قسط نمبر ۲

21 3 4
                                    

#سحر_جُنوں
(وہ مرے خوابوں میں آتا ہے چلا جاتا ہے)
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا
قسط نمبر ۲

پورا گھر برقی قمقموں سے سجا ہوا تھا ہر طرف بڑی گہما گہمی تھی اِدھر سے اُدھر بھاگتے کھیلتے کودتے بچوں نے طوفانِ بدتمیزی برپا کر رکھا تھا رحمت بی بی الگ درزی سے اُلجھی پڑی تھیں فون پر درزی نے شاید اب تک دلہن کے مہندی کے کپڑے نہیں سی کر بھیجے تھے مختصر یہ ہر کوئی اپنی میں مصروف تھا مگر کوئی تھا اِس سارے ہنگامے سے بیزار الگ کمرے میں بند نہ خوش نہ اُداس عجیب کیفیت سے دوچار  تھی صلہ...
ابھی تھوڑی بعد اُس کا نکاح تھا پرسوں اُس کی رخصتی تھی مگر اُس کے دِل میں کسی قسم کی کوئی ہلچل نہ تھی نہ کوئی لطیف گُدگُداتے جذبات نہ آنکھوں میں خواب نہ ہونٹوں پہ مسکان اُس کے اندر گھور سناٹا تھا عجیب مایوسی سی کیفیت چھائی ہوئی تھی ایسا نہیں تھا شادی اُس کی مرضی سے نہیں ہورہی تھی یا عاشر اچھا اِنسان نہ تھا وُہ ایک پڑھا لکھا،خوش اخلاق اور اچھی نوکری کے ساتھ شکل و صورت کا بھی بہترین تھا ہر لحاظ سے وہ مکمل تھا مگر اُس کے دِل کو نہ لگا تھا کیونکہ اس دِل میں عائز جو بسا ہوا تھا..
ایسا نہیں تھا کہ وہ پچھتا رہی تھی بلکہ وُہ تو عائز کو چھوڑ دینے کے فیصلے پر اب تک مطمئن تھی مگر جیسے جیسے شادی کا دن قریب آتا جارہا تھا کُچھ قیمتی چیز جان کر کھو دینے کا احساس اُسے کسی آکٹوپس کی طرح جکڑے ہوئے تھا...
"آپی ابو کہہ رہے ہیں مولوی صاحب اور وہ بس پہنچنے والے ہیں بھیا آپ کا شام کو پہننے والا سوٹ لینے گئے ہیں درزی سے امی نے جو اُسے کھری کھری باتیں سنائی ہیں توبہ توبہ.."
سمعیہ نے اہم اطلاعات اُس تک پہنچائی جو گھر بھر میں بی بی سی مشہور تھی..
صلہ نے پھیکی سی مسکان اُس کی طرف اُچّھالی..
"آپی پچھتا رہی ہیں؟؟"
وُہ صلہ کی چھوٹی بہن کم دوست زیادہ تھی اُس کے ہر انداز کو بہر طور سمجھتی تھی...
"نہیں تُمہیں ایسا کیوں لگا..."
اُس نے پہلو بدلا...
"پتا نہیں کیوں مگر آپ بہت بُجھی بُجھی سی ہیں ابھی تھوڑی دیر بعد آپ ایک ایسے رشتے میں بندھنے جارہی ہیں جس کا خواب ہر لڑکی دیکھتی ہے مگر مجھے آپ بلکل بھی خوش دکھائی نہیں دے رہیں ایسا لگ رہا ہے جیسے..."
"اُفف یار تُم کتنا سوچتی اور بولتی ہو ایسا کُچھ نہیں ہے سمعیہ.."
اُس نے ہاتھ میں پہنی چوڑیاں آگے پیچھے کرتے ہوئے کہا۔۔۔
"میں صرف بہلانے کے لئے نہیں دِل سے کہہ رہی ہوں آپی عاشر بھائی بہت بہت اچھے ہیں سب سے بڑی بات وُہ آپ سے بہت محبت کرتے ہیں اور یہ میں نہیں ہر کوئی کہتا ہے کبھی دیکھیے اُنہیں آپ کا ذکر کرتے ہوئے کیسے آنکھیں چمک اُٹھتی ہیں اُن کی..."
سمعیہ نے پوری سچائی سے کہا...
"میں سب جانتی ہوں یار میں کفرانِ نعمت نہیں کر رہی مُجھے اللہ سے کوئی گلہ نہیں ہے عاشر بہت اچھے ہیں اِس میں کوئی شک نہیں مگر میرے دِل سے عائز کا خیال نہیں جاتا میں کیا کروں..."
اُس نے بالآخر ہار مان لی تھی وہ اپنے دِل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتی تھی..
"آپی قسمت سے کون لڑ سکتا ہے ہم سب تو تب بھی راضی تھے جب آپ نے عائز بھائی کا ذکر کیا تھا میں، دونوں بھیا اور بھابھی نے ہی آپ کی خوشی کی خاطر امی ابو کو روکے رکا تھا عاشر بھائی کے گھر والوں کو ہاں کہنے سے مگر اللہ کو نہیں منظور تھا آپ دونوں کا ساتھ مگر جس کا ساتھ ملا ہے وُہ اُس سے بھی بڑھ کر ہے..."
سمعیہ نے اُس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر نرمی سے کہا...
"اچھا چھوڑو اِن باتوں کو یہ بتاؤ بھابھی کہاں ہے کب سے نہیں دکھائی دیں.."
اُس نے باتوں کا رُخ بدلا..
بھابھی نیچے مہمانوں میں پھنسی ہوئی ہیں بیچاری گھن چکر بن کر رہ گئی ہے کسی کو چائے چاہیے کسی کو کافی کسی کو کولڈ ڈرنک تو ساتھ سموسے.."
اُس نے ریموٹ اُٹھا کر ٹی وی آن کرتے ہوئے کہا...
"تو تُم ہاتھ بٹاؤ اُن کا جانتی بھی ہو  اُنکی حالت کیسی ہے ذرا سا کام کرکے تھکن ہوجاتی ہے.."
صلہ کو بھابی کی فکر نے ستایا...
"میں کروا رہی تھی مدد تو ہاتھ جوڑ کر بولی جا میری بہن میں کرلوں گی سب تو کام نہ بڑھا میرا.."
وُہ منہ پر ہاتھ رکھ کر کھی کھی کرتے ہوئے بولی تو وُہ دِل سے مسکرادی...
"بھابی بھی ناں ایک ہی ہیں.."
"ہاں بھئی میری دونوں نندیں مل کر کیا برائیاں کر رہی ہیں میری.."
رملہ نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا ہاتھ میں اُس کے صلہ کے مہندی میں پہننے والے کپڑے تھے پیچھے پیچھے ایاز بھی اندر داخل ہوا...
"بھئی صلہ پہن کر دیکھ لو صحیح فٹنگ ہیں ناں ورنہ واپس لے کر جاؤں اُس کمبخت کے پاس بڑا خوار کیا ہے اِس خبیث درزی کے بچے نے آج مُجھے.."
وُہ صلہ کے برابر میں بیٹھتے ہوئے بولا اور پھر بیٹھتے کے ساتھ ہی تکیہ کھینچ کر لیٹ گیا...
"میں آپ کے لئے پانی لاتی ہوں..."
رملہ نے کہا...
"ارے بھابھی رہنے دیں آپ بھی ذرا تھوڑی دیر بیٹھ جائیں کب سے لگی ہوئی ہیں نیچے مہمانوں کو اب میں دیکھ لوں گی بھیا کیلئے پانی بھی میں لے آتی ہوں..."
سمعیہ نے جلدی سے کھڑے ہوکر رملہ کو کچھ کہنے کا موقع دیے بغیر کہا ورنہ وُہ اُس کی عادت سے واقف تھی وُہ پھر جا گھستی کچن میں حالانکہ اِن دنوں اُسے آرام کی ضرورت تھی...
"یہ لڑکی بھی ناں.."
"کیا یہ لڑکی حالت دیکھی ہے آپ نے اپنی کیسی بے حال سی ہوگئی ہیں.."
صلہ نے بھی اُسے آڑے ہاتھوں لیا...
"میری شادی نے سب کو ہی تھکا دیا ہے مجھے نہیں کرنی شادی بھیا..."
اُداس وُہ پہلے سے ہی تھی کُچھ اپنوں سے جدائی کے خیال نے بھی اُسے آبدیدہ کردیا...
"ہش... پاگل لڑکی یہ تھکن تو بہت آرام دہ ہے اللہ ہر بھائی کو ایسی تھکن دے.."
ایاز نے لیٹے لیٹے اُس کے بال کھینچتے ہوئے کہا...
"میں آپ سب کو بہت یاد کروں گی..."
وُہ کسی روٹھے ہوئے بچے کی طرح بولی..
"پر میں تو بہت خوش ہوں گا بھئی جان چھوٹی آفت سے..."
کہنے والا صلہ کا جڑواں بھائی فہیم تھا جو راہداری میں کھلتی کھڑکی کے باہر سے بولا تھا...
"جان میں نے پھر بھی تمہاری نہیں چھوڑنی گدھے..."
صلہ نے کھینچ کر تکیہ اُسکے منہ پر مارا تھا جسے اُس نے با آسانی کیچ کرلیا تھا...
"تُم ہمیشہ سے نکمی تھی اور نکمی ہی رہنا.."
فہیم اب اُسی کھڑکی سے اندر کودتے ہوئے بولا اور تکیہ اُس کی پیٹھ پر مارا تھا جو ایک ہاتھ سے ایاز نے روک لیا تھا...
"مُجھے امی نے یہ بتانے بھیجا ہے کہ اِس چڑیل کا صلہ عمران سے صلہ عاشر ہونے کا وقت ہوگیا ہے ابو آگئے ہیں مولوی صاحب کو لے کر..."
فہیم نے صلہ کو آنکھ مارتے ہوئے کہا...
"کیا مولوی صاحب آگئے اور تُم اتنے آرام سے بتا رہے ہو جلدی نیچے چل.."
ایاز فوراً ہی اُٹھ بیٹھا..
"بھیا پانی.."
سمعیہ نے گلاس اُسے دیتے ہوئے کہا جسے وُہ ایک ہی سانس میں پی گیا اور باہر نکل گیا...
"دیکھ لو جڑواں کتنی جلدی ہے بھیا کو تُمہیں پرایا کرنے کی پھر بھی تُم مجھ سے لڑتی رہتی ہو.."
فہیم نے اُس کے گرد بازو پھیلاتے ہوئے اُسے اپنے حصار میں لیا دونوں اگر لڑتے تھے تو محبت بھی اتنی ہی کرتے تھے ایک دوسرے کے بغیر گزارہ نہ تھا...
"ہاں دیکھ رہی ہوں میں صرف میرا یہ گدھا بھائی ہے جسے کوئی جلدی نہیں..."
وُہ دوبارہ رونے کے درپر تھی...
"اے چڑیل زیادہ مت لٹک اب سب سے زیادہ جلدی تو مجھے ہے جان چھوٹے تُم سے.."
فہیم نے اُسے مزید مضبوطی سے خود سے لگائے کہا...
"بیٹا گھونگھٹ ڈال لو مولوی صاحب آرہے ہیں.."
آواز ایاز کی تھی..
فہیم نے جلدی سے دوپٹہ اُس کے سر پر ڈالا اور کھڑا ہوگیا...
ایاز کے ساتھ ساتھ عمران صاحب مولوی صاحب اور گواہان اندر داخل ہوئے...
چند منٹوں میں وُہ واقعی پرائی ہوگئی صلہ عمران سے صلہ عاشر ہوگئی عمران صاحب اور مولوی صاحب مسجد کے لئے نکل گئے جہاں عاشر اُن کا منتظر تھا...
"اللہ نصیب اچھے کرے.."
ایاز نے اُس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تو وُہ بے اختیار ہوکر اُکے گلے لگ گئی...
ایاز نے اُسے رونے سے روکا نہیں وُہ تو خود اپنے آنسو چھپا رہا تھا یہی حال کمرے میں موجود باقی تینوں کا بھی تھا..
"آپی.." سمعیہ آکر اُس سے لپٹ گئی...
"اچھا بس کرو بھئی ابھی گئی نہیں ہے یہ چڑیل ایک دن مزید ہے ہمارے ساتھ رخصتی پرسوں ہے.."
فہیم کے لہجے میں شرارت نہیں خوشی تھی کہ ایک دِن باقی ہے ابھی...
"ہاں ہاں جب چلی جاؤں گی تو سب سے زیادہ تُم ہی یاد کرو گے مُجھے لکھ کر لے لو..."
صلہ نے رملہ سے گلے ملتے ہوئے کہا..
"اویں خوش فہمیاں چیک کرو میڈم کی.."
فہیم نے چھیڑا...
مسجد سے آنے کے بعد اگلے ایک گھنٹے تک اُن سب بہن بھائیوں کی محفل لگی رہی صلہ کے کمرے میں جس میں فہیم بار بار عارف کا نام لے کر اُسے چھیڑ رہا تھا تو کبھی سمعیہ....
"ہاں بھیا نے مُجھے سالگرہ پر دیے تھے یہ ایئر رنگز میں یہی پہنوں گی آج..."
وُہ رملہ اور سمعیہ کے ساتھ شام کی تیاریوں کے بارے میں بات کر رہی تھی جبکہ ایاز اور فہیم کیٹرنگ کے بارے میں کُچھ بات کر رہے تھے...
"صلہ تمہارا فون بج رہا ہے..."
ایاز نے مصروف انداز میں بتایا
"بھیا اُٹھا کر دے دیں آپ کے قریب ہی ہے..."
"اچھا دیتا ہوں.."
ایاز نے اُٹھ کر چارجنگ سے موبائل نکالا کال عارف کی تھی...
"کس کی کال ہے بھیا.."
صلہ نے اُسے یونہی فون پکڑے دیکھ کر پوچھا...
"عاشر کی۔۔"
ایاز نے متانت سے کہا...
ایاز کا عارف کا نام لینا تھا سب کی معنی خیز نظریں صلہ کی طرف اُٹھی تھیں...
ایاز نے فون صلہ کو دے دیا جو اب بج بج کر بند ہوگیا تھا...
بند ہوتے کے ساتھ چند سیکنڈز بعد وُہ پھر بجنے لگا صلہ نے اُسے سائلینٹ کیا وُہ سب کی موجودگی میں بات کرنے سے ہچکچا رہی تھی...
"فہیم میرے ساتھ باہر آنا آج کے  فنکشن کے بارے میں کُچھ بات کرنی ہے.."
ایاز نے اُس کی ہچکچاہٹ اور اِس بات کو جان لیا تھا کہ اب اُس کی بہن واقعی پرائی ہوچکی ہے...
فہیم بھی حیرت انگیز طور پر بلا تعرض اُٹھ گیا...
"رملہ ایک کپ چائے بنادو یار اور سمعیہ تُم بھابھی کی مدد کرواؤ..."
ایاز نے پورا میدان ہی صاف کروادیا...
اگلے چند لمحوں میں وُہ اکیلی تھی فون پھر سے بجنے لگا۔۔۔
اُس نے گہری سانس لے کر کال اٹھائی...
"اسلام علیکم..."
اُس نے سلام کیا...
"وعلیکم السلام کیسی ہو..؟"
عاشر کی آواز اُس کی اندرونی کیفیت صاف ظاہر کر رہی تھی...
"ٹھیک.." اُس نے مختصر جواب دیا...
"مبارک ہو.." عاشر نے مسکرا کر کہا...
"ہمم.." اُس نے ہنکارا بھرا...
"بے مروت لڑکی خیر مبارک ہی کہہ دو یار.."
اُس نے معصوم سی خواہش کی....
"آپ کو بھی مبارک ہو۔۔۔"
مسکرا کر کہا گیا...
"خوش ہو ناں.." عاشر نے محبت بھرے لہجے میں پوچھا..
"آپ ہیں.؟؟" صلہ نے اُلٹا سوال کیا...
"ہمارا حال نہ پوچھو محترمہ ابھی تو مُجھے خود یقین نہیں آتا کہ ایسا ہوچکا ہے تُم واقعی صلہ عارف ہوچکی ہو صرف میری صرف اور صرف میری... بیان نہیں کرسکتا کیونکہ میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں.."
مقابل کے دلنشین لہجے نے اُسے پھر مسکرانے پر مجبور کردیا تھا...
"آپ خوش ہیں تو میں بھی خوش ہوں..."
صلہ نے تکیہ کمر کے پیچھے لگاتے ہوئے کہا..
"نہیں ناں صرف اپنی خوشی بتاؤ.."
وُہ نجانے کیا سننا چاہتا تھا...
"میں بہت مطمئن ، بہت پر سکون ہوں.."
صلہ نے سچے دل سے کہا...
"اور خوش.؟"
وُہ مطمئن نہ ہوا کیونکہ وہ عارف تھا صرف اپنی اپنی کہنے والا نہیں سامنے والے کو سمجھنے والا..
"اِنسان مطمئن اور پُر سکون تب ہی ہوتا ہے جب وہ خوش ہوتا ہے.."
"ایسا ضروری نہیں اِنسان کا پُر سکون ہونا خوشی کی علامت نہیں یہ بس کسی کے ساتھ زیادتی یہ کُچھ غلط نہ کرنے کا اطمینان ہے اِس کا تعلق ضمیر سے ہے دِل سے نہیں جبکہ خوشی کا تعلق دِل سے ہے اور میں نے تمہاری خوشی جاننی ہے صلہ..."
عاشر نے سنجیدگی سے کہا...
وُہ جانتی تھی کہ عاشر اُسے بے پناہ چاہتا ہے وُہ انسان بہت اچھا ہے بہت اچھا شاید اتنا اچھا عائز بھی نہ تھا مگر عارف اُس کی محبت نہیں تھا...
بہت خوش ہوں۔۔"
منافقت کرنے کی شروعات اُس نے کردی تھی..
"اچھا.."  آواز دھیمی تھی..
صلہ یہ تو جانتی تھی کہ وُہ اُسے بہت چاہتا ہے مگر وُہ یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ اُسے بہت اچھے سے جانتا اور سمجھتا بھی ہے....
"مجھ سے انتظار نہیں ہوتا اب کب تُم دُلہن کے روپ میں میرے سامنے ہوگی اور میں تُمہیں جی بھر کر دیکھوں گا تُم ناں مُجھے میرے نام سے بلانا اب سے ٹھیک ہے..."
اُس کی خواہشیں بہت چھوٹی چھوٹی تھیں...
"کُچھ کہو گی نہیں.."
عاشر نے محسوس کیا مسلسل وُہ ہی بولے جارہا ہے...
"کیا بولوں.." اُسے کُچھ سمجھ نہ آیا...
"کُچھ بھی اچھا یہ بتاؤ ہماری پہلی بیٹی ہونی چاہیے یا بیٹا.."
اُس نے بے تکی بات چھیڑی جان کر وُہ اُسے بولنے پر اکسانا چاہتا تھا...
"آپ کیسی باتیں.." شرم سے اُس کی کانوں کی لوئیں تک سُرخ ہوگئیں تھیں..
"کیسی کیا بیوی ہو یار میری..."
اُس نے پہلی بار نئے بنے رشتے کا حق جتایا تھا...
"مگر پھر بھی..." صلہ نے جلدی سے کہا..
"بہت خوبصورت لگتی ہو تُم شرماتے ہوئے اور مسکراتے ہوئے..."
"آپ کو کیسے پتا میں مسکرا رہی ہوں..."
صلہ کو حیرت ہوئی...
"میں تمہاری ہر ادا سے واقف ہوں تُم نے ابھی تک مُجھے جانا ہی کہاں ہے..."
اُسکے لہجے میں یاسیت در آئی تھی...
"پرسوں جان جاؤں گی..."
اُس نے شرماتے ہوئے کہا...
"کُچھ سناؤں..."
عاشر نے اجازت مانگی...
"گانے کے علاوہ کچھ بھی سنادیں کان پک گئے ہیں میرے ایک ہفتے سے صبح شام گانے وغیرہ سن سن کر.."
صلہ نے کوفت سے کہا..
"اِدھر بھی یہی حال ہے بیگم مگر شادی بھی تو ہماری ہی ہے ناں.. اچھا چھوڑو ساری باتیں میں جو سنا رہا ہوں وُہ سن لو میرا حال دِل  جان جاؤ گی تُم.."
عاشر نے شرارت سے کہا..
"جی سنائیں..."
"صرف تمہارے نام صلہ عاشر.."
اُس نے گلا کھنکارا...
"یہ آنکھیں بہت ستاتی ہیں
یادوں کے خواب دکھاتی ہیں
مجھے ساری رات جگاتی ہیں
کب دل کے راز چھپاتی ہیں"
صلہ نے سر تکیے پر رکھ کر لیٹ گئی اُس کی آواز میں محبت کے ساتھ سکون بھی بہت تھا وُہ جو کچھ دیر پہلے خو کو بہت تھکا ہوا محسوس کر رہی تھی اب پُر سکون ہورہی تھی..
پلکوں کے دریچے کھولتی ہیں
کچھ اپنی زبان میں بولتی ہیں
بس اپنی بات منواتی ہیں
یہ آنکھیں بہت ستاتی ہیں
اک آن میں فیصلہ کرتی ہیں
یہ کب رسوائی سے ڈرتی ہیں
ہر وقت یہ جاگتی رہتی ہیں
اک کھوج میں بھاگتی رہتی ہیں
تھک ھار کے واپس آتی ہیں
یہ آنکھیں بہت ستاتی ہیں
چپکے سے کہیں لڑ جاتی ہیں
پھر خوابوں سے بھر جاتی ہیں
جب جھوٹے شور مچاتی ہیں
یہ روئیں تو دل بھی روتا ہے
کب ان سے جدا یہ ھوتا ہے
یہ دل کو روگ لگاتی ہیں
کیوں پیار کیا پچھتاتی ہیں
یہ آنکھیں بہت ستاتی ہیں"
آخری شعر اُس نے ذرا ٹھہر کر پڑھا اور پھر کچھ لمحوں کے لئے دونوں طرف خاموشی چھائی رہی عاشر اُس کے بولنے کا منتظر تھا جبکہ صلہ اب تک اُن لفظوں کے سحر میں تھی..
"کیا ہوا پسند نہیں آئی.." کوئی جواب نہ آنے پر عارف نے خود پوچھا تو صلہ کو جیسے ہوش آیا..
"بہت خوبصورت ہے عاشر بہت شکریہ..."
صلہ کو نہیں سمجھ آرہا تھا وُہ اُس کی بے پناہ محبت کا جواب کیسے دے بس "شکریہ ہی کہہ سکی...
"صلہ..." عاشر نے پکارا...
"جی.." اُس نے لبیک کہا..
"بہت محبت کرتا ہوں میں تُم سے..."
اب کی بار وُہ سنجیدہ لہجے میں بولا ..
"میں جانتی ہوں..."
"تُمہیں بھی ہوجائے گی شرمندہ مت ہو تُم نہ ایسا کُچھ سوچو کہ میری محبت کا جواب تم نے محبت سے نہ دے کر غلط کیا..صلہ کُچھ چیزیں وقت کے ساتھ بدلتی ہیں ہمارے جذبات لمحوں میں نہیں بدلتے کوئی جادو کی چھڑی تھوڑی ہے کہ کسی نے آپ سے محبت کی تو فٹ سے آپ کو بھی ہوگئی... مُجھے یقین ہے خود پر تُمہیں مجھ سے محبت ضرور ہوجائے گی تب تُمہیں میرے یہ الفاظ یاد آئیں گے..."
وُہ واقعی اُسے بہت بہترین طریقے سے سمجھتا تھا....
"لگتا ہے کوئی آرہا ہے بلانے تیار بھی ہونا ہے شام ہوگئی ہے مہمان آنا شروع ہوگئے ہیں..."
صلہ نے راہِ فرار ڈھونڈی..
"اپنا بہت خیال رکھنا پرسوں تک بلاوجہ کی سوچوں میں مت اُلجھ جانا..."
اُس نے پیار بھری تنبیہہ کی..
"پرسوں تک ہی کیوں رکھوں خیال..."
اُسے عاشر کے اِس جملے کی سمجھ نہ آئی تھی..
"پاگل اُس کے بعد تو میں رکھوں گا ناں تمہارا خیال پھر تُمہیں کیا فکر اچھا چلو خدا حافظ.."
اس نے کہتے ساتھ ہی فون رکھ دیا..
"اللہ حافظ۔.."
صلہ نے بلینک اسکرین پر نظریں جمائے نجانے کس کو کہا تھا...

______________________________________

(جاری ہے)

ساحرٓ جُنوںNơi câu chuyện tồn tại. Hãy khám phá bây giờ