part_6

5 1 0
                                    

ارمان!!!
ارمان!!!
ارمان بیڈ ہر بیٹھا سوچوں میں گم تھا اور اس کے سامنے لیپ ٹاپ کھلا پڑا تھا شاید وہ کسی اسائنمنٹ پہ کام کر رہا تھا لیکن اب اس کا دھیان حریم کی طرف تھا۔
بھائی!! حیا نے کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پکارا تو وہ سوچوں کے جہان سے باہر نکلا۔جی بھائی کی جان!!! کیا بات ہے؟؟؟
ارمان اٹھ کے حیا کو بازوؤں کے گھیرے میں لے کر بولا۔
کوئی بات نہیں بھائی!! وہ ماما کب سے اپ کو آوازیں دے رہی تھی لیکن اپ جواب نہیں دے رہے تھے۔
کن سوچوں میں گم تھے اپ ہاں؟؟؟
کیا سوچ رہے تھے؟؟
کہیں آپ نے ہمارے لئے بھابھی تو نہیں ڈھونڈ لی۔
حیا شرارت بھری آنکھوں سے ارمان کو دیکھ کر سوال پہ سوال کئے جارہی تھی۔
ہاہاہاہا پاگل لڑکی!! ایسا کچھ بھی نہیں ہے بس اسائمنٹ بنا رہا تھا اس لیے ماما کی آواز نہیں سنی،
ارمان اس کے سر پر چپت لگا کر بولا۔
نا بھائی!! جھوٹ تو نا بولے میں جب روم میں آئی تو آپ سوچوں میں گم تھے۔
ہاں تو گڑیا میں اسائنمنٹ کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا نا
ارمان نے ہنس کر کہا۔
ہاہاہاہاہاہا بھائی کچھ تو ہے آپ بتانا نہیں چاہتے وہ الگ بات ہے
حیا شرارت سے کہہ کر ارمان کو آنکھ مار کے بھاگ گئی۔
پاگل لڑکی!! ارمان سر پر ہاتھ پھیر کر رہ گیا۔
          ⚡⚡⚡⚡
جی ماما!! کوئی کام تھا مجھ سے؟؟؟
ارمان نے ماما کے روم میں آکر ان سے پوچھا۔
ہاں بیٹا! مجھے زرا اپنی نانی کے گھر لے کے جا تمہارے ماموں کی کال آئی تھی کہ ان کی طبیعت تھوڑی خراب ہے۔
ارمان کا ایک ہی ماموں جن کا ابھی 6 ماہ کا ایک بیٹا ہے اور ایک خالا جن کی شادی کو دس سال ہو گئے تھے لیکن ان کی ابھی تک کوئی اولاد نہیں تھی۔
جی ماما کیوں نہیں۔۔۔ لیکن نانی کو ہوا کیا ہے؟؟
وہ اب پریشان ہو گیا تھا کیونکہ وہ اپنی نانی کا لاڈلا تھا اس وجہ سے بہت اٹیچڈ تھا ان سے۔
پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے بیٹا بس ہلکا سا بخار ہو گیا ہے۔
اچھا ماما آپ تیار ہو کے آجائے میں ویٹ کر رہا ہوں باہر،،،
ارمان نے کہہ کر ایک گہری سانس بھر کے فون کان سے لگایا کیونکہ حمزہ کی کال تھی اور اب ارمان کی شامت پکی تھی۔یار کہاں غائب ہو؟؟؟
کیوں رپلائی نہیں کر رہے تھے؟؟؟
ایک بار تم واپس آؤ پھر میں پوچھتا ہوں تم سے۔۔۔
ارمان کے کال اٹھاتے ہی حمزہ بنا دعا سلام کے نان سٹاپ شروع ہو گیا۔
یار حمزہ!! کیا ہو گیا ہے تھوڑا سانس تو لو کیوں ایسے نان سٹاپ بول رہے ہو میں کہیں بھاگا تو نہیں جا رہا۔
ارمان نے فون ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ منتقل کرتے ہوئے کہا۔
میری مرضی میں جیسا بھی بولوں تمہیں اس سے کیا،
حمزہ تو ڈھیٹ ابن ڈھیٹ تھا اس لیے ڈھٹائی سے بولا۔
ہاہاہاہاہاہا حمزہ تمہارا کچھ نہیں  ہو سکتا تم ایک ہی مینٹل پیس ہو ہاہاہاہا۔۔۔
ارمان کا دل حمزہ کی باتوں سے بہل گیا تھا سچ کہتے ہے کہ سچے اور اچھے دوست بھی اللہ کی رحمت ہوتے ہے اور ارمان کو اللہ نے حمزہ کی صورت میں اس رحمت اور نعمت سے نوازا تھا۔
بالکل بالکل میں ایک ہی مینٹل پیس ہوں جو اللّٰہ نے تمہاری قسمت میں لکھا ہے ہاہاہاہاہاہا ہاہاہاہا،
حمزہ فون پر پاگلوں کی طرح ہنستے ہوئے بولا۔
کیا کر رہے ہو کان کے پردے پھاڑنے ہے کیا کیوں اتنا زور زور سے ہنس رہے ہو؟؟؟
ارمان نے کان میں انگلی ڈال کر کہا۔
نہیں پھٹتے تمہارے کان کے پردے کیونکہ وہ بھی تمہاری طرح ڈھیٹ ہے ہاہاہاہاہاہا۔
حمزہ نے ایک بار پھر پاگلوں کی طرح ہنستے ہوئے کہا۔
امان چلو بیٹا میں تیار ہوں۔۔
ارمان اور حمزہ ابھی باتیں کر رہے تھے کہ اتنے میں ماما تیار ہو کے آگئی۔
چلو یار حمزہ! رات کو بات کرتے کے ابھی ماما کو نانی کے ہاں لے کے جانا ہے۔
ارمان نے پاکٹ سے گاڑی کی کیز نکالتے ہوئے کہا۔
اچھا ٹھیک ہے لیکن اگر اس بار میسج کا جواب نہیں دیا تو گھر آکے گلا دبا دونگا،
حمزہ مصنوعی غصّے سے بولا۔
ہاہاہاہا دونگا یار رپلائی ایسا کبھی ہوا ہے کہ میں تمہیں رپلائی نا دوں بٹ صبح فون چارجنگ پہ تھا تو مجھے پتا ہی نہیں چلا۔
ارمان اسے مناتے ہوئے صلح جو لہجے میں بولا۔
اچھا اچھا اب زیادہ باتیں مت بنا معاف کیا تجھے کیا یاد کرو گے کس سخی دوست سے پالا پڑا ہے،
چل اب فون رکھ اللّٰہ حافظ!
حمزہ نے شیخی بگھارتے ہوئے آخر میں فون رکھنے کا کہہ ہی دیا ورنہ ارمان کو کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے۔
ہاہاہا اللہ حافظ!!
ارمان نے زور سے ہنسنے ہوئے فون بند کر دیا۔
نوٹنکی!! ارمان نے زیرلب ہنستے ہوئے کہا اور گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کر دی۔
         ⚡⚡⚡⚡
حریم!!!
حریم!! اٹھو نماز کا ٹائم نکلا جارہا ہے۔
شفا اور ثنا کب سے حریم کو جگا رہی تھی لیکن دو تین راتیں مسلسل جاگنے کی وجہ سے اب وہ عنودگی میں تھی۔
حریم اٹھو شاباش!! نماز پڑھ کے پھر تھوڑا سا سو لینا،
اب شفا نے اس کے پاس آکر اسکا کندھا ہلایا تو حریم ہڑبڑا کر اٹھ گئی۔
کک کیا ہوا کیا ہوا؟؟؟.
وہ ہڑبڑا کر بولی۔
کچھ نہیں ہوا حریم ریلکس!!
نماز پڑھ لو
ثنا نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا تو وہ غائب دماغی سے ہممم کہہ کر واشروم کی طرف بڑھ گئی۔
وضو کرکے نماز ادا کی نماز پڑھنے کے بعد جب اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو آنکھوں سے آنسوں کا ریلا بہہ نکلا۔
یا اللّٰہ!! میری تکلیفیں ختم کردے اللّٰہ!! مجھ میں اور ہمت نہیں ہے کچھ برداشت کرنے کی یا اللّٰہ یا تو تو مجھے ہمت دے دے یا پھر یہ سب جھوٹ ہو۔
میرے ساتھ ہی یہ سب کیوں ہو رہا ہے اللّٰہ!! پہلے ارحم بھائی اور اب ارمان.......
حریم زاروقطار روتے ہوئے کبھی ہمت مانگ رہی تھی تو کبھی اپنے رب سے شکوہ کر رہی تھی۔یا اللّٰہ! میں نے تو کبھی کسی کا برا نہیں چاہا، ہمیشہ سب کا خیال رکھا کبھی کسی کو کوئی دکھ نہیں دیا تو نیرے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔
کیوں ہمیشہ مجھے یقین کرنے کی اتنی بڑی سزا ملتی ہے جسے برداشت کرنا میرے لئے مشکل ہو جاتا ہے۔
حریم!
وہ سجدے میں گری روتے ہوئے اپنے پروردگار سے اپنے دل کا حال شئیر کر رہی تھی جب شفا نے اسے آواز دی۔
ہاں شفا!
حریم نے سجدے سے اٹھ کر جائے نماز فولڈ کی اور شفا سے نظر بچا کر آنسو صاف کئے۔
اب تمہاری طبیعت ٹھیک ہے نا؟؟؟
ہاں ہاں اب ٹھیک ہوں، حریم نے بوجھل پن سے جواب دیا۔
چلو شکر ہے، اب آرام کرو اگر صبح تک بالکل ٹھیک ہو گئی ہو تو کالج چلی جانا ورنہ ہاسٹل میں ہی رہنا۔
اوکے جی! حریم جواب دے کر سونے کے لئے لیٹ گئی اور شاید رونے کی وجہ سے اس کا دل ہلکا ہو گیا تھا اس لیے اسے جلدی نیند آگئی۔
          ⚡⚡⚡⚡
اسلام علیکم امی جان!
ازلان نے اپنی ماں کو فون ملا کر ڈائریکٹ سلام داغا۔
وعلیکم اسلام! میری جان کیسے ہو؟؟؟
حمیدہ بیگم نے نہایت ہی پیار سے جواب دے کر اس سے اس کا حال پوچھا۔
میں بالکل ٹھیک ہوں آپ کیسی ہے؟؟
ٹھیک ٹھاک ہوں بیٹا بس تمہاری بہت یاد آتی ہے کب آؤ گے؟؟؟
ازلان حاطب شاہ کے چھوٹے بھائی ازان شاہ کا بیٹا جو کہ تین سال سے امریکہ گیا تھا ہائیر سٹڈیز کے لیے۔
بہت جلد آونگا امی جان انشاللہ!
اس نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
بیٹا بس جلدی سے آجا تمہیں دیکھنے کے لیے آنکھیں ترس گئی ہے۔
حمیدہ بیگم بھرائی ہوئی آواز میں بولی
اوہو امی جان!! اپ رو کیوں رہی ہے اگر آپ اس طرح کرے گی تو میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آجاؤں گا اپ کو پتا ہے نا مجھ سے آپ کا رونا برداشت نہیں ہوتا۔
نہیں بیٹا تم ٹینشن مت لو بس ویسے ہی دل بھر آیا تھا اب بالکل ٹھیک ہوں،
امی نے ہنستے ہوئے کہا۔
اچھا امی جان! یہ بتائے کہ بابا کیسے ہیں اور سادیہ اور دبیر کیسے ہے؟؟
ازلان نے اپنے بابا اور بھائی بہن کا حال پوچھا۔
تیرے بابا بھی ٹھیک ہے اور سادیہ بھی ٹھیک ہے لیکن دبیر کا تو تمہیں پتا ہے نا سب کے ناک میں دم کرکے رکھا ہوا ہے۔
ہاہاہاہاہاہا امی جان! بچہ ہے ابھی تھوڑا سا شرارتی ہے ٹھیک ہو جائے گا۔
ازلان نے ماں کے جواب پر زوردار قہقہہ لگاتے ہوئے کہا تو حمیدہ بیگم کو تو مانو آگ لگ گئی۔
یہ کیا کہہ رہے ہو ازلان سترہ سال کا ہو گیا ہے اور تم اسے بچہ کہہ رہے ہو اور تھوڑا سا نہیں حد سے زیادہ شرارتی ہے۔
ہاہاہاہاہاہا امی جان! سب پتا ہے مجھے آپ خود تو ہر وقت مجھ سے دبیر کی شکایتیں کرتی ہے لیکن اگر بابا بے چارے تھوڑا سا بھی ڈانٹ دے اسے تو آپ پھر ان سے بات نہیں کرتی۔
ازلان قہقہہ لگا کے ہنستے ہوئے بولا۔
بس بیٹا کیا کروں ماں ہوں اس کی شرارتوں سے تنگ تو ہوں مگر سب سے زیادہ پیار بھی میں ہی کرتی ہوں، حمیدہ بیگم سرد آہ بھر کر بولی۔
چھوڑے امی جان کیوں ٹینشن لے رہی ہے اپ؟؟ آپ کو تو پتا ہے نا کہ وہ شرارتی ضرور ہے مگر بدتمیز ہر گز نہیں ہے سب کا خیال رکھتا ہے میرا چھوٹو،
ازلان اپنے چھوٹے بہن بھائی سے بہت پیار کرتا تھا اور وہ دونوں بھی بہت اٹیچڈ تھے اپنے بھیو سے لیکن دبیر سے بہت زیادہ اٹیچمنٹ تھی ازلان کی کیونکہ دبیر کی پیدائش کے وقت حمیدہ بیگم کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی تو ازلان ہی اپنی سمجھ کے مطابق اس وقت دبیر کو سنبھالتا تھا حالانکہ ان کی چاچی بھی تھی اور وہ بھی دبیر سے بہت پیار کرتی تھی لیکن ازلان اس کے لئے بہت حساس ہو گیا تھا اور دبیر کی بھی اس کے ساتھ بہت بنتی تھی۔
ہاں ہاں پتا ہے مجھے کہ تم اپنے لاڈلے کے خلاف ایک لفظ نہیں سن سکتے، نہیں کہہ رہی تمہارے لاڈلے کو کچھ بھی بہت اچھا ہے وہ،،،،
اب کے حمیدہ بیگم نے ہنستے ہوئے کہا تو ازلان ہنس دیا۔
اچھا امی جان!! بعد میں بات کرے گے ابھی مجھے ایک پروجیکٹ پہ کام کرنا ہے۔
ازلان کو اچانک اپنا پروجیکٹ یاد آیا جس میں ابھی تھوڑا بہت کام باقی تھا اور کل لاسٹ ڈیٹ تھی سبمٹ کروانے کی۔۔
اچھا بیٹا! اللّٰہ کامیاب کرے اپنا خیال رکھنا اللّٰہ حافظ!!
جی امی جان اللّٰہ حافظ!!
ازلان نے الوداعی کلمات کہہ کر فون بند کر دیا اور لیپ ٹاپ لے کر پروجیکٹ کمپلیٹ کرنے لگا۔
               ⚡⚡⚡⚡
مے آئی کم ان میم!!!
حریم کی طبیعت اب تھوڑی بہتر تھی اس لئے وہ کالج آگئی لیکن جیسے ہی وہ کلاس روم میں انٹر ہونے لگی تو ٹیچر آچکی تھی۔
یس کم ان حریم! لیکن آپ لیٹ کیوں ہو گئی؟؟؟
سوری میم! ایکچولی میری کل رات طبیعت خراب تھی تو نیند پوری نہیں ہوئی اس لیے لیٹ ہو گئی۔
اس نے معزرت کرتے ہوئے کہا۔
اوکے اوکے بٹ نیکسٹ ٹایم بی کئیر فل حریم!!!
دراصل میم آنسہ بہت سخت تھی وہ خود بھی ٹائم کی بہت پابند تھی اور سٹوڈنٹس کا لیٹ آنا انہیں بالکل پسند نہیں تھا۔
جی میم نیکسٹ ٹائم خیال رکھونگی۔
حریم نے جلدی سے جان چھڑاتے ہوئے کہا کیونکہ اب اسے میم کی تفشیش بے زاری میں مبتلا کر رہی تھی۔
اوکے  جا کے بیٹھ جائے۔۔
جی کیم تھینک یو!! حریم کہہ کر اپنی سیٹ کی طرف بڑھ گئی۔
تقریباً بیس منٹس بعد جب کلاس اوور ہوگئی تو حریم اٹھ کر ثانیہ کی طرف بڑھ گئی جس کے ساتھ والے سیٹ پر ایک اور لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔
اسلام علیکم! کیسی ہو ثانیہ!
حریم نے دونوں سے ہاتھ ملا کر ثانیہ سے پوچھا۔
وعلیکم السلام! میں تو بالکل ٹھیک ہوں لیکن تمہیں کیا ہوا ہے؟؟؟
اس نے سلام کا جواب دیتے ہوئے پوچھا۔
کچھ نہیں یار بس رات کو تھوڑا سا بخار تھا اب ٹھیک ہوں۔
حریم نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
چلو شکر ہے۔۔۔۔
اینی ویز...... حریم میٹ مائی فرینڈ ماہی اینڈ ماہی شی از مائی نیو فرینڈ حریم۔۔۔۔۔
ثانیہ نے ساتھ بیٹھی لڑکی کا تعارف کروایا۔
اوہ نائس ٹو میٹ یو ماہی!!
حریم نے زرا سا مسکرا کر اپنا ہاتھ ماہی کی طرف بڑھایا تو ماہی نے بھی ہنستے ہوئے اس سے ہاتھ ملایا۔
می ٹو حریم!!!
چلو اب کینٹین چلتے ہیں بہت بھوک لگی ہے۔
ثانیہ اٹھ کر ایک ہاتھ سے حریم اور دوسرے ہاتھ سے ماہی کو پکڑ کر اٹھانے لگی۔
کیا ہے یار ثانیہ! ابھی تو ایک ہی کلاس لی ہے اور تمہیں اتنی صبح صبح بھوک بھی لگ گئی۔
ہاں ہاں لگا لو نظر تم مجھے,
ہمیشہ میرے کھانے پہ نظر رہتی ہے اس کی اور ویسے بھی میں نے ناشتہ نہیں کیا،
ثانیہ تھوڑا ناراض ہو کر حریم کو ماہی کی شکایت لگا رہی تھی اور ساتھ ساتھ بھوک لگنے کی وجہ بھی بتائی۔
اچھا اچھا چلو نوٹنکی ہو تم پوری کی پوری، چلتے ہے تمہاری پیٹ پوجا کے لیے۔
ماہی بھی ثانیہ کی بات سن کر راضی ہو گئی اور تینوں کینٹین کی طرف بڑھ گئی۔
         ⚡⚡⚡⚡
                                                     جاری ہے۔۔۔۔۔۔
اگر آپ کو میرا ناول پسند آگیا ہے تو پلیز کمنٹ اور ووٹ کرے
                        شکریہ!!!!

دل امیدWhere stories live. Discover now