Episode 1

5K 217 35
                                    


"اف اللہ امی پہلے بجو پھر بھائی اور اب آپ میرے ساتھ بھی وہی چاہتی ہیں؟"منال فاخرہ بیگم کی بات سنتے ہی غم و غصے کے ملے جلے تاثرات سے بولی۔
"کیا برائی ہے ثُمامہ میں منال اتنا اچھا لڑکا تو ہے اوپر سے پھر خاندان سے بھی ہم بہت اچھے سے واقف ہیں تم بے تکی سی بات کو انکار کی وجہ بنا رہی ہو۔"وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولیں
"امی میں مانتی ہوں ثُمامہ اچھا لڑکا اور اس کا خاندان بھی بہت اچھا ہے لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ آپ اپنے سارے بچوں کی شادیاں انہیں کے گھرانے میں کر دیں؟ ہمارے لیے دنیا میں باقی سارے مر گئے ہیں کیا صرف انہیں کا خاندان بچا ہے؟"وہ جذباتی ہوتے ہوئے بول
"میری جان دیکھو عمار کومل کے ساتھ اور عینی حسن کے ساتھ کس قدر خوش ہیں ۔۔۔۔"وہ اسے بتا ہی رہیں تھیں کہ وہ بیچ میں بول پڑی
" ضروری نہیں ہے کہ اگر وہ سب خوش ہیں تو میں بھی ثُمامہ کے ساتھ خوش ہی رہوں۔ "اس کی بات پر فاخرہ بیگم اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔
"سو ڈھیٹ مرے ہوں گے منال جس دن تمہاری پیدائیش ہوئی تھی"وہ غصے سے بولتی اٹھ کھڑی ہوئیں جبکہ وہ ان کی بات پر ڈھٹائی سے مسکرا دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرنل عثمان اور کرنل زبیر دونوں بچپن سے بہت گہرے دوست تھے اور ان کی یہ لازوال دوستی بچپن سے لے کر جوانی اور جوانی سے لے کر بڑھاپے تک اپنی مثال آپ تھی۔
کرنل عثمان کچھ سال پہلے کسی حادثے میں شہید ہوچکے تھے جبکہ کرنل زبیر ابھی بھی فوج میں ہی اپنے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔
کرنل عثمان کے تین بچے تھے۔ ایک بیٹا اور دو بیٹیاں۔ بڑی بیٹی عینی کی شادی کرنل زبیر کے بیٹے حسن سے ہوئی تھی اور بیٹے عمار کی شادی بھی کرنل زبیر کی بیٹی سے ہوئی تھی۔ تیسرے نمبر پر ان کی بیٹی منال تھی جوکہ ایم بی بی ایس کررہی تھی۔
کرنل زبیر کے بھی تین ہی بچے تھے۔ دو بیٹے اور ایک بیٹی۔ سب سے بڑا بیٹا حسن تھا جو کہ میجر تھا دوسری بیٹی کومل اور پھر آخر میں سب سے چھوٹا ثُمامہ تھا جو کہ کیپٹن تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرنل زبیر اور کرنل عثمان کی دوستی بے مثال تھی۔ عثمان صاحب کی شہادت کے بعد کرنل زبیر نے ان کے بچوں کو بالکل اپنے بچوں کی طرح پالا تھا۔ دونوں کی کوٹھیاں السلام آباد کے ایک پوش علاقے میں بالکل ساتھ ساتھ ہی بنی تھیں۔ اتنی محبت اور اتنا اتفاق سگے رشتوں میں ڈھونڈنا مشکل تھا جیسا کہ ان دونوں گھرانوں میں پایا جاتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منال اس وقت چودہ سالوں کی تھی جب کرنل عثمان کی وفات ہوئی تھی۔ گھر میں سب سے چھوٹے ہونے کے باعث اس نے اس بات کا صدمہ ہی لے لیا تھا۔ اسے لوگوں سے وحشت سی ہونے لگتی تھی۔ رشتوں کے معاملے میں وہ بہت حساس تھی اس کے دل میں ڈر پیدا ہوگیا تھا کہ کہیں بابا کی طرح باقی سب بھی مجھے چھوڑ جائیں گے۔ پاکستان آرمی سے تو اسے خوف آنے لگتا تھا۔ وہ جب کسی فوجی کو دیکھتی تو رونے لگ جاتی۔ کتنا عرصہ تو وہ زبیر صاحب کے پاس بھی نہیں آئی تھی۔ اسی طرح جب عمار نے آرمی میں جانے کا ارادہ کیا تو وہ اس سے بھی بہت ناراض ہوئی لیکن پھر بڑی مشکل سے سب نے مل کر اسے راضی کیا۔
وقت کے ساتھ ساتھ وہ سنبھلتی تو جارہی تھی لیکن دل میں وہ خوف ابھی بھی برقرار تھا۔
سفید رنگت، تیکھے نین نقش، بھوری آنکھوں والی وہ 24 سالہ لڑکی آج بھی اندر سے اسی 14 سالہ منال کی طرح خوف زدہ ہوتی تھی۔ اسے ابھی بھی آرمی سے اتنی ہی نفرت تھی جتنی دس سال پہلے تھی۔ اسے آج بھی یہی لگتا تھا کہ اس آرمی نے اس سے اس کے بابا کو چھین لیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسز زبیر اور مسز عثمان دونوں اس وقت لان میں بیٹھیں تھیں اور چائے کے ساتھ ساتھ گپ شپ کا بھی دور چل رہا تھا کہ اچانک مسز زبیر نے سنجیدگی سے بات شروع کی۔
"فاخرہ میں آپ سے آج آپ کی ایک اور قیمتی چیز مانگنا چاہتی ہوں۔"
"جی کہیں۔"مسز عثمان پوری طرح سے ان کی طرف متوجہ ہوئیں۔
"میں ثُمامہ کے لیے منال کا ہاتھ مانگنا چاہتی ہوں۔ آپ جانتی ہیں ہم سب کی یہی خواہش رہی ہے تو میں چاہتی ہوں اب بچے بڑے ہوچکے ہیں اب یہ فیصلہ ہوجانا چاہیے"
"کہہ تو آپ ٹھیک رہی ہیں لیکن کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے ہمیں بچوں کی مرضی جان لینی چاہیے۔"
"جی بالکل بچوں کی مرضی کے بغیر تو ہم کوئی فیصلہ نہیں لے سکتے۔ میں تو ثُمامہ سے بات کرچکی ہوں اسے کوئی اعتراض نہیں ہے آپ منال سے بات کر لیں۔ "وہ انہیں تفصیل بتاتے ہوئے بولیں
"میں آج ہی منال سے بات کرتی ہوں۔" میرے لیے اس سے بڑھ کر خوشی کی اور کیا بات ہوگی کہ میری بچی میری نظروں کے سامنے ہی رہے اور ثُمامہ جیسا اچھا لڑکا منال کو اور کہیں نہیں مل سکتا"
مسز عثمان خوشی سے بولیں
"منال بہت اچھی بچی ہے اسے اپنی بہو بنانا میری بھی خواہش ہے"مسز زبیر بھی مسکرا کر بولیں
اگر ان دونوں میں بھائیوں جیسا رشتہ تھا تو ان کے ساتھ ساتھ یہ دونوں بھی گہری دوستیں اور بہنیں بن چکی تھیں۔
"مجھے سمجھ نہیں آتی سلمیٰ میں کس طرح آپ کا اور زبیر بھائی کا شکریہ ادا کروں۔ آپ دونوں نے ہر معاملے میں میرا بہت ساتھ دیا ہے مجھے کبھی کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہونے دی میرے بچوں کو بالکل اپنے بچوں کی طرح پالا ہے۔"مسز عثمان نم آنکھوں کے ساتھ بولیں
"یہ کیسی غیروں والی باتیں کررہی ہیں آپ فاخرہ۔ آپ کے بچے ہمارے ہی تو ہیں۔"مسز زبیر مسکرا کر بولیں تو مسز عثمان کہ دل کا بوجھ بھی کچھ کم ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر پہلے ہی وہ ڈیوٹی سے آیا تھا لیکن بجائے روم میں جانے کے وہ باہر لان میں واک کرنے آگیا تھا۔ رات کے آٹھ بج رہے تھے لیکن یہاں باڑیاں میں دھند کے باعث آدھی رات کا منظر پیش ہورہا تھا۔
وہ اپنے خیالوں میں گم تھا کہ موبائل کی آواز پر چونکا۔منال کالنگ لکھا دیکھ کر اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔ اتنے سال ساتھ رہنے کے بعد بھی یہ پہلی بار تھا کہ منال کو ثُمامہ سے کوئی کام پڑا ہوگا ورنہ اتنے سالوں میں ان کا کوئی بھی لمحہ خوشگوار نہیں ہوتا تھا۔ دونوں کی عمروں میں دو تین سال کا ہی فرق تھا لیکن ایک دوسرے کی ہر بات سے انہیں اختلاف ضرور ہوتا تھا۔
"اسلام علیکم"ثمامہ نے کال اٹھا کر سلام کیا۔
"مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے"لٹھ مار انداز میں کہا گیا۔
"سلام کا جواب دے دیتیں اگر تو ٹیکس نہیں لگنا تھا"ثمامہ طنز کرتے ہوئے بولا
"میں اس وقت آپ پر سلامتی بھیجنے کے موڈ میں نہیں ہوں"وہ کڑھ کر بولی
"ٹھیک ہے پھر جو آپ کا موڈ ہے ہم وہی بات کر لیتے ہیں۔"وہ ہنوز غیر سنجیدہ تھا۔
"آپ السلام آباد کب تک آئیں گے؟"اس کی بات کو نظر انداز کرکہ وہ اپنے مطلب کی بات پر آئی۔
"کیوں آپ کو میری یاد آرہی ہے؟"لہجے میں ابھی بھی شرارت تھی۔
"آپ کسی بات کا سیدھا جواب کیوں نہیں دے سکتے؟"وہ غصے سے بولی
"نہیں جب مام نے مجھ سے آپ کے متعلق بات کی تھی تو میں نے بڑے سیدھے طریقے سے ہاں کی تھی۔ "ثمامہ کا جواب منال کے غصے کو مزید ہوا دے گیا۔
"میں آپ سے اسی معاملے میں بات کرنا چاہتی ہوں ثُمامہ۔ امید ہے آپ میری بات کو سمجھیں گے۔"اب کی بار وہ سختی سے بولی تو ثُمامہ کو بھی سنجیدہ ہونا پڑا۔
"آپ کہیں جو کہنا ہے آپ کو۔"اب کہ وہ بھی سنجیدگی سے بولا
"یہ باتیں فونوں پر کرنے والی نہیں ہیں آپ جب گھر آئیں تو ہم تفصیل سے بات کر لیں گے۔"
"ٹھیک ہے میں اس ویک اینڈ پر آرہا ہوں گھر پھر مالاقات ہوتی ہے آپ سے۔"ثمامہ کے کہنے پر منال نے فون بند کردیا۔
آج صبح ہی فاخرہ بیگم نے اسے ثُمامہ کے رشتے کے متعلق بتایا تھا اور منال نے فوراً ہی انکار کردیا تھا لیکن اس کے انکار کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی تھی جس کے باعث وہ اب ثُمامہ سے خود بات کرنا چاہتی تھی کیونکہ وہی اسے اس مسئلے سے نکال سکتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیفے میں داخل ہوتے ہی اس نے اپنے اطراف میں نظر دوڑائی تو سامنے ہی اسے بلیک جینز کے ساتھ براؤن جیکٹ پہنے سنجیدہ چہرہ لیے ثُمامہ بیٹھا نظر آیا۔ وہ آہستہ سے قدم اٹھاتی ہوئی اس کے پاس پہنچ گئی اور سامنے کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی۔
"السلام علیکم کیپٹن صاحب"وہ مسکراتے ہوئے بولی
"وعلیکم اسلام ڈاکٹر صاحبہ آپ وقت کی پابند کب ہوں گی؟ پورے پندرہ منٹ لیٹ ہیں آپ"وہ بیزاری سے بولا
"یہ آپ کا بیس کیمپ نہیں ہے جہاں وقت کی پابندی ضروری ہے۔" وہ ناک بھوں چڑھا کر بولی
"وقت کی قدر نا کرنے والے لوگ بہت پچھتاتے ہیں"
وہ سنجیدگی سے بولا
"خیر جو بھی ہے مجھے لیکچر دینا بند کریں اور پوائنٹ پر آئیں آپ"وہ بھی سنجیدگی سے بولی
"جی فرمائیں ایسی کیا بات تھی جس کے لیے آپ نے مجھے یہاں بلایا؟"ثمامہ نے کرسی سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا
"آپ نے میرے لیے رشتہ کیوں بھیجا ہے؟"
"آپ کے عشق میں گوڈے گوڈے ڈوبا ہوا تھا اس لیے بھیج دیا رشتہ۔"وہ شرارت سے بولا
"ثُمامہ پلیز آپ کچھ دیر کے لیے سنجیدہ ہوجائیں۔"
وہ بیزاری سے بولی تو ثُمامہ سنجیدہ ہوگیا۔
"میں نے اپنی پسند سے آپ کے لیے رشتہ نہیں بھیجا۔ گھر والوں کی یہی خواہش تھی اس لیے مجھے کوئی اعتراض نہیں تھا اور میں نے ہاں کردی۔"وہ تفصیل بتاتے ہوئے بولا
"لیکن میں آپ سے شادی نہیں کرنا چاہتی"وہ سنجیدگی سے بولی
"انکار کی وجہ؟"وہ اسے کھوجتی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا
"میں آپ کو ہر بات بتانے کی پابند نہیں ہوں"وہ تیزی سے بولی
"ٹھیک ہے پھر خود ہی جاکر انکار کریں"وہ اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے بولا
"اچھا اچھا آپ بیٹھے میں وجہ بتاتی ہوں نا آپ کو"
وہ جلدی سے بولی کیونکہ اس بد دماغ آدمی سے کوئی بعید نا تھی کہ وہ اسکی مدد کیے بغیر ہی چلا جاتا۔
اس کی بات پر ثُمامہ خاموشی سے دوبارہ اپنی جگہ پر بیٹھ گیا اور غور سے اسے سننے لگا۔
"دیکھیں ثُمامہ میں ایک نارمل زندگی گزارنا چاہتی ہوں"وہ ابھی بولنا شروع ہی ہوئی تھی کہ وہ بول پڑا
"تو میں کیا ابنارمل ہوں؟"غصے سے سوال کیا گیا
"آپ خاموشی سے میری بات سننا پسند کریں گے؟"
وہ بھی غصے سے بولی تو وہ خاموش ہوگیا۔ ثُمامہ کو خاموش دیکھ کر منال نے پھر سے بات شروع کی۔
"انکار کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے ثُمامہ کہ میں کسی آرمی مین سے شادی نہیں کرنا چاہتی۔"
وہ دھیمے لہجے میں بولی
"آپ کو مجھ سے نہیں میرے آرمی میں ہونے سے اختلاف ہے؟"پھر سختی سے سوال کیا گیا
"آپ سے تو بات ہی کرنا فضول ہے"وہ غصے سے بولتی اٹھ کھڑی ہوئی لیکن ثُمامہ کو ٹس سے مس نا ہوتا دیکھ کر دوبارہ بیٹھ گئی۔
"آپ بالکل سہی کہہ رہے ہیں کیپٹن صاحب مجھے آپ سے نہیں آپ کے آرمی میں ہونے سے اختلاف ہے۔ کیونکہ میں اپنی ازدواجی زندگی نارمل طریقے سے گزارنا چاہتی ہوں ۔ میں امی یا بجو کی طرح اتنی بہادر نہیں ہوں جسے ہر لمحہ اپنے شوہر کی جان کے لالے پڑے رہیں۔ میں اپنی بیٹی کو بھی اپنے جیسا نہیں دیکھنا چاہتی جو اپنے باپ کے انتظار میں ہر رات آنسو بہا کر سوئے۔ میں تنگ آگئی ہوں اس غیر یقینی زندگی سے۔ مجھے اب انسانوں والی زندگی گزارنی ہے۔ میں کسی سے بھی شادی کرلوں گی لیکن کسی آرمی مین سے شادی کرکہ ابنارمل نہیں ہونا چاہتی۔ "غصے سے کہتے ہوئے آخر میں اس کی آواز روندھ گئی۔
"آپ بے فکر ہوجائیں مس منال دوبارہ آپ سے میرے رشتے کے بارے میں کبھی کوئی بات نہیں ہو گی۔ "
وہ سرد لہجے میں کہتا بغیر اس کی کوئی بات سنے اپنا موبائل اٹھاتا وہاں سے نکل گیا۔
منال کی باتوں نے اسے بہت دکھ پہنچایا تھا لیکن وہ اس کی زہنی حالت سے بھی اچھے طریقے سے واقف تھا اس لیے بغیر کسی تکرار کے اس کی بات مان گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

MUNTAZIR (COMPLETE)Where stories live. Discover now