پارٹ (1)

327 15 2
                                    

ڈائجسٹ ہاتھ میں لئے وہ ناول پڑھنے میں مصروف تھی ۔اسکے لمبے بال چہرے پہ بار بار جھک رہے تھے اور وہ انھے ایک ادا سے پیچھے کر کے ناول پڑھنے میں مصروف ہو جاتی ۔مرحا آپی ڈولی کوئی اور نہیں جہاں سکندر ہی تھا ہاےُ اللہ‎ مرحا آپی یہ کیا یہ میجر احمد بھی جہاں سکندر نکلا وہ چیختی ہوئ بول رہی تھی  ۔پاس بیٹھی مرحا جو کپڑے استری کر رہی تھی زنیرہ کی بات پہ اس نے اسے گھورے سے نوازا ۔۔ہاں تو جہان  ڈولی تھا مولی تھا مجھے کیا تم خود پڑھو دنیا کو چیخ کے نا بتاؤ کہ کون تھا ۔
آپی آپ غصے میں اور  بھی حسین لگتی ہے  وہ مرحا کو تنگ کرنے لگی ۔
زونی اب مار کھاؤ گی زیادہ تنگ کیا تو ۔۔
آپی ویسے نا آفاق بھائ بلکل جہان سکندر جیسے ہیں نا ہائے انکی بیوی کتنی لکی ہوگی جنکو آفاق مختار  ملے گے  (آفاق زنیرہ کی پھوپھو کا بیٹا ہے )۔۔۔زنیرہ باہر نکلو ورنہ آج خیر نہیں تماری ۔اور یہ سپنوں کی دنیا سے نکلو حقیقت کی دنیا میں قدم رکھو  مرحا ہاتھ بھی چلا رہی تھی اور ساتھ ساتھ  منہ بھی ۔۔آپی ویسے آج یہ بندر زوھان کدھر غائب ہے کمینہ جھوٹا مجھ سے کہا تمیں پیزا کھلاوُں گا ۔۔۔
مجھے کس نے یاد کیا وہ اپنی ہنسی دباتے ہوئے اندر داخل ہوا تھا ۔۔۔
اؤ آؤ شیطان کا نام لیا اور شیطان حاضر ۔۔ مجھے پیزا کھلانے لے جاؤ  وہ  فرمائش ایسے کر رہی تھی جیسے زوھان نے اسے پیزا کھلانے  لے  بھی جانا تھا ۔میں تمیں زہر کھلانا پسند کرونگا پیزا نہیں زوھان نے اسکے بال کینچتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔
آ۔ ہ۔ چھوڑ میرے بال بندر تم سے اللہ‎ پوچھے جھوٹے  بندر ۔۔زوھان مرحا کے پاس بیٹھ گیا تھا ۔کیسی ہیں آپ آپی ۔(وہ مرحا سے 1 سال چھوٹا تھا جبکے زنیرہ سے 2 سال بڑا تھا)
میں ٹھیک اللہ‎ کا کرم تم سناؤ ۔ مرحا نے دھیمے لہجے میں جواب دیا تھا ۔
افسوس کسی نے سنا ہی نہیں ۔۔ورنہ داستان ہم بھی ہزار رکھتے تھے زوھان نے زنیرہ کو دیکھتے ہوئے گمبھر لہجے میں کہا تھا ۔
بہتر یہی کے اپنی داستان کو  اپنے تک رکھو کوئی سنے گا تو زمانے تک پونچھے دیر نہیں لگے گی اپنی داستان دکھوں اور غموں کو صرف اپنے تک محدود رکھو لوگوں کے پاس اتنا فضول ٹائم نہیں تمارے اس گھٹیا داستان کو سننے کا  ۔زنیرہ چپ رہنے والوں میں سے کہاں تھی ۔اس کے دو ٹوک جواب کو سن کے زوھان کا چہرہ دیکھنے والا ہو گیا تھا ۔۔۔۔
ہائے اللہ‎ میں جس کام سے آیا تھا وہ تو بھول گیا بلکل ۔اس نے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔۔ہاں تو تم ہو ہی بھلکّڑ زنیرہ پھر سے سٹارٹ ہو گئی تھی ۔
میڈم تمیں بعد میں دیکھتا ہوں ۔مرحا آپی امی کہے رہی تھی آپ جب فارغ ہوئی تو گھر انا آفاق بھائ آ رہے آج جرمنی سے ۔۔۔وھواوو  یاہو آج آفاق بھائ آ رہے میں انکو آج مس کر رہی تھی قسم سے ہائے ہمارے جہان سکندر آ رہے ۔وہ پورے کمرے میں گول گول گھومتی  ہوئی کہے رہی تھی ۔۔۔زوھان اور مرحا دونوں اسے دیکھ کے اپنا سر پیٹھنے لگے ۔۔مرحا اور زنیرہ دو ہی بہنیں تھیں انکے امی کی ڈیت زنیرہ  کی پیدائش کے بعد ہوئی تھی ۔عبّاس صاحب نے اپنے بیٹیوں کو  بہت اچھی تربیت دیا تھا ۔زنیرہ بہت ہی چلبلی لڑکی تھی جب کے مرحا بہت ہی خاموش مزاج لڑکی تھی ۔
مرحا آپی میں ان میں سے کونسا ڈریس پہنو ہاتھوں میں ڈریس پکڑے آئینے کے سامنے کھڑی ہو کے وہ مرحا سے  پوچھنے لگی ۔۔۔
تم جو  بھی  پہنو گی پیاری لگو گی  ایک نظر زنیرہ پہ ڈال کے اس نے سراسری سا جواب دیا تھا ۔۔
کپڑے بیڈ پہ پینک کے وہ مرحا کے پاس بیٹھ گئی تھی۔۔۔جو کے زنیرہ کے بکس کو ٹھیک سے رکھ رہی تھی ۔۔۔آپی آپ نے اچھے سے دیکھا ہی نہیں اور کہے رہی تم جو بھی پہنو گی اچھی لگو گی وہ خفاگی سے کہنے لگی ۔
اچھا ابھی دکھاؤ میں دیکھ کے بتاتی کون سا پہنو ۔۔۔
وہ اٹھ کے دونوں ڈریس لے کے آئ تھی۔ یہ پہنو ریڈ اینڈ بلیک والا اٹھا کے مرحا نے اسے دیا ۔۔۔
میری پیاری مرحا آپی دنیا کی سب سے  بیسٹ آپی ہیں اس نے مرحا کے گرد اپنے بازو حائل  کئے تھے ۔۔۔
اچھا مکھن نا مارو اور تیار ہو جاؤ میں جا رہی ہیلپ کرنے پھوپھو کی اور تم جلدی آنا مرحا کی بات پہ اس نے ایک جھٹکے کے ساتھ  اسکے گرد سے اپنے بازو ہٹا دیے تھے اور اٹھ کے کھڑی ہو کے اپنی آنکھیں گول کر کے اسے گھورنے لگی ۔۔۔۔
آپ ایسے جایں گی  مطلب سچی اس ڈریس میں  جایں گی اس نے اسے اوپر سے نیچے دیکھ کے حیران  ہوتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔۔۔۔
ہاں تو ایسی ہی جاؤنگی تھوڑی نا کسی شادی پہ جا رہی ہوں  مرحا نے عام سے لہجے میں کہا تھا ۔۔۔
پھر بھی آپی آفاق بھائ کتنے ٹائم بعد آ رہے ایسے تھوڑی نا بندا منہ اٹھا کے چلا جائے ویسے حد ہے آپی آپ میں کوئی لڑکی والے شوق بھی ہیں کے نہیں ۔آپکو اس بلیک ڈریس میں دیکھ دیکھ کے میری آنکھیں تھک گئی ہیں ۔۔
زنیرہ کی بات پہ مرحا کے چہرے پہ ایک اداس بھری مسکراہٹ پہل گئی تھی ۔۔
زونی میں ٹھیک ہوں اور سجنا کس کے لئے ۔اچھا چھوڑو تم ریڈی ہو کے آ جانا میں جا رہی ہوں ۔زنیرہ کا  جواب  سنے بغیر وہ تیز تیز قدم اٹھاتی کمرے سے نکل گئی تھی۔ ۔
حد ہے ویسے آپی بھی عجیب ہیں چلو میں تو تیار ہو کے جاؤنگی۔۔۔وہ بڑ بڑاہتی ہوئی  آئینے کے سامنے آ کے کھڑی ہو گئی تھی ۔۔۔ایک نظر خود پہ ڈال کے جلدی سے واشروم کی اندر گھس گئی تھی ۔۔۔۔۔
جلدی جلدی تیار ہو کے وہ تقریباً بھاگتی ہوئی  سیڑھیاں عبور کرنے لگی آخری سیڑھی پہ جیسے ہی اس نے قدم رکھی تو اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکی اور وہ زمین پہ گرنے والی تھی کے کسی نے اسے اپنے آینی بازوؤں میں تھام لیا تھا ۔اس نے جلدی سے اپنی آنکھیں بند کر لئے تھے  ۔ اس نے جیسےہی اپنے آنکھیں کھولی زوھان کو اپنے اوپر جھکتے ہوئےدیکھ کے اس کی دھڑکنیں تھم سی گئی تھی ۔۔۔۔وہ پلک جھپکانا بھول گئی تھی ۔۔۔۔بلیک کاٹن کے شلوار قمیض میں وہ  اپنےسحر انگیز شخصیت کے ساتھ سامنے والے کو ٹھٹکنے پہ مجبور کر سکتا تھا ۔۔۔۔۔ زنیرہ یک ٹک اسے دیکھے ،جا رہی تھی ۔۔۔۔

لڑکی ہوش کی دنیا میں آجاؤ رحم کرو مجھ معصوم پہ تم جیسی موٹی کو پکڑ کے تھک گیا میں ۔زوھان کی بات پہ شرمندہ ہو کے وہ جلدی سے اس سے دور ہو گئی تھی ۔۔۔۔
وہ میں تمیں بلانے آیا تھا تم نے سویٹ ڈیش بنانا تھا بھائ کے لئے (وہ صرف سویٹ ڈیش بناتی تھی اور کوئی کام اسے آتی بھی نہیں تھی )

ا

ں میں وہی آرہی تھی اب پیچھے ہٹو میں جا رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔

جاؤ میں نے کب روکا تمیں زوھان نے بھی حساب پکا کر لیا تھا ۔۔۔۔۔۔

محبّت آتش عشق  از  قلم سمیرہ ظاہر Where stories live. Discover now