part 2

89 12 14
                                    

شرٹ کے کف ورلڈ کیے گھنگریالے بال ماتھے پر بکھیرے، صاف شفاف رنگت، ہاتھوں کی رگیں ابھری ہوئی، آنکھوں میں ہما وقت سرخی لئے، پاؤں سے ٹیبل کے نچلے حصے میں ٹک ٹک کی آواز پیدا کیے وہ مشروب پینے میں مصروف تھا ۔
وہ گلاس ٹیبل پر رکھ کے سامنے والے شخص کو دیکھنے لگا ۔تم اتنے کونفیڈنٹ کیسے ہو ؟
نا ہی کوئی تمہارا ساتھ دیتا ہے ,نا ہی کوئی تمہیں پسند کرتا ہے پھر بھی اتنے کامیاب کیسے ہو کون ہے تمہارے ساتھ وہ شخص طنزیہ بولا تھا .
وہ سامنے والے شخص کو دیکھ کے مسکرایا ...
"when you believe that Allah is stands with you then it does not matter who stand against you, trust in Allah ."
وہ پھر سے گلاس اٹھا کے مشروب پینے میں مصروف ہوگیا ,
تمہارے اعمال اور تمہاری باتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے. وہ شخص اس کے ہونٹوں سے لگے گلاس کو دیکھ کے پھر طنز کرنے لگا ,
مران اوزل صرف وہی کرتا ہے جو وہ کرنا چاہتا ہے ..
میرا اعمال نامہ صرف میرے رب کے سامنے کھلتا ہے ,
اور میں اللّٰہ پاک کے سوا کسی اور کو جوابدہ نہیں ,میرے اعمال سیاہ ہو یا سفید ہوں یہ صرف میرا اور میرے اللہ پاک کا معاملہ ہے ..وہ یہ کہتا بازو پر اپنا کوٹ ڈالتا اٹھ کھڑا ہوا ,پیچھے اس کے گارڈز اسے دیکھ کے الرٹ ہوتے اس کے پاس آئے .
-----------------------------------------------------------------
وہ ارحم کو سلا کے ابھی آپنے اور عائث کے مشترکہ کمرے میں ,بیڈ پر آ کے لیٹی ...کسی احساس کے تحت اس نے کروٹ بدل کے مندی مندی آنکھوں سے عائث کو دیکھا۔ عائث اسے شوخی سے دیکھتا مسکرا رہا تھا اس کی بھوری آنکھیں واہ ہوئی جب عائث کا ہاتھ اس کی کمر سے سرکتا ہوا زپ تک آیا ...عائث یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ وہ آنکھوں میں بسی لیے عائث کو دیکھتی کہنے لگی .شششششششش، !don't disturb me baby..مجھے میرا کام کرنے دو وہ اپنے ہونٹوں سے اس کی گردن کو چھوتا اس پر جھک آیا . افروزیہ، عائث کی شدتوں پر تاب نہ لاتی گہرے گہرے سانس لیتی اس کی پیٹھ پر اپنے ناخن گاڑنے لگی ,وہ اس کی اس حرکت سے محفوظ ہوتا مسکرایا ,سائیڈ ٹیبل کی دراز میں تمہارے لئے ایک سرپرائز رکھا ہے ,وہ سرگوشی کرتا پھر سے اپنے کام میں مصروف ہوگیا ,جب کہ افروزیہ سرپرائز کے بارے میں سوچتی خوفزدہ ہونے لگی۔ کیونکہ اس کے سرپرائز , سرپرائز کم ,شوق زیادہ ہوتا تھا افروز یہ کے لیے .
-----------------------------------------------------------------
رات کے تیسرے پہر پانی کی پیاس سے اس کی آنکھ کھلی وہ اٹھ بیٹھا اور لمپ جلا کے سائیڈ ٹیبل پر ہاتھ مارا پر گلاس خالی پایا .او جمئلا میرے چاچے کی اولاد تجھے بھی ابھی خالی ہونا تھا وہ اپنے ازلی انداز میں کہتا گلاس کو غورنے لگا ,جیسے گلاس اس کے سگے باپ کی چوتھی اولاد ہو .اب سالے میں تیری ٹینکی فل کرنے جاؤں کہ اپنی ,وہ منہ کے زاویے بگاڑتا گلاس کو ہاتھ میں پکڑے اٹھ کھڑا ہوا .
وہ پانی پی کے بوتل اٹھا کر فریج میں رکھنے لگا ٹھیک اسی وقت اس کی آنکھیں چمکی اور وہ مسکرایا ہائے ہائے آج تو مزا ہی آ گیا ,اوئے مزے مزے ،اس نے ہاتھ آگے بڑھا کے ابھی پیسٹری کی ٹرے اٹھائی ہی تھی پیچھے سے بھاری مردانہ روب دار آواز اسے سنائی دی ,اس وقت تم بنا اجازت کے میری کچن میں کیا کر رہے ہو ؟ وہ شخص اپنے ازلی انداز میں کہتا اس کے پیچھے آ کے کھڑا ہوا .
اس کے ہاتھوں رکے وہ ٹرے وہی چھوڑتا سیدھا کھڑا ہوا ,وہ آنکھیں میچتا کہنے لگا آف اس جلاد کو بھی ابھی ہی آنا تھا اووو جمئلا ۔
کیابکواس کر رہے ہو ؟
وہ غصے سے پوچھنے لگا ..
کچھ نہیں میں تو بس پانی پینے آیا تھا .عاجز ایک دم شعر کی طرف مڑا ، ادب سے سر نیچے کیے کہنے لگا .شیر اس کے جواب کو خاطر میں نہ لاتا اپنی کہنے لگا ...آئندہ کچھ بھی کہنے سے پہلے اپنی اوقات کا اندازہ ضرور لگانا ۔ کہ ہو کون تم کہاں سے آئے ہو ،حیثیت کیا ہے تمہاری، اور تم اس وقت کس کے گھر میں کس کے سامنے کھڑے بات کر رہے ہو ؟.احساس کمتری سے عاجز کی آنکھیں ایک دم ڈبڈبائی ,معذرت سر آئندہ ایسا نہیں ہوگا وہ سر نیچے جھکائے ادب سے کہنے لگا ...شیر مسکراتا کسی احساس کے تحت پیچھے مرا ,سامنے بابا کو کھڑے پایا ,شیروان گہرا سانس لے کے بابا کو دیکھتا ان کے سائیڈ سے ہوتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ,پیچھے بابا نفی میں سر ہلاتے آگے بڑھے اور عاجز کو اپنے سینے سے لگایا ,وہ بچوں کی طرح ان سے لپٹ کے کہنے لگا بابا میں تو صرف یہاں پانی پینے آیا تھا پتا نہیں صاحب جی کو کیا مسئلہ ہے مجھ سے ....بابا اسے کچھ سمجھاتے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے .
کمرے میں آ کے اس کا کہکا جاندار تھا 😂 .اووو جمئلہ کیا ایکٹنگ کرتا ہے تو واہ واہ کیا کہنے کیا کہنے تیرے آجز خان .وہ آئینے میں خود کو دیکھتا کہنے لگا ,وہ رکا اور اپنی کمر پر ہاتھ رکھ کے اپنا جائزہ لینے لگا ۔۔۔۔۔
نیلی قمیض، سات میں نیلی ہی دھوتی پہنے ,بالوں میں ہر وقت تیل لگا کے بیچ کی مانگ نکالے ,پاؤں میں پشاوری چپلیں پہنے ,وہ خود کو تیس مار خان سمجھتا تھا .
-----------------------------------------------------------------
روحانیہ ایک باہمت اور پر وقار لڑکی ہے اس کا روپ ایسا ہوتا کہ سامنے والا بات کرنے سے پہلے سو بار ضرور سوچتا .اس کی گوری رنگت پر نیلی آنکھیں بہت ججتی تھی .وہ اپنے حسن سے کسی بھی شخص کو اپنے سحر میں مبتلا کر سکتی تھی .لمبا قد گھنے سیاہ گھنگریالے کمر سے نیچے آتے بال، . روحانیہ شاید ہی وہ پہلی لڑکی ہو جس نے اپنے بچپن میں ہی محبت کے میم سے واقف ہونے سے پہلے ہی اپنی محبت کو اپنے سے دور کر دیا .
-----------------------------------------------------------------
وہ آئینے کے سامنے بیٹھی کسی دوسری ہی دنیا میں کھوئی اپنے بالوں کی چٹیا بنانے میں مصروف تھی .بی بی جی آپ کو بڑے صاحب یاد کر رہے ہیں بی بی جی سحر روہانیہ کے گھر کی پرانی مگر کم عمر ملازمہ تھی۔ اس کے بازو پر نرمی سے ہاتھ رکھ کے اسے پکار رہی تھی .وہ ایک دم سے ہوش میں آتی سحرش کو دیکھنے لگی ہاں کیا کہہ رہی تھی تم .سحرش اس کے بالوں کو دیکھ کے ٹٹکی ، پر خود کو سنبھالتے کہنے لگی .بی بی جی بڑے صاحب آپ کو بلا رہے ہیں۔ شام کو ان کے کچھ مہمان کھانے پر گھر آ رہے ہیں .صاحب کا حکم ہے کہ سارے انتظامات آپ خود سنبھالیں .وہ کہتی سحرش کی آنکھوں میں دیکھنے لگی جیسے وہاں کچھ تلاش کر رہی ہو .سحرش اسے خود کو تکتا پا کر ایک دم سے گڑبڑ آئی ,میں میں باقی کے کام دیکھ لیتی ہوں وہ یہ کہتی فورن سے، اس کے کمرے سے نکلتی چلی گئی .پیچھے وہ اپنا سر جھٹکتی خود کو آئینے میں دیکھنے لگی، معاون اس کا ہاتھ رکا اور وہ ٹھٹکی .
وہ ہراساں نظروں سے کبھی آئینے میں خود کو دیکھتی تو کبھی اپنے ہاتھ میں پکڑی اپنے بالوں کی چوٹی کو دیکھتی .جیسے یقین کرنے کی کوشش کر رہی ہو کے اس نے یہ کر دیا اس نے واقعی یہ کر دیا .
روحانیہ میر سب کو بلا سکتی ہے مگر اس ایک شخص کو کبھی نہیں بھلا سکتی جسے اس نیلی بلی کی دو چوٹیاں پسند تھی، میری پہلی اور آخری محبت ہو روحہ تم، میرا جنون بنتی جا رہی ہو میں تم سے بہت ..........
نہیں کرتے تو مجھ سے محبت وہ اپنی چھوٹی کو چھوڑتی اپنے کانوں پہ ہاتھ رکھتی ہے ایک دم سے چلائی .تم تم ایک جھوٹے انسان اور نہایت ہی گھٹیا انسان ہو .وہ ایک دم سے اپنی جگہ سے اٹھتی آئینے میں دیکھتی کہنے لگی جیسے وہ شخص اس کے سامنے کھڑا ہوں ...وہ پیچھے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی بیڈ پر آکر بیٹھی . وہ گہرے گہرے سانس لے کے خود کو پرسکون کرے کرتے کہنے لگی ,تم بہت برے ہو آئندہ میں کبھی بھی تمہارے لیے چوٹیاں نہیں بناؤں گی ,سامنے والا شخص اس کی بات سے محفوظ ہوتا مسکرایا , میری نیلی بلی میں انتظار کروں گا جس دن تم نے ایک بار پھر یہ چھٹیاں بنائی تو سمجھنا اس دن میں تمہاری زندگی میں پھر سے لوٹ آونگا۔ ایک ایسا طوفان بن کے جو اپنی کھوئی ہوئی چیز اپنے ساتھ لے جائے گا.
وہ ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے اس شخص کو دیکھنے لگی ...تم تم نہیں آ سکتے تم دوبارہ کبھی میری زندگی میں نہیں آ سکتے , روحانیہ میر اپنی پوری زندگی میں صرف ایک شخص سے نفرت کرتی ہے اور وہ تم ہو وہ انگلی اٹھا کے سامنے اس شخص کو دیکھتی کہنے لگی .سامنے کھڑا شخص اب غائب ہوچکا تھا .وہ اپنی حالت پر قابو پاتی بیٹھ پر گرنے والے انداز میں لیٹتی اپنے بال ہاتھوں کی مٹھیوں میں پکڑتی گہرے گہرے سانس لینے لگی .دو آنسوں اس کی آنکھوں سے نکلتے کنپٹی میں جذب ہو گئے .
ابھی تو شروع ہوا تھا سفر "آنسو بے مول سے آنسو انمول تک کا" .
-----------------------------------------------------------------
وہ ابھی ابھی نماز پڑھتی، قرآن پاک کی تلاوت کر کے بیٹھ پے جا کے بیٹھی تھی۔ سفید ٹراؤزر، کالی گھٹنوں تک آتی قمیض، ساتھ میں ملٹی کلر کا دوپٹہ حجاب کی صورت میں لیے وہ بہت پرکشش لگ رہی تھی .لوگ اس کی سادگی کے دیوانے تھے .سوائے ایک انسان کے.تم ہر وقت شلوارقمیض پہنے سر پر دوپٹہ لیے رکھتی ہو کیا تمہیں الجھن نہیں ہوتی ؟.پریحہ کا کہا ہوا جملہ اس کی سماعتوں سے ٹکرایا .پریحہ ابراہیم کو جتنی محبت مہضل ابراہیم سے تھی ,اتنی ہی نفرت اسے اس کی ڈریسنگ سے ، اس کی سوچ سے تھی .
پر یہ تو صرف اللہ پاک ہی جانتا ہے کہ آگے کیا ہونے والا ہے ۔کون اپنی نفرت میں تو کون اپنے صبر میں جیتتا ہے .
-----------------------------------------------------------------
بلو جینس کے اوپر وائٹ ٹوپ پہنیں ،بالوں کا اونچا جوڑا بنا کے ,سن گلاسز آنکھوں پی لگائے ,ایک ہاتھ میں گھڑی اور دوسرے ہاتھ میں فرینڈ شپ بریسلٹ پہنے , گوری رنگت کی مالک ,ہونٹوں پہ گلابی لپسٹک لگائے وہ کسی کا بھی دل دھڑکانے کی لئے کافی تھی ...وہ دونوں یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں بیٹھی سموسہ کھانے میں مصروف تھی ,اس بات سے انجان کے درخت کی اوٹ میں کوئی ان دونوں کے ہر موو کی تصویریں لے رہا ہے .تمہارا دل نہیں کرتا پری کے تم پڑھو، آگے بڑھو ,کیا تمہارا دل نہیں دکھتا دوسروں کو آگے بڑھتے دیکھ کے , روحانیہ اسے دیکھتی کہنے لگی .پریحہ ڈشوں سے اپنے ہونٹوں کے کنارے پے لگا کیچپ صاف کرتی کہنے لگی ،اس بات سے بے خبر کے اس کی اس حرکت سے سامنے والے کا دل کتنی اسپیڈ سے دھڑکا ہوگا ۔ دکھتا ہے دل۔ نہ پڑھنے کا دکھ تو بہت ہے ،پر اتنا بھی نہیں کہ پڑھائی شروع کر دوں. وہ اپنے چہرے پر انتہا کی معصومیت لیے پھر سے اپنی پیٹ پوجا کرنے میں مصروف ہو گئی ۔جب کہ روحانیہ کا دل کیا بھری یونیورسٹی میں کوئی چیز اٹھا کر اس کے سر پر دے مارے .
-----------------------------------------------------------------
السلام علیکم امید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے .آج میں نے اپنے پہلے ناول پردہ کی ایپیسوڈ نمبر تو اپلوڈ کردی ہے آپ پڑھیں اور اپنی رائے کا اظہار ضرور کیجئے گا اور پلیز پلیز ووٹ کرنا نہ بھولیے گا .

ناول پردہ Where stories live. Discover now