قسط:۱

73 3 0
                                    

زندگی تیری ہی خاطر ہم جیے جا رہے ہیں
لمحوں کا تو سفر ہے سو طے کیے جا رہے ہیں
مسافتیں کٹھن ہیں اور کوئی گلہ ہو ایسا بھی نہیں
بس گرتے جا رہے ہیں اور بڑھتے جا رہے ہیں

لیکن وقت کی ریت ہاتھوں سے
بے دردی سے پھسل رہی ہے
منزل بھی تو ایسے ہی
قریب آ کر بکھر رہی ہے

جہاں بھیڑ بھی کبھی اک ساتھی تھی
وہاں تنہائی بھی خود کو ڈھونڈ رہی ہے
اب اور کیا کہیں اے زندگی!
تو بس ہاتھوں سے چھوٹ رہی ہے
~ماہی

موسمِ سرما کی آمد آمد تھی اور رات کے گہرے سائے سارے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے چکے تھے۔چاند کی روشنی رات کی اس دہشت کو کم کرنے کے لیے ناکافی تھی۔
وقفے وقفے سے ہوا ماحول پر چھائی خاموشی میں خلل پیدا کرتی جس سے درختوں کے پتے پھڑپھڑاتے اور ماحول میں چھائے سکوت کو کچھ پل کے لیے توڑتے اور پھر سے خاموشی اپنا ڈیرہ جما لیتی اور یقیناً اس کھیل نے صبح کی کرن پھوٹنے پر ہی دم توڑنا تھا۔

رات کے باعث سڑک پر اکا دکا ہی گاڑیاں نظر آتی تھیں اور چونکہ یہ علاقہ شہر سے ذرا ہٹ کر تھا اسی لیے یہاں پر زیادہ سناٹا چھایا ہوا تھا۔گاڑی کی رفتار معمولی تھی جبکہ اُس میں بیٹھا ہوا شخص قدرے تھکا ہوا معلوم ہو رہا تھا۔سفید پوری آستین کی شرٹ کے بازوؤں کو اس نے کہنیوں تک فولڈ کیا ہوا تھا جبکہ شرٹ کے اوپری دو بٹن کھلے ہوئے تھے۔کوٹ اُس کا ساتھ والی سیٹ پر پڑا تھا۔

وہ گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا جب سامنے سے اچانک ایک گاڑی اس کے سامنے آکر رکی تھی۔اس نے فوراً سے بریک لگائی اور گاڑی ایک جھٹکے سے رکی۔
اُس کی پیشانی پر شکنیں واضع ہونے لگیں۔سامنے والی گاڑی کی ہڈلائیٹس کافی تیز تھیں جس کے باعث وہ گاڑی میں بیٹھے نفس کو نہیں دیکھ پایا تھا۔

کچھ دیر کے وقفے کے بعد سامنے والی گاڑی کا دروازہ کھلا اور ایک آدمی اُس میں سے باہر نکلا۔ہیڈلائیٹس ہنوز چل رہی تھیں۔
وہ بھی غصے سے گاڑی سے باہر نکلا اور توقع کے عین مطابق سامنے موجود ہستی کو دیکھ کر اُس کی رگیں مزید واضع ہوئیں۔

"تمہاری ہمت کیسے ہوئی یوں میرا راستہ روکنے کی؟"اُس کے لہجے میں غُصہ واضع تھا جبکہ سامنے کھڑا شخص اُس کی بات سن کر مسکرا دیا۔چند قدم کا جو ان کے درمیان فاصلہ تھا وہ اُسے مٹائے آگے بڑھا اور بالکل اُس کے سامنے کھڑا ہوگیا۔

"ہمت تو ہم میں اور بھی بہت کچھ کرنی کی ہے خانزادے! لیکن۔۔۔"اُس نے دل جلا دینے والے انداز میں کہا اور جملہ ادھورا چھوڑ دیا جبکہ اُس کی بات سن کر اُس نے غصے سے اُس کا گریبان پکڑا۔

"اپنی حد میں رہو ورنہ تمہاری زبان کاٹنے میں مجھے زیادہ وقت نہیں لگے گا۔۔۔"اُسے جھٹکا دیتے اُس نے ایک ایک لفظ غرا کر کہا تھا جبکہ سامنے کھڑا شخص ہنوز مسکرا رہا تھا یوں جیسے اُسے اس حالت میں دیکھ کر اُسے دلی سکون مل رہا ہو۔

ربطِ تغافل از:ماہیWhere stories live. Discover now