قسط نمبر ۱۶

594 34 20
                                    

وہ سارے اس وقت آںٔی سی یو کے باہر کھڑے زبیدہ کے لیے دعا گو تھے۔ جنت روتے ہوۓ کونے میں کھڑی سب کے سامنے گناہ گار نا ہوتے ہوۓ بھی خود کو گناہ گار سمجھ رہی تھی جبکہ دلآویز کو تو رو رو کر برا حال ہوا وا تھا ۔ زبیدہ بھلے اسکی سگی ماں نہ تھی لیکن اسکے تمام سگے رشتوں سے بڑھ کر تھی ۔ خانم نے بامشکل اسے سنبھالا ہوا تھا جبکہ وجی اسے یوں بلکتا دیکھ لب بھیج کر کھڑا تھا کچھ بھی تھا وہ اسکی محبت اسکی بیوی تھی جسے وہ اب یوں روتا نہیں دیکھ سکتا تھا اسی لیے اسکی سزا پہ سر خم کردیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طویل انتظار کے بعد آںٔی سی یو سے ڈاکٹر نکلتا ہوا دیکھاںٔی دیا۔ انھیں دیکھتے ہی آفتاب صاحب اور کمال صاحب انکی جانب بڑھے ۔۔۔۔۔
دیکھںٔے پیشنٹ کی حالت ابھی زیادہ بہتر نہیں ہے وہ ہرٹ پیشنٹ ہیں اور کوںٔی بھی جھٹکا ان کے لیے آخری ثابت ہوسکتا ہے پلیز آپ سب اس بات کا دیھان رکھںٔیے ورنہ وہ سرواںٔو نہیں کرسکیں گی باقی اللّٰہ سے دعا کریں وہ بہتر کرے گا۔۔۔۔( ڈاکٹر پروفیشنل انداز میں کہتا وہاں سے جاچکا تھا لیکن دلآویز کے رونے میں اور روانی آگںٔی تھی)
مما۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیٹے صبر کرو انھیں نے کہا کہ دعا کریں جاؤ تم اللّٰہ سے انکی صحت یابی کی دعا کرو اللّٰہ سب کی سنتا ہے ۔۔۔۔۔۔( کمال صاحب نے اسکے سر پہ ہاتھ رکھ کر تسلی دی تو خانم اسے لیے پرںٔیر روم کی جانب چل دی )
جنت بھی انھی کے پیچھے چلی گںٔی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وجی وہیں کمال صاحب کے ساتھ رک گیا تھا باقی سب کو گھر بھیج دیا گیا۔ دلآویز گھر جانے کو تیار نہ تھی اسی لیے خانم اور جنت اسے لیے وہیں رک گںٔے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تقریباً رات کے تیسرے پہر ڈاکٹرس نے انکی حالت اب خطرے سے باہر بتاںٔی تو سب کی جان میں جان آںٔی دلآویز تو اپنے رب کے آگے جھکی اسکا شکر ادا کررہی تھی جنت بھی اسی کے ساتھ نوافل کی ادائیگی میں لگی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وجی نے خانم سے دلآویز کو لے جانے کے لیے کہا لیکن وہ وہاں سے ہلنے کو بھی راضی نہ تھی۔ جنت کو کچھ دیر کے لیے کمال صاحب کے ساتھ گھر بھیج دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
طویل تکلیف کے بعد جب جنت نے گھر میں قدم رکھا تو نجمہ آگے تنے ہوۓ نقوش سمیت بیٹھی ہوںٔی تھی لیکن کمال صاحب کی موجودگی کا خیال کرتے ہوۓ چپ رہیں۔ تھکے ہوۓ عصابوں سے وہ اپنے اور زبیدہ کے مشترکہ کمرے میں آںٔی اور دھپ سے بیڈ پہ لیٹ گئی۔ رو رو کر تھکی ہوںٔی آنکھوں کو جب کچھ آرام کی غرض سے بند کیا تو اچانک ہی دو شکوہ کرتی ہوںٔی گہری گہری آنکھیں دماغ پہ چھا گںٔیں بے اختیار ہی آنکھیں کھول دیں ۔ اسکی زندگی میں کل کے دن سے کیا سے کیا ہوگیا تھا اور وہ بس دیکھتی ہی رہ گںٔی تھی۔ عفان نے اسکے ساتھ جو بھی کیا تھا لیکن سچ یہی تھا کہ وہ اب اسے قبول کرنے لگی تھی بس سب کے ڈر اور نجمہ کی نظروں نے اسے اسکا ساتھ دینے سے بعض رکھا۔ناجانے وہ غصے میں کہاں چلا گیا تھا سب کو بتاۓ بغیر یہی سوچ اسے ہولا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوپہر کے وقت اسے نیچے سے کچھ شور کی آواز آںٔی ۔ نیچے جاکر دیکھا تو وہاں سحر اسرار ابتسام اور آسرار صاحب کے ساتھ بیٹھیں تھیں۔ جنت کو اپنا آپ انکا مجرم لگا اسی لیے وہ آدھے رستے سے ہی اوپر جانے لگی تھی کہ سحر اسرار کی آواز پہ وہ رک گںٔی۔۔۔۔۔۔۔۔
ادھر آؤ بچے۔۔۔۔( سحر کی آواز میں نرمی دیکھ وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا کر نیچے آںٔی)
تو سامنے ہی نظر ابتسام پہ گںٔی جو چہرہ جھکائے کسی غیر مرئی نقطے پر نظریں مرکوز کرکے بیٹھا تھا ۔۔۔۔۔۔
پتا نہیں سحر میرا بچہ کدھر چلا گیا ہے۔۔۔۔( نجمہ مسلسل روتی عفان کو یاد کررہی تھیں جسنے اپنا فون تک بند کرلیا تھا۔).
جنت چپ سی سحر اسرار کے پہلو میں جاکر بیٹھ گںٔی تھی۔۔۔۔۔۔
یہ کیا کررہی ہو سحر اسنے ہی تمھارے گھر کی خوشی چھین لی اب اسے ہی کلیجے سے لگا رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( پروین ابراز نے نخوت سے اسکے جھکے سر کو دیکھ کر کہا).....
بس کریں پروین باجی بچی کی کوںٔی غلطی نہیں ہے اور اگر عفان سے بھی یہ غلطی ہوںٔی ہے تو ہمارا ہی بچہ ہے ہمیں اسکی بات سننی چاہیے تھی ناکہ اسے خاموش کروادیتے ۔۔۔۔۔( سحر اسرار بولتے ہوۓ نجمہ کو بھی سنا رہیں تھیں )
انکی بات پہ جنت نے انھیں تشکر بھری نظروں سے دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔
لیکن سحر ابتسام کی کیا غلطی تھی اس میں ۔۔۔؟( اب کے پروین نے ابتسام کے جھکے سر کو دیکھ کر کہا)
کوںٔی غلطی نہیں تھی پروین باجی میرا بچہ بہت صبر والا ہے اللّٰہ اسکے نصیب اچھے کرے۔۔۔۔۔( انکی بات پہ جنت نے ابتسام کی طرف دیکھا جو اپنی ماں کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا لیکن جنت پہ وہ ایک نظر بھی نہیں ڈال رہا تھا )
چلیں اسرار ہمیں زبیدہ بھابھی کو دیکھنے چلنا ہے ۔۔۔۔۔( اسرار صاحب جو کمال صاحب اور حیات صاحب سے کسی بات پہ محو گفتگو تھے سر ہلا کر اٹھ کھڑے ہوۓ)
اسکے بعد وہ لوگ جنت کو اپنے ساتھ لیے ہی ہسپٹل کی جانب بڑھ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زبیدہ کو پراںٔیوٹ وارڈ میں شفٹ کرلیا گیا تھا اسی لیے س ان سے ملنے کے لیے گںٔے۔ سحر کو دیکھ زبیدہ نے ان سے معافی مانگنی چاہی لیکن سحر نے انھیں مسکرا کر یہ کرنے سے روک دیا انکا کہنا تھا کہ یہ س مقدروں کا فیصلہ ہے ہم بندے اسکی مصلحتوں کو نہیں سمجھ سکتے ۔۔۔۔۔۔۔۔
سحر کی ظرف سے سب اب بے فکر ہوگںٔے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلآویز گھر چلی جاؤ اب ۔۔۔۔۔( اسے کل سے یہاں تھکتا دیکھ وجی نے کہا)
میں ٹھیک ہوں یہیں۔۔۔۔۔( دلآویز نے نظریں جھکا کر اسکا جواب دیا)
گھر جاؤ میرا بچہ میں اب بلکل ٹھیک ہوں جاؤ۔۔۔۔۔( زبیدہ نے اسکی بکھری حالت دیکھی تو اسے زبردستی خانم اور وجی کے ساتھ گھر بھیج دیا اور ہسپٹل میں کچھ دیر کے لیے سحر اور جنت رک گئیں۔۔۔۔)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

FiraaQ 🔥(COMPLETE) ☑️Where stories live. Discover now