افسانہ : قابل

35 2 3
                                    

مہرماہ ہکا بکا کھڑی سب کی طرف دیکھ رہی تھی سارے لوگ اس کے کردار پر کھیچڑ اچھال رہے تھے وہ کوئی بذ دل لڑکی نہیں تھی لیکن ابھی پتا نہیں اس کی زبان کیوں نہ چل رہی تھی سب سے برھ چڑ کر اس کی تائی بول رہی تھی وہ ان کو جواب دے دیتی لیکن جیسے ہی اس نے اپنے پاپا کی انکھوں میں بے اعتباری دیکھی اس کی دھڑکن روک گئ اس کے والد کو اس کی بات پر یقین نہ تھا ؟
اے لڑکی اب جو تم نے کرنا تھا کر لیا اب چلو شاباش اس لڑکے سے نکاح کر کے نکلو یہاں سے اگر اتنی ہی محبت تھی تو اس کو کہتی رشتہ بھیجواۓ بجاۓ کہ یہاں پر دروازہ بند کر کے ملاقات کرتے پھرو توبہ ہے توبہ
یہ اس کی تائی کے الفاظ تھے
اس نے اپنے پاپا کو دیکھا جو شرمندگی سے سر جھکاۓ کھڑے تھے اس کو ادھر سے ساری امیدیں ختم ہوگئ اس نے پھر اپنے بھائی کو دیکھا جو غیرت کا غصہ انکھوں میں لاۓ اس کو دیکھ رہا تھا وہ اس کی طرف بڑھی اور بولی بھیا یہ سب غلط ہے میں اس کو جانتی ہی نہیں ہوں مجھے تائی نے اوپر اس کمرے سے برتن لینے بھیجا تھا اور پیچھے یہ اگیا اور اس نے دروازہ بند کردیا وہ بتاتی بتاتی روی جارہی تھی اس کے بھائی کی انکھوں میں اس کی حالت دیکھ کر نرمی اترنے ہی والی تھی کہ اس کی بھابھی نے بھائی کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولی مہرماہ جو ہم سب نے دیکھ لیا اس کے بعد بھی تم اپنے آپ کو مظلوم کہہ رہی ہو شرم کرو شرم بھابھی خدا کی قسم میرا بھروسہ کریں میں بے گناہ ہو میں بے گناہ ہو
بس اب جو ہونا تھا ہوگیا جلدی سے اس بندے سے نکاح کرو اور چلتی بنو یہ اس کے تایا کی آواز تھی تایا۔میں بےگنا. . . ابھی وہ آگے بولتی کہ پہلی بار اس سب میں اس کے والد کی آواز آئی خدارا کرلو نکاح جان چھوڑ دو میری کرلو نکاح وہ چیخ چیخ کہہ رہے تھے
اس نے اپنے پاپا کی حالت دیکھتے ہوۓ سر اثبات میں ہلادیا اور وہ لڑکا جو اس کے ساتھ پکڑا گیا تھا اس کے چہرے پر کمینی مسکان آئی
_____
وہ نکاح کے لیے بیٹھی ہوئی تھی کہ اس کے بھائی کے پاس ان کے گھر کا ڈرائیوار آیا اور بولا چھوٹے صاحب میری بات سنیے گا بہت اہم ہے وہ سر ہلا کر اس کے ساتھ باہر آگیا
صاحب جس سے آپ بیبی جی کا نکاح کروارہے ہیں وہ گنڈہ ہے اوارہ ہے خدارا بی بی بر ظلم نہ کریں میں جانتا ہو کہ ان سب میں میرا بولنا بنتا نہیں ہے لیکن بی بی بے گناہ ہے میں ساری حقیقت سے واقف ہو آپ میری بات سن لے آگے جو آپ کی مرضی . . .
وہ ابھی بول رہا پھا کہ بھابھی اچانک بیچ میں آگئ اور بولی
یہ ہمارا مسلہ ہے اگر اتنی ہمدردی ہو رہی ہے تو خود کرلو نکاح
معاف کر دیں بی بی میرا یہ مطلب نہیں تھا لیکن میں مہرمہ بی بی سے نکاح کے لیے تیار ہوں بس آپ اس گنڈے سے نہ کرواۓ اس خود نہیں پتا چلا۔کہ اس سے یہ فیصلہ کیسے ہوگیا
_________
مہرماہ نعیم آپ کو سعد اختر سے . . . . . . . .نکاح قبول ہے
جی قبول ہے
قبول ہے
قبول ہے

اس کو بلکل اندازہ نہ ہوا کہ اس کا نکاح ہو بھی گیا اس کی بھابھی نے اس کو چادر دی اور اس کے بھائی نے مروتاً اس کے سر پر قرآن رکھ کر رخصت کردیا اس کی رخصتی کے وقت اس کے باپ نے اس سے کہہ دیا کہ تمہارا باپ مر گیا ہے ائندہ اس گھر میں قدم نہ رکھنا اس گھر سے سارے ناتے واستے تم سے لے لیے گۓ ہیں
_________
اس کو لاکر ایک سنگل بیڈ پر لا کر بیٹھا دیا گیا باہر سے سعد کی ماں کی آواز ارہی تھی
کہ کیوں کی امیر زادی سے شادی ادھر رہ نا پاۓ گی اور جیسی جیسی اس لڑکی کہ بارے میں باتیں ہو رہی ہے پھر بھی تم اس کو یہاں لے آۓ ہو تم میرے اکھلوتے بیٹے ہو میں تمہارے لیے اچھی لڑکی لاتی کیوں بیاہ لاۓ ااس کو بیٹا میں تم کو تمہارے باپ کی طرح نہیں کھو سکتی
وہ بیڈ پہ بیٹھی اپنی قسمت پر غور کر رہی تھی کہ اس کے وہم و گماں میں بھی نہ تھا کہ اس کے ساتھ ایسا کچھ ہوجاے گا اور نہ اس نے کبھی کسی کے ساتھ زیادتی کی تھی وہ اپنی سوچوں میں غرق تھی کہ سعد۔اندر داخل ہوا اور سلام کر کے اس کے پاس بیٹھ گیا اور بولا
بی بی جی مجھے معاف کر دیں آپ کے ساتھ جو کچھ ہوا اس میں سارا قصور میرا ہے آپ مجھے معاف کردیں وہ اس کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھی جارہی تھی بی بی جی کیا ہوا وہ اس کے اس طرح دیکھنے پر گبھرایا
تو وہ بولی کہ
میں بے گناہ ہو وہ میرے پیچھے کمرے میں آیا تھا میں اس شخص کو جانتی بھی نہیں ہوں میں بے کناہ ہو یقین کو میرا وہ رو رو کر اس سے کہہ رہی تھی  سعد نے اس کے انسو صاف کیے اور بولا
مجھے آپ پر پورا  یقین ہے کہ آپ بے گناہ ہے
  مہرماہ نے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا پورا؟
تو اس کو اس وقت مہرماہ پیاری سی معصوم بچی لگی تھی  تو اس نے اثبات میں سر ہلایا تو مہرمہ اس کے کندھے پر  سر رکھ کر سوگئ  اس کو سکون مل گیا تھا کہ کوئی ہے جس کو اس پر یقین تھا 

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Aug 12, 2022 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

قابل Where stories live. Discover now