مجالِ عرض تمنا کریں کیسے-قسط نمبر ۱

102 7 8
                                    

"میری غیر موجودگی کو میرے بے خبری مت سمجھنا۔۔میں پاس ہوں یاں نہ مگر میں تم سے نہ کبھی بے خبر تھا نہ ہوں اور نہ کبھی ہوں گا۔۔"اندھیرے میں کھڑا شخص شنا سہ سامعلوم ہورہا تھا۔۔مگر وہ کون تھا۔۔اس کا چہرہ دکھائی کیوں نہیں دے رہا تھا۔۔سامنے کھڑے شخص کے چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی۔۔وہ سمجھ نہیں پائی آیا اس کا لہجہ فکر مندانہ تھا یا ں پھر تنبیہی۔۔سامنے کھڑے شخص کی آنکھوں سے ابھرنے والے تاثرات بھی اس کے جذبات کی طرح پوشیدہ تھے۔۔۔گہری آنکھیں اسے خوف میں مبتلا کررہی تھیں۔۔عجیب خوف تھا جس میں نہ کوئی جان جانے کا ڈر تھا نہ عزت چھن جانے کا۔۔۔آخر پھر خوف تھا کس چیز کا۔۔؟وہ اپنے خوف کو الفاظ دینے سے قاصر تھی۔۔

اس نے نیند میں ہی تکیے کو یوں مضبوطی سے تھاما گویا تکیہ نہیں سامنے کھڑے شخص کے چہرے پر چڑھا ہوا نقاب ہو جسے وہ نوچ کر اتار پھینکنا چاہتی ہو۔۔یہ کیسا خوف تھا جو اسے ڈرا بھی رہا تھا مگر وہ وہاں سے بھاگنا بھی نہیں چاہ رہی تھی۔۔دماغ حقیقت کا متلاشی تھا اور دل۔۔دل بےخبری کی موت مرنا چاہ رہا تھا۔۔یوں جیسے کسی میجیشن کو جادو کے اصر کھو دینے کا ڈر ہوتا ہے۔۔

باہر بجلی کی کڑک نے دھونس جمانی چاہی تو بادل نے بھی گرج کر خوب مزحمت کی۔۔ یوں کہ دور فلک پر ہوی اس جنگ نے روئے زمین پر بسنے والوں میں بھی خوف و ہراس پیدا کیا تھا۔۔بجلی اور بادلوں کی مقابلہ بازی کا بڑھتاشور اس پر بھی خوف طاری کرنے لگا تھا۔۔بند آنکھوں کے باوجود بھی دور فلک پر بجلی کی چمک اسے اپنی آنکھوں کی پتلیوں پر محسوس ہوئی تھی۔۔بند آنکھوں کے پیچھے چلتے منظر کبھی اس کو تجسس تو کبھی خوف میں مبتلا کررہے تھے۔۔سامنے کھڑے شخص نے اس کو دونوں بازوں سے پکڑتے ہوئے خود کے قریب کیا تھا ۔۔تجسس ختم ہوا اور آنکھیں خوف کے مارے پھیلتی چلی گئیں۔۔اندھیرے کے باوجود بھی وہ سامنے کھڑے شخص کی آنکھوں میں خود کیلئے ابھرتی نفرت کو محسوس کرسکتی تھی۔۔

"نفرت ۔۔کیا ان آنکھوں میں اس کیلئے نفرت ہوسکتی تھی۔۔؟ ہاں نفرت کا یہی تو خاصا ہے ہر کسی کے پاس اس کا ذخیرہ ہوتا ہے۔۔ہاں وہ نفرت ہی تھی۔۔" سامنے کھڑے شخص کے ساتھ کلام کرنے کے بجائے اس نے خود کلامی کی تھی۔۔

اک بار اور بجلی کی کڑک ۔۔ بادلوں کی گرج۔۔اور سامنے کھڑے شخص کا کچھ کہنے کیلئے اس کے کان کے پاس لب لانا تھا کہ وہ اپنے منھ پر سے تکیہ ہٹاتے ہوئے ہڑبڑا کر اٹھی تھی۔۔دل کی دھڑکن کانوں میں سنائی دے رہی تھی۔۔کیا دل ابھی تک سینے کے اندر ہی تھا۔۔؟مگر اسے تو اپنی ہاتھ کی ہتھیلی پر معلوم ہورہا تھا۔۔گرمی نہ ہونے کہ باوجود بھی اس کی ہتھیلیاں بھیگی ہوئی محسوس ہورہی تھیں۔۔آنکھوں نے احتجاج کیا اور اک بار پھر بند ہونے کی کوشش کی جنہیں اس نے بند کرنے سے انکار کردیا محض اس خوف سے کہ وہ پھر سے اسے اپنے آس پاس محسوس نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔اس نے دائیں جانب کو جھکتے ہوئے سائِڈ ڈرار کھول کر سفید رنگ کی ڈیبیا نکالی اور اس کا ڈھکن کھول کر گولی ہتھیلی پر نکالنے لگی۔۔بغیر پانی کے گولی نگلنے کے بعد اس نے اک لمبی سانس اندر کھینچتے ہوئے خود کو پرسکون کیا تھا۔۔

مجالِ عرض تمنا کریں کیسےOnde as histórias ganham vida. Descobre agora