قسط ١٥

752 55 19
                                    

#عیدِ_زندگی_سیزن_2
#سحرقادر

EPISODE 15:-
------------
"دانیال سے بات کرنا ہی مسئلے کا حل ہے۔" ربیشہ نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
"بات کون کرے گا؟" ہادیہ نے سوالیہ انداز اپنایا۔
"یقینا وہی کرے گی جس کا مسئلہ ہے۔" ربیشہ تو یوں بیٹھی تھی کہ جیسے کوئی بڑا مسئلہ ہی نہ ہو۔
"میں...........؟" فادیہ پریشانی سے یوں بولی کہ جیسے اسے بغیر آکسیجن کے کے ٹو سر کرنے کا حکم دے دیا گیا ہو۔
"نہیں آپ کیوں کرینگی ملکہ عالیہ؟ میں کر لیتی ہوں نا! بندی غلام ہے آپ کی!" ہادیہ نے مزاحیہ انداز میں فادیہ کو چڑایا۔
"یہ میدان تو تمہیں ہی مارنا ہے فادیہ!" ربیشہ نے اس کا ہاتھ پکڑا کر دبایا۔
"اوکے!" یک لفظی جواب دینے کے بعد وہ بیڈ پر لیٹتی بلینکٹ اوڑھ چکی تھی جبکہ ہادیہ اور ربیشہ اب آپس میں بات کر رہی تھیں۔
______________________
______________________
"حائمہ بچے کیا کر رہی ہو؟" صوفیہ بیگم نے پیار سے مصروف سی حائمہ سے پوچھا جو کام کر کے بے حال ہو رہی تھی۔
"کچھ نہیں تائی امی! امی نے بتایا کہ سٹور میں میرے جہیز کے تمام برتن پڑے ہیں تو بس انھیں کچن میں سیٹ کیا ہے۔ چولہا تھوڑا خراب تھا اسے سیٹ کروایا اور پھر گروسری کا مسئلہ ابھی وہ بازار سے لا کر سیٹ کی تھی اور کھانا بنا دیا ہے۔" حائمہ نے لمبی سانس بھرتے ہوئے انھیں ساری ڈیٹیل سنائی۔
"ابھی کیا کرنے کا ارادہ ہے؟" صوفیہ بیگم نے تشویش سے پوچھا۔
"نہیں اب تو فارغ ہوں۔" حائمہ نے ان کے سامنے اوپر والی منزل کے لاؤنج میں موجود صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
"میں ان انتظامات کا پوچھ رہی ہوں۔ نیچے والا کچن میں سب گھر والوں کے لیے کھانا بنتا ہے تو یہ سب کیوں؟" صوفیہ بیگم اس پر برہم تھیں۔
"مہوش کا انداز کسی سے ڈھکا چھپا تو نہیں اور اس سے زیادہ میری برداشت نہیں ہے۔ کچن الگ ہو گیا ہے باقی  سب بھی میں نے الگ کر دیا ہے اور کل سے میڈ بھی الگ آئے گی۔" حائمہ نے انھیں نئی اطلاع دی۔
"مگر.... " صوفیہ بیگم کو یہ سب ہضم نہیں ہو رہا تھا۔
"فکر مت کریں تائی امی! ہم سب پہلے کی طرح ہی رہیں گے لیکن یہ ضروری تھا ورنہ رشتوں میں دراڑ آ سکتی تھی۔" حائمہ اٹھی اور ان کے ساتھ بیٹھ کر ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
"عون سے ملنے گئی؟" صوفیہ بیگم نے نیا سوال پوچھا۔
"نہیں وہ سارا دن کام سے فرصت نہیں ملی اور مہوش صبح سے وہیں ہیں۔ کل جاؤنگی اب تو شام ہو گئی ہے۔" حائمہ نے ان کے گلے میں بازو ڈالے تو وہ بھی مسکرا دیں۔ حائمہ کو شروع سے انھوں نے اپنی بیٹیوں کی طرھ چاہا تھا اور مہوش کی باتیں آرام سے برداشت کر کے حائمہ نے ان کا مان توڑا نہیں تھا۔
______________________
______________________
ایک نیا دن شروع ہوا تھا۔ نیا سورج طلوع ہوا تھا۔
آج کئی معاملات حل ہونے تھے اور کئی نئے معاملات کھلنے تھے۔
"جاؤ!" ربیشہ اور ہادیہ نے فادیہ دھکا دیا۔ وہ اسے کافی دیر سمجھا کر دانیال کی کلاس کے سامنے لے آئی تھیں۔ فادیہ کو مشن پر بھیج کر خود دونوں کینٹین جا چکی تھیں۔
دانیال کی کلاس خالی ہو چکی تھی اور اب اگلے ایک گھنٹہ اس کمرے میں کوئی کلاس نہیں تھی۔ دانیال اس وقت اپنا سامان سمیٹ رہا تھا اور وہ کلاس میں موجود آخری سٹوڈنٹ تھا۔
دانیال بیگ اٹھاتا پلٹا تو سامنے فادیہ کو موجود دیکھ کر رک گیا۔
"ارے فادیہ آپ!" دانیال آرام سے چلتا ہوا کمرے کے دروازے کے پاس کھڑی فادیہ کے قریب آیا۔
"مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔" فادیہ لب کچلنے کی مشق کو چھوڑ کر مدعے کی طرف آئی۔
"بیٹھ جائیں پھر بات کرتے ہیں۔" دانیال کمرے میں موجود کرسی پر بیٹھتا اس سے مخاطب تھا۔
فادیہ خود کو عجیب دوراہے پر کھڑا محسوس کر رہی تھی۔
"نہیں میں ایسے ہی ٹھیک ہوں۔" ہاتھوں کو انگلیوں کو مسلتے اس نے بیٹھنے کی پیشکش کو ٹھکرایا۔
"آخر مسئلہ کیا ہے فادیہ؟" دانیال اٹھ کھڑا ہوا۔ فادیہ نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔ کم دانیال بھی کسی سے نہیں تھا۔ ہاں مگر دل کا کیا جو حمدان کے نام تھا۔
"مجھے یہ منگنی ختم کرنی ہے۔" فادیہ نے آنکھیں بند کرتے جلدی سے جملہ کہہ دیا تھا۔
دانیال کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔ دانیال خان کو آج تک  ہر وہ چیز ملی تھی جو اس نے چاہی۔ وہ کوئی بدتمیز یا باپ کی طرح بگڑا نوابزادہ نہیں تھا لیکن ضد کرنے پر آئے تو کسی کی نہیں سنتا تھا۔
"کیا کہا؟" وہ دو قدم بڑھاتا اب فادیہ کے عین مقابل کھڑا تھا۔
"مجھے آپ سے منگنی ختم کرنی ہے۔ میں آپ سے شادی نہیں کر سکتی۔" فادیہ نے نظریں زمین پر رکھتے آہستگی سے اپنا مطلب واضح کیا تھا۔
"شاید آپ کو سمجھ نہیں آتا۔ میں نے کہا تھا کہ آپ کے انکار سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ آپ کی شادی تو مجھ سے ہی ہوگی۔" وہ فادیہ کا بازو مروڑتا اسکی کمر کے پیچھے کرتا اب اسے دیوار سے لگائے کھڑا تھا۔
اس ردعمل پر فادیہ کو اپنی سانسیں رکتی ہوئی محسوس ہوئی تھیں۔
"پلیز!" فادیہ کی آنکھیں نم ہوئی تھیں۔ وہ کمر کے پیچھے موجود اپنے بازو کو چھڑانے کی کوشش میں تھی جو کہ دانیال کے ایک ہاتھ کی گرفت میں تھا جبکہ دانیال اپنا دوسرا ہاتھ دیوار پر رکھے فادیہ کو دیکھ رہا تھا جو بمشکل اس کے کندھے تک آتی تھی۔
"کیا پلیز؟ ایک بار کی بات آپ کی سمجھ میں نہیں آتی؟" دانیال نے دانت پیستے ہوئے پوچھا۔
"آپ سمجھنے کی کوشش کریں۔ جب ذہنی ہم آہنگی ہی نہیں تو یہ رشتہ کیسے چل سکتا ہے۔" فادیہ کی نظریں ہنوز نیچے تھیں اور وہ اپنا بازو چھڑانے کی تگ و دو میں تھی۔ اگر کوئی انھیں یہاں یوں دیکھ لیتا تو خوامخواہ کا سکینڈل بن جانا تھا۔
"بس یار تیرا دوست ہے۔ تو بات کرے گا تو مان جائے گا۔ وہ تو کہتا ہے جان دے سکتا ہے تیرے لیے تو کیا اتنی سی بات نہیں مانے گا۔" افراز نے حمدان کو جوش دلاتے دانیال کے پاس بھیجا۔
"جب تجھے بلاؤں تو اندر آنا یہ نہ ہو وہ پٹھان غصے میں مجھے اڑانے لگے۔" حمدان نے افراز کو سمجھایا۔
"کہے تو ساتھ چل دوں۔" افراز نے پیشکش کی۔
" نہیں ضرورت ہوئی تو مس کال دونگا۔" حمدان نے کہا اور کمرے کے اندر سینٹر ہوا لیکن اندر کا منظر ساکت ہو گیا۔
دانیال فادیہ کو تقریباً جھنجھوڑنے ہوئے کہہ رہا تھا:
"یہ رشتہ میری ضد ہے اور یہ بن کر رہے گا۔" حمدان نے پریشانی سے ماتھا مسلا۔ فادیہ نے پہلے بات کر کے سب خراب کر دیا تھا۔ اگر حمدان پہلے بات کرتا تو وہ دانیال کو منا لیتا مگر اب دانیال کی انا کی جنگ میں وہ دونوں پسنے والے تھے۔
"چھوڑیں مجھے!" فادیہ کو چہرہ اور لہجہ بھیگا ہوا تھا۔
"دانیال!" حمدان نے اسے پکارا تو وہ دونوں نووارد کی طرف متوجہ ہوئے۔
دانیال نے فادیہ پر گرفت ڈھیلی کی تو وہ فوراً دور ہوئی تھی۔
"تم یہاں کیا کر رہے ہو؟" دانیال نے زبردستی مسکراتے ہوئے پوچھا۔ حمدان نے سوچا کہ اگر اس کو فادیہ کے انکار کی وجہ پتہ چل جائے تو یہ مسکرانے کہ بجائے اس کا قتل کرتا۔
"فادیہ کو لینے آیا ہوں۔" حمدان کا لہجہ ہنوز سپاٹ تھا جبکہ فادیہ دل میں ڈر رہی تھی۔
"تم......" دانیال کچھ کہنے والا تھا کہ جب حمدان نے اسے ٹوک دیا۔
"ہاں فادیہ کے انکار کی وجہ میں یعنی حمدان خان ہوں اور میں امید کرتا ہوں کہ تم اپنے دوست کے لیے قربانی دوگے۔" حمدان نے قدم بڑھاتے فادیہ کا ہاتھ پکڑا اور باہر جانے لگا تھا کہ جب دانیال نے اسے روکا۔
"دوست کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔" دانیال کا لہجہ زہریلا تھا۔
"نہیں میں بہت پہلے سے فادیہ کو پسند کرتا ہوں۔ رشتہ لانے والا تھا کہ عون بھائی کا مسئلہ ہو گیا اور پیچھے تم لوگوں کی منگنی ورنہ میرا تمہیں دکھ دینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔" حمدان نے صفائی دی لیکن اس کے منہ پر دانیال کا مکا پڑا تھا۔
فادیہ نے منہ پر ہاتھ رکھا تھا اور باہر بھاگی تھی۔
"کیا ہوا فادیہ؟" افراز کمرے سے فادیہ کو نکلتے دیکھ کر چونکا لیکن پھر اس سے تفتیش کرنے لگا۔
"وہ دانیال اور حمدان... " فادیہ نے بس اتنا کہا کہ افراز نے پہلے راحم اور علی کو میسج کیا اور پھر خود تیزی سے اندر بھاگا۔
اندر حمدان اور دانیال گتھم گتھا تھے۔
"دانیال چھوڑو حمدان کو! ویسے بڑے دوست بنے پھرتے ہو۔ اب کہاں گئی تمہاری دوست کے لیے محبت۔" افراز نے دانیال کو پرے دھکیلا۔
"جو تم چاہتے ہو وہ کبھی نہیں ہوگا۔" دانیال نے دھمکی تھی۔
"ارے جاؤ! دیکھ لینگے تمہیں بھی۔" افراز جو پہلے ہی دانیال سے چڑتا تھا آج اسے خوب سنا رہا تھا۔
دانیال لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے نکل گیا۔
دوسری جانب کینٹین میں ہادیہ اور ربیشہ روتی ہوئی فادیہ سے اصل بات جاننا چاہ رہی تھیں لیکن وہ رونے کے شغل میں مصروف کچھ بتا ہی نہیں رہی تھی۔
___________________
___________________
"راحم!" ایک پکار سیڑھیاں چڑھتے راحم کو سنائی دی۔ آج پہلی کلاس اس نے مس کی تھی اور دوسری لینے کا بھی اس کا رادہ نہیں تھا جو کہ ایک گھنٹے بعد تھی۔
"ناٹ اگین!" اسے ان کی ضد پوری کر نے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ لاؤنج میں موجود صوفے ہر آرام سے بیٹھے تنقیدی نگاہوں سے راحم کو دیکھ رہے تھے۔
"نیچے آ کر بات سنو میری! باپ ہوں تمہارا، مجھے نخرے مت دکھاؤ۔" داؤد فاروقی صوفے سے کھڑے ہوتے بولے۔ راحم بے پروائی سے نیچے آ کر ان کے سامنے کھڑا ہوا تھا۔
"کہیے!" لہجہ ہنوز بیزارکن تھا۔ ہمیشہ کی طرح رف حلیے میں اس نے بلیو جینز ہر سفید شرٹ پہنی ہوئی تھی جبکہ آج پاؤں میں جاگرز کی بجائے مون روک سفید سینڈلز تھے۔ بال ہمیشہ کی طرح تھوڑے سے ماتھے پر بکھرے تھے۔
"یہ کیا حلیہ ہے۔ عام لڑکوں کہ طرح رہنا چھوڑ دو اور خاندانی پس منظر کے مطابق تیار ہوا کرو۔ کل کو تم نے سیاست بھی سنبھالنی ہے۔" داؤد صاحب نے ناگواری سے اسے ٹوکا جو اس رف حلیے میں بھی کافی حد تک وجیہ معلوم ہو رہا تھا۔
"فی الوقت کیا چاہتے ہیں آپ؟" وہ مطلب کی بات سننا چاہتا تھا۔
"منظور احمد اپنے بیٹے کو سیاست میں لے آیا ہے۔ میں چاہ رہا تھا کہ آج رات پارٹی میں تمہیں سیاسی شخصیات سے متعارف کروا دوں تاکہ تم سیاسی کیرئیر شروع کر سکو۔" بات آخر کار انہوں نے زبان پر لائی ہی تھی جب کہ راحم مسکرایا تھا۔
"آج رات میں بزی ہوں۔" سپاٹ لہجے میں کہتا وہ واپس مڑا تھا۔
"یہ کیا بد تمیزی ہے؟ باپ کا احترام ہے کہ نہیں؟" داؤد صاحب طیش میں چلائے تھے۔
"باپ....؟" راحم ان کی طرف مڑتا استہزائیہ انداز میں ہنسا تھا۔
"کون سا باپ؟ کہاں کا باپ؟ کس کا باپ؟ باپ کا مطلب بھی پتہ ہے آپ کو؟" اس نے ان کے قریب چہرہ کر کے زہرخند لہجے میں سوال پوچھے تھے۔
"کبھی بچپن سے لے کر ایک لمحے تک مجھے اور رملہ کو آپ نے وقت تو دیا نہیں، اپنے فرض پورے نہیں کئے اور اب آ گئے ہیں حقوق کی بات کرنے! ماشاءاللہ کیا کہنے ہیں آپ کے!" راحم طنز کرتا انہیں ماضی کی کوتاہیوں کا احساس دلائے سیڑھیوں کی طرف بھاگا تھا۔
"آج رات تم پارٹی میں آؤ گے اور یہ بات طے ہے۔" داؤد صاحب پیچھے سے بغیر شرمندہ ہوئے چیخے تھے جبکہ راحم ان کی بات کانوں میں مارتا بغیر رکھے سیڑھیوں پر اچھلتا اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔
"بھیا!" رملہ نے کمرے کا دروازہ کھولا۔ راحم ابھی بیڈ پر آڑھا ترچھا ہو کر لیٹا ہی تھا مگر عملہ کے لیے اٹھ بیٹھا۔
"جی رملہ !" وہ پوری طرح اس کی طرف متوجہ تھا جو اس سے تین سال چھوٹی تھی اور بیس سال کی تھی۔
"آپ ڈیڈ سے بحث نہیں کیا کریں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی طاقت کم ہو رہی ہے۔ اب آپ کو ان کا سہارا بننا ہے۔" باپ کے لیے نرم گوشہ رکھنے والی رملہ نے اسے سمجھایا۔
"آپ محبت کے لیے نہیں ترسی۔  نے پیار دیا۔ آپ  کو آپ کی ماں نے پیار دیا۔ یقیناً آپ کے بچپن میں میں خود ایک بچہ تھا لیکن سوتیلا ہی سہی بڑا بھائی تو تھا اور حساس بھی تو پوری کوشش کرتا تھا کہ آپ کو وہ محرومی محسوس نہ ہو جو مجھے ہوتی ہے۔ آپ کی ماما بھی یہاں موجود تھیں اور وہ ہر دم آپ کا خیال رکھتی لیکن میں بخار میں تپتا رہوں کسی کو کوئی پروا نہیں ہوتی تھی۔ میں علی، افراز اور حمدان کے گھر میں جب جاتا تھا تو ان کی خوشحال فیملی کو دیکھ کر احساسِ کمتری کا شکار ہوتا تھا لیکن آپ کو میں نے کبھی ایسا محسوس نہیں ہونے دیا۔ سکول کالج اور ہر جگہ میں آپ کی ڈھال بنا۔ گھر میں آپ کی ماما نے آپ کو ٹائم دیا۔ میرے لیے کون تھا؟ کوئی بھی نہیں۔ ماما طلاق لے کر چلی گئیں اور ڈیڈ آپ کی ماما سے دوسری شادی کر کے اپنے مشاغل میں  مصروف ہو گئے۔ آپ ان کی حمایت مت کیا کرو۔" تفصیلاً جواب دیتے راحم نے اپنا ماتھا مسلا تھا۔
"پانی!" رملہ نے پانی اس کے سامنے کیا۔ راحم نے گہرا سانس لیتے ایک ہی بار میں گلاس خالی کیا تھا۔
"آپ مجھے سوتیلی سمجھتے ہیں؟" عجیب سوال آیا تھا۔
"میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں۔ شاید تم وہ واحد رشتہ ہو جسے میں نے محسوس کیا لیکن سچ یہی ہے کہ تمہاری ماما یعنی میری سوتیلی ماں تمہیں مجھ سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہیں۔ اب دیکھ لو ایک گھر میں رہتے ہماری ملاقات تین ہفتوں بعد ہوئی ہے۔ میں تمہیں بھائی کا پیار دیتا ہوں لیکن تم اپنی ماما سے ڈرتے مجھ سے کبھی پیار کا اظہار نہیں کرتی۔ تمہیں میں سوتیلا نہیں سمجھتا بلکہ اس گھر میں موجود رشتے مجھے سوتیلا سمجھتے ہیں۔ تم بھی شاید مجھے برداشت ہی کرتی ہوگی، میں اس ہر کچھ نہیں کہہ سکتا۔" راحم نے حقیقت ہی بیان کی تھی۔ فردوس بیگم رملہ کو ہمیشہ راحم سے دور رکھتی تھی اور اسے یہی کہتی تھی کہ وہ سوتیلا بھائی ہے اس لئے اس سے دور رہو۔ حقیقت سن کر رملہ کا چہرہ زرد ہوا۔
"پریشان نہیں ہو۔ تمہیں میں چاہ کر بھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ چار سال کا تھا جب ایک سال کی گڑیا نے چلنا سیکھا تھا اور میں ہر وقت اس کے آگے پیچھے ہوتا تھا کہ کہیں یہ گر نہ جائے مگر خیر میرا خلوص، میری محبتیں تو ہمیشہ سے بے مایہ ہیں۔ تمہاری محبت بچپن سے دل میں ہے اسے کوئی کم نہیں کر سکتا۔" راحم نے اسے ریلیکس کیا جبکہ وہ ایک ہلکی سی مسکراہٹ سے کر رہ گئی۔
"کہیں جا رہی ہو؟" راحم نے اسے دیکھا جو سفید جینز پر  کورین سٹائل ٹی شرٹ پہنے تھی۔ پاؤں میں ہیلز تھیں جبکہ بال سٹریٹ کر کے کھلے چھوڑے گئے تھے۔ وہ راحم کو چھوڑ کر ہر معاملے میں بلکل اپنی ماں کی طرح تھی۔ اس کی ماں ایک ماڈل تھی جس نے اس کے باپ کو پھنسا کر شادی کی۔ رملہ فطرتاً دل کی اچھی تھی لیکن انداز اطوار تو خیر ماں سے ہی سیکھے تھے۔
"آج میری دوست ٹریٹ دے رہی ہے بس وہیں جا رہی ہوں۔" رملہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ بلاشبہ وہ بہت پیاری تھی۔
راحم مسکراتا ہوا اٹھا اور اس کے ماتھے پر بوسہ دیا اور بولا:
"تم شوٹ کے لیے جا رہی ہو۔ جھوٹ مت بولا کرو۔ مجھے بے شک یہ انداز پسند نہیں ہے لیکن میں تمہیں کبھی کچھ نہیں کہونگا۔ اپنی زندگی تم جیسے مرضی گزارو لیکن جھوٹ بولنے کے آئندہ ضرورت نہیں ہے۔" وہ آرام سے اب پیچھے ہٹتا بیڈ پر لیٹ چکا تھا۔ رملہ شرمندہ ہوتی وہاں سے نکل گئی تھی۔
"عجیب بات ہے راحم میاں! تجھے ماڈرن انداز پسند نہیں مگر رملہ کو برداشت کرتے ہو شاید اس لیے کہ تم رشتوں کو ترستے ہو اور وہ تمہیں تھوڑی سی لفٹ کرا دیتی ہے اور تم اسی پر خوش ہو جاتے ہو۔" اب وہ خود سے خود کلامی کر رہا تھا۔ وہ خود ترسی کا شکار تھا۔ دوستوں کے ساتھ ہنستا مسکراتا تھا لیکن دل ہر وقت کرب میں ڈوبا رہتا تھا۔ اسے خود پر خول چڑھانا آتے تھے۔
"خیر خود فریبی بھی کمال شے ہے۔" ہنستا ہوا اب موبائل سکرولنگ کر رہا تھا۔
"گدھے یونیورسٹی پہنچ! مسئلہ ہو گیا ہے اور تو چھٹی کر کے بیٹھا ہے۔" افراز کا میسج پڑھتے ہی وہ اٹھا تھا ورنہ افراز نے اسے زندگی بھر معاف نہیں کرنا تھا۔ وہ ہمیشہ ایسے ہی اسے کہیں نہ کہیں بلا لیتا تھا۔
___________________
___________________
"کیا.....؟" ربیشہ پوری بات سن کر چیخی تھی۔ کینٹین میں موجود لوگ ان کی طرف متوجہ ہوئے تھے جس پر ربیشہ سوری کہتی منہ نیچے کر گئی تھی۔
"اب کیا کریں ربیشہ؟ یہ دانیال کا بچہ تو بہت ہی ٹیڑھی کھیر ہے۔" ہادیہ پریشان ہوتے ہوئے بولی۔
"ایک کام کرتے ہیں۔ میں بابا سے کہہ کر اسے اندر کرواتی ہوں ایک دن اور یہ اور حمدان بھاگ کر کورٹ میرج کر لینگے تب۔کان ختم!" ربیشہ نے پلان سنایا۔
"جتنی گارڈز کی فوج اس کے ساتھ ہوتی ہے پولیس کیا کرے گی۔ دلاور خان کا بیٹا ہے۔" ہادیہ نے خدشہ ظاہر کیا۔
"اوہو میں بھی ڈی آئی جی بیٹی ہوں۔ پھپھا ممبر قومی اسمبلی ہیں۔ اور تم لوگوں کا خاندان بھی اچھا خاصا ہے باقی حمدان کی فیملی بھی پٹھان ہے کچھ تو کرینگے اور مدد کے لیے سب سے بہترین وہ  راحم رہے گا نا! اس کا باپ صوبائی وزیر داخلہ ہے۔ اس سے مدد لینگے تو اتنے سارے لوگوں کے ہوتے کیا کر لے گا دلاور خان؟" ربیشہ نے گویا ناک سے مکھی اڑائی تھی۔
"بی جان مجھے زندہ گاڑھ دینگی چھپ کے شادی کرنے پر۔" ڈرپوک ربیشہ کا ڈر بھی سامنے آیا۔
"اوہو تو تمہارا شہزادہ کیا انتہائی نکما ہے جو تمہارے لیے کھڑا نہیں ہوگا۔ کچھ وہ بھی کرے گا نا اب سب کیا ربیشہ آفاق نے کرنا ہے۔" ربیشہ اب کی بار تپی تھی۔
"مگر ایک بات تو ہے کہ دانیال زیادہ دن جیل میں نہیں رہے گا۔ اور باہر آنے پر جیسی غنڈہ گردی اس کا باپ کرتا ہے، اگر اس نے بھی کی تو پھر کیا ہوگا؟" ہادیہ نے غور طلب نکتہ پیش کیا۔
"ویسے کہتے ہیں کہ وہ باپ کے بالکل الٹ ہے مگر فادیہ کے معاملے میں تو بد تمیز بڑا ڈھیٹ ہے۔ وہ باہر آنے کے بعد ان دونوں کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔" ربیشہ بھی پریشان ہوئی۔
"میری تو قسمت ہی بری ہے۔" فادیہ نے رونے کا شغل پھر جاری کیا۔
"یار کسی نہ کسی طرح دانیال کو راضی کرنا پڑے گا اور کوئی حل نہیں ہے۔" ربیشہ نے میز پر ہاتھ مارتے فیصلہ کن انداز میں انھیں جوش دلایا چاہا۔
"مس ربیشہ آفاق! آپ اس معاملے سے دور رہیں تو بہتر ہوگا ورنہ کرپشن کے الزامات لگا کر آپ کے باپ پر انکوائری بھی کھولی جا سکتی ہے۔" ربیشہ ایک دم دانیال کے میز پر جھکنے پر پیچھے ہوئی تھی۔ اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں تھیں۔
"یہ کیا بکواس ہے؟" ربیشہ آہستہ آواز میں آگے پیچھے کا خیال کرتی غرائی تھی۔
" بکواس تو ابھی میں نے کی نہیں ہے۔ بہتر ہوگا دور رہو ورنہ تمہیں سبق سکھانا بھی مجھے آتا ہے۔ میں جب ضد پر اتر آؤں تو کوئی نہیں روک سکتا مجھے۔" دانیال نے ایل نظر فادیہ پر ڈالی جس کا سر اتنا جھکا ہوا تھا کہ تھوڑی گردن کے ساتھ لگ رہی تھی۔ یہ دیکھ کر اس نے ہونٹ گولائی میں موڑے جیسے اوہ کہہ رہا ہو جبکہ ہادیہ غصے سے منہ پھلائے ہوئے تھی۔
"میری دوست کے ساتھ مت چپکو۔ تمہیں تو میں جیل کی سیر..... " ربیشہ کی بات اس نے فوراً کاٹی تھی۔
"دھمکیاں مت دو مس ربیشہ! انجام برا ہوگا۔" اب کی بار لہجہ انتہائی حقارت لیے ہوئے تھا۔ جتنا ہی اچھا سہی تھا تو دلاور خان کا سپوت نا!
تم.... " ربیشہ کچھ کہنے لگی تھی کہ جب میز پر جھکے دانیال کو کسی نے پیچھے سے کھینچ کر سیدھا کھڑا کیا تھا۔
"راحم فاروقی!" چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
"علی آفندی!" آنکھوں میں شرارت تھی۔
" کیا مسئلہ ہے؟" دانیال نے ماتھے پر بل ڈال کر پوچھا۔
"یہی تو تم سے پوچھنا ہے۔" علی نے مسکراتے ہوئے اسے جواب دیا۔
"سمپل سی بات یہ ہے کہ حمدان کے معاملے دور ہو جاؤ۔ میں اپنے دوست کی زندگی میں فضول مسائل برداشت نہیں کرونگا۔" راحم کا لہجہ علی کے برعکس تیکھا تھا۔ وہ ابھی یونی پہنچا تھا اور افراز نے اسے بڑھا چڑھا کر سب سنا کر دانیال کو سبق چکھانے بھیجا تھا۔
"تم چیز کیا ہو؟" دانیال نے راحم کا گریبان پکڑا تھا۔ کچھ لوگ ان کی طرف متوجہ بھی ہوئے تھے۔
"چیز تو میں بہت بڑی ہوں۔" راحم مسکرایا اور پھر اس کے کان کے قریب ہوتے سرگوشی کی۔
"تمہارا باپ منشیات کی سمگلنگ اور ہیومن ٹریفیکنگ کے علاوہ بہت سے جرائم کا مرتکب ہے۔ میں کوئی عام انسان تو ہوں نہیں کہ باپ کا رعب جماؤ۔ تم بہتر جانتے ہو اپنے باپ کو بلکہ تمہیں تو ان جرائم پر باپ سے شکایات بھی ہیں۔" سرگوشی سن کر راحم کا چہرہ سرخ ہوا تھا۔
"راحم فاروقی!" دانیال نے دانت پیسے تھے۔
"دا گریٹ راحم فاروقی!" راحم نے اس کا گال تھپتھپایا تھا اور واپس مڑا تھا۔
"بائے چڑیل بیوٹی!" علی نے جاتے جاتے ربیشہ کو آنکھ ماری۔ راحم نے ایک نظر یہ سب دیکھا مگر پھر آرام سے آگے بڑھ گیا۔
"ابے راحم رک مجھے تو ساتھ لے کر چل!" علی بھاگتا ہوا اس کے ہمقدم ہوا۔
ویسے کیا سٹائل تھا! کیسے کر لیا؟" علی نے پوچھا۔
"بس جس باپ سے نفرت تھی اسی کا فائدہ ہوا آج مجھے۔" راحم نے مسکرا کر کہا۔
"کیا مطلب؟" علی الجھا۔
"دلاور خان کچھ غیر قانونی کام کرتا ہے۔ ڈیڈ سب جانتے ہیں مگر دلاور ہر مہینے معقول رقم وزیر داخلہ کو بھیجتا ہے تاکہ زبان بند رکھی جائے۔ بس سی پول کو کھولنے کی دھمکی دی ہے۔" راحم نے علی کو سب بتایا۔
"انکل کو پتہ چلا کہ تو سب منظر عام پر. لانے کی دھمکی دے رہا ہے تو تیری مدد کرنے کی بجائے وہ دلاور کا ساتھ دینگے۔" علی نے اہم مسئلہ بیان کیا۔ آخر کو راحم فاروقی اور داؤد فاروقی کے تعلقات اتنے اچھے تو تھے نہیں کہ وہ راحم کا ساتھ دیتے۔
"اس کا حل سوچ لیا ہے۔ اپنے باپ کی مدد کے بغیر میں حمدان کہ مدد نہیں کر سکتا۔ باپ کی مدد لینے کے لیے ہر وہ کام کرونگا جو وہ کہینگے یعنی آج رات راحم فاروقی سیاست میں داخل ہوگا۔" راحم سپاٹ لہجے میں کہتا اب گراؤنڈ میں بیٹھے حمدان کے سامنے بیٹھا تھا۔
"تم تو سیاست سے نفرت..... " علی کا جملہ ادھورا رہ گیا تھا جب راحم نے اس کی بات ٹوکی۔
"وقت وقت کی بات ہوتی ہے۔ کبھی اپنوں کے لیے مزاج کے خلاف جانا پڑتا ہے اور سیاست کچھ زیادہ بری بھی نہیں ہے۔ قوم کی خدمت کرونگا۔" راحم نے کہا تو حمدان اس کے گلے لگا جو اس کے لیے اپنے مزاج کے خلاف جا کر اتنا بڑا کام کرنے والا تھا۔
"ابے گھامڑ تیری شادی نے تو ہم سب کو گھما کر رکھ دیا ہے۔ کوئی آسان لڑکی پسند نہیں آئی تھی تمہیں؟" افراز نے حمدان کو طعنہ مارا تو راحم کے سوا سب ہنس پڑے جبکہ راحم کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
___________________
___________________
"پھپھو! ویسے یہ علی کا آخری سمیسٹر ہے۔ اس کے بعد علی کیا کرے گا؟" حائمہ شمائلہ بیگم کے پورشن میں بیٹھی ان سے پوچھ رہی تھی۔ شمائلہ بیگم نے فون پر آتی اپنی پھپھو یعنی حائمہ کی نانی کی ویڈیو کال ریسیو کی جو انھیں یقیناً عکاشہ نے ملا کر دی تھی۔
"آفس کا کام!" جواب علی کی طرف سے آیا تھا۔
"تم کب آئے؟" حائمہ نے حیران ہوتے اس سے پوچھا۔
"ابھی جب آپ میرے مستقبل کے ارادے جاننا چاہ رہی تھیں۔" علی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا اور کچن کاؤنٹر سے سیب اٹھا کر کھانے لگا۔
"اچھا بتاؤ نا کیا کروگے؟" حائمہ نے متجسس ہوتے پوچھا۔
"حائمہ یہ آج تمہیں اس موضوع میں کیا دلچسپی ہو گئی۔"  شمائلہ بیگم نے فون پر بات روک کر حائمہ سے سوال کیا۔
"دراصل میں آپ کی توجہ اس کی شادی کی طرف کرا رہی تھی۔" حائمہ کے شرارت سے جواب دینے پر شمائلہ بیگم سر جھٹکتی اپنی پھپھو سے بات کرنے لگیں۔
"کیا یار آپی! کیوں پڑ گئیں ہیں آپ میری شادی کے پیچھے؟" علی تپ گیا تھا۔
"بھئی میں چاہتی ہوں کوئی شادی ہو، مزہ ہو۔" حائمہ نے سر جھٹکا۔
"اچھا کر لینگے پہلے ڈگری تو پوری کر لوں۔" علی نے نیم رضامندی ظاہر کی۔
"کوئی پسند تو نہیں ہے نا؟" انداز رازدرانہ تھا۔
"نہیں!" علی نے منہ بناتے نفی میں جواب دیا۔
"شکر! اب میری پسند کی لڑکی سے شادی کرنا۔" حائمہ نے ہاتھ اٹھا کر جیسے بڑے پتے کی بات بتائی۔
"عزت مآب حائمہ ارحان آفندی کون ہے آپ کی پسند!" علی نے زبردستی مسکراتے حقیقت جاننا چاہی۔
"ارے اپنی ربیشہ، زیغم بھائی کی کزن!" حائمہ نے علی کے سر پر بم پھوڑا۔ علی اپنی جگہ پر اچھلا تھا۔
"میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ اس کنگ کانگ کے فی میل ورژن سے میں شادی نہیں کرونگا۔" علی سہی معنوں میں چڑا تھا۔
"نہیں وجہ بتاؤ!" حائمہ نے ہاتھ نچاتے اپنی پسند کی ناقدری کی وجہ جاننے کا ارادہ کیا۔
"بہت نک چڑی ہے وہ! میرا تو جینا عذاب کر دیگی۔" علی نے مستقبل کا سوچتے جھرجھری لی۔
"زیادہ بکواس نہ کرو ورنہ یشفہ سے شادی کروا دونگی تمہاری!" حائمہ نے اس فضول بات پر دھمکی دی تھی۔
"ویسے یہ یشفہ اتنے دنوں سے کہاں گئی ہے؟" علی نے تجسس کے مارے پوچھا۔
"گھر پر ٹکو تو پتہ ہو نا کہ وہ ثناء کے پاس رہنے کے لیے گئی ہے اور زیادہ ذکر مت کرو اس کا یہ نہ ہو ابھی ٹپک پڑے۔" حائمہ نے ہنستے ہوئے کہا جس پر علی بھی مسکرایا۔
"گندی بات آپی!" علی کی تنبیہ کو حائمہ نے سراسر نظر انداز کیا۔ علی نے فوراً بیٹھنے کے لیے اردگرد کا جائزہ لیا۔
"کل رات کو راحم آئے گا۔ کھانا مزیدار سا بنا دیجیے گا۔" علی نے صوفے پر دھڑام سے بیٹھتے اعلان کیا۔
"اسے کھانے میں کیا پسند ہے؟" حائمہ نے پسند جاننا چاہی۔
"وہ کچھ بھی کھا لیتا ہے۔" علی نے سیب کھاتے ہوئے جواب دیا۔
"مگر پھر بھی کچھ تو ایسی چیز ہوتی ہے جو انسان رغبت سے کھاتا ہے۔" حائمہ کی منطق نرالی ہی ہوتی ہے۔
"اسے بس نوکروں کے ہاتھ کا کھانا پسند نہیں۔" علی نے بے پروائی سے اصل بات بتائی۔
"وہ کیوں؟ ان کے گھر میں تو بہت اچھے کک ہونگے۔" حائمہ کو یہ انداز عجیب لگا۔
"وہ کہتا ہے کہ کھانا وہ مزیدار ہوتا ہے جو کوئی آپ کے لیے خلوص سے پکائے ورنہ ہر کھانے کی ترکیب یوٹیوب پر پڑی ہوتی ہے۔ اصل میں پیار کو ترسا ہے۔ ماں کے چلے جانے کے بعد سوتیلی ماں نے توجہ دی نہیں۔ باپ بھی بھول گیا اور رہی چھوٹی سوتیلی بہن تو یہ راحم ہی ہے جو اس کی محبت میں مرا جاتا ہے۔ اس رملہ کو تو کوئی پروا نہیں۔ سچ کہوں تو زہر لگتی ہے مجھے وہ اس کی مطلبی بہن!" علی ایسے بیزارکن انداز میں کہہ رہا تھا کہ جیسے رملہ کا چہرہ اس کے سامنے ہو۔
"مطلبی بہن؟" حائمہ کو لگتا تھا کہ رملہ اچھی ہوگی۔
"ہاں نا! راحم کے ساتھ کبھی کبھار بات کرتی ہے مگر اچھے انداز سے اپنے کام کے لیے۔ اور راحم میاں اسی بات پر خوش رہتے ہیں کہ چلو کوئی رشتہ تو ہے جو کبھی مجھ سے بات تو کرتا ہے۔ اسے ہم دوست نظر نہیں آتے۔ زندگی کو مذاق سمجھتا ہے وہ۔ اپنے لیے تو آج تک اس کے کچھ نہیں کیا۔ یوں لگتا ہے جیسے اس کا دل مردہ ہو گیا ہو۔ وہ ہم دوستوں کو دکھانے کے لیے خوش ہونے کا ڈرامہ تو کرتا ہے مگر ہم بھی لنگوٹیا یار ہیں. رگ رگ سے واقف ہیں لیکن یہ سب بات کر کے اسے اداس نہیں کرنا چاہتے۔"
لمبی سانس بھرتے وہ سیب کھانے کے بعد باقیات کو کوڑے دان میں پھینکتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا جبکہ حائمہ کو راحم کے لیے برا محسوس ہوا۔
"یاد سے آپی اسے نوکروں کے ہاتھ کا کھانا پسند نہیں ہے اس لیے خود بنانا ہے۔" وہ کمرے سے باہر آ کر ایک بار پھر اونچی آواز میں یاد دہانی کرا رہا تھا۔
"کیوں اودے نوکر ہتھ نئی توندے؟ (کیوں اس کے ملازم ہاتھ نہیں دھوتے؟)" فون پر موجود نانی نے علی کی بات سنی تو فوراً سے چٹکلہ چھوڑا جسے بمشکل حائمہ اور علی نے سن لیا تھا۔
"ارے انداز میں کوئی اچھا ہو یا فضول ترین......!
جگت بازی میں میری نانی ہیں بہترین.....!"
حائمہ نے نعرہ لگایا اور پھر حائمہ اور علی کا فلک شگاف قہقہہ لگا تھا۔ اس گھر میں سب ایسے ہی تھے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش رہنے والے، ایک دوسرے سے محبت کرنے والے!
____________________
___________________
Continued!!!

Give feedback. It's a quite long epi so I need good reviews on this hard work.

عیدِ زندگی سیزن ٹو Where stories live. Discover now