episode 24

167 20 2
                                    

                 

                  دل کے ہاتھوں ❤️


             بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم°

عنایہ کو تو سمجھ ہی نہیں آیا جب لیڈی پولیس نے اسے گرفتار کرکے ہتھ کڑی پہنائ۔  وہ اپنا جرم خود قبول کرگئے تھی۔

ماہین کو بھی یقین نہیں آیا کہ آخر کار اس لڑکی کو ایسی کونسی دشمنی تھی جو اس نے اسے اس حد تک برباد کرنے کی کوشش کی تھی۔

کسی نے بہت سچ کہا ہے یہ حسد اور بعض زندگی برباد کردیتا ہے۔

عنایہ کے کڈنیپ کرنے کا مقصد ماہین سے نفرت اور سعد سے بدلہ تھا۔ وہ ماہین کی زندگی برباد کرنا چاہتی تھی۔ اس کی سعد سے دوستی کی کوشش نکام ہوئ تو اس کے لیے اس کے جذبات بدل گۓ۔ اپنے اسٹنٹ سے اس نے سعد اور ماہین کے تعلق کا پتا کروایا تھا اور وہ سعد سے ماہین کے زریعے بدلہ لینا چاہتی تھی۔ اس طرح وہ ایک تیر سے دو لوگوں کی زندگیوں کو تباہ کرنا چاہتی تھی۔ تب وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ اس کی اپنی زندگی برباد ہوجاۓگی۔ وہ تو ماہین کی عزت کو روند دینا چاہتی تھی لیکن اس کی اپنی عزت کا تماشہ بن گیا تھا۔جو کسی کے لیے (سازش) کا کنواں کھودتا ہے وہ ایک نہ ایک دن خود اس میں گر ہی جاتا ہے۔ آج عنایہ گرگئ تھی۔ 

(ماہین کی کڈنیپنگ کی دوپہر)

سعد جب زیشان کے گھر پہنچا تو اس کی حالت کافی خراب تھی۔ زیشان نے اسے پرسکون  کرنے کے لیے پانی میں نیند کی گولی ملا کر دی تھی تاکہ وہ کچھ دیر تک آرام کرلے۔ پھر اس کی آنکھ شام کے وقت کھلی تھی۔ آنکھ کھلتے ہی پہلا خیال ماہین کا آیا۔ وہ سو کیسے سکتا تھا۔ نہ جانے وہ کس حال میں تھی اور وہ بے خبر سوگیا تھا۔ اسے خود پر بہت غصہ آیا تھا۔ پھر جب وہ جانے کے لیے نیچے آیا تو زیشان نے اسے روکا اور ہوٹل کی سی سی ٹی وی فوٹیج دکھائی جس سے ماہین کو جس گاڑی میں لے جایا گیا تھا اس کا نمبر بہت بار روک کر زوم کر کے مل ہی گیا تھا۔

زیشان اس کا دوست ہی نہیں بھائ تھا۔ وہ ان دوستوں میں سے تھا جو دوستوں کے لیے کچھ بھی کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتے۔ وہ سعد کی حالت سے واقف تھا اس لیے اس نے اسے سلادیا اور خود سے جتنا کرسکتا تھا کیا۔

اب انہیں اس نمبر کی معلومات نکلوانی تھی اور پھر کچھ ہی گھنٹوں میں پتا چل گیا تھا کہ گاڑی کسی نے رینٹ پر لی تھی۔ وہ دونوں اسی وقت اس دکان پر پہنچے تھے اور پھر چند پیسے دے کر انہوں نے گاڑی لے جانے والوں کے نام نکلوا لیے تھے۔

اس سب کے دوران سعد نے ماہین کے لیے کتنی دعائیں مانگی تھی یہ بس سعد یوسف جانتا تھا۔

پھر ان لوگوں کے بارے میں پتا کروانے کے لیے انہیں وقت چاہیے تھا۔ اور یوں پہلی رات گزرگئ تھی۔  صبح زیشان کا کوئ وائس میسج تھا جب اس کے فون نے اسے کچھ پرانے وائس میسیجیز شو کیے تھے۔ پھر نجانے کیوں اس نے زیشان کا میسج کھولنے کی بجاۓ اس نے اس غیر شناسا نمبر کا میسج کھولا۔

دل کے ہاتھوں۔۔۔۔۔۔۔Where stories live. Discover now