم وہ شہاب نہیں ہو جسے میں اتنے سالوں سے جانتی تھی....وہ شہاب تو میرا....!!"
وہ اسے باور کرا رہی تھی کہ وہ دونوں کبھی بہت اچھے دوست ہوا کرتے تھے۔ ابھی بھی اندر کسی کونے میں مبہم سی امید تھی کہ وہ اپنی خودساختہ دشمنی میں اتنا نہیں گر سکتا کہ اس کی زندگی ہی برباد کردے۔ لیکن شائد وہ غلط تھی۔
"ہاں نہیں ہوں میں وہ شہاب....!!!“
وہ دہاڑا۔ وہ سہم کر پیچھے ہوئی۔
"اور مجھے ایسا بننے پر بھی تم نے مجبور کیا ہے،تم جانتی تھیں مجھے ایزد سے کتنی نفرت ہے....تم جانتی تھیں کہ اس دنیا میں اگر میرا کوئی دشمن ہے تو وہ صرف آفندیز ہیں۔پھر بھی تم نے اس سے محبت کی...اس سے چھپ کر نکاح کرلیا...!!تو اب،جبکہ تم اپنی حدود پار کر چکی ہو تو مجھے اپنی حد پار کرنے سے کون روک سکتا ہے؟؟؟ہاں؟؟اب جلدی سے دستخط کرو...ورنہ ایک کال...!صرف ایک مسڈ کال...!!"
اس کے چہرے پر پھیلے خوف و ہراس کے تاثرات دیکھ کر وہ مزید شیر ہوا۔ اس کے لبوں سے نکلتے زہر خند لفظ اس کے جسم سے خون نچوڑ رہے تھے وہ جانتی تھی کہ جو وہ کہتا تھا کر گزرتا تھا۔ان گزرتے سالوں میں ایزد کے لیے اس کی نفرت جنونی شکل اختیار کر چکی تھی اور بس،ایک لمحہ لگا تھا اسے موم ہونے میں۔ اس نے ایزد کی زندگی کے آگے اپنی محبت ہار دی تھی۔
یا پھر یوں کہنا چاہیے کہ اس نے ایزد کی زندگی کے لیے اپنی زندگی ہار دی تھی، اپنے جینے کی وجہ کھودی تھی۔
یہ ایزد کی محبت ہی تو تھی جو اسے اب تک زندہ رکھے ہوئے تھی۔ اسے جوڑے ہوئے تھی۔اس کا بھرم رکھے ہوئے تھی۔
"میں کرتی ہوں سائن...ل...لیکن....لیکن تم اسے کچھ نہیں کروگے...وعدہ کرو مجھ سے...!"
وہ بے ساختہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑ گئی۔ وہ ہنسا۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر الگ ہی مزہ آرہا تھا۔دل کو عجیب سی تسکین مل رہی تھی۔اسے محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ اس لڑکی کو نہیں، بلکہ ایزد کو مات دے رہا تھا۔ سامنے بیٹھی لڑکی تو صرف ایک ذریعہ بن گئی تھی اس کی فتح کا،دل چاہا کہ اسے مزید تنگ کرے۔
"اب لگ رہی ہو نا میری بچپن کی دوست!!"
اس نے اس کے قریب جھک کر سرگوشیانہ انداز میں کہہ کر اس کا گال اپنے گال سے مس کیا اور لبوں پر نرم سی مسکراہٹ سجائے سیدھا ہوا وہ اہانت و شرمندگی کی اٹھاہ گہرائیوں میں غوطے کھاکر غصے سے سرخ ہوتا چہرہ لیے خون کا گھونٹ بھر کر رہ گئی۔اس کا دل چاہ رہا تھا کہ سامنے کھڑے شخص کی بوٹی بوٹی نوچ پھینکے یا اپنے آپ کو گولی مار کر اس قصے کا اختتام کردے۔
"میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے....جلدی سائن کرو...!!"
اس کا لہجہ لمحے میں بیگانہ ہوا تھا۔ نرم مسکراہٹ کی جگہ اب لب ایسے بھنچے ہوئے تھے کہ چہرے کے خدوخال واضح ہوگئے تھے۔بے خود سی وارفتگی اچانک کہیں غائب ہوگئی۔ کلائی پر بندھی رسٹ واچ کو آنکھوں کے سامنے لاکر انتہائی بے زاری سے کہا۔ اس نے کاغذات اپنے آگے کرتے ہوئے کپکپاتے ہاتھوں اور ساکت و جامد وجود سے کسی بے جان پتلے کی طرح کھٹاکھٹ سائن کردیے۔ وہ فتح یاب مسکراہٹ لبوں پر سجاتا، غرور سے تن کر کھڑا ہوا۔ کاغذات کو ایک نظر دیکھ کر اس نے دوبارہ نظریں اس پر ٹکائیں۔
"بس یہ تھی تم دونوں کی محبت؟؟ اتنی ہلکی؟ اتنی سستی؟ اتنی ارزاں؟اس سے زیادہ تو چائنہ کی چیزیں چل جاتی ہیں...تھرڈ کلاس لوگوں کی تھرڈ کلاس محبتیں...!!"
اس کے لہجے میں حقارت ہی حقارت تھی۔ وہ درد سے آنکھیں میچ کر رہ گئی اور وہ اسے ایک نظر دیکھ کر سر جھٹکتا فائل اٹھاکر مڑا لیکن کچھ قدم چلنے کے بعد رک کر ایسے پلٹا جیسے اچانک سے کچھ یاد آگیا ہو۔
"ویسے آجکل ٹیکنالوجی نے کتنی ترقی کرلی ہے نا اصل اور نقل کا فرق ہی ختم ہوگیا ہے۔"
اس نے اس کی بغیر سر،پیر کی بات پر ناسمجھی سے دیکھا۔اس نے موبائل اس کے سامنے کرکے دوبارہ ویڈیو چلائی۔
"میں بتانا بھول گیا تھا کہ یہ ویڈیو مصنوعی ہے..!!"
اس نے سامنے کھڑے چھ فٹ ایک انچ کے مرد کو بے یقینی سے دیکھا تھا اور تیزی سے اس پر جھپٹی تھی۔
"تم....منہوس آدمی....میں تمہارا منہ نوچ لوں...."
اس نے بوقت اس کی نازک کلائیوں کو اپنی ہتھیلیوں میں قید کرکے اس کا وحشیانہ روپ بڑے صبر سے دیکھا تھا۔ وہ اس کی مضبوط پکڑ کی وجہ سے کچھ دیر مضمحل سی اس پر حملہ کرنے کی کوشش کرتی رہی لیکن کوشش کارآمد نہ ہوسکی تو ڈھیلی پڑ کر اپنی کلائیوں کو اس کی ہتھیلی سے آزاد کروایا۔
"میں نے تمہیں کیا سمجھا تھا...اور تم کیا نکلے....!!!"
وہ ہارے ہوئے جواری کی سی حالت لیے رخ موڑ کر کھڑکی پر جا کھڑی ہوئی تھی۔
"میں جانتا ہوں السا۔میں تمہارے ساتھ غلط کر رہا ہوں، لیکن تم نے ایزد سے محبت کرکے مجھ سے زیادہ بڑی غلظی کی ہے....اور یہ اسی محبت کا خمیازہ ہے جو تم بھگت رہی ہو....!"
اب اس کا لہجہ نرم اور اپنائیت لیے ہوئے تھا۔اس نے اپنا رخ اس کی سمت موڑا۔ پیچھے سے آتی سورج کی شعاعوں نے اس کے عکس کو دھندلا سا کردیا تھا۔
"اگر یہ اس محبت کا خمیازہ ہے تو مجھے منظور ہے شہاب....ایزد کے لیے تو میں آنکھیں بند کرکے آگ کے کنویں میں بھی کود سکتی ہوں،پھر یہ تو صرف اس کی محبت سے دستبرداری ہے....لیکن یہ بات تم اپنے دماغ کے کونوں میں بٹھالو کہ میں اگر اس کی نہیں ہوئی تو تمہاری بھی نہیں ہوووں گی....مجھے تم سے پہلے ہمدردی تھی لیکن اب....اب میں تم سے اتنی نفرت کرتی ہوں کہ تمہاری شکل پر تھوکنا بھی گوارا نہیں کرتی....!"
اس کی آواز بلند،لہجہ تحقیر آمیز اور چٹانوں سے زیادہ سخت تھا۔ضبط کے مراحل سے گزر کر بے ضبط ہوتا لہجہ۔
اس کے کٹیلے لہجے پر وہ خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔
"ششششش....آواز نیچے ورنہ زبان کھینچ لوں گا....اگر آج کے آئندہ میرے سامنے فضول گوئی کی تو انجام کی ذمہ دار تم خود ہوگی...!"
چند قدم آگے بڑھ کر شہادت کی انگلی اٹھاکر اسے سختی سے تنبیہہ کرتے ہوئے وہ تیزی سے باہر نکلا تھا۔وہ جو اتنی دیر سے اس کے سامنے اپنے آپ پر بندھ باندھے ہوئی تھی بے ساختہ زمین پر گرتے ہوئے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپاکر بلک،بلک کر رودی۔

دلِ بسملWhere stories live. Discover now