پارٹ (9)

83 12 2
                                    

میں آپکا گالا دبانے میں دیر نہیں کرونگی سچ  بتاؤ اب ۔۔۔۔
اب کی بار زوھان نے زوردار قہقہ لگایا تھا ۔۔۔۔
یار مذاق کر رہا ہوں تم تو سیریس ہو گئی بلکل ۔۔۔۔
اتنا فضول مذاق پھر کیا نا زوھان میں آپکا گالا سچ میں دبا دونگی ۔۔۔
توبہ کرو لڑکی اس عمر میں کیوں  بیوہ  ہونا  چاہتی  ہو ۔۔۔۔
ہاں تو سچ باتئں آپ مجھ سے کتنا محبّت کرتے ہیں ۔۔۔۔
ااتنا کے کبھی لفظوں میں بیان نہیں کر پاؤں گا ۔۔۔۔۔
ہائے صدقے قربان اب لگ رہے ہو زنیرہ عبّاس کے  میاں اس نے اپنی بالوں کو ایک ادا سے پیچھے کرتی ہوئی کہا ۔۔۔۔۔
کیوں پہلے کسی اور کا شوہر تھا میں کیا  اسکی بات سن کے زوھان نے اپنا سر پیٹتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔۔
ہاں پہلے بھی میرے شوہر ہی تھے لیکن لگ نہیں رہے تھے اب لگ بھی رہے ہیں میرا اثر جو ہوا ہے آپ پہ  اب میں جا رہی آپ زیادہ فری ہو گہیں۔۔۔
حد کرتی ہو زونی خود ہی سوال کرتی اور جواب بھی خود ہی دیتی ہو ۔۔۔۔
ہاں تو شکر ادا کرو اللہ‎ کا کہ مجھ جیسی بیوی ملی جو سوال کرنے سے پہلے جواب ڈھونڈ لیتی ہے زوھان کو آنکھ مارتی ہوئی اس نے کہا تھا ۔۔آج لوگوں کو روزہ زیادہ لگ رہا اسی لئے ایسی باتیں کر رہے میں سمجھ سکتا ہوں ۔۔۔۔
کیا کہا مجھے روزہ لگ رہا توبہ تمیں خود لگ رہا ہے اسی لئے مجھے کہے رہے ہو ۔۔
چور کی داڑی میں تنکا اسکی بات بھی زنیرہ نے آنکھیں گول گول کر کے اسے گورے سے نوازا تھا ۔۔۔
آپکے اطلا کے لئے عرض کروں میں لڑکی ہوں میری داڑی نہیں ہے  اس نے جس انداز میں کہا تھا اسے دیکھ کے زوھان نے مشکل سے اپنی  ہنسی ضبط کیا  تھا  ۔۔۔
تم ڈرامہ ہو زونی قسم سے ۔۔۔۔
ہاں تو فلم بن جاؤں آپ کیا کہتے ۔۔۔
بس بس آج کے لئے اتنا کافی ایک تو روزہ پہلے سے لگ رہا اوپر سے تم اتنا بولتی ہو توبہ یہ کہتے ہی وہ بھاگ گیا تھا اور زنیرہ بھی کوشن اٹھا کے اسکی پیچھے بھاگی تھی  تقریباً ہو بھاگتا ہوا  ڈائننگ ہال میں آیا تھا جہاں آفاق اور کلثوم بیگم بیٹھی تھیں ۔۔۔
اب وہ کلثوم بیگم کے پیچے چھپ گیا تھا ۔
بچا لو امی اپکی ظالم بہو مجھے مر ڈالے گا ڈرنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے اس نے کہا تھا ۔۔
پھو پھو جان یہ خود میرا مذاق اڑا رہے تھے وہ کلثوم بیگم کے پاس بیٹھ کے زوھان کی شکائتیں کرنی لگی ۔۔۔
زوھان میری بیٹی کو تنگ کیوں کرتے ہو وہ  مصنوئ انداز سے اسے ڈانٹنے لگی ۔۔
واہ بھائ واہ پارٹی چینج  اب بیٹے کو نہیں دیکھا جاتا اب تو بہو کی سائیڈ لیا جاتا ہے کیا دن آ گئے ہیں اسکی بات پہ  زنیرہ اور کلثوم بیگم دونوں کھلکھلا کر ہنسی تھی ۔۔۔
جبکے آفاق سپاٹ چہرے سے انہے دیکھنے لگا ۔۔۔بات یہ نہیں تھی کے اسے زنیرہ سے عشق تھا بات صرف ضد کی تھی اور حاصل کرنے کی زنیرہ کو وہ پسند کرتا تھا  لیکن وقت کے ساتھ اسکے لئے جذبات اسکے دل سے ختم ہو چکی تھیں ۔۔۔۔۔سب پہ ایک نا گوار نظر ڈال کے وہ وہاں iسے اٹھ کے باہر کی طرف بڑھ گیا تھا  ۔جبکے وہ سب اب بھی باتوں میں مصروف تھے اتنے میں مرحا بھی آ گئی تھی وہ وہی انکے پاس بیٹھ گئی تھی  اسکی آنکھیں زیادہ  رونے کی وجہ سے سرخ پڑھ گئی تھی  ۔۔۔۔
کیا ہوا مرحا آپی اپکی آنکھیں ریڈ کیوں ہیں  زنیرہ کافی دنوں سے اسے نوٹ کر رہی تھی آج آخر کر اس نے پوچھ بھی لیا ۔۔
اسکی اس سوال پہ وہ ذرا گھبرائ تھی لیکن   خود کو سمبھال کے اس نے زنیرہ کو جواب دیا تھا ۔۔
رات کو سویی نہیں نا اسی لئے آنکھیں سرخ  ہو رہی ہی بے خوابی کی وجہ سے ۔۔
اچھا تو آپ جا کے ریسٹ کر لیں نا اپکی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی اس نے پریشانی سے کہا تھا ۔۔۔
نہیں میں اب ٹھیک ہوں تم فکر مت کرو اس نے زبردستی اپنے چہرے پہ مسکراہٹ سجا لیا تھا ۔۔۔
اچھا میں جا رہی مجھے تو نیند آ رہی ذرا آرام کی کر لیتی ہوں آپی مجھے اٹھا دینا بعد میں افطاری بھی بنانی ہے تو اسی لئے مجھے اٹھا دینا آپ ٹائم پہ یہ کہے وہ وہاں سے اٹھ گئی تھی ۔۔مرحا بھی ابھی اٹھنے والی تھی کہ اچانک اسکی سیل پہ کسی انوں نمبر سے کال آنے لگی  پہلے تو اس نے پک نہیں کیا پھر اگین اسی نمبر سے کال آیا اب کی بار کچھ سوچتی ہوئی اس نے کال اٹینڈ کر لیا  دوسری طرف سے سلام کیا گیا تھا وہ پل بھر میں دنگ رہ گئی تھی  وہ ہک ٹک موبائل کو دیکھی جا رہی تھی دوسری طرف سے ایک بار پھر سے سلام کیا گیا تھا اب کی بار اس نے دبی آواز میں جواب دیا تھا  جبکے زوھان اور کلثوم بیگم پریشان سی اسے دیکھ رہے تھے ۔۔
کیسے ہیں آپ مامو جان  وہ نم لہجے میں پوچھنے لگی اب ایک بار کلثوم بیگم اور زوھان کو  تھوڑا سا اطمینان ہوا تھا کے سب خیر ہی ہے ۔۔۔۔۔
مرحا مامو کی جان کیسی ہو زنیرہ کیسی ہے ۔۔۔
مامو میں ٹھیک زونی بھی ٹھیک آپ کیسے ہیں آپکو پتا میں نے آپکو کتنا یاد کیا کیا آپکو ہماری یاد نہیں آئ تھوڑا سا بھی ۔۔
بیٹا میں نے ہر لمحہ آپ دونوں کو یاد کیا آپ تو میری ماریہ کا عکس ہو   بیٹا میں شرمندہ تھا اور مجبور بھی ہو سکے مجھے معاف کرنا ۔
نہیں مامو جان آپ معافی نا مانگے غلطی تو انسانوں سے ہی  ہوتی ہے  آپ مجھ سے بڑے ہیں معافی نا مانگے ۔۔۔
یہ تو بیٹا آپکا بڑاپن ہے  ہم تو آپکے گناہگارہیں  اس عمر میں اپکی زندگی برباد کر دی ہم نے  انکی لہجے سے ندامت صاف ظاہر ہو رہا تھا ۔۔
مامو جان ایسا کچھ بھی نہیں وہ میری قسمت تھی وہ میرے اللہ‎ نے میرے لئے لکھا تھا  میں نے صبر کیا اور صبر کا پھل سبکو ملتا ہے مجھے بھی مل جائے گی  اور آپ  معافی مانگ کے مجھے شرمندہ نا کریں ویسے بھی پھوپھو نے ما ں سے بڑھ کے پیار دیا ہے  اور میں بھی خوش ہوں اور زونی بھی  ۔۔
اللہ‎ تمیں خوش رکھے  آباد رکھے  اچھا بیٹا میں رکھتا ہوں کال اپنا اور زنیرہ کو خیال رکھنا اللہ‎ حافظ ۔۔۔!!
اللہ‎ حافظ مامو جان ۔۔۔۔!!!
کال کٹ گئی تھی لیکن اب اسکے چہرے پہ اداسی کی جگہ  مسکراہٹ نے لے لی تھی ۔۔۔ 
پھو پھو اقبال مامو تھے آپکو پاتا وہ مجھ سے معافی مانگ رہے تھے  (اس نے اپنی نکاح کا اور طلاق کا کلثوم بیگم کو بتا دیا تھا انہو نے اسے دلاسہ دیا تھا غلط نہیں کہا تھا )
ماشاءالله یہ بہت اچھی بات ہے اللہ‎ ایسے ہی خوش رکھے میرے بچوں کو  انکے لہجے سے محبّت ہی محبّت جھلک رہی تھی ۔۔۔۔
پھو پھو میں آپکا جتنا شکریہ ادا کروں کم ہے آپ نے ہمیں اتنا عزت مان اور پیار دیا میں نہیں بتا سکتی  کلثوم بیگم کے ہاتھوں کو چومتی ہوئی اس نے کہا تھا ۔۔۔
آپ بہت ہی فرمانبردار  بیٹی ہیں  آپ تو سراپا محبّت ہیں میری جان خوش رہو انکی بات پہ وہ مسکراہی تھی ۔۔
افطاری سے فارغ ہو کے اس نے  برتن سمیٹ لئے تھے اور کچن میں رکھ لئے تھے اب خود مغرب کی نماز کے لئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی ۔کمرے کے دروازے کے پاس وہ جیسے ہی پونچی تو اپنے نام پہ وہی ٹھٹک گئی  ۔۔آفاق کسی سے کال پہ بات کر رہا تھا ۔۔
میں تمیں اب کام سے نکال رہا ہوں میں نے تم سے کہا تھا  زنیرہ کو اٹھانا اور تم نے اس مرحا کو  اٹھا لیا اور مجھے اب مجبورً اسے برداشت کرنا  پڑھ رہا کاش اس دن نکاح کے پپیرز وہ سائن نہیں کرتی  لیکن سب کچھ ہو گیا اب تمیں میں نکال رہا ہوں کام سے یہ کہے کے اس نے کال کاٹ دیا تھا ۔۔۔
مرحا کا  چہرہ زرد پڑھ گیا تھا اسکا جسم
لرز گیا تھا  اور آنسوؤں نے اسکے آنکھوں میں جگہ لے لی تھی ۔
اس نے غصے سے کمرے کا دروازہ کھول دیا تھا  اسکے اس افتاد پہ آفاق نے موڑ کے اسے دیکھا تھا  اور آج پہلی بار وہ ڈر گیا تھا آج پہلی بار آفاق مختار کی دل کی دھڑکنوں کی رفتار تیز  ہو گئی تھی۔۔۔۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔

محبّت آتش عشق  از  قلم سمیرہ ظاہر Where stories live. Discover now