Episode 2

5 2 0
                                    


# عشق_عداوت
# قسط نمبر 2
# عمارہ نوید
انتباہ!! کاپی پیسٹ کرنا ممنوع ہے🔕

آسمانی کمرے کا فرنیچر ہلکا گلابی تھا، کمرے کے اندر ایک وسیع کمرہ تھا۔ جہاں بے تحاشا ڈریسز لٹکے ہوئے تھے۔ایک طرف شوز کی ایک الماری تھی جہاں بےتحاشا الگ تھلگ رنگ کے جوتے موجود تھے۔جن میں اکثریت ہائی ہیلز کی تھی۔

اس وقت وہ بڑے سے آئینے کے سامنے کھڑی  اپنے میک اپ کو فائنل ٹچ دے رہی تھی۔اس نے زلکفیل کا دلایا ہوا سرخ جوڑا ہی پہنا تھا۔
"آج تو پارٹی میں سب سے خابصورت مجھے ہی لگنا ہے" برش رکھ کر اس نے آئینے میں خود کو دیکھا اور بالوں کو جھٹکایا۔گولڈن اور سرخ رنگ کے امتزاج کا آئی میک اپ اور ڈیپ ریڈ کلر کی لپسٹک۔ اونچی لمبی سرخ میکسی میں ملبوس،ڈوپٹے سے بےنیاز وہ آسمان سے اتری کوئی اپسرا لگ رہی تھی۔گولڈن پنسل ہیل کو زمین پر مسلتے وہ آئینے میں دیکھ کر خود کو سرارہی تھی۔۔
"مجھ سے حسین بھی بھلا کوئی ہوگا۔۔نا" وہ  گھمنڈ سے بولی
''نا کوئی نہیں" اس نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا
کلچ پکڑ کر کمرے سے باہر نکلی اور اپنا رخ احمد عالمگیر کے کمرے کی جانب موڑ لیے۔۔
**************
آبنوسی فراک کے ساتھ میچینگ کرتے سفید کندنی جھمکے پہنے،دونوں ہاتھوں میں چوڑیاں پہنے وہ کافی پیاری لگ رہی تھی۔ اسکا پرکشش گندمی رنگ ہلکے پھلکے میک اپ کہ وجہ سے کافی خوبصورت لگ رہا تھا اسکی کشش میں اسکی بڑی بڑی آنکھیں اہم کردار نبھارہی تھیں۔
آنکھوں کو کاجل سے لبریز کیے ساتھ  نیوڈ شیڈ لپسٹک لگائے وہ تیار کھڑی تھی۔۔
"تیار ہوگئی تم؟" فرخندہ بیگم کمرے میں داخل ہوئی تو اسے دیکھا جو اس وقت خود کو آئینے میں دیکھ رہی تھی۔
"جی آنٹی! کیسی لگ رہی ہوں؟" فراک پھیلائے چہرے ہر معصوم سی مسکان سجائے اس نے پوچھا۔
"ہاں صحیح لگ رہی ہو اب جلدی جاؤ اور دھیان رکھنا کپڑے پر کسی قسم کا کوئی داغ نہ لگے۔۔" انہوں نے کڑی تہمید باندھی اور اسے جانے کا کہا جس کا جواب اس نے سر ہلا کر دیا۔
"بندہ ڈھنگ سے تعریف ہی کردیتا ہے۔۔ہنہہہ" وہ انکے جانے کے بعد بڑبرائی۔۔
***********
مجھے بھیجا تھا دنیا دیکھنے کو
میں ایک چہرے کو تکتا رہ گیا۔
ٹیبل پر بے تحاشا تصاویر بکھری ہوئیں تھیں کچھ گلاب بھی تھے جن میں سے چند سیاہ اور کچھ زرد تھے۔۔ان تمام باتوں سے بیگانی وہ اسکی تصویر پکڑے بیٹھی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
"وہ آج آرہا ہے پہلی بار میں اسے حقیقت میں دیکھونگی۔۔کیسا ہوگا وہ؟؟اسکا لہجہ۔۔اسکی آواز،اسکا اخلاق۔۔بالکل ویسہ ہی ہوگا جیسا میرا تصور ہے۔؛دل کا اچھا ،بااخلاق اور تھوڑا سا روڈ بھی ہو نا لڑکیاں اس پر مرتی ہوں مگر وہ صرف میرا ہو" وہ اسکی تصویر اپنی انگلی کے پوروں سے چھو رہی  تھی۔  آنکھوں میں محبت کی روشنی تھی۔۔
"سنو!!" اسکے پکارنے پر وہ پلٹی جو اس وقت دونوں ہونٹوں کو دبائے برقرار کھڑا تھا۔
ریگستان کی خاموش مٹی ویران آسماں ان دونوں کے دیکھ رہے وقت  بھی تھم گیا ہو جیسے۔
"مجھے تم سے محبت ہے میں تمہاری محبت میں گرفتار ہوچکا ہوں" وہ سیاہ و سفید پینٹ کوٹ والا اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوئے اسکی طرف سیاہ گلاب بڑھاتے ہوئے بولا۔
"میں دنیا کے ہر مُلک میں گھوما ہوں مگر جو سکون مجھے تمہارے پہلو اور قدموں میں ملا ہے کہیں اور حاصل نہیں ہوا ضُحٰی جلال میں تم سے گزارش  کرتا ہوں مجھ پر یہ احسان کردو میری محبت کو قبول کرلو" وہ اسکے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کو ہاتھ میں لیے التجا کررہا تھا۔اسکی آنکھوں میں محبت نمایاں تھی۔
سفید فراک پہنے جو گرم ہوا کے جھونکوں سے اڑرہا تھا۔
”حُرّ ابراہیم!! میں نے تمہاری محبت کو قبول کرلیا ۔“ وہ احسان جتاتے ہوئے بولی۔
ریگستان کی سرزمین اچانک باغ میں تبدیل ہوجاتی ہے گرم ہوا کے جھونکیں اب سرد ہوا کے جھونکیں بن چکے تھے اور آسمان سے گلاب کے پھولوں کہ برسات شروع ہوجاتی ہے۔۔
"اوہ میری ڈریمر گرل کدھر گم یو"
وہ جو خوابوں کی دنیا میں کھوئی ہوئی تھی شہلا کی آواز پر چونکی اور حقیقت کی دنیا میں آئی تو سامنے شہلا چہرے پر دبی دبی شریر مسکان  لیے کھڑی تھی۔
"اوہ شہلا باجی آپ کب آئیں" وہ کچھ شرمندہ ہوئی۔
"تب ہی جب تم ان سب میں گم تھی۔" وہ ٹیبل ہر بکھری تصاویر اور پھولوں کو دیکھ کر اسے تنگ کرتے ہوئے بولیں۔
"باجی آپ بھی نا!" خفت سے اس کے گال سرخ ہورہے تھے۔  وہ جلدی جلدی سے تصاویر اور گلاب کے پھول سمیٹنے لگی ۔
"ارے لڑکی! وہ شخص حقیقت میں آگیا ہے اور تم ابھی تک اسی کے خیالوں میں ہو" وہ ہنس کر بولیں۔
"کیا وہ آگئے۔" وہ جھٹ سے اٹھی۔اور پریشانی سے بولی۔
"ہاں آگیا ہے وہ''۔ شہلا نے اسے آگاہ کیا۔
" اوہ شٹ!" وہ ہربڑی میں آئینے کے سامنے کھڑی اپنا جائزہ لینے لگی۔
"میں ٹھیک تو لگ رہی ہوں نا؟" اس نے تسلی کے شہلا سے ہوچھا۔
"باربی ڈول لگ رہی ہو" انہوں نے اسکی تعریف کی۔
پکا نا،دیکھیں یہاں سے بیس خراب تو نہیں ہوگئی اور لپسٹک۔۔۔۔"
"ارے ارے رُکو! بہت اچھے لگ رہی کو خود کو کیوں ہائپر کررہی ہو۔۔وہم کا کوئی علاج نہیں۔۔جاؤ اب۔"وہ اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے بولیں۔
انکی بات سن کر وہ مسکرائی اور باہر کہ جانب بڑھی جب شہلا نے اسے مخاطب کیا۔
" رُکو!"
انکی آواز پر وہ پلٹی
"دیکھو ضحی جو حقیقت ہوتی ہے نا وہ خوابوں سے بہت زییادہ ڈراؤنی ہوتی ہے۔۔ضروری نہیں جیسا ہم چاہیں ویسے ہی  ہو" انہوں نے اسے سنجیدگی سے کہا۔
ضحی کے  سر سے یہ باتیں گزر گئیں اور وہ بس باہر کی طرف چل دی۔
"یااللہ! اس کے خوابوں کا شہزادہ حقیقت میں بھی ویسا ہی ہو"  انہوں نے دل سے دعا کی وہ جانتی تھیں ضجمحی کتنے نازک مزاج کی مالک ہے۔۔ہر  بات دل پر لےلیتی ہے۔
***********
"سفید رنگ کی فِراری جیسے ہی آکر رُکی وہاں موجود تمام   افراد الرٹ ہوگئے۔ہوا میں موجود شور یک دم غائب ہوگیا۔۔یوں لگا جیسے وہاں کوئی شخص موجود نہ تھا۔۔
گاڑی سے سفید یونیوفارم میں مبلوس ڈرائیور نکلا اور احترامًا پچھلی سیٹ کا دروازہ کھول کر کھڑا ہوگیا۔۔
" دیکھو تمہارے سارے اندازے غلط ہوگئے وہ آگیا ہے،اسی لیے کہتا ہوں سے تکّے مت لگایا کرو" شہریار نے مہیب کے سر لر چپت لگاتے ہوئے کہا۔جو اس کے آنے پر ناخوش تھا۔
"اگیا اٹٹیوڈ کا بھرا ہوا۔ہنہہ" منہ کے زاویے بگاڑتے وہ بولا۔
"سیاہ کُرتا پاجامہ پہنے وہ ہاتھ پر سیاہ بنڈ باندھے بالوں کو جوڑے میں مقید اور چہرے پر سنجیدگی سجائے وہ وہاں موجود ہر شخص کو ڈھیر کرچکا تھا۔
" افففف کس قدر ڈیشنگ ہے یہ۔۔" وہاں کھڑی لڑکی نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
"واقعی ڈیشنگ پرسلنٹی ہے آخر کو زیبا شاہ کا بیٹا ہے'' لوگ اسے دیکھ کر چہ مگوئیوں میں مشغول ہوگئے  تھے۔
وہ ان تمام باتوں سے بےنیاز آگے بڑھا تو اس نیوز رپورٹر کیمرہ مین سمیت اس کے سامنے آگئے۔ 
" حُرّ ابراہیم کیا یہ سچ ہے کہ آپ اب شاہ انڈسٹری کے ساتھ مل چکے ہیں کیا واقعی ترکی کی ملٹی نیشنل کمپنی "آئی۔ایچ۔زی" اب شاہ انڈسٹری کے ساتھ کام کرے گی؟؟؟ ایک لیڈی رپورٹر بنا رکے اس سے سوال پوچھنے لگی۔
"آپکو اپنے ذرائع پر شک ہے؟'' گھمبیر لہجے میں اس نے رہورٹر کو شرمندہ کیا۔
" حُرّ ابراہیم " ایک کم عمر پاکستانی لڑکے نے ترکی میں ایک ایسی صنعتی انڈسٹری قائم کی جو تمام ترکی کی اہم صنعتیں ٹیکسٹائل، لوہا اور سٹیل، کیمیکل، سیمنٹ، فوڈ پروسیسنگ، موٹر گاڑیاں، تعمیرات، شیشہ اور سیرامکس اور کان کنی کی نمائندگی کرتی ہے بہترین ہرفارمنس دیتی ہے۔۔کیا آپ بتائیں گے کہ آپکی کامیابی کا سبب کیا تھا؟؟" وہاں پر موجود ایک اور رپورٹر نے پوچھا۔اس سے پہلے وہ اس سوال کا کوئی تیکھا جواب دیتا اسکی نظر سامنے سے آتی زینا شاہ ہر پڑی۔۔
سفید کاٹن کی ساڑھی جس پر نفیس کام ہوا تھا پہنے دبلی ہتلی سی زیبا شاہ اپنی عمر سے دس سال چھوٹی لگ رہی تھیں۔ان پر نظر پڑتے ہی اس کے تصور میں اپنی ماں آگئی۔جس کے کپڑے پرانے ہوا کرتے تھے مہینے میں بمشکل وہ ایک ہی سوٹ بنوا پاتی تھی۔۔
مہینے کے آخرپر کیسے وہ پیسے بچالیتی تھی اور نا بچاپاتی تو سوکھی روٹی پانی میں ڈبو کر خود بھی کھاتی اور اسے بھی کھلاتی۔۔
عداوت بھری نگاہوں سے وہ انہیں دیکھ رہا تھا۔
”کوئی اپنا چھوڑگیا تھا۔۔" انہیں دیکھتے ہوئے وہ بولا تو زیبابیگم اس کے جملے اور نگاہوں کا مفہوم اچھی طرح سمجھ گئیں۔
"جب انسان کا کوئی بہت چاہنے والا چھوڑ کر جاتا ہے نا تو جو تکلیف ہوتی ہے نا وہی تکلیف انسان کی کامیابی کا سبب بنتی ہے،باقی بات رہی یہ رشتوں کی محبت کی اپنوں کی یہ سب صرف افسانوی باتیں ہوتی ہیں اگر انکی کوئی حقیقت ہوتی تو آج میں یوں کامیاب نا کھڑا ہوتا۔" چہرے پر دل جلادینے والی مسکراہٹ تھی۔
اسکی باتیں سن کر زیبا شاہ کو لگا انکا دل کسی نے مٹھی میں لے لیا ہو
حُرّ اب رپورٹرز میں سے راستہ بناتے اندر داخل ہوچکا تھا۔۔
زیباشاہ کے پہلو سے گزرا مگر رکا نہیں۔
زیباشاہ کی آنکھیں میں آنسو چھلک رہے تھے مگر وہ آنسو  خوشی کے نہیں تھے۔۔
******************
"شکر الحمداللہ! میں پہنچ گئی'' اسکوٹی روکتے ہوئے اس نے سامنے دیکھا تو اسکا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
" یہ گھر ہے کہ کوئی محل۔۔'' اس نے خود سے گفتگو کی۔
سامان ہاتھ میں لیے وہ اردگرد کا جائزہ لیتے اندر داخل ہوئی
انٹرنس سفید پھولوں سے سجائی گئی تھی اسے یہاں سے اندر داخل ہوتے ہوئے محسوس ہوا کہ  شاید وہ وہاں کسی ریاست کی ملکہ سے ملنے آرہی ہو۔
مسمیرائز ہوکر وہ یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔
جیسے ہی وہ اندر داخل ہوئی تو اس کی نظر یشال عالمگیر پر پڑی جو اس وقت زُلکفیل کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔
اس کو دیکھ کر وہ ٹھٹک کر رہ گئی۔
"کتنی خوبصورت ہے یہ،اس کا قد بھی کتنا اچھا ہے نا اور پیاری بھی بہت ہے" اسکو دیکھ کر اس نے سراہا۔
"ارے بیٹا تم آگئی۔۔آجاؤ!۔تم پیاری لگ رہی ہو" ابھی وہ یشال کو دیکھنے میں مگن ہی تھی جب زیبا شاہ کی آواز پر دلچونکی۔
زیبا شاہ اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے بولیں  اور پھر اسے اندر لے گئیں۔
جاتے جاتے اس نے ایک نظر پلٹ کر یشال کو دیکھا مگر کچھ بولی نہیں۔
**************##*
"احمد! یہ میں کیا سن رہا ہوں تم جہلم جارہے ہو سب خیریت تو ہے نا؟'' رفیق صاحب نے حیران ہوتے ہوئے سامان پیک کرتے احمد عالمگیر کو دیکھا جو اس وقت انتہائی جلدی میں تھے۔
" سب خیریت تو ہے نا؟'' کسی خدشے کے تحت پوچھا گیا یہ سوال غلط نا تھا۔
احمد عالمگیر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس کے قریب آئے۔
"تو سنو۔۔۔" یہ کہہ کر انہوں نے اپنی جہلم جانے کی ساری وجوہات رفیق صاحب سے شئیر کیں۔
"تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا۔۔تم شروع سے اس معصوم کے ناانصافی کرتے آرہے کو اور آج پھر تم یہی کام کرنے جارہے ہو ۔۔میں ایسا نہیں ہونے دونگا" رفیق صاحب انکی باتیں سن کر تلخ ہوئے۔
"میں اس سے نفرت مرتا ہوں، شدید نفرت!" انکے لہجے میں کڑواہٹ تھی جو خلق کو اندر تک کڑوا کردیتی تھی۔
"تمہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔" وہ سب نفی میں سر ہلاتے وہ گئے۔
**************
"میم کے لیے جوس لائیے۔۔" زیبا شاہ نے ویٹر کو آرڈر دیا اور پھر سامنے کھڑی دراب کی طرف متوجہ ہوئیں۔"بہت سوٹ کررہا ہے یہ مشرقی لباس تم پر" انہوں نے سر تا پاؤں اسجا جائزہ لیتے ہوئے دل سے کہا۔
"آنٹی آپکی محبت ہے یہ سب" وہ انگلیاں مڑورتے ہوئے بولہ۔
"دیکھا دیکھا کتنا مغرور ہے میں تو پہلے ہی بولا تھا"  مہیب نےشہریار کے کان میں سرگوشی کی۔ اس وقت یہ تینوں گھر کے اندر ہال میں موجود تھے جبکہ مہمان باہر لان میں۔
"تم چپ کرو۔" شہریار نے اسے آہستگی سے ڈپٹا اور دو قدم آگے بڑھا۔
"حُرّ بھائی!اگر آپ تھک چکے ہیں تو تھوڑا سا ریست کرلیں۔ " شہریار نے اسے مخاطب کیا مگر دوسری جانب حُرّ ابراہیم تھا جس نے سن کر بھی ان سنا کردیا اور موبائل میں ہی مگن رہا۔
"اچھا چلیں میں آپ کے لیے جوس لاتا ہوں۔
" یہ لو جوس آگیا پکڑو" زیبا شاہ نے مسکراتے ہوئے ویٹر کو اپنے قدیب آتے دیکھا تو  دراب نے بھی اس جانب نظریں دوڑائیں۔
ویٹر جیسے ہی قریب آیا اسکا پاؤں کسی وجہ سے سلپ ہوا اور ٹرے میں موجود جوس کا گلاس دراب کے اوپر گرگیا۔
"اوہ دراب تم ٹھیک تو ہو نا؟''
یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ زیبا شاہ کو سمجھ ہی نہیں آیا کہ کیا کیا جائے۔
" آنٹی۔میں تو بالکل ٹھیک ہوں مگر یہ ڈریس" اس نے ڈریس کی  طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
''اوہ کوئی مسئلہ  نہیں اوپر سے لفٹ میرا روم ہے واش روم میں ڈرائیر ہے تم وہ استعمال کرسکتی ہو
" اسکی پریشانی کا حل انہوں نے یوں چٹکی میں نکالا۔
"جی اچھا!'' یہ کہتے ہوئے وہ اندر کہ طرف بڑھ گئی۔
" یہ لیں حُرّ بھائی جوس پیے! جوس کا گلاس اسکی طرف بڑھاتے ہوئے وہ بولا۔
جیسے ہی اس نے جوس کا گلاس تھاما اور لبوں سے لگایا۔
ضحی اپنی ہی دُھن میں مگن نیچے آئی اور اسکا ٹھکراؤ اس سے ہوگیا اور سارا کا سارا جوس اسکے کپڑوں پر گرگیا۔
"اوہ نو!آئی ایم رئیلی سوری" دونوں ہاتھ منہ پر رکھے حیران پریشان سی ضحی نے کہا۔
"روم کہاں ہے؟'' بغیر کچھ کہے گھمبیر لہجے میں اس نے شیریار سے کہا۔
" اوپر سے آپکے رائٹ! " شہریار نے جواب دیا۔
وہ بغیر کچھ کہے ایک مظر ضحی پر ڈالے جو شرمندہ کھڑی تھی سیڑھیوں کی طرف چل دیا۔

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Oct 19, 2022 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

عشق عداوت از عمارہ نویدWhere stories live. Discover now