باب پنجم؛ نکاح کی منزل

1K 90 8
                                    

"کدھر جارہی ہے یہ جٹ اینڈ جولیٹ کی جوڑی؟"
ان میں سے ایک پولیس والا آگے بھر کر ان کے قریب آیا تھا جزیل اور روز چونکہ بائیک سے اتر چکے تھے اس لیے وہ اس کے روبرو کھڑے ہوکر اس سے مخاطب تھا
"سر جیولٹ کے ساتھ رومیو ہوتا ہے اور آپ نے تو نئی جوڑی بنا دی ویسے یہ بھی جوڑی کمال کی ہے" اس کی نون سٹاپ چلتی ہوئی زبان کو بریک پولیس والے کی آواز نے لگائی تھی
"آپ ہمیں یہ بتائیں گے کہ آپ اس ٹائم یہاں پر آوارہ گردیاں کیوں کر رہے ہیں؟"
ان میں سے ایک پولیس والا رعب دار آواز میں بولا تھا ۔روزینہ تو ان کے یوں تفتیشی انداز پر پریشان ہو کر گھبرا گئی تھی لیکن جزیل وہ کوشش کر رہا تھا کہ بات کو آسانی سے سنبھال لیا جائے لیکن بات کی نوعیت کا اندازہ اسے نہیں تھا
"نہیں نہیں سر آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ہم لوگوں آوارا کردیاں نہیں کر رہے تھے یہ تو میری کزن ہے انہیں میں افطار پارٹی پر لے کے آیا تھا روز بتاؤ نہ تم"
جزیل سنجیدگی سے بولا تھا روز نے بھی اسے دیکھ کر ہاں میں ہاں ملا دی تھی۔
"بےشرم انسان ایک تو تم گرل فرینڈ کے ساتھ یوں موج اڑاتتے ہوئے پکڑے گئے ہو اور اوپر سے تمہیں رمضان المبارک جیسے مہینے کی بے حرمتی تک کرنے کا احساس نہیں ہے"
"نہیں نہیں سر آپ کو واقعی کوئی غلط فہمی ہوئی ہے یہ میری گرل فرینڈ نہیں ہے میری کزن ہے اور ہم لوگ واقعی افطار پارٹی سے واپس آئے ہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے"
"اوہ ہیرو بڑے دیکھے ہیں تم جیسے۔۔۔ تم لوگ ایسے ہی جھوٹ بول کر گھر سے نکلتے ہو اور دوسروں کی بہنوں بیٹیوں کی عزتوں پر ایسے ہی حملہ کر جاتے ہو اور تم جیسی لڑکیاں۔۔" اس نے روز کی طرف اشارہ کیا اور اسے مخاطب کرتے ہوئے بولا
"تم جیسی لڑکیاں ہی ہوتی ہیں جو یوں ماں باپ کی عزتوں کو ایسے سستے بازاروں میں نیلام کرتی پھرتی ہیں"
روز تو اس کے اتنے گہرے اور شدید قسم کے تنقیدی الفاظ پر حیرت زدہ رہ گئی تھی اسے تو اندازہ ہی نہیں تھا کہ کوئی شخص اس کے کردار کے بارے میں اتنی بڑی بات کہہ سکتا ہے
"دیکھیں مسٹر زبان سنبھال کے بات کریں آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ آپ کسی کی بھی عزت کے بارے میں اتنی بڑی بات کہہ دیں سمجھتے کیا ہیں آپ خود کو ایک پولیس افسر کی وردی پہن لی تو اپنے آپ کو پتا نہیں کیا سمجھنے لگے؟؟"
اس پولیس افیسر کے بات سن کر اسکا تو غصے سے برا حال تھا اور اس کا پارہ ہائی ہونے میں ذرا سی بھی دیر نہیں لگی تھی۔روز ویسے تو بہت ہی اچھی لڑکی تھی لیکن جب اسے غصہ آتا تھا تو بس بہت زیادہ آ جاتا تھا اور اس کا خود پر بھی قابو نہیں رہتا تھا. پولیس آفیسر تو پولیس آفیسر جزیل مصطفی بھی روز کا یہ رویہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا تھا وہ جو اس خوش فہمی میں تھا کہ غصہ کرنے میں کوئی بھی اس سے زیادہ آگے نہیں جا سکتا وہ غلط تھا اسے اپنے غلط ہونے کا آج اندازہ ہوا تھا روز کا ایسا غصیل لہجہ اور اپنی ذات کے بارے میں بات برداشت نہ کرنا اس نے پہلی مرتبہ ہی دیکھا تھا
"روز آرام سے میری بات سنو اتنا غصہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ان کی باتوں کا مائنڈ کرنے کی ضرورت نہیں ہے میں ہینڈل کرتا ہوں تم چپ رہو ذرا"
جزیل مراقبے سے باہر نکلتے ہوئے بولا تھا جبکہ وہاں موجود تمام پولیس اہلکار ان دونوں کو ہی گھوریوں سے نواز رہے تھے۔
"او میاں تم کیا ہینڈل کرتے ہو نذیراحمد پہنچاؤ ان دونوں کو تھانے اور ایسا بندوبست کرو ان دونوں کا۔ کہ یاد رکھیں گے یہ دونوں پوری زندگی"
ایک پولیس افسر غصے سے بھرے ہوئے لہجے میں بولا تھا۔
"نہیں نہیں سر روز ابھی آپ سے سوری بول دیتی ہے بدتمیزی کی وجہ سے ایسی کوئی بات نہیں آپ ہمیں جانے دیں ہمارے گھر والے بیٹھ کر انتظار کر رہے ہوں گے"
جزیل سنجیدگی سے بولا تھا۔
"نذیر احمد سنا نہیں تم نے پہنچاؤ ان دونوں کو تھانے وہاں اب ایس ایچ او ہی ان کا کوئی بندوبست کریں گے"
وہ بول کر آگے بھر گیا جبکہ جزیل اور روز دونوں ہی اپنی جگہ ساکت کھڑے رہ گئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہاں بھائی تم دونوں کیا کرتے ہوئے پکڑے گئے ہو مجھے سخت افسوس ہوتا ہے میری قوم کے ایسے جوان بچوں پر"
ایس ایچ او نادر علی سخت لہجے میں ان دونوں سے مخاطب ہوا۔
"نہیں سر بہت بڑی غلط فہمی ہو گئی ہے آپ سب کو واقعی میں ہم لوگ افطار پارٹی پہ گئے تھے اور ہم لوگ کزنز ہیں"
جزیل سنجیدگی سے بولا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ معاملہ مزید بگڑ جائے ۔
"نہیں بیٹا تم کیا سمجھتے ہو ہم لوگ تم لوگوں کے ایسے فضول ڈراموں میں آجائیں گے؟؟ تم دونوں کو ایک اچھا سبق سکھانا ہی پڑے گا"
ایس ایچ او نادرا غصے سے پھنکارا تھا۔ روز کی تو حالت ہی بری ہوگئی تھی اسے کبھی کسی نے اتنی اونچی آواز میں مخاطب نہیں کیا تھا۔
"ہاں حمید لے آؤ مولوی صاحب کو اندر ان دونوں کو ایسے نہیں سبق ملے گا"
وہ اپنے پاس کھڑے ہوئے کونسٹیبل سے مخاطب ہوئے تھے۔ مگر مولوی کا نام سن کر روز اور جزیل دونوں ہی اپنی اپنی جگہ حیرت زدہ رہ گئے تھے۔
"سر دیکھیں واقعی میری بات کا یقین کریں ہم لوگ سچ کہہ رہے ہیں یہ مولوی کو کیوں بلایا ہے آپ نے"
جزیل جلدی جلدی بولا تھا لیکن روز اس کو تو گہری چپ لگ گئی تھی شاید اسے جو خدشہ ہوا تھا وہی حقیقت تھا۔
"آئیں آئیں مولوی صاحب ان دونوں کا ابھی اسی وقت میری موجودگی میں بلکہ مجھے گواہ بنا کر نکاح کیجئے "
نادرعلی ذرا سنبھل کر بولا تھا وہ مولوی صاحب پر ذرا سی بھی معاملے کی بھنک نہیں پڑنے دینا چاہتا تھا لیکن مولوی بھی کوئی کم سیانا نہ تھا وہ اچھی طرح سمجھ چکا تھا کہ معاملہ کیا ہے۔
"جی ابھی بسم اللہ کرتے ہیں مگر اس سے پہلے میں ان دونوں سے پوچھنا چاہوں گا بچوں کیا آپ دونوں راضی ہو؟"
وہ مولوی شفقت سے روز کے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے دونوں سے مخاطب تھا لیکن وہ دونوں ابھی کچھ بول ہی نہ پائے تھے جب نادر علی نے اپنی بات کہہ دی۔
"مولوی صاحب آپ بھی کمال کرتے ہیں ہم نے ان بچوں کے کہنے پر ہی آپ کو بلایا ہے اس لیے آپ کو زحمت کرکے آنا پڑا۔ چلیں اب جلدی کریں نیک کاموں میں دیری نہیں کیا کرتے "
"جی جی بسم اللہ"
مولوی صاحب کہہ کر کرسی پر براجمان ہو گئے تھے۔
"روزینہ انور بنت انور حبیب کیا آپ کو جزیل مصطفی سے یہ نکاح قبول ہے؟ "
روز کے کانوں میں الفاظ تو گونج رہے تھے لیکن اس کے منہ سے الفاظ کیسے نکلنے تھے اسے یہ معلوم ہی نہیں تھا وہ تو بس کھوئی کھوئی بیٹھی ہوئی تھی الفاظ نکلنے سے انکاری تھے ۔اس کے دماغ میں ایک فلم چل رہی تھی بابا ممی سنی پھوپھو شائستہ آپی سب کی محبتوں اور مان کا خیال تھا ایک چند گنے چنے ہی تو رشتے تھے آخر میں جزیل مصطفی کی بکھری ہوئی برسوں پرانے محبت بھی تھی۔۔ اگرچہ اس نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ اسے جزیل مصطفی اتنی آسانی سے مل جائے گا وہ رب کے حضور گرا گرا کر اسے مانگا تو ضرور کرتی تھی۔ مگر اس نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ جزیل واقعی صرف اس کا جزیل ہو جائے گا ۔ لیکن اب بہت کٹھن مرحلہ تھا روز کے لئے اسے چننا تھا اپنی فیملی کے درمیان اور اپنی محبت کے درمیان وقت اور حالات اسے کسی قسم کی کوئی آسانی فراہم نہیں کر رہے تھے اسے نہیں معلوم تھا اسے اب کیا کرنا چاہیے وہ بہت گم صم سی بیٹھی تھی جب مولوی صاحب نے دوبارہ ایک بار یہی سوال اس سے دوبارہ دہرایا۔
"قبول ہے"
روز نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا تھا۔۔دو آنسو ٹوٹ کر اس کے سرخ رخسار پر چپکے سے بہہ گۓ تھے۔جزیل نے حیرت سے اس کو دیکھا تھا دوسری طرف وہ بھی تو یہی ساری سوچیں سوچ سوچ کر پریشان ہوگیا تھا کہ اب اسے کیا کرنا تھا اور اسے کن کے درمیان چننا تھا
"جزیل مصطفی کیا آپ کو روزینہ انور سے نکاح قبول ہے؟"
"مجھے قبول ہے"
بس ایک لمحہ لگا تھا صرف ایک لمحہ دونوں کی زندگی مکمل طور پر بدل چکی تھی وہ نہیں جانتے تھے اس نکاح کا کیا انجام ہوگا۔گوا حضرات تو ایک دوسرے سے گلے مل رہے تھے لیکن یہ دونوں جنکا بس ابھی ابھی نکاح پڑھایا گیا تھا وہ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ گم صم سے بیٹھے ہوئے تھے۔دونوں ہی ایک سوچ میں گم تھے لیکن دونوں کو ہی نہیں پتا تھا کہ آگے ان کے ساتھ کیا ہونے جارہا ہے۔ تھوڑی دیر بعد ان دونوں کو جانے کی اجازت مل گئی تھی بائیک پر سفر کرتے ہوئے بھی دونوں بالکل خاموش تھے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ان دونوں کے درمیان اجنبیت اور خاموشی کی ایک نہ دکھنے والی دیوار حائل ہو گئی ہے۔گھر پہنچتے ہی ان دونوں کو سب سوئے ہوئے ملے تھے سوائے شائستہ کے جو ان دونوں کی ہی راہ تک رہی تھی وہ دونوں نظریں چڑا کر وہاں سے بھاگنے ہی لگے تھے جب شائستہ نے دونوں کو اپنے کمرے میں آنے کے لیے کہا۔
"آپی یار میں بہت تھکا ہوا ہوں میں اب سونے کے لئے جا رہا ہوں آپ نے جو بھی بات کرنی ہے چپ کرکے صبح کر لیجئے گا"
جزیل جھنجلاہٹ میں تھوڑا غصے سے بولا تھا شائستہ جو پولیس آفیسر کی کال کے بعد ساری حقیقت جان چکی تھی اس لئے اس نے جزیل کو جھڑکا۔
" جزیل میں مذاق کے موڈ میں ہرگز نہیں ہوں فورا سے پہلے تم دونوں میرے کمرے میں پہنچو"
شائستہ کہہ کر اپنے کمرے کی جانب چلی گئی تھی روز جزیل ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئے تھے لیکن ان دونوں کی آنکھوں میں ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے وہ پہلے والی چمک ہرگز نہیں تھی ۔
"تم دونوں تو افطار کے لیے گئے تھے نا گھر آنے میں ایک کیسے بج گیا؟"
"آپی دراصل راستے میں ٹریفک بہت تھا"
جزیل نے تھوک نکلا کیونکہ شائستہ جن نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی اس نے پہلے کبھی بھی جزیل کو یوں نہیں گھوڑا تھا ۔
'ٹریفک بہت تھا یا نکاح میں ٹائم زیادہ لگ گیا"
شائستہ کے الفاظ پر دونوں نے شاک سے شائستہ کی جانب چہرہ اٹھا کر دیکھا تھا جو ان دونوں کو ہی سنجیدگی سے دیکھ رہی تھی۔ان دونوں کو بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ شائستہ کو حقیقت ساری معلوم ہوگی۔۔
"اب مجھے کیوں ایسے ہونکوں کی طرح دیکھ رہے ہو تم دونوں؟؟ مجھے اسی پولیس آفیسر کی کال آئی تھی جو تم دونوں کے نکاح میں گواہ کے طور پر شریک تھا اب کیا تم میں سے کوئی مجھے بتائے گا کہ یہ سارا ماجرا کیا ہے؟"
شائستہ سخت لہجے میں ان سے مخاطب تھی کیونکہ گھر میں ابھی فرحت اور سنی سو رہے تھے اس لئے اس کی آواز تھوڑی مدہم تھی۔
"آپی دراصل ہوا یوں کہ۔۔۔"
جزیل نے اس کو ساری بات بتا دی تھی۔ اس دوران روز اپنی گود میں رکھے دونوں ہاتھوں کو گھور رہی تھی نظریں شرمندگی سے جھکی ہوئی تھی ۔اسے یہ لگ رہا تھا کہ یہ سارا کچھ اس کی اپنی وجہ سے ہوا ہے نہ وہ غصے سے پولیس آفیسر کو کچھ کہتی نہ آج وہ دونوں اس زبردستی کے نکاح کے رشتے میں بندھ جاتے۔۔ مگر وہ دونوں ایک حقیقت تو جان ہی نہیں پا رہے تھے کہ نکاح ہونا لازم تھا کیونکہ اس میں اللہ کی مرضی شامل تھی۔
"اگر تم دونوں ان کے سامنے اپنی ڈرامے بازی بند کر دیتے تو آج ایسا نہ ہوتا ہے تم لوگ جانتے ہو یہ کتنی بڑی بات ہے اور اس سے کتنے بڑے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں؟؟ تم دونوں ہی اس حقیقت سے انجان نہیں ہو کے ہم دونوں خاندانوں کے درمیان تعلقات اس طرح خوشگوار نہیں ہیں جس طرح ہونے چاہئیں "
شائستہ نے غصے سے ان دونوں کو دیکھا تھا لیکن ان دونوں کی شرمندگی سے بھری ہوئی نگاہیں دیکھ کر اسے اندازہ ہوا کہ اس میں غلطی ان دونوں کی ہی نہیں تھی اس لیے اسے نرمی سے ان دونوں کو سمجھانا تھا اور تنہائی میں بات کر کے اگلا لائحہ عمل تیار کرنا تھا۔
"روز تم جا کے سو جاؤ اور جزیل تم بھی۔۔ تم دونوں فی الحال آرام کرو اور صبح میں تم دونوں سے بات کروں گی"
شائستہ نے نرم پڑتے ہوئے کہا تھا۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ ان دونوں کے اس معاملے کو کیسے ہینڈل کرے گی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ یہ دونوں خود تو کچھ بھی صحیح نہیں کرسکتے تھے۔ وہ دونوں بھی اس وقت دماغی طور پر بہت پریشان تھے اس لئے شائستہ کے اچانک بدل جانے والے رویے پر حیران نہیں ہوئے تھے اور دونوں اپنے اپنے کمروں کی جانب بھر گئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اللہ تعالی یہ سب کیا ہوگیا"
روز جائے نماز میں سجدے میں جھک کر آنسوؤں سے بھری نگاہیں لیے اپنے رب سے مخاطب تھی آواز اسکی باہر تو نہیں آرہی تھی لیکن اس کا دل اندر سے چیخ رہا تھا ایک انجانا سا درد تھا ایک انجانی سی تکلیف تھی جو اسے بے چین کیے ہوئے تھی اور اسے اپنے دل کی بے چینی دور کرنے کا ایک ہی طریقہ تھا اپنا حالِ دل اپنے رب کے سامنے بنا خوف و ڈر کے کہہ دینا ۔
"یا اللہ تجھے کچھ بتانے کی ضرورت نہیں تو جانتا ہے بلکہ میرے دل میں محبت کا بیج اگانے والا تو تو خود ہے کیونکہ تیری مرضی کے بغیر کچھ بھی نہیں ممکن۔۔۔۔"
وہ اپنی چیخیں اپنی سسکیاں اپنے اندر ہی اتار رہی تھی وہ نہیں چاہتی تھی کہ باہر کسی کو بھی اس کی آواز جائے کہ کسی کو بھنک بھی پڑے کہ اس کے دل کی کیا حالت ہے
"یا اللہ میں نے جزیل سے محبت تو بچپن سے کی ہے تب سے جب مجھے محبت کیا ہوتی ہے یہ تک نہیں معلوم تھا۔۔۔مگر اللہ تعالی آپ تو جانتے ہیں نہ ۔۔۔کہ میں نے اس سے محبت ضرور کی تھی مگر پاک محبت کی تھی۔۔۔۔۔ پاکیزہ محبت کی تھی۔۔۔۔لیکن اللہ تعالی میں نے یہ کبھی نہیں چاہتا تھا کہ وہ یوں کسی ان چاہے رشتے میں بندھ جائے۔۔۔ میں نے اس سے نکاح کرنے کے خواب تو دیکھے تھے کیونکہ میں چاہتی تھی کہ میں جس سے محبت کرتی ہو وہ میرا محرم بن جائے اسے تو میرا محرم بنا دے لیکن میرے رب تو جانتا ہے نا میں نے کبھی نہیں چاہا کہ وہ زبردستی میرے ساتھ باندھ دیا جائے۔۔۔۔۔۔یا اللہ میں خود کو اس کے سامنے مجرم محسوس کر رہی ہوں مجھے یہی لگتا ہے کہ سارا قصور میرا تھا نہ میں بدتمیزی کرتی نہ آج یہ سب کچھ ہوتا یا اللہ پلیز۔۔۔۔۔ہمارے معاملے میں آسانیاں پیدا کر دیں یا پھر جو بھی انجام ہونا ہو وہ ہمارے حق میں بہتر ہو یا اللہ میں یہ تمام معاملہ تیرے سپرد کرکے پر سکون ہو گئی ہوں میں جانتی ہوں کہ میرا رب جو کرتا ہے وہ ہمارے لئے بہتر نہیں بہترین ہوتا ہے اور تیرا ہر عمل حکمت اور مصلحت سے بھرپور ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔"
روز کو پتہ ہی نہ چلا وہ کب سجدے میں اپنے رب سے باتیں کرتے کرتے نیند کی آغوش میں چلی گئی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف جزیل بھی کچھ ایسے ہی اپنی باتیں اپنے رب سے کرنے میں مصروف تھا وہ بھی جائے نماز بچھائے ہاتھوں کو اٹھائے ہوئے دعا میں اپنے رب کا شکر ادا کر رہا تھا وہ بات جو کبھی اس نے اپنے منہ سے نکلنے نہیں دی تھی اس کی ماں اور بہن تو جان گئی تھیں اور اس کا رب وہ تو پہلے سے ہی جانتا تھا لیکن اس کے رب نے اس کے دل کے جذبات کو جانتے ہوئے اس کی تمام دعائیں قبول فرما لی تھی اس کی دعاؤں پر کن فایاکن کہہ دیا تھا وہ کتنا خوش قسمت تھا نا کہ اس کی محبت اسے خود بخود بغیر کسی محنت کے سوغات میں دے دی گئی تھی۔
"میرے رب میں تیرا جس طرح بھی اور جیسے بھی اور جتنا بھی شکر ادا کروں وہ مجھے کم محسوس کرتا ہے تو ہی ہے جو سورج کو مشرق سے نکال کے مغرب میں غروب کرتا ہے۔ توہی ہے جو سورج کی روشنی چاند کو دے کر روشن کرتا ہے وہ تو ہی ہے جو رات کو دن میں اور دن کو رات میں تبدیل کرتا ہے۔۔۔وہ بھی تیری ہی ذات ہے جو اتنے خوبصورت موسم بدلتی ہے وہ بھی تیری ہی ذات ہے جو ہمارے لئے ہر قسم کے۔۔۔۔ انواع و اقسام کے پھل سبزیاں مہیا کرتی ہے۔۔۔۔ تو نے ہمیں ہر طرح کی نعمت سے نوازا ہے ہم تیرے شکر گزار بندے بننے کی کوشش تو کرتے ہیں مگر اس طرح شکر ادا نہیں کر پاتے جس طرح شکر ادا کرنے کا حق ہے یا اللہ میں تیری بارگاہ میں حاضر ہوکر تو نے جو مجھے آج اتنی بڑی خوشی دی ہے اس کا شکر ادا کرتا ہوں یا میرے رب تو میرے دل کے جذبات جانتا ہے اور تو نے میری محبت کے ساتھ نکاح کروادیا تیری مصلحت تو میں نہیں جانتا مگر یہ ضرور جانتا ہوں کہ تو جو بھی ہماری زندگی میں فیصلہ کرتا ہے وہ ہمارے حق میں بہترین ہوتا ہے۔۔۔۔ یا میرے رب تو میری محبت کو محرم بنا سکتا ہے تو محرم بنانے کے لئے جو راستے میں تکلیف اور پتھر ہیں تو انہیں بھی ہٹا دے۔ میرے رب۔۔۔تو ہم دونوں کے راستے میں جتنی بھی تکالیف ہیں یا پھر جو بھی مشکلات آنے والی ہیں۔۔یا اللہ انھیں ختم کردے یا اللہ یا پھر ہمیں ان آزمائشوں میں پورا اترنے کی توفیق دے یا میرے مالک۔۔۔"
دعا مانگ کر وہ بہت پرسکون محسوس کر رہا تھا۔وہ اٹھا اور اپنے بیڈ پر دراز ہو گیا ایک دفعہ اس نے اپنے دماغ میں آج ہونے والا سارا واقعہ دوہرایا وہ بھی عجیب شخص تھا یہ نہیں دیکھ رہا تھا کہ آج اس کے ساتھ کیوں ہوا اور کیا ہوا بس یہ دیکھ رہا تھا کہ جو بھی ہوا جیسے بھی ہوا اس کی برسوں پرانی محبت آخرکار اس کی محرم بن گئی تھی اور بے شک یہ اسکے رب کا فیصلہ تھا جو ان دونوں کے حق میں بہترین تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چُھپا ہمدم (COMPLETED)Where stories live. Discover now