قسط 26

47 7 1
                                    

زاویار نے وجدان کو چھوڑنے کے بعد، نازنین کے گھر کا رُخ کیا تھا۔ چند لمحات کی ڈرائیو کے بعد وہ اس سرخ اینٹوں سے بنے گھر کے سامنے اپنی گاڑی روک رہا تھا۔ پھر دروازہ دھکیل کر اندر چلا آیا۔۔ داخلی روش پر ہی بہت سی کتب گری ہوئ تھیں۔ وہ جھکا اور پھر ان کتابوں کو اٹھا لیا۔ گھر کی ابتر حالت کو بغور دیکھتا وہ آگے بڑھ آیا تھا۔ وہاں گویا کوئ عذاب سا گزر گیا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر کمرے کے ٹوٹے دروازے کی جانب دیکھا۔۔ تو ایک پل کو گہرا سانس لیا۔۔ جانے وہ کتنی خوفزدہ ہوئ ہوگی۔۔ اس نے کتابیں نازنین کے بیڈ پر رکھیں اور پھر برآمدے میں آنکلا۔ جب کچھ بھی قابلِ غور اسے محسوس نہیں ہوا تو وہ، برآمدے کے دو زینوں پر اتر آیا۔
پھر جینز کی جیب میں اڑسا فون نکال کر نگاہوں کے سامنے کیا۔۔ اب وہ فون کان سے لگاۓ، داخلی دروازے کی جانب بڑھ رہا تھا۔
احمد جو اپنے آفس میں براجمان تھا، لمحے بھر کو اپنے بجتے موبائل کی جانب متوجہ ہوا۔ وہاں زاویار لکھا جگمگا رہا تھا۔ اس نے اگلے ہی پل فون اٹھالیا تھا۔
"رمیز کا دماغ درست ہے۔۔؟!"

"اتنی حساس باتیں تم فون پر نہیں کرسکتے۔" احمد نے اسے اسکی لاپرواہی پر ٹوکا تھا۔ جیسے زاویار نے اسکے ٹوکنے پر۔۔ اسکی بات مان ہی لینی تھی۔

"میں اس سے کہیں زیادہ حساس باتیں رمیز کے منہ پر بھی کرسکتا ہوں۔۔"
احمد نے اسکے انداز پر گہرا سانس لیا تھا۔ پھر سر جھٹک کر فون کو کان کے ساتھ کچھ اور جمایا۔

"مجھے نہیں پتا تھا کہ وہ نازنین کو یوں ٹرمینیٹ کردے گا۔۔"

"ٹرمینیٹ۔۔! وہ انہیں مارنے کے لیے بندے تک بھیج چکا تھا۔ اتنا اجنبی سا ردعمل دینا تم جیسے انسان کو جچتا نہیں ہے۔"

وہ لاپرواہی سے کہہ رہا تھا لیکن احمد اسکی بات پر بری طرح چونک کر سیدھا ہو بیٹھا تھا۔ پھر آنکھیں محتاط انداز میں سکڑ گئیں۔۔ اسکی نگاہیں اپنے آفس کے بند دروازے پر جم گئ تھیں۔

"کونسا حملہ۔۔؟"

"اچھا۔۔! تو اب تمہارا وہ گاڈ فادر تم سے راز بھی رکھنے لگا ہے۔ مجھے تو لگا تھا کہ تم اس کے خاصے قریبی اور اہم بندے ہو۔۔ لیکن نہیں۔ تم بھی اسکے لیے کسی پپٹ سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتے۔۔" اس نے کہتے کے ساتھ ہی ٹھک سے فون رکھا تو وہ حیران سا فون کان سے ہٹا گیا۔ رمیز نے اسے نازنین پر حالیہ حملے کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔ اس نے موبائل سامنے میز پر ڈالا اور پھر اپنی کرسی پر پیچھے ہو بیٹھا۔ اسکی پیشانی پر بہت سے بلوں کا اضافہ ہوگیا تھا اور نگاہیں بہت کچھ سمجھ کر۔۔ اب سخت سی محسوس ہورہی تھیں۔ اسے رمیز کا انداز پہلے ہی کچھ حد تک خاصہ مختلف محسوس ہورہا تھا لیکن وہ نہیں جانتا تھا۔۔ کہ وہ اپنے مخصوص کاموں کے لیے۔۔ اسکے علاوہ کسی اور کی جانب رُخ پھیرنے لگا تھا۔
وہ اپنے آفس سے اٹھ آیا۔۔ ایک ہاتھ میں روالور بھی تھام رکھا تھا۔ اسکی پیشانی پر پسینہ ابھرا ہوا تھا اور وہ داخلی دروازہ پار کر کے اپنی کار کی جانب بڑھ آیا تھا۔ کچھ تھا جو ہر گزرتے لمحے میں۔۔ اسکی گردن کے گرد لگے پھندے کو کستا جارہا تھا۔۔
رمیز نے اپنی گلاس وال سے احمد کو خاموشی کے ساتھ جاتے ہوۓ دیکھا تھا۔ ایک ایک کر کے۔۔ سب اسکا ساتھ چھوڑتے جارہے تھے اور وہ اس بھری سیاہ دنیا میں تنہا ہوتا جارہا تھا۔ لیکن وہ ڈوبنے والوں میں سے نہیں تھا۔ وہ ڈوب نہیں سکتا تھا۔۔ ڈوبنا اسکے لیے آپشن نہیں تھا۔۔ اسکے پاس ایک ہی آپشن تھا۔۔ اور وہ تھا۔۔ سروائیو کرنا۔۔ زندہ رہنا۔۔ جس کے لیے وہ اس روۓ زمین پر موجود ہر ذی روح کی روح قبض کرسکتا تھا۔ کیونکہ جینے کی چاہ نشہ آور ہوتی ہے۔ یہ بڑھتی ہے اور بڑھتی ہی جاتی ہے۔۔
*********
زاویار نے جمے دانتوں کے ساتھ فون کان سے ہٹایا اور پھر اپنی کار کی جانب بڑھ آیا۔ اگلے کئ لمحات میں وہ سارنگ کے کلینک میں پچھلے دروازے سے داخل ہورہا تھا۔ پچھلے دروازے کی چابی اسے سارنگ نے ہی دی تھی۔ ایسی ایک چابی حرم کے پاس بھی موجود تھی۔ وہ دبے قدموں تاریک پڑے اسٹوڈیو کی جانب بڑھ آیا تھا۔ پھر لائٹ بورڈ پر ہاتھ مارا تو کمرہ روشن ہوگیا۔۔ ٹیبل کے گرد لگی کرسیوں میں سے ایک گھسیٹ کر وہ بیٹھنے ہی لگا تھا کہ۔۔ دور وائٹ بورڈ پر کچھ لکھا دیکھ کر بیٹھتے بیٹھتے۔۔ ٹھہر سا گیا۔۔
پھر اٹھ کر اس بورڈ کے قریب چلا آیا۔ وہ اس لکھائ کو پہچانتا تھا۔۔ یہ حرم کی لکھائ تھی۔ اس نے خالی چہرے کے ساتھ ساری تفصیلات پر سرسری سی نگاہ ڈالی اور پھر بورڈ کے ساتھ لگے میز پر۔۔ دھری فائل اٹھالی۔ اس نے ابھی فائل کھولی ہی تھی۔۔ کہ اس میں رکھی چند رپورٹس زمین پر گر پڑیں۔ وہ چونکا۔۔ پھر جھک کر رپورٹس ہاتھ میں لیں۔۔ آہستگی سے سیدھے ہوتے ہوۓ اسکے نقوش میں گھلا ہر تاثر زائل ہوتا گیا۔
ابھی اسکی نگاہیں تیزی کے ساتھ رپورٹ میں موجود تفصیلات کو اسکین کرنے ہی لگی تھیں کہ اسے اپنی گردن پر پستول کی ٹھنڈی نال محسوس ہوئ تھی۔ وہ ساکت ہوگیا۔۔ سانس تک روک لیا۔۔ ہاتھ میں تھامی رپورٹس اگلے ہی پل نیچے کیں اور جونہی تیزی سے گھوم کر سامنے والے پر مکا تانا تو ٹھہر سا گیا۔۔ وہاں حرم کھڑا تھا۔۔ سر پر کیپ پہنے۔۔ بالکل۔۔ اسکے برابر۔۔
وہ دونوں جینز پر سیاہ جیکٹس پہنے ہوۓ تھے اور ان کے چہرے، کیپ آگے ہونے کے وجہ سے خاصے چھپ گۓ تھے۔ اس نے اپنا ہاتھ اسکی گردن سے ہٹالیا تھا اور وہ بھی اسے دیکھ کر حیران ہوا تھا۔

عزازیل Where stories live. Discover now