Ep : 4 (Flashback)

41 3 2
                                    

سالار اس سب کے بعد بہت ضدی اور چڑچڑا ہو گیا تھا۔
اس نے نماز پڑھنا پھر سے چھوڑ دی تھی۔
گھر والوں کی بات بھی نہیں مانتا تھا۔
اس کے بابا تو گھر نہیں ہوتے تھے اور  نور العین کی بات وہ سنتا نہیں تھا۔۔
                    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں ہی ایک روز اچانک سالار نے رات بارہ بجے کے قریب نور العین سے ضد لگا لی کہ اس کو کسی پارٹی میں جانا ہے۔۔
نور العین نے اس کی نہیں سنی اور صاف منع کر دیا کہ وہ اس وقت کہی بھی نہیں جائے گا اگر وہ گیا تو وہ اس کے بابا کو کال کر دے گی۔۔
ماما بابا ابھی نہیں آئے گے آپ پلیز مجھے جانے دیں میں بابا کہ آنے سے پہلے ہی واپس آجاؤں گا۔۔۔سالار نے نورالعین سے کہا لیکن نور العین نہیں مانی۔۔
سالار نے بہت کوشش کی لیکن نور العین نے اس کی ایک نہ سنی۔
سالار جہاں تھا وہی کا وہی بیٹھ گیا۔۔
غصے سے اس کا حال بُرا ہو رہا تھا۔۔
نور العین اپنی بات کہہ کہ وہاں سے جا چکی تھی۔
سالار نے غصے سے سامنے پڑھے کانچ کہ گلاسوں کو زوردار ٹھوکر ماری جس کی وجہ سے ایک زوردار آواز گونجھی۔۔
آواز سنتے ہی نورالعین بھاگتی ہوئی آئی۔۔۔سالار یہ سب کیا ہے؟ نورالعین نے سالار سے کہا لیکن سالار نے ان کی ایک بھی بات کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھا اور خود گھر کی پچھلی سائیڈ پر لگے ایک درخت کہ نیچے جا کر بیٹھ گیا۔۔
درخت کہ نیچے بیٹھے وہ آسمان کو دیکھ رہا تھا اور دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ کیوں آخر کیوں میں ایسا ہو رہا ہوں؟؟کچھ دیر کے لئے اس کو احساس ہوا کہ وہ غلط کر رہا ہے لیکن اگلے ہے لمحے یہ احساس ختم ہو چکا تھا۔۔
وہی ضدی پن چڑچڑاہٹ اس پر پھر سے طاری ہوگئی تھی کہ ایسا بھی کیا ہو جاتا اگر مجھے پارٹی میں جانے دیتے۔۔
یہ سوچتے سوچتے کب اس کی آنکھ لگی اس کو پتہ نہیں چلا۔۔
سالار اُٹھو یہاں ایسے کیوں سو گئے ہو چلو اندر اپنے کمرے میں تین گھنٹے سے ایسے بیٹھے ہو۔۔
نورالعین کی آواز پر سالار کی آنکھ کھلی۔۔
نیند میں ہی وہ نورالعین کے ساتھ کمرے میں آیا اور سوگیا۔۔
                    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح اُٹھتے ہی رات کا سارا واقع اس کو یاد آیا۔۔
اٹھتے ہی وہ کچھ کھائے بغیر اور کسی کو بتائے بغیر گاڑی لے کہ نکل گیا۔۔باہر بارش بھی بہت تیز تھی لیکن اس کو کسی بات کی پرواہ نہیں تھی وہ ایسے ہی سڑکوں پر گاڑی بگھا رہا تھا۔۔
اپنی ہی سوچوں میں گم تھا کہ اس کو پتا نہیں چلا اور گاڑی پر اس کی گرفت کمزور ہوئی اور گاڑی فٹ پاتھ پر جا لگی۔۔
سالار کو کافی چوٹیں آئی لیکن اس نے کسی کو کچھ نہ بتایا۔۔
گھر آکر گاڑی ویسے ہی کھڑی کی اور آکر اپنے کمرے میں بند ہو گیا۔۔
بعد میں جب اس کے بابا نے اس سے گاڑی کے متعلق پوچھا تو اس نے صاف جھوٹ بول دیا کہ میں گاڑی کھڑی کر کے گیا تھا تو کسی نے گاڑی مار دی میں کچھ نہیں کہہ سکا کسی کو۔۔
اس نے اپنے ایکسیڈنٹ کے بارے میں بھی کسی کو کچھ نہیں بتایا تھا۔۔
درد سے اس قدر بُرا حال تھا کہ وہ کتنے ہی دن  سو نہیں سکا تھا۔۔۔یونہی بیٹھا رہتا تھا۔۔ اور سب سہتا رہتا تھا۔۔
                      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سالار کا ضدی پن اور چڑچڑاہٹ دن بدن بڑھتی جارہی تھی۔۔۔اس کو کسی کا ڈر خوف نہیں رہا تھا۔۔
انہی دنوں سالار نے سگریٹ بھی پینا شروع کر دیے تھے۔۔
ساری ساری رات چھت پر بیٹھا رہتا اونچی آواز میں گانے سنتا رہتا۔۔۔۔حد سے زیادہ بگھڑ چکا تھا وہ۔۔۔۔
                 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے تو وہ ڈرتا نہیں تھا لیکن ایک روز  وہ چھت پہ بیٹھا اونچی آواز میں گانے سن رہا تھا۔۔۔فجر کی آزان ہو رہی تھی۔۔۔وہ اندھیری رات میں بیٹھا ہوا تھا۔۔ اس کی دائیں طرف ایک کمرہ تھا جس کو وہ آسانی سے دیکھ سکتا تھا۔۔آزان کی آواز اس کے کانوں میں پڑھ رہی تھی لیکن اس کو صحیح اور غلط کا کچھ پتا نہیں تھا۔۔۔
اس کی اچانک نظر اس کمرے کی طرف پڑھی تو اس نے دیکھا کہ کوئی چل کہ اس کمرے کی طرف جا رہا ہے۔۔۔وہ سمجھا کہ شاید اس کی ماما یا بابا ہوں گے۔۔
اس نے گانے بند کئے تو آزان کی آواز پھر سے اس کے کانوں میں پڑی۔۔ لیکن اس نے ان سنی کر دی۔۔وہ اُٹھا اور اس کمرے کی طرف گیا کہ اس وقت کون چھت پر آیا ہے۔۔
جب وہ اس کمرے کے قریب پہنچا تو اس نے دیکھا کہ وہ کمرہ بند تھا اور اس کے باہر لاک لگا ہوا تھا۔۔۔سالار فورن ڈر گیا کیوں کہ اس نے خود اپنی آنکھوں سے کسی کو بلیک ڈریس میں اس کمرے  میں داخل ہوتے دیکھا تھا۔۔۔
سالار وہاں سے بھاگتا ہوا نیچے آیااور صوفے پہ بیٹھ گیا۔۔ اس کی سانس پھول چکی تھی۔۔۔
سالار تم ٹھیک ہو؟ کیا ہوا ہے؟؟۔۔۔۔نورالعین نے سالار کو جب ایسے بیٹھا ہوا دیکھا تو فورن اس کے پاس آئی۔۔۔
ماما وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔سالار نے سب نورالعین کو بتا دیا۔۔
نورالعین نے سالار کو ڈانٹا شروع کردیا۔۔کہ میں نے تمہیں کتنی دفعہ منع کیا ہے کہ ایسے اس ٹائم اکیلے چھت پر نہ جایا کرو۔۔۔اور تمہیں کچھ شرم بھی نہیں ہے کہ تم آزان کہ ٹائم گانے سن رہے تھے۔۔۔جو ہوا ہے بہت اچھا ہوا ہے۔۔تم پر بھی ایسے کسی بات کا اپر نہیں تھا ہونا۔۔۔
سالار بلکل خاموشی سے سب سن رہا تھا۔۔ کیونکہ وہ بہت ڈر گیا تھا اس واقعے کے بعد۔۔ساری رات اس نے بیٹھ کر گزار دی۔۔بخار سے اس کا حال بُرا ہورہا تھا۔۔
جب بخار حد سے بڑھ گیا تو اس نے نورالعین کو آواز دی اور اپنے طبیعت کا بتایا۔۔
نورالعین نے اس کو دوائی دی اور سونے کو بولا۔۔
سالار کچھ ہی دہر میں سو چکا تھا۔۔۔
لیکن اگلے کچھ دن ایسا ہوتا کہ وہ سویا ہوتا تو فجر کی اذان کہ وقت اس کی آنکھ کھل جاتی تھی۔۔۔
آنکھ کھلتی اور آزان کی آواز اس کے کانوں میں پڑتی۔۔۔
کچھ دن وہ یونہی لیٹے لیٹے آزان سنتا لیکن ایک دن وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور اس نے بڑبڑانا شروع کر دیا کہ یہ سب میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ اور کیوں ہو رہا ہے یہ سب؟۔۔۔ آزان کے وقت ہی میری آنکھ کیوں کھلتی ہے؟۔۔۔
پھر کچھ روز تک ایسے ہی ہوتا رہا کہ عجیب سی اس کے جسم میں ایک لہر دوڑتی اور وہ اٹھ کر بیٹھ جاتا۔۔لیکن نماز پھر بھی نہ پڑھتا۔۔۔
اور پھر کچھ دنوں بعد وہ ٹھیک ہونا شروع ہوگیا تھا اور وہ آرام سے سو جایا کرتا تھا۔۔
                  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اٹھارہ سال کی عمر میں ہی وہ حد تک بگھڑ چکا تھا۔۔
نہ اس کو کسی کا خوف تھا نہ کسی کا ڈر۔۔۔ نہ وہ کسی بڑے سے ڈرتا تھا اور نہ ہی اس کو کسی کی فکر تھی۔۔
اس کو موت کا بھی کوئی ڈر نہیں تھا وہ کئی دفعہ مرتے مرتے بچا تھا۔۔اتنے اس کے ایکسیڈنٹ ہو چکے تھے لیکن اس کو کوئی پرواہ نہیں تھی۔۔
وہ دو دفعہ پانی میں بھی ڈوب چکا تھا۔۔
لیکن ہر چیز کا خوف اس کے اندر سے ختم ہو چکا تھا۔۔_____________________________________________

Has llegado al final de las partes publicadas.

⏰ Última actualización: Aug 01, 2021 ⏰

¡Añade esta historia a tu biblioteca para recibir notificaciones sobre nuevas partes!

خوابDonde viven las historias. Descúbrelo ahora