نون

25 0 0
                                    

"زین، اب چپ بھی کر جاؤ۔ ہر وقت ہی لڑکیوں کی طرح روتا رہتا ہے یہ لڑکا تو۔" زین کی امی، فضیلہ نے گود میں بیٹھے زین کو چپ کرواتے ہوئے تنگ آ کر کہا پر ان کی گود میں بیٹھے چھ سالہ زین نے نہ ان کی بات کا کوئی نوٹس لیا اور نہ ان کے تنگ ہونے کا اور پوری محنت سے اپنا کام سر انجام دیتا رہا۔ رونا اور خوب زور زور سے رونا اس کا کام ہی تو تھا، جو وہ اپنی پیدائش سے اب تک کامیابی سے کرتا آ رہا تھا۔ اس وقت ان کے اردگرد کچھ اور بچے بھی پریشانی میں کھڑے روتُو زین کو دیکھ رہے تھے۔ ان کی پریشانی بھی بجا تھی۔ ارے بھئی اب اگر بھاگتے ہوئے زین کو فارس نے باقی سب بچوں سے پہلے پکڑ لیا تھا تو اس میں رونے کی کیا بات تھی بھلا؟ فارس کا چھوٹا بھائی، چار سالہ سمیر بھی پاس کھڑا غور سے اس صورتحال کا جائزہ لے رہا تھا۔ آج تک تو اس کو بھی نہیں پتا تھا کہ اس بات پر بھی رویا جاتا ہے۔ آخر پورے سات منٹ گزرنے کے بعد زین کی آہ و بکا بند ہوئی تو فضیلہ نے اسے اپنی گود سے اٹھایا اور خود بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔ یقیناً سارے بچوں نے بھی سکھ کا سانس لیا ہو گا۔ "شاباش زین بیٹا، ایسے چھوٹی چھوٹی باتوں پر روتے تھوڑی ہیں۔ اور آپ تو بہادر ہو نا؟" فضیلہ نے زین کے آنسو صاف کرتے ہوئے اسے ایک اور بار سمجھانے کی کوشش کی۔ جواب میں زین نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ "چلو اب آپ لوگ کھیلو اچھے بچوں کی طرح اور اب مجھے کسی کی آواز نہ آئے اندر۔" فضیلہ نے سب بچوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور اندر گھر کی طرف چل دیں۔
"میں تو اب نہیں کھیل رہا اس روتُو زین کے ساتھ۔" فارس نے منہ بناتے ہوئے حارث اور باسط سے کہا۔
"ہاں زین ، ہم اب نہیں کھلا رہے تمہیں اپنے ساتھ۔ اب دوبارہ کسی بات پر رو دو گے تم تو۔" آٹھ سالہ باسط نے کہا۔ باسط کے جڑواں بھائی حارث نے بھی اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اس کی تائید کی ہی تھی کہ زین کی آنکھوں میں دوبارہ آنسو بھرنے لگے جنہیں دیکھ کر سب پھر پریشان ہو گئے۔
"زین۔۔۔۔زین۔۔۔۔ تم چھوڑو ان سب کو۔ ہم دونوں ساتھ میں کھیلتے ہیں۔ اب بس رونا مت تم۔" سات سالہ سارہ نے آگے بڑھتے ہوئے فوراً سے کہا۔ اس کی بات سن کر جہاں زین نے رونے کا ارادہ ترک کیا وہیں باقی سب کا بھی سانس بحال ہوا۔ اب اس سے پہلے کہ زین کو رونے کی کوئی اور وجہ ملتی، سب اس کے پاس سے فوراً بھاگے تھے۔ اب صرف سارہ ہی وہاں کھڑی تھی، اس نے مسکرا کے زین کو دیکھا تو زین نے اپنی لمبی لمبی پلکیں جھپکائیں۔ اگر اس میں یہ بات بات پر رونے والی عادت نہ ہوتی تو اپنی خوبصورتی اور سادگی سے وہ ساروں کے دل موہ سکتا تھا۔
"اب بتاؤ، تمہیں کون سا کھیل پسند ہے۔ ہم وہی کھیل کھیلیں گے۔" سارہ نے زین سے پوچھا۔ زین خوش ہو کر سوچنے لگا۔
"مجھے۔۔۔۔ مجھے ۔۔۔۔" اس نے سوچنے کی کوشش تو کی پر اس کے زہن نے اسے اس کا پسندیدہ کھیل بتایا ہی نہیں۔ بدتمیز دماغ۔ زین نے بہت دیر تک سوچنے کے بعد بھی کوئی جواب نہ دیا تو سارہ خود ہی بولی "اگر تم چاہو تو ہم اندر جا کر کھلونوں کے ساتھ بھی کھیل سکتے ہیں۔" زین کو یہ آئیڈیا اچھا لگا تھا، اس نے فوراً ہی مسکراتے ہوئے سر ہلایا۔ "ہاں چلو چلو" کہتے ہوئے وہ اندر گھر کی طرف بھاگا۔ سارہ نے ایک نظر پیچھے مڑ کر دوسرے بچوں کو ساتھ کھیلتے دیکھا اور پھر وہ بھی زین کے پیچھے بھاگتی ہوئی اس کے کمرے تک پہنچ گئی۔ اب اسے صرف زین کا کمرہ نہیں کہا جا سکتا۔ وہ سب بچے ہر سال کی طرح اس بار بھی اپنی فیملی سمیت اپنے دادا کے گھر گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے آئے ہوئے تھے۔
خاور اور حلیمہ کے چار بیٹے تھے، ضیاف، قادر، جاوید اور فہاد۔ ضیاف ان میں سب سے بڑا تھا۔  اس کی بیوی کا نام سلمہ تھا. ان کے تین بچے تھے، حارث اور باسط, جو کہ جڑواں تھے پر دیکھنے میں ایک جیسے نہیں لگتے تھے، اور ان کی چھوٹی بہن ہادیہ۔
دوسرا بیٹا قادر تھا، اس کی بیوی شازیہ اور دو بیٹے فارس اور سمیر تھے۔
تیسرے نمبر پر جاوید کی فیملی آتی تھی جس میں چار ہی لوگ تھے، جاوید ، فضیلہ، زین اور تانیہ۔
فہاد کی شادی لائبہ سے ہوئی تھی۔ ان کی بیٹی، سارہ جو پیدا ہوئے تین سال گزرے تھے کہ لائبہ کا انتقال ہو گیا اور سارہ اپنے دادا دادی کے ساتھ ہی رہنے لگی۔ سارہ پانچ سال کی ہوئی تو فہاد نے خاور اور حلیمہ کے بار بار کہنے پر دوسری شادی کر لی۔ فائزہ ایک ورکنگ وومن تھی۔ اس کے ابو کا اپنا بزنس تھا۔ اسے فہاد کی بیٹی ہونے سے کوئی مسئلہ نہ تھا مگر اس نے کبھی نہ گھر پر اتنی توجہ دی اور نہ سارہ پر۔ خود فہاد بھی لائبہ کی جدائی کے غم سے سنبھل نہیں پا رہا تھا کہ فائزہ کی توجہ گھر اور اپنی بیٹی کی طرف دلاتا اور یوں سارہ دونوں ماں باپ کے ہوتے ہوئے اکیلے زندگی گزار رہی تھی۔
خاور اور حلیمہ کے چاروں بیٹے کراچی میں رہتے تھے جب کہ ان کا اپنا گھر حیدرآباد میں تھا جو کہ کافی بڑا تھا اور ہر سال ان کے بیٹے اپنے گھر والوں سمیت وہاں گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے آتے تھے۔ اف۔۔۔ تو ہم بات کر رہے تھے زین کے کمرے کی جو کہ سب لڑکوں کا کمرہ تھا یعنی خاور صاحب کے سارے پوتے اسی کمرے میں رہ رہے تھے۔ اسی طرح لڑکیوں کا الگ کمرہ تھا جہاں ان کا سامان اور کپڑے وغیرہ پڑے رہتے تھے۔

"تمہیں اپنا نام لکھنا آتا ہے زین؟" سارہ اور زین کھلونوں سے کھیلنے کے بعد اب کاپیوں میں 'آرٹ' بنانے میں مصروف تھے جب سارہ نے زین سے پوچھا۔
"ہاں۔۔۔ آتا ہے نا۔" زین نے مزے سے کہا۔
"اچھا بتاؤ پھر کیسے لکھتے ہیں زین؟" سارہ نے چیلنج کیا۔
"مجھے آتا ہے۔" زین دوبارہ بولا۔
"تو بتاؤ بھی۔" سارہ نے بھی اسے ایسے نہیں چھوڑ دینا تھا۔
زین بولنے لگا "پہلے لکھتے ہیں ز، پھر ی۔۔۔۔۔ پھر۔۔۔۔ غون۔" غون، وہ کیا ہوتا ہے بھلا، سارہ حیران ہوئی۔
"دوبارہ بتاؤ، ی کے بعد کیا لکھتے ہیں؟" اس نے دوبارہ پوچھا۔
"غون" زین نے دوبارہ اسی اطمینان سے جواب دے دیا جبکہ سارہ نے اپنے سر پر ہاتھ مارا۔
"غون نہیں ہوتا زین، اسے نون بولتے ہیں، ز ۔۔۔ ی ۔۔۔ ن۔" سارہ نے اسے درست کیا تو وہ بولا "ہاں تو غون ہی تو بولا نا۔" اف یہ معصومیت، پر سارہ نے بھی سوچ لیا تھا کہ آج اس کا غون درست کروا کے ہی دم لے گی۔ اب وہ اسے نون بولنے کو کہتی اور زین اسے غون ہی پڑھتا جاتا۔ ان کی تکرار جانے کب تک جاری رہتی اگر شازیہ چچی انہیں کھانے کے لیے بلانے نہ آ جاتیں۔ اب وہ دونوں چپ کر کے شازیہ چچی کے پیچھے چل رہے تھے اور سارہ سوچ رہی تھی کہ اس نون کے غون کو کیسے ٹھیک کیا جائے۔


You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: May 27, 2023 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

تیرا ساتھ چاہیےWhere stories live. Discover now