بے مول محبت از قلم ایمان محمود

6.8K 172 34
                                    

امرین یار میں کیسے آؤں گی تمہاری شادی  پر تم تو جانتی ہو کے کوئی ہے ھی  نہیں جو مجھے لے کر آئے۔ اوپر سے نائٹ فنکشن تو میں بلکل بھی اففورڈ نہیں کر سکتی۔ تایا ابا  اور  بابا جان سے بھی نہیں کہہ  سکتی کیوں کے وہ بھی آفس  سے  لیٹ نائٹ آتے ہیں  اور عدیل سے تو امید ھی چھوڑ دو اس کے ایگزامز ہونے والے ہیں وہ تو بلکل بھی نہیں لے کر جائے گا ۔ ڈرائیورز کے ساتھ میں رات کو کہیں نہیں جاتی ۔ "رابیل امرین کے ساتھ یونیورسٹی سے واپس  گھر کی طرف آتے ہوئے  کہہ رہی تھی۔ آج انکا لاسٹ  پیپر تھا اب سے ان کی اسٹڈی مکمل ہو گئی تھی ۔ امرین کی شادی اگلے ھی ہفتے تھی جس پر وہ رابیل کو انوائٹ کر رہی تھی ۔
دوپہر دو کا ٹائم تھا ۔۔دھوپ زور پکڑے ہوئے تھی ۔دوپٹے سروں پر چادر کی طرح ٹکائے ہوئے وہ دونوں سڑک کے کنارے پر ہو کر چلتی ہوئیں آ رہی تھیں ۔۔
"یار ایک تو میری رخصتی ہے اور میڈم نخرے کر رہی ہیں ۔ایک میں ھی تو بیسٹ فرینڈ ہوں  تمہاری " امرین اس کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے بول رہی تھی
"اچھا نا ٹرائی کروں گی پکا یار " رابیل  نے امرین کا ہاتھ پکڑ کر کہا
"یار تم اپنے اس کزن کے ساتھ آ جاؤ نا تایا کے بیٹے کے ساتھ " امرین  یاد آنے پر بولی
"ہاں وہ ویسے سیدھے منہ بات کرنا تو پسند نہیں کرتے تو میرا کوئی کام کیسے کریں گے " اس نے منہ بنایا
"اچھا میرا گھر آ گیا کوشش کروں گی اب شادی پر ھی ملتے ہیں ۔۔" رابیل  نے امرین سے گلے ملتے ہوئے کہا ۔
"انشااللہ " امرین نے مسکرا کر جواب دیا امرین کا گھر دور تھا اس لئے اسے ابھی اور چلنا تھا ۔
وائٹ کیپری کے اوپر پنک پرنٹڈ ڈھیلا ڈھالا کرتا ۔۔بال فرینچ چٹیا بنا کر چٹیا آگے کو کندھے پر ڈالی ہوئی ، کلائی پر گولڈ بریسلیٹ  جس کے سینٹر میں رابیل خان لکھا تھا اور جو اسکی اٹھارویں سالگیرہ پر اسے اپنی امی سے ملا تھا اور وہ اسے ہمیشہ پہنے رکھتی تھی  ، کندھے پر بیگ ۔ سر اور کندھوں پر پھیلا کر دوپٹہ ۔۔ وائنی اور موٹی آنکھیں ۔۔ سفید رنگ وہ بے حد خوبصورت تھی لیکن  اسے بیوٹی اور بیوٹیفل دکھنے میں  انٹرسٹ نہیں تھا ۔۔ پاؤں میں سٹرپس والے وائٹ کلر کے سینڈل پہنے ہوئے وہ  چلتی ہوئی گھر میں داخل ہوئی جب  رابیل کی نظر شاہ زیب پر پڑی جو تیزی سے گاڑی کی طرف جا رہا تھا وہ یقیناً کہیں جانے لگا تھا
"شاہ زیب ۔۔۔۔شاہ زیب "وہ دور سے آوازیں دیتی ہوئی تقریباً بھاگتی ہوئی  شاہ زیب کی طرف آئی۔  وہ اس کے بڑے تایا کا بیٹا تھا ۔شاہ زیب کے اپنی گاڑی کی طرف بڑھتے قدم اس کی آواز پر  رکے۔ وہ شاہ زیب کے پاس آ کر رکی ۔
"بولو میں لیٹ ہو رہا ہوں "  شاہ زیب  نے گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ بلیو جینز ، وائٹ شرٹ میں ملبوس تھا شرٹ کے  فرنٹ کے دو بٹن وہ ہمیشہ کھلے رکھتا تھا ، شرٹ کے بازو کوہنیوں تک فولڈ کیے بالوں کو جیل لگا کر ایک سائیڈ کی طرف سیٹ کیا تھا ۔ ہمیشہ سے شاہ زیب کے بالوں کا یہ ھی سٹائل رہا تھا ۔ کلائی پر گھڑی ۔ وہ خاصا ڈیسنٹ تھا۔ ہلکی ہلکی داڑھی اور مونچھیں  جن کو وہ بڑی نیٹنیس سے سنوار کر رکھتا تھا ۔۔ رابیل نے اس کو ایک نظر دیکھا ۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی اسکی نظر ایک پل کے لئے شاہ زیب پر ٹھہر سی گئی تھی لیکن اگلے ھی پل وہ سر جھٹک کر دھیان ہٹا لیتی تھی ۔
" وہ آپ کہاں جا رہے ہیں " رابیل نے فوراً  نظر جھکاتے ہوئے  پوچھا ۔ وہ دونوں اس وقت شاہ زیب کی کار کے پاس کھڑے تھے کیوں کے شاہ زیب کہیں جانے کی تیاریوں میں تھا ۔۔ سورج کی روشنی ڈائریکٹ شاہ زیب کے منہ پر پڑھ رہی تھی کیوں کے وہ سورج کی طرف رخ کیے کھڑا تھا اور رابیل اس کے سامنے ۔۔ سورج کی روشنی ڈائریکٹ پڑھنے کی وجہ سے شاہ زیب کی آنکھیں تھوڑی کھل رہی تھیں اور یہ ھی چیز اسے اوازار بھی کر رہی تھی ۔۔ شاہ زیب  ہر وقت سنجیدہ رہنے والا لڑکا تھا ایک گھر میں رہ کر بھی  رابیل زیادہ اس سے بات نہیں کرتی تھی یاں یہ کہنا بہتر ہوگا کے وہ دونوں بچپن سے ھی زیادہ گلے ملے ہوئے نہیں تھے ۔ شاہ زیب الگ تھلگ رہنا پسند کرتا تھا اور رابیل اسی وجہ سے شرو ع سے ھی اس سے ججھکتی تھی . 
"کیوں تم کون ہوتی ہو پوچھنے والی میں جدھر بھی جاؤں " شاہ زیب نے ہمیشہ کی طرح فل ایٹیٹیوڈ میں جواب دیا۔ اسے دیکھ کر صاف لگتا تھا کے وہ کسی کو سر پر چڑانا نہیں چاہتا تھا ۔۔ اسی وجہ سے رابیل نے اس کے بہت سے نام رکھے تھے ۔جیسا کے ۔ بے مروت ، مسٹر اکڑو ، مسٹر سڑو اور بھی بہت سے ۔ شاہ زیب کی بات  پر  رابیل خاصی شرمندہ ہوئی
"وہ مجھے آپ سے بات کرنی تھی " رابیل نے ہاتھوں کو مروڑتے ہوئے کہا ۔ ایک تو وہ اس سے ڈرتی تھی اوپر سے شاہ زیب سے وہ شرو ع سے ھی  آئی کنٹیکٹ نہیں کر پاتی تھی اور اب شاہ زیب اس پر نظریں جمائے اس سے پوچھ رہا تھا اور وہ اس کے سامنے فل کنفیوز ہو رہی تھی
"رابیل مجھے تمھیں دیکھنے کا شوق فلحال  لاحق نہیں ہوا تو شائد میں کب سے تمہاری بات سننے کے لئے ھی کھڑا ہوں  تو اب جلدی بتاؤ مجھے ملنے جانا ہے کسی سے " شاہ زیب نے اپنے ہاتھ میں پکڑے سن گلاسز لگاتے ہوئے اکتاہٹ سے کہا
"وہ ۔۔ وہ " رابیل کی بولتی ہمیشہ شاہ زیب کے سامنے اس طرح ھی بند ہو جاتی تھی
"دو منٹ ہیں تمہارے پاس جلدی بتاؤ کیا بات ہے " شاہ زیب نے ہاتھ میں پکڑی چابی سے رابیل کو  اشارہ کرتے ہوئے کہا
"میری فرینڈ کی نیکسٹ ویک شادی ہے ۔ نائٹ فنکشن ہے کیا آپ مجھے لے جاییں گے پلیز ،پلیز ،پلیز ،پلیز " اس نے آنکھیں بند کر کے  ایک ھی سانس میں پوری بات بتا دی
"اور تم جانتی ہو میرا جواب کیا ہوگا " شاہ زیب نے غور سے اسے دیکھتے ہوئے کہا جو بیگ ایک کندھے پر ڈالے آنکھیں  میچے شاہ زیب کے جواب کا انتظار کرتی ہوئی    اسکے سامنے کھڑی تھی
"نا " رابیل نے نا میں گردن ہلاتے ہوئے اپنی آنکھیں کھولتے ہوئے  کہا
"بلکل بہت اچھا سمجھتی ہو تم مجھے " طنزیہ انداز میں وہ  مسکراتے ہوئے مڑا
"مجھے خوشی ہو گی پلیز مان جائیں " رابیل نے کہا جس پر وہ پھر رابیل کی طرف مڑا
"تمہاری خوشی ہے اسی لئے نہیں ماننا چاہتا " شاہ زیب نے بغیر کسی لحاظ کے کہا ۔ سمجھ نہیں آتی تھی کے وہ مذاق کرتا تھا یاں سچ میں اس کی بے عزتی کر جاتا تھا 
"آپکا احسان ہوگا  مجھ پر پلیز " اس نے ایک بار پھر آخری کوشش کی
"پر میں تم پر کوئی احسان نہیں کرنا چاہتا " کہہ  کر وہ چلا گیا رابیل اسے جاتے دیکھتی رہی ۔۔ رابیل کے چہرے پر فکر مندی تھی جب کے دوسری طرف شاہ زیب چہرے پر بشاشت لئے جا چکا تھا ۔۔
"کیا تھا اگر یہ میری  بات مان جاتے ۔ اگر امرین میری بیسٹ فرینڈ نا ہوتی تو کبھی بھی ان کی منت نا کرتی ۔ ایک تو دوستوں کے لئے پتا نہیں کیا کیا کرنا پڑتا ہے " خود قلامی کرتی ہوئی تھکے تھکے قدم آگے بڑاتی وہ ہال میں داخل ہوئی
"میرا بچا آ گیا ہے " صباحت بیگم (دادی)  نے رابیل کو آتے دیکھ کر کہا
"جی دادی جان " وہ تھکے  ہوئے انداز میں بولی اور ان کے پاس صوفے پر بیٹھ گئی
"کیا ہوا بچے پریشان لگ رہی ہو " دادی جان نے رابیل کو دیکھتے ہوئے پوچھا کیوں کے  وہ روزانہ یونی سے  بہت فریش فریش آتی تھی
"دادی جان امرین کی شادی ہے نائٹ فنکشن ہے میں کیسے جاؤں گی " رابیل اپنی سینڈل اتارتے ہوئے بولی
"ساجدہ (خانساماں) پانی لانا رابیل  کے لئے " دادی جان  نے ساجدہ کو آواز دیتے ہوئے کہا اور پھر رابیل سے مخاطب ہوئیں
"میں شاہ زیب کو بول دوں گی بیٹا "
"وہ نہیں مانیں گے دادی جان ۔ میں نےابھی  ان سے بات کی ہے  " چٹیا کھولتے ہوئے  وہ مایوسی سے بولی
"تمہاری بات نہیں مانی لیکن مجھ سے انکار نہیں کرے گا تم فکر نہیں کرو اور زرفشاں بھی ابھی ابھی کالج سے آئی ہے تم  دونوں کھانا کھا لو ۔ تمہاری امی اور تائی امی چھوٹے چچا کے گھر گئی ہیں جلد آ جائیں   گیں اور  میں تھوڑی دیر سونے جا رہی ہوں " دادی جان نے  کہہ کر اپنے کمرے کا رخ کیا ۔ رابیل بھی اٹھ کھڑی ہوئی اور  اپنے کمرے کی طرف فریش ہونے جانے لگی جب اسکی نظر شاہ زیب کے کمرے کی طرف پڑی جس کا دروازہ کھلا تھا ۔۔ سینٹر میں ہال تھا اور چاروں طرف کمرے۔ ہال میں داخل ہوتے ھی سامنے سیڑیوں پر نظر پڑتی تھی جو اوپر کے فلور کی تھیں ۔ وہ اس کے کمرے میں داخل ہوئی ۔ شاہ زیب کے کمرے کا تھیم وائٹ تھا ہر چیز وائٹ ۔۔ اور وہ  بہت صفائی پسند بھی تھا یہ ھی وجہ تھی کے اس کے کمرے میں آ کر رابیل کو عجیب سا سکون ملتا تھا ہر چیز نفاست سے پڑی ہوئی ہوتی تھی ۔  رابیل نے بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پڑی شاہزیب کی فوٹو اٹھائی ۔
جو شائد اس عید پر شاہ زیب  نے بنوائی تھی ۔ جس میں وہ  بلیک شرٹ اور بلیو جینز  پہنے ہوئے تھا  ۔  واضح نین نقش ۔۔وہ کافی خوبصورت لگ رہا تھا
کبھی اس طرح میرے ہمسفر
سبھی چاہتیں میرے نام کر
اگر ہو سکے تو کبھی کہیں
میرے نام بھی کوئی شام کر
میرے دل کے سائے میں آ ذرا
میری دھڑکنوں میں قیام کر
یہ جو میرے لفظوں کے پھول ہیں
تیرے رستے کی یہ دھول ہیں
کبھی ان سے سن میری داستاں
کبھی ان کے ساتھ قلام کر
(Copied)
تصویر کو دیکھتے ہوئے وہ اپنے خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی جب اسے احساس ہوا کے وہ شاہ زیب جیسے ہٹلر کے کمرے میں ہے اور اگر وہ واپس آ گیا اور اس طرح اسے اپنے بیڈ پر بیٹھے دیکھ لیا تو وہ غصّہ ہو گا ۔ شاہ زیب کو کسی کا بھی اپنے کمرے میں آنا پسند نہیں تھا
"کس چیز کا ایٹیٹیوڈ ہے آپ میں ہاں " رابیل نے فوٹو سے سوال کیا وہ جانتی تھی یہ جواب نہیں دے گی اور شائد اسی لئے ھی تو اس نے یہ سوال کیا تھا  ورنہ یہ سوال وہ شاہ زیب کے سامنے کرنے کی جرت ہرگز نہیں رکھتی تھی ۔ اسکی سوچ تھی کے اگر وہ شاہ زیب سے کبھی ہنس کر بات کر لے گی تو وہ اس کا قتل ھی کر ڈالے گا ۔
"آپی آ جائیں کھانا کھا لیں " زرفشاں کی آواز اس کے کانوں میں گھونجی وہ فٹ سے فوٹو رکھ کر اٹھی ۔۔ دروازے کے پاس رک کر اس نے پھر شاہ زیب کی فوٹو کو دیکھا
"ویسے آپ ایٹیٹیوڈ میں رہ سکتے ہو کیوں کے آپ پر جچتا ہے "" مسکرا کر کہتے ہوئے وہ تیزی سے  باہر  نکل گئی ۔۔۔۔
اعظم صاحب اور صباحت بیگم کے چار بچے تھے
جنید صاحب ،عامر صاحب اور مرتضیٰ صاحب تین بھائی تھے اور   الوینہ بیگم ان کی چھوٹی   بہن تھیں جو شادی کے بعد سے امریکا رہتی تھیں ۔ جنید صاحب اور عامر صاحب ایک ھی گھر میں رہتے تھے ۔ جب کے مرتضیٰ یعنی چھوٹے بھائی ابھی ابھی اپنے نئے گھر میں شفٹ ہوئے تھے ۔جنید صاحب کی بیوی کلثوم بیگم تھیں اور ان کے دو بچے تھے شاہ زیب بڑا بیٹا اور زرفشاں چھوٹی بیٹی جسے سب زری بھی کہتے تھے ۔ شاہ زیب اب جنید صاحب کے ساتھ انکی فیکٹری جاتا تھا کیوں کے وہ اپنی اسٹڈی کمپلیٹ کر چکا تھا جب کے زرفشاں ابھی کالج جاتی تھی اور پڑھائی سے خوب بھاگتی تھی  شاہ زیب سختی نا کرتا تو شائد وہ گریجویشن بھی نا کرتی ۔ عامر صاحب کی بیوی نگہت بیگم تھیں اور ان  کے بھی دو بچے تھے بڑی بیٹی رابیل اور چھوٹا بیٹا عدیل  ۔ رابیل ماسٹرز کر رھی تھی تو  یونیورسٹی جاتی تھی اور عدیل بھی پڑھ   رہا تھا ۔  رابیل اور شاہ زیب کا بچپن ایک گھر میں رہ کر بھی ایک ساتھ نہیں گزرا تھا کیوں کے شاہ زیب شرو ع سے کسی کے ساتھ اتنا فرینک نہیں ہوتا تھا ۔ اسکی نیچر شرو ع سے الگ تھلگ رہنے والی تھی اگر وہ کسی سے کھل کر بات چیت کرتا تھا تو وہ اسکی دادی  تھی ۔ البتہ زرفشاں ، عدیل اور رابیل میں بہت  اچھی دوستی تھی ۔ مرتضیٰ صاحب کی بیوی عائشہ بیگم تھیں اور ان کے تین بچے تھے ۔ دو بیٹیاں عروا اور لائبہ اور ایک بیٹا آکاش ۔۔ عروا سب سے بڑی تھی پھر آکاش اور پھر لائبہ ۔
************************
"عروا کدھر جا رہی ہو تم " مسز مرتضیٰ نے عروا کو روکا جو ہاتھ میں ڈونگا لئے باہر جا رہی تھی
"دادی جان سے ملنے جا رہی ہوں امی  " عروہ نے اکتاہٹ سے جواب دیا ۔
"اچھا اور کیا ہے اس میں " تحقیقی نظروں سے چلتی ہوئیں وہ عروا کے پاس پوھنچیں
"کھیر ہے امی،دادی جان ک لئے لے کر جا رہی ہوں  "
"اچھا  اچھا دادی جان کے لئے ھی ہے نا یہ کھیر " لائبہ نے لپک کر ڈھونگے پر سے ڈھکن اٹھاتے ہوئے کہا
"تم سے مطلب " عروا نا سمجھی سے بولی
"مجھ سے مطلب بتا دوں کیا " لائبہ نے آنکھ مارتے ہوئے کہا
"مجھے ڈبل میننگ باتیں سمجھ نہیں آتیں جو بات ہے بتاؤ "
"اچھا بتا دیتی ہوں مجھے کیا ۔ میرا مطلب یہ تھا کے کہیں آپ یہ کھیر شاہ  زیب بھائی کے لئے تو نہیں لے کر جا رہیں کیوں کے کھیر تو انکو ھی پسند ہے دادی جان تو کھیر نہیں کھاتیں " لائبہ نے ماں کا لحاظ کیے بغیر کہ دیا
"امی منہ بند کروا لیں اس کا ۔۔"عروا نے  لائبہ کو آنکھیں نکالیں
"شرم کرو لائبہ بڑی بہن ہے " مسز مرتضیٰ نے ڈانٹا
" امی سچ تو سچ ہے نا جب سے شاہ زیب بھائی نے مجھے بتایا تھا کے انہیں کھیر پسند ہے آپی کچن میں ہر ٹائم یہ ھی ٹرائی کرتی رہیں اب فائنلی دو ہفتے بعد ان کو کھیر بنانی آ ھی گئی تو یہ ہمیں چیک کروانے کے بجاۓ انکے گھر لے کر جا رہی ہیں اور بہانہ یہ کے دادی جان کو چیک کروانے جا رہی ہیں میڈم  " لائبہ باتونی ہونے کے ساتھ ساتھ صاف گو بھی تھی ۔۔ اسکی بات سنتے سنتے عروا کیا مسز مرتضیٰ کی آنکھیں بھی کھلی کی کھلی رہ گئیں
"یہ سچ ہے عروا " مسز مرتضیٰ نے جانچتی نظروں سے اسے دیکھا
"امی میں بتا رہی ہوں اس نے ضائع  ہو جانا ہے مجھ سے " ٹیبل پر غصے سے  ڈونگا  تقریباً پٹہتے ہوئے وہ  بولی
"یہ امی کی بات کا جواب تو نہیں تھا " عروا اندر تیزی سے جانے لگی تو لائبہ نے کہا
"بکواس بند کر لو اب تم " غصے سے اس نے اپنے کمرے کا دروازہ بند کر لیا  جسں  پر لائبہ اور مسز مرتضیٰ ہنس کر رہ گئیں ۔۔ عروا تھوڑی نک چڑی تھی ۔ کئی بار تو بڑے چھوٹے کی تمیز بھی نہیں کرتی تھی ۔ یہ ھی وجہ تھی کے کوئی خاص اس کو بلاتا نہیں تھا ۔ وہ اپنی پسند کے بندے سے ھی گفتگو کرنا پسند کرتی تھی وہ اور بات ہے کے اسکی پسند کے بندوں کی لسٹ بہت ھی شارٹ تھی ۔۔😂
*******************
"میرے چاند اتر میری کھڑکی پے تجھے ماتھے پے اپنے سجا لوں میں  " زرفشاں شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر بال برش کر رہی تھی اور ساتھ ساتھ  کانوں میں ہیڈ فونز لگائے گانا سن رہی تھی اور جو سن رہی تھی وہ ھی گنگنا بھی رہی تھی ۔
"تجھے باندھ لوں اپنی زلفوں میں تجھے اپنا ریبن بنا لوں میں "
"زری۔۔۔۔۔"وہ اپنی دھن میں گا رہی تھی جب رابیل کی آواز پر رکی اور سونگ بند کر کے اسکی طرف متوجہ ہوئی جو بیڈ پر کتاب پکڑے بیٹھی تھی. زری اور رابیل کا کمرہ ایک ھی تھا ۔ کمرے میں داخل ہوتے ھی سامنی دیوار کے ساتھ بیڈ ٹیبل تھا اور ساتھ سنگل بیڈ تھا ۔ اسکے ساتھ ڈریسنگ ٹیبل تھا پھر دوسرا سنگل بیڈ لگا تھا اور اسکے ساتھ بیڈ سائیڈ ٹیبل پڑا تھا ۔۔ رابیل کا رائٹ سائیڈ پر والا بیڈ تھا اور رائٹ سائیڈ کی دیوار کے اندر چھوٹے چھوٹے ریکس بنے تھے جس کے اندر رابیل کی بکس پڑی تھیں اور لیفٹ سائیڈ پر زری کا بیڈ تھا ۔۔ لیفٹ سائیڈ کی دیوار میں چھوٹے چھوٹے کیبنٹس بنے تھے جس میں زری کا میک اپ پڑا تھا ۔ یہ ھی چیز دونوں کی نیچر شو کرتی تھی ۔ 
"کیا ہے ؟" زری بڑے چِل انداز میں بولی
"کب سے آوازیں دے رہی ہوں سن کیوں نہیں رہی تم " رابیل نے کتاب بند کر تے ہوئے  اپنے چشمے کو انگلی سے پر  پیچھے کرتے  ہوئے  کہا
"فار یور کائنڈ انفارمیشن مائی ڈئیر کزن ہیڈ فونز لگائے ہوں تو باہر کے لوگوں کی  آواز نہیں آتی " بالوں کو پونی میں باندھتے ہوئے زری بولی.. وہ 20،21 سال کی دبلی پتلی سی لڑکی تھی ۔۔رنگ گندمی تھا مگر اس پر بہت جچتا تھا ۔۔ کیوں کے وہ خوبصورت نین نقش کی مالک تھی ۔۔ اور وہ خود کو اس طرح سنوار کر رکھتی تھی کے اور بھی خوبصورت لگتی تھی ۔۔
"اچھا ویسے کیوں بلا رہی  تھی "
"کیوں کے تمہاری   بےسری آواز نے  میرا سر کھایا ہوا تھا ۔ ہیڈ فونز لگا کر تم جو خود کو سنگر سمجھ کر گا رہی تھی اگر تم ویسے خود کو سن لیتی تو کاٹن دینی پڑتی تمھیں اپنے ھی کانوں میں ، میں بک پڑھ رہی تھی لیکن مجال ہے جو کچھ سمجھ آیا ہو کے  کیا ریڈ کیا ہے " رابیل فلو فلو میں بولتی چلی گئی ۔۔
"اچھا اچھا اب تم نے تیار کب ہونا ہے۔ ٹائم تو ہو گیا ہے جانا نہیں شادی پر  " زری کی بات پر وہ چھلانگ لگا کر بیڈ سے اتری ۔۔
"ہاں ہاں میں بس جا رہی ہوں ۔۔ تمہارے  بھائی مجھ سے پہلے ریڈی ہو گئے نا تو میری شامت آ جانی ہے " وارڈراب کھول کر  کپڑے ادھر ادھر کرتے ہوئے وہ بولی اور ااندر  سے کپڑے نکال کر باتھ روم میں گھس گئی ۔۔
"بچے جلدی تیار ہو جاؤ شاہ زیب ویٹ کر رہا ہے " دادی جان  نے رابیل سے کہا جو کب سے اپنی ہیل بند کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی
"اچھا دادی جان  بس آ گئی " اس نے سر اٹھا کر دادی جان کو دیکھا اور پھر سر جھکا کر ہیل بند کرنے لگی
"ویسے مجھے سمجھ نہیں آتی آپ کا وہ سڑو پوتا مان کیسے گیا مطلب میرے سامنے تو بڑا ایٹیٹیوڈ دکھا رہے تھے کے احسان نہیں کرنا ہہہہ ۔۔ پتا نہیں مسئلہ کیا ہے اس شخص کو ہر کسی کے ساتھ منہ بنا کر پھرتا رہتا ہے انفیکٹ دادی جان زری سے بھی ٹھیک سے بات نہیں کرتا ۔۔ زری اسکی سگی بہن ۔ کین یو بیلیو۔۔۔ " رابیل نے بات کرتے  ہوئے سر اٹھا کر  اٹھنے لگی لیکن اپنے سامنے کھڑے لڑکے کو  دیکھ کر وہ گرتے گرتے بچی
"آ۔ ۔۔آ۔ ۔آپ " رابیل کو جھٹکا لگا
"اگر تم نے  میرے قصیدے پڑنا  بند کر دیے ہوں تو چلیں " شاہ زیب نے اس سے  کہا
"وہ ۔۔ میرا وہ مطلب نہیں تھا " رابیل نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر وہ بقول رابیل کے سڑو انسان کہاں کسی کی سنتا تھا
" مجھے کوئی انٹرسٹ نہیں ہے اور ہاں تمھیں چھوڑ کر میں چلا جاؤں گا جب فنکشن ختم ہوا تو فون کر لینا میں تمھیں لینے  آ جاؤں گا " شاہ زیب نے اسے بتایا جس پر رابیل نے خیرانگی سے  منہ بنایا
"آپ کیوں نہیں آئیں گے "
"کیوں کے مجھے تمہاری بیسٹ فرینڈ کی شادی میں جانے میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے  ۔۔ اوکے اب چلو مجھے اور بھی بہت کام ہیں ان فضولیات کے علاوہ " وہ کہہ کر چلا گیا اور رابیل بس اسے دیکھتی رہ گئی ۔ پیچ کلر کی لونگ فروک پر دوپٹہ کندھے پر ڈالے کلائی پر چوڑیاں پہنے  ۔۔ بالوں کو سٹریٹ کر کے دونوں اطراف سے آگے کو کیے ہوئے ۔۔ ہلکا سا میکپ کیے ۔ وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔۔ ساتھ ھی اس نے اپنی بڑی سی چادر اٹھا کر اپنے اوپر  اوڑھی ۔۔ آج میں  اتنی اچھی لگ رہی تھی کیا تھا اگر یہ بندہ ایک بار دیکھ ھی لیتا تو ۔۔ ہائے توبہ دیکھتا نا ھی بس آرام سے بات کر لیتا تو کیا تھا   ۔۔لیکن نہیں میں کوئی اس کے لئے تیار تھوڑی ہوئی ہوں اور ویسے بھی مجھے ایک نا محرم سے اپنی تعریفیں کروانے کا کوئی شوق  نہیں ہے ۔ خود کو تسلی دیتے ہوئے وہ اس کے پیچھے بھاگی ۔۔
******************
"عدیل ۔۔۔ عدیل میرا برگر دو " زری کچن سے چیختی ہوئی باہر نکلی ۔۔ عدیل مزے سے ٹی وی لانچ میں بیٹھا برگر کھا رہا تھا ۔
"یار میرا برگر ہے " زری خون خوار نظروں سے دیکھتی ہوئی اس کے پاس آ رہی تھی جس وجہ سے عدیل برگر اپنے پیچھے چھپاتے ہوئے بولا
"جھوٹے یہ میں نے عرفان چچا (چوکیدار ) سے منگوایا  تھا
"اچھا کیا ثبوت ہے تمہارے پاس کے یہ تمہارا برگر ہے "  اب عدیل برگر کا بائٹ لیتے ہوئے  بمشکل بولا
"او ہیلو ایک تو چوری اوپر سے سینا جوری ہاں " زری نے گنڈا سٹائل سے اپنے دونوں ہاتھ کمر پر رکھے
"اچھا یہ لو " عدیل سارا برگر کھا چکا تھا صرف دو بائٹ بچے تھے جو وہ زری کو دے رہا تھا زری نے جلدی سے برگر پکڑا اور جب دیکھا کے وہ تقریباً سارا ھی کھا چکا ہے تو زری جی غصے سے واپس عدیل کو برگر پکڑا دیا .
"یہ لو سارا کھا جاؤ ۔ بھوکے انسان ۔۔ میرا برگر آہا ۔۔۔ امی ۔۔ دادی جان " وہ رونے لگی ۔۔ عدیل کو اس پر بے حد ہنسی آئی کے ایک برگر کی وجہ سے وہ رونے لگی تھی عدیل بھی خاصا ڈھیٹ تھا اس نے بچا کچا برگر بھی کھا دیا جس پر زری اور زور زور سے رونے لگی ۔
"کیا ہوا ہے زری کیوں گھر سر پر اٹھا رکھا ہے تم نے ہاں " مسز جنید یقیناً آواز سن کر آئی تھیں
"امی اس نے میرا برگر کھا دیا ۔۔ اور جب میں نے غصے سے کہا کے لو سارا کھا لو تو اس نے سارا کھا دیا ۔ " وہ روتے ہوئے شکایت لگا رہی تھی
"زری تم پاگل ہو عمر دیکھو اپنی اور حرکتیں دیکھو پتا نہیں کیا بنے گا تمہارا " مسز جنید غصے سے کہتی ہوئیں کچن کی طرف لوٹ گئیں
"اچھا سوری " عدیل نے زری کو کہا جو اپنے آنسو صاف کر رہی تھی
"دفع ہو جاؤ تم " پاس صوفے پر پڑا کشن اٹھا کر اس نے عدیل کو مارا جو عدیل نے کیچ کر لیا
"دیکھی برگر کھا کر تم  نے مزید موٹی ہو جانا تھا " عدیل پتا نہیں اسے چپ کروا رہا تھا یاں اور رولا رہا تھا پر موٹی لفظ پر زری کو تپ چڑ گئی
"تم نے مجھے موٹی کہا " وہ غصے سے دھاڑی
"ہاں موٹی کو موٹی ھی بولوں گا نا " عدیل نے ٹی وی بند کرتے ہوئے کہا
"میں تمہارا منہ توڑ دوں گی عدیل " زری کا غصہ آسمان کو چھو رہا تھا
"ہاں تو میرا منہ توڑ دینے سے بھی تم نے کون سا سمارٹ ہو جانا ہے " بول کر عدیل بجلی سے بھی تیز رفتار میں بھاگ گیا
"عدیل۔۔۔۔" وہ  چیخی ۔
******************
"بابا مجھے ڈرائیونگ سیکھنی ہے " ناشتے کے ٹیبل پر رابیل نے عامر صاحب سے کہا جو ناشتے میں مگن تھے
"کیا ضرورت ہے ڈرائیورز ہیں نا " شاہ زیب نے سنجیدگی سے کہا ۔ جس پر رابیل نے اس پر نظر ڈالی ۔۔ پینٹ کوٹ میں وہ بہت ڈیسنٹ لگ رہا تھا ۔۔۔
"بابا مجھے ڈرائیورز کے ساتھ جانا پسند نہیں ہے" رابیل پھر سے  عامر صاحب کی طرف متوجہ ہوئی ۔باقی سب مزے سے ناشتہ کر رہے تھے
"ہم لوگ ہیں نا عدیل اور میں تو کیا ضرورت ہے سیکھنے کی " جواب پھر شاہ زیب نے دیا تھا
"ہاں بیٹا شاہ زیب ٹھیک کہہ  رہا ہے " عامر صاحب نے بریڈ پر جیم لگاتے ہوئے کہا ۔۔ وہ بہت کچھ کہنا چاہتی تھی مگر شاہ زیب کے سامنے وہ کیسے کچھ بول سکتی تھی . تب ھی اس نے پاس بیٹھی زری کو چٹکی کاٹ کر بولنے کو کہا
"کیا ٹھیک کہہ  رہے ہیں یہ ۔۔ چاچو  کوئی ہمیں باہر لے کر نہیں جاتا کہیں جانا ہو تو سو سو منتیں کرنی پڑتی ہیں، سو نخرے اٹھانے پڑتے ہیں پھر بات مان بھی لیں تو موڈ ھی ٹھیک نہیں ہوتے ان کے  " اب کی بار زری  تھوڑا غصے سے شاہ زیب کو دیکھ کر بولی
"اچھا سیکھا دوں گا میرے بیٹے کو میں " جنید صاحب نے پیار سے کہا
"پکا " رابیل خوشی سے بولی
"بلکل " جنید صاحب نے کہتے ہوئے سر اثبات میں ہلایا
۔رابیل نے خوشی سے کلاپنگ  کی مگرشاہ زیب نے جب ایک غصے کی نگاہ اس پر ڈالی وہ بھیگی بلی بن کر ناشتہ کرنے لگی ۔۔
ان کی فیملی کی خاصیت یہ ھی تھی کے ان میں بے حد اتفاق تھا ۔ بڑوں میں اتفاق کی وجہ سے بچوں پر بھی مثبت اثر پڑا تھا بظاہر بچوں کی ہنسی مذاق والی لڑائی ہو جاتی تھی لیکن نفرت نہیں کرتے تھے ۔ میرے بچے اور تمہارے بچے والا رواج نہیں تھا بلکہ سب ایک جیسا سمجھتے تھے ۔ جنید صاحب بڑے بھائی جو کہ دیتے سب اس کو ہنسی خوشی تسلیم کر لیتے تھے ۔ دادی جان اپنے بڑے بیٹے کی ہر بات مانتی تھیں
*********************
"لیبی ۔۔ پرنسیس کدھر ہو " شاہ زیب مرتضیٰ صاحب کے گھر آیا تھا اور پھر لائبہ کے روم میں اس سے ملنے آیا  ۔۔ لائبہ کارٹون لگاۓ بیٹھی تھی
"شاہ زیب بھائی " وہ بھاگ کر ان کی طرف آئی شاہ زیب نے مسکرا کر اسے سائیڈ سے اپنے ساتھ لگایا
"کیا کر رہی تھی " پھر بات کرتے ہوئے وہ صوفے پر بیٹھا
"کارٹون دیکھ رہی تھی " لائبہ نے ٹیبلٹ کی طرف اشارہ کیا جو شاہ زیب کو دیکھ کر لائبہ نے بیڈ پر اون ھی چھوڑ کر رکھ دیا تھا ۔ شاہ زیب نے اس کی نظروں کے  تعقب میں دیکھا ۔۔ ٹیبلٹ پر کارٹونز اب بھی چل رہے تھے ۔
"لائبہ ۔۔ لائبہ ۔۔ میرا چارجر کہاں رکھ دیا ہے تم نے " عروا چلاتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی ۔ شاہ زیب پر نظر پڑھتے ھی وہ چپ ہو گئی ۔۔
"آپ کب آئے " عروا نے مسکرا کر کہا ٹراوزر شرٹ میں وہ پیاری لگ رہی تھی ۔ ۔۔ غصے سے مسکراہٹ میں عروا کے  واضع بدلتے ہوئے دیکھ کر لائبہ نے اپنی مسکراہٹ دبائی
"ہمم ۔۔ بس ابھی ھی " شاہ زیب نے اسے اگنور کر کے اپنی جیب سے فون نکالا اور فون یوز کرنے لگ گیا
"آپی شاہ زیب بھائی کہہ رہے تھے کے انہیں آپ کے ہاتھ کے ہاتھ کے فنگر چپس کھانے ہیں بنا دیں نا جلدی سے پلیز " لائبہ نے عروا سے کہا ۔۔ شاہ زیب نے نظر اٹھا کر لائبہ کو دیکھا لائبہ نے اسے آنکھ ماری ۔۔ اور  پھر فون کی طرف متوجہ ہو گیا کیوں کے وہ لائبہ کی نیچر سے واقف تھا ۔ وہ شاہ زیب کا نام لے کر عروا سے بہت سے کام کروا لیتی تھی ۔
"ہاں کیوں نہیں میں ابھی آتی ہوں " عروا تیزی سے باہر چلی گئی ۔۔ لائبہ نے ہنس کر شاہ زیب کو دیکھا ۔۔
لائبہ ساتویں کلاس کی سٹوڈنٹ تھی اور  کزنز میں سب سے چھوٹی بھی تھی ۔ شاہ زیب لائبہ سے بہت اٹیچ تھا کیوں کے وہ تھی ھی بہت کیوٹ اور چلبلی ۔ لائبہ اور شاہ زیب میں بے حد پیار تھا اور یہ سب جانتے تھے . . ہر سنڈے کو وہ لائبہ کے گھر آتا اور پھر یہ دونوں کافی ٹائم ساتھ سپنڈ کرتے تھے ۔
***********************

"نگہت  بچوں میں کوئی لڑائی ہوئی ہے کیا " فریج سے چکن نکالتے ہوئے مسز جنید   پریشانی سے بولیں
"نہیں بھابی مجھے تو نہیں پتا کیوں کچھ ہوا ہے کیا " نگہت بیگم (مسز عامر ) ہانڈی میں چمچ چلاتے ہوئے بولیں
"ہاں آج ناشتے کے ٹیبل پر رابیل اور شاہ زیب کی گفتگو سے مجھے تھوڑی پریشانی ہو گئی ہے " اب وہ چکن کو ڈونگے میں ڈال کر دھو رہی تھیں
"ارے بھابی پریشان نا ہوں آپ ۔ آپ تو جانتی ہیں شاہ زیب سنجیدہ رہتا ہے اور رابیل بھی اس سے بات نہیں کرتی ۔ اور آج میں تھوڑی خیران ضرور ہوئی کے شاہ زیب کے سامنے رابیل نے بول کیسے لیا ورنہ آپ تو جانتی ہیں نا اس کی زبان نہیں کھلتی شاہ زیب کے آگے ۔ لیکن ساتھ ساتھ اپنی ضد کی بھی پوری ہے اگر کوئی اس کی بات نا مانے تو جانتی ہیں نا کتنا غصہ  کر جاتی ہے اسی لئے اسے آج شاہ زیب پر بھی غصہ آ گیا لیکن وقتی تھا آپ فکر نا کریں " ہانڈی بناتے ہوئے وہ ساتھ ساتھ بات کر رہی تھیں اس وقت وہ دونوں کچن میں رات کے کھانے کی تیاری کر رہی تھیں ۔ 
"امی ۔۔ چچی ۔۔۔" زری آوازیں دیتی ہوئی کچن میں آئی
"زری کبھی آرام سے بھی آ جایا کرو پورا گھر سر پر اٹھاۓ رکھتی ہو " مسز جنید نے ڈانٹتے ہوئے کہا
"امی آپ کو مجھے  ڈانٹنے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہے " زری نے  معصومانہ شکل بنائی
"اچھا کیا کام تھا ڈرامہ کوئین " مسز عامر نے ہنس کر کہا
"اس  بھوک کا علاج کر دیں ۔۔ میرے پیٹ میں چوہے کرکٹ، فٹ بال ، والی بال سب  کھیل رہے ہیں " زری شرارت سے بولی
"او بس تھوڑی دیر میں پک جاتا ہے کھانا " مسز عامر پھر سے ہانڈی کی طرف متوجہ ہوئیں ۔ زری نے ٹوکری سے سیب اٹھایا اور کرسی پر بیٹھ گئی جب عدیل کچن میں داخل ہوا
"اللہ‎ خیر آج یہ مخترمہ کھانا تو نہیں بنانے لگیں " آتے ھی اس نے زری کو مخاطب کیا 
"تمھیں میری شکل دیکھ کر لگتا ہے میں کھانا بنا سکتی ہوں " زری نے کہا ۔۔ عدیل گلاس منہ سے لگاۓ پانی پی رہا تھا پھر گلاس رکھ کر بولا
"نہیں تمھیں دیکھ کر واقع یہ تو نہیں لگتا کے تم بنا سکتی ہو البتہ تمہاری اوور لوڈ باڈی دیکھ کر ضرور لگتا ہے کے تم کھا بہت سکتی ہو ۔۔ " عدیل بات مکمل کر کے بھاگنے ھی لگا جب زری جی غصے سے ہاتھ میں پکڑا سیب زور سے عدیل کی طرف پھینکا جو اس کی کمر میں جا کر لگا ۔۔
"ہائے میری کمر ۔۔ امی اس زمین پر بوجھ کو سمجھا لیں " کمر ملتا ہوا وہ باہر کو بھاگا
"کیا زمین پر بوجھ ۔۔ آہا ۔۔ چچی دیکھیں نا " زری کلس کر رہ گئی ۔۔جس پر مسز جنید نے زری کو گھوری سے نوازہ
ان دونوں کا میلو ڈرامہ شرو ع دن سے چلتا آ رہا تھا ۔ زری موٹی تو نہیں تھی مگر اگر اسے کوئی موٹی بول دے تو اس کو بے حد غصہ آتا تھا ۔ عدیل یہ بات جانتا تھا اسی وجہ سے وہ ہمیشہ اسے چڑاتا رہتا تھا ۔ لیکن سب ان کی عادت سے واقف تھے یہ لڑائی کچھ منٹس پر ھی مبنی ہوتی تھی اور پھر یہ دونوں اکٹھے ھی کبھی فلم دیکھ رہے ہوتے تو کبھی عدیل زری کا کوئی پروجیکٹ بنا رہا ہوتا . .
*****************
دو ہفتے بعد آپ کو اس ناول کی اگلی قسط مل جاۓ گی انشااللہ ۔ ووٹ اور کومنٹ ضرور کریں

بے مول محبت از قلم ایمان محمود Completed ✅ Where stories live. Discover now