قسط:۶

13 2 0
                                    

ملازمہ نے اُسے حویلی کا ایک ایک کونا دکھایا تھا۔حویلی پرانے طرز سے ہی بنائی گئی تھی جو کہ اسے مزید پرکشش بنا رہی تھیں۔
"آپ یہاں میرا انتظار کیجیۓ میں انیکسی کی چابی لے کر آتی ہوں۔۔۔"پچھلی طرف سے حویلی سے باہر نکل کر ایک لمبی روِش پار کر کے سائڈ پر انیکسی بنائی گئی تھی جہاں مزید مہمانوں کے ٹہرنے کے لیے الگ سے کمرے بھی تعمیر کروائے گئے تھے۔
اُس نے اثبات میں سر ہلایا تو ملازمہ بھاگی بھاگی اندر کی جانب بڑھ گئی اور وہ وہیں ٹہلنے لگی۔
اسی روِش کے آخر پر ایک دروازہ تھا جو گاؤں کی سڑک پر کھلتا تھا۔وہ یونہی ٹہل رہی تھی جب پھر سے وہی شخص سنجیدہ تاثرات لیے اندر داخل ہو رہا تھا۔
اُسے یہاں ٹہلتا دیکھ کر اُس کی پیشانی پر شکنیں پڑی تھیں۔
"یہاں پر کیا کر رہی ہیں آپ؟"اُس نے گمبھیر لہجے میں سوال کیا۔اُس کی پیشانی پر کافی شکنیں پڑی تھیں کیوں کہ کسی بھی غیر کو اس حصے میں آنے کی اجازت نہیں تھی۔
"وہ چابی لینے گئی ہے میڈ اور مجھے یہاں انتظار کرنے کا کہا ہے۔۔۔۔"اُس نے فوراً سے وضاحت دی تو اُس نے سختی سے جبڑے بھینچے۔
"محترمہ یہ آپ کی جاگیر نہیں ہے کہ آپ یہاں پر سر عام ٹہلتی پھریں۔"
"لیکن میں نے بڑی بی سے اجازت لی تھی۔۔۔"اُس نے فوراً سے دلیل دینا چاہی اور اس سے پہلے وہ کچھ اور کہتا ملازمہ جس تیزی سے گئی تھی اُسے تیزی سے ہاتھ میں چابیاں پکڑے آئی لیکن سامنے اُسے کھڑا دیکھ کر اُس کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔
"کیا ہورہاہے یہ سب؟"اب کی بار اُس نے سختی سے ملازمہ سے سوال کیا تھا جو خوف کے مارے کچھ بھی نہیں کہہ پائی۔
"اندر جائیں۔۔۔"وہ پشمينہ سے مخاطب ہوا۔
"لیکن۔۔۔"اس سے پہلے وہ کچھ اور کہتی وہ غصے سے غرایا تھا۔
"ایک بار سنائی نہیں دیتا؟اندر جائیں۔۔۔"اُس کی دھاڑ پر وہ جھٹکے سے ایک قدم پیچھے ہوئی تھی اور اس کی آنکھوں میں نمی در آئی۔
"غازان خان!"پیچھے سے ایک رعب دار آواز آئی تھی جس پر ان تینوں نے اُس جانب دیکھا تھا اور پشمینہ دیکھتے ہی اندازہ لگا چکی تھی کہ وہ اس حویلی کے سردار اور بڑی بی کے والد ہیں۔
اس سے پہلے مزید کوئی بات ہوتی،وہ تیزی سے اُن کے پاس سے گزر کر اندر کی جانب بڑھ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں اس وقت ازمیر خان کے کمرے میں بیٹھے تھے۔
"کیا مسئلہ ہے آپ کے ساتھ؟ہمیں کھل کر بتائیں۔۔۔"انہوں نے بغیر تمہید کے بات کا آغاز کیا جبکہ دراب نے ناسمجھی سے اُن کی جانب دیکھا۔
"کس بارے میں؟"وہ سوال پوچھے بنا نہیں رہ پایا۔
"بھابھی نے ہمیں آپ کی شرط کے بارے میں بتایا ہے۔۔اور ہم جاننا چاہتے ہیں کہ آخر آپ کے لیے وہ مناسب وقت کب آئے گا؟"اُن کا لہجہ کافی حد تک اسپاٹ تھا جبکہ دراب نے گہرا سانس بھر کر صوفے کی پشت سے ٹیک لگائی۔
"آپ یہی چاہتے تھے کہ میں مان جاؤں،تو میں مان گیا ہوں لیکن ابھی۔۔۔۔"
"تو پھر کب دراب؟"وہ اب کی بار درشتگی سے اُس کا جملہ کاٹے دھاڑے تھے "ستائیس سال گزر گئے اب تک تو آپ فیصلہ نہیں کر پائے ہیں۔اب اور کتنا وقت چاہیے آپ کو؟کیا قسم اٹھا رکھی ہے آپ نے کہ اپنے باپ کو تنگ کرنا ہے؟بس کر دیں اب،بہت ہوگیا۔ہم نے پہلے بھی کہا تھا کہ اب سارے فیصلے ہم خود کریں گے اور پھر ہم سے گلہ مت کیجیے گا،وقت دیا تھا آپ کو لیکن آپ نے کیا کیا؟کچھ بھی نہیں،تو اب تمام فیصلے ہم ہی کریں گے۔۔"آخر میں اُن کی آواز غصے سے کانپی تھی۔
"بابا۔۔۔۔"
"کیا بابا؟اب اور کیا ہاں؟اور کتنا میری اذیتوں میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں؟آپ کیوں نہیں چاہتے کہ کم از کم ہم چین سے مر ہی سکیں۔۔۔۔۔"
"پلیز بابا ایسے مت کہیں۔۔۔۔"اُس نے فوراً سے ان کا جملہ کاٹا تھا۔"میری بھی تو مجبوری کو سمجھنے کی کوشش کریں۔۔۔"
"کیا مجبوری ہے آپ کی؟تفصیل سے بتائیں تاکہ ہمیں بھی اندازہ ہوسکے کہ اس سب کی وجہ کیا ہے۔۔۔"ان کا لہجہ سرد تھا جبکہ دراب نے سختی سے اپنے جبڑے بھینچے۔
"کوئی جواب نہیں ہے آپ کے پاس،ٹھیک ہے۔۔۔"پل بھر کو وہ خاموش ہوئے"ہمارے دوست کی بیٹی ہے ہمیں وہ آپ کے لیے پسند ہے۔آج ہم اس سے بات کریں گے اور آپ بھی اپنے ذہن کو تیار کر لیجیۓ۔۔اسی ہفتے آپ کا نکاح ہوگا۔۔۔"وہ تو جیسے تمام فیصلے ہی کیے بیٹھے تھے جبکہ دراب نے چونک کر ان کی جانب دیکھا۔
"آپ ایسا نہیں کر سکتے بابا!!!"ضبط کی انتہا تھی۔
"ہم ایسا کر سکتے ہیں کیوں کہ آپ اولاد ہیں ہماری۔۔۔۔"انہوں نے بھی سرد لہجے میں جواب دیا تو اُس نے اپنی آنکھیں میچے خود پر ضبط کرنے کی ناکام سی کوشش کی تھی۔
"تو کیا آپ یہ جانتے ہوئے بھی میرا نکاح کروانا چاہیں گے کہ میرا نکاح پہلے ہی ہو چکا ہے؟"ضبط کے باوجود بھی وہ ان الفاظ کو نہیں روک سکا تھا جبکہ ازمیر خان نے پیشانی پر بے شمار بل ڈالے اُس کی جانب دیکھا جو بغیر کسی تاثر کے بیٹھا انہیں ہی دیکھ رہا تھا۔
"میں سچ کہہ رہا ہوں بابا!!
میرا نکاح ہو چکا ہے۔۔۔۔"انہوں نے بے یقینی سے اُس کی جانب دیکھا جس کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ سچ کہہ رہا ہے۔
اور پھر بغیر سوچے سمجھے وہ اٹھے اور اُس کے منہ پر تھپڑ مارا۔اس نے بے یقینی سے اُن جو جانب دیکھا جبکہ ہر سو سناٹا چھا چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تربیت کی ہے ہم نے آپ کی؟"وہ غصے سے دھاڑے تھے جبکہ ان کی آواز اس بار پہلے سے قدرے اونچی ہوئی تھی۔
ان کی دھاڑ سن کر باہر موجود سب لوگ ان کے کمرے میں آئے تھے اور سامنے کا منظر دیکھ کر سب کو بات کی سنگینی کا اندازہ ہو رہا تھا۔دراب سر جھکائے صوفے پر بیٹھا تھا اور اُس کا چہرہ لال ہورہا تھا جبکہ ازمیر خان سخت تاثرات لیے اُس کے سامنے کھڑے تھے۔
"کیا ہوا ہے ازمیر؟اتنا غُصہ کیوں کر رہے ہیں آپ؟"دا جی نے اُنہیں ٹوکا تھا،کہیں دل نے دعا کی کہ جیسا وہ سوچ رہے ہیں ویسا نہ ہوا ہو۔
"دا جی آپ نہیں جانتے کہ آپ کے صاحب زادے نے کیا کارنامہ انجام دیا ہے۔خاندان کی عزت اور روایات کے متعلق ایک بار بھی نہیں سوچا ان نے۔۔۔"شدید غصے سے ان کی آواز کانپ رہی تھی۔ان کے اس طرح کہنے پر سب نے بے یقینی جبکہ دا جی نے خفگی سے اس کی جانب دیکھا جو سر جھکائے بیٹھا تھا۔
"ازمیر کیا کہہ رہے ہیں،دراب؟"بی جان نے سنجیدگی سے اُسے مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا لیکن وہ خاموش ہی رہا۔ضبط سے اُس کی رگیں واضع ہو رہی تھیں۔
"بتائیں دراب! کیا کارنامہ انجام دے کر آئے ہیں آپ۔۔۔" ازمیر خان نے طنز کیا تھا۔باقی بچے خاموشی سے کھڑے حیران پریشان کھڑے سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ہوا کیا ہے۔انہوں نے اپنے حواس میں آکر ازمیر خان کو اس حد تک غصے میں نہیں دیکھا تھا۔
"بھائی صاحب ہوا کیا ہے،بتائیں تو سہی؟"دراب کی جانب سے مکمل خاموشی پا کر روحیب خان نے بے چینی سے ازمیر کہاں سے سوال کیا۔
"نکاح کر چکے ہیں آپ کے بھتیجے صاحب!"انہوں نے غصے سے دراب کی جانب دیکھا پھر ان سب کی جانب جو حیرت و بيقینی سے ان کی جانب متوجہ تھے۔
دا جی نے خفگی سے اُس کی جانب دیکھا اور بیڈ پر بیٹھ گئے۔انہیں دراب سے اس بات کی امید نہیں تھی۔
"جب ہم نے آپ سے آپ کی رضامندی کا پوچھا تھا تو تب بھی تو آپ ہمیں اپنی پسند بتا سکتے تھے۔۔۔یہ انتہائی قدم اٹھانے کی ضرورت کیا تھی؟"اب کی بار وہ پھر غصے سے دھاڑے تھے لیکن وہ ہنوز ویسے ہی خاموش بیٹھا رہا۔روحیب خان نے ازمیر خان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اُنہیں ہلکا کرنا چاہا۔
"تو آپ کے شادی سے انکار کی وجہ یہ تھی اور ہم سمجھتے رہے کہ۔۔۔"بی جان نے افسوس سے کہا اور آخر میں جملہ ادھورا چھوڑ دیا کیوں کہ اگر وہ گتھی بند ہی تھی تو اُسے بند ہی رہنے دینا چاہیے تھا۔وہ اب بھی خاموش ہی رہا اور اُس کی خاموشی ازمیر خان کو مزید غُصہ دلا رہی تھی۔
"اس سے کہیں ہماری نظروں سے دور ہوجائے،نکل جائے ہمارے کمرے سے۔۔۔"ان کا لہجہ اب بھی سخت ہی تھا۔وہ تیزی سے اٹھا اور بغیر کسی کی جانب دیکھے کمرے سے باہر نکل گیا جبکہ پیچھے سب یونہی کھڑے رہ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج اُن لوگوں کی اسلام آباد واپسی تھی اور وہ نکلنے کی تیاری کر رہے تھے۔سارا سامان ملازم پہلے ہی باہر لے جا چکے تھے۔
ان دونوں کا رخ اب بڑی بیگم کے کمرے کی جانب تھا۔دروازہ دھیرے سے کھٹکھٹایا لیکن اندر سے کوئی جواب نہیں آیا۔ملازمہ ہاتھ میں ٹرے تھامے بڑی بیگم کے کمرے کی جانب ہی آرہی تھی اور ان دونوں کو باہر کھڑا دیکھ کر مسکرائی اور دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی۔یہ ان کی ذاتی خادمہ تھا اور اُسے بغیر اجازت کے اندر داخل ہونے کی اجازت تھی۔
وہ بھی اُس کے پیچھے اندر داخل ہوئی تھیں۔بڑی بیگم بیڈ کی پشت سے ٹیک لگائے آنکھیں موندے بیٹھی تھیں جبکہ اُن کی انگلی میں موجود تسبیح کے دانے منجمد تھے۔شاید وہ سو رہی تھیں،وہ دونوں یہی اندازہ لگا پائیں۔
ملازمہ نے ٹرے سائڈ پر رکھی اور دھیرے سے اُنہیں مخاطب کیا لیکن اُن میں کوئی حرکت محسوس نہ ہوئی۔
اُس نے ایک بار پھر سے اُنہیں پکارا،نتیجہ ہنوز ویسا ہی تھا۔ایسا تو کبھی نہیں ہوا تھا۔اُس کی پریشانی بے چینی میں تبدیل ہوئی۔
بیڈ سے ڈھلکا ہوا بازو اٹھا کر اُس نے اوپر رکھنا چاہا لیکن وه بےجان وجود کی طرح پھر سے ڈھلک کر نیچے گر گیا۔
وہ دونوں پریشانی سے کھڑی ان کو دیکھ رہی تھیں لیکن ان کا ڈھلکتا بازو دیکھ کر وہ بیساختہ دو قدم پیچھے ہوئیں۔
ملازمہ باہر کی جانب تیزی سے بھاگی اور وہ اُسے زین کے ساتھ کھڑا ہوا نظر آگیا۔
"چھوٹے خان،چھوٹے خان۔۔۔بڑی بیگم کو کچھ ہوگیا ہے۔وہ آنکھیں نہیں کھول رہی ہیں۔۔۔"اُس کا لہجہ گھبرایا ہوا لگ رہا تھا جبکہ یہ سننے کی دیر تھی کہ غازان خان تیزی سے اندر کی جانب بھاگا اور ان کے کمرے کی جانب بڑھا جہاں وہ بے سد سی بیڈ پر لیٹی تھیں اور ان کے ساتھ وہ دونوں بھی کھڑی تھیں۔
"مور۔۔۔مور۔۔۔"اُس نے اُن کا چہرہ تھپتھپایا لیکن کوئی حرکت محسوس نہیں ہوئی۔
"ارسم سے کہو گاڑی نکالے۔۔۔"وہ چلایا تھا اور اُنہیں اپنے مضبوط بازوؤں میں اٹھا کر باہر کی جانب بڑھا۔ملازم اُسے آتا دیکھ کر نظریں جھکا گئے کیوں کہ اس وقت بڑی بیگم کی چادر ان کے پاس نہیں تھی۔
وہ تیزی سے چلتا گاڑی تک آیا اور انہیں احتیاط سے پیچھے لٹایا اور اس سے پہلے وہ گاڑی کا دروازہ بند کرتا پشمینہ فوراً سے اُس جانب آئی۔
"میں بھی ساتھ آنا چاہتی ہوں۔۔۔"اُس نے کہا اور وہ کوئی بھی جواب دیے بغیر دروازہ کھولے گاڑی میں بیٹھ گیا۔
پشمینہ بھی جلدی سے گاڑی میں بیٹھی تھی جبکہ زین اور دانین ڈرائیور کے ساتھ تھے۔
"دا جی،مور کی طبیعت خراب ہوگئی ہے ہم ہسپتال جا رہے ہیں۔۔۔"گاڑی کو تیزی سے ریورس کرتے اُس نے دا جی کو فون ملایا اور انہیں اطلاع دی اور ہسپتال کا بتا کر فون رکھ دیا۔
وہ تیزی سے گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا اور وقفے وقفے سے پلٹ کر اُن کی جانب بھی دیکھتا تھا جو بے سد لیٹی تھیں۔

گاڑی ہسپتال کے آگے جا کر رکی تھی اور انہیں ایمرجنسی میں لے جایا گیا۔وہ منتظر سا وارڈ کے باہر ادھر اُدھر ٹہل رہا تھا جبکہ پشمینہ بھی پریشانی سے وہاں موجود کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھی ہوئی تھی۔دانين اور زین بھی پہنچ چکے تھے۔
سامنے سے دا جی آتے ہوئے دکھائی دیے تو وہ رکا۔وہ تیزی سے چلتے ان کی جانب آرہے تھے۔ان کے پیچھے دو تین آدمی اور بھی تھے۔
"زموږ لور څه شوه؟(ہماری بیٹی کو کیا ہوا ہے؟)"انہوں نے بےچینی سے سوال کیا تھا جبکہ اُن کے چہرے پر پریشانی واضع تھی۔پشمینہ نے پلکے اٹھائے اُن کی جانب دیکھا جو پریشانی سے سامنے کھڑے لڑکے سے پشتو میں بات کر رہے تھے۔
"پتا نہیں دا جی۔ابھی تک ڈاکٹرز نے کچھ نہیں بتایا ہے۔۔۔"اُس نے جواب دیا تو دا جی نے ضبط سے اپنی آنکھیں میچیں۔
"که دوی ته یو څه پیښ شي، موږ به څنګه ژوند وکړو؟دا ځل موږ نشو زغملای چې جلا واوسو۔۔۔"
(ان کو کچھ ہو گیا تو ہم کیسے جییں گے؟اس بار ہم جدائی برداشت نہیں کر سکتے)
ان کا لہجہ قدرے تھکا ہوا تھا جبکہ پشمینہ کی آنکھوں میں نمی در آئی۔
جدائی واقعی بہت اذیت ناک ہوتی ہے اور یہ بھلا اس سے بہتر اور کون جان سکتا تھا؟
"آپ پریشان مت ہوں دا جی! مور ٹھیک ہو جائیں گی۔آپ بیٹھیں۔۔۔"اُس نے اُنہیں تسلی دی اور انہیں سہارا دیے کرسیوں تک لایا۔وہ خاموشی سے بیٹھ گئے جبکہ ان کی آنکھوں میں نمی واضع تھی۔وہ خود کو بہت بے بس محسوس کر رہے تھے۔
"آپ دعا کریں،وہ ٹھیک ہو جائیں گی۔کیوں کہ مخلص دلوں سے کی گئی دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں اور اگر والدین اپنی اولاد کے لیے دعا کریں تو وہ کبھی رد نہیں کی جاتی۔۔۔"اپنے قریب سے اُنہیں ایک نسوانی آواز سنائی دی۔ان نے چہرہ موڑے اپنے ساتھ بیٹھی لڑکی کی جانب دیکھا جو مسکراتے ہوئے آنکھوں میں نمی لیے انہیں کی جانب دیکھ رہی تھی۔
بس کچھ سیکنڈز لگے تھے اُنہیں اس کو پہچاننے میں،اور وہ بھلا اُسے کیسے نہ پہچانتے؟وہ ہوبہو اپنے باپ جیسی تھی۔وہ کچھ پل یونہی اُسے دیکھے گئے اور پھر چہرہ پھیر لیا۔
کیا کچھ یاد نہیں آیا تھا اُنہیں۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Mar 04, 2023 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

ربطِ تغافل از:ماہیWhere stories live. Discover now