قسط نمبر ۲

213 10 18
                                    


اس وقت امریکہ کا موسم کافی سرد تھا ٹھنڈی ٹھنڈی سرد ہوائیں اگلے کے دانت بجانے کے لیے کافی تھیں۔ ایسے وہ میں رات کے گیارہ بجے سنسان سی سڑک سے ہوتی ہوںٔی اپنے گھر کی جانب بڑھ رہی تھی ۔ سڑک پہ چلتے بوٹوں کی آواز اس خاموشی کو چیرنے کی ناکام سی کوشش میں تھی۔ اکا دکا گاڑیاں ادھر سے گزرتی اور پھر آگے دھند میں کہیں غاںٔب سی ہوجاتیں۔ اس وقت وہ ڈارک بلو پینٹ اوپر پنک ہاںٔی نیک شرٹ اور ساتھ ہی جیکٹ پہنے گلے میں مفلر کو اچھی طرح لپیٹے دونوں ہاتھوں کو پینٹ کی پاکٹ میں پھنساۓ ناک کی سیدھ میں خاموشی سے قدم بہ قدم چل رہی تھی کہ اچانک ہی اپنی پیچھے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا لیکن وہ پھر بھی نظر انداز کرتی آگے بڑھتی رہی مگر جب اس بات کا یقین ہوگیا کہ یہ سب اسکا وہم نہیں بلکہ اسکے پیچھے سچ میں کوںٔی ہے تو چلتے چلتے ہی وہ اپنی جگہ رک گںٔی۔ اسکے رکنے سے پیچھا کرتے لوگ بھی وہیں رکے۔۔۔۔۔۔۔
ان میں سے ایک نے دوسرے کو اشارہ کر آگے بڑھنے کے لیے کہا تو وہ بنا جھجھکے اس تک آیا اور اسکے پینٹ میں پھنسے ہاتھ کو پکڑنا چاہا اس سے پہلے وہ اسکے بازو کو چھوتا اسنے اتنی ہی پھرتی سے اپنے باںٔیں ہاتھ کی کہنی کو اسکے پیٹھ میں اس قدر زور سے مارا کہ وہ بلبلا کر پیچھے ہٹا ۔ اب خاموش سڑک پہ اسکے کراہنے کی آوازیں وہاں سناںٔی دے رہیں تھیں۔ ان تین لوگوں میں سے جب دو نے اپنے ساتھی کو یوں تڑپتا دیکھا تو انکا خون کھول اٹھا ۔ اب ان دو میں سے ایک اور شخص آگے بڑھا اور اسکا رخ پلٹ کر اپنی جانب کیا لیکن اچانک ہی اسکے جبڑے پہ اس زور سے پنچ لگا کہ وہ چیختا چلاتا دور ہوا اور درد سے کراہتا ہوا جبڑا پکڑے خون تھوکنے لگا جو اب ہونٹ اور منہ پھٹنے سے بہنے لگا تھا۔ اسکے بعد وہ پیچھے تیسرے کی طرف مڑی جو اسے دیکھ ہی گھبرا کر پیچھے کی طرف ہوا لیکن اپنے ساتھی ( جسکے پیٹھ میں کہنی لگی تھی ) اسکے کہنے پہ زرا ہمت کرتا چند قدم آگے کو ہوا لیکن اب مقابل نے اپنی جیکٹ میں ہاتھ ڈال کر پھرتی سے پسٹل نکالی اور تینوں پر تان لی جسے دیکھ اب سہی معنوں میں انکے ہوش اڑے تھے اور منٹ کی دیر کیے بغیر گرتے پڑتے وہاں سے غاںٔب ہوگئے۔ انکے جانے کے بعد اسنے گہرا سانس ہوا کے سپرد کرکے وہ پسٹل واپس جیکٹ میں رکھی اور پھر سے پرسکون سی چال چلتی گھر کی طرف بڑھ گںٔی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ارے زونا  اتنی دیر کیوں لگادی آتے ہوۓ۔۔۔۔؟ ( گھر میں داخل ہوتے ہی اپنی ماں کی آواز سماعتوں سے ٹکرائی جو لاؤنج میں ٹی وی چلاۓ کافی کے سپ لیتی چینل سرچنگ میں مصروف تھی )
اسنے اپنا جیکٹ اتار کر وہیں صوفے پہ پھینکا اور انکے ساتھ ہی صوفے پہ نیم دراز ہوگںٔی۔۔۔۔
بس موم لیزا کے ساتھ کلب گںٔی تھی وہیں دیر ہوگئی۔۔۔۔۔۔(اپنی پینٹ کی پاکٹ سے موبائل نکالتی مصروف سے انداز میں بتایا)
تمھارے ڈیڈ بھی پریشان ہورہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔
او کم اون موم ۔۔۔میں بچی نہیں ہوں خود کی حفاظت مجھے اچھے سے آتی ہے۔۔۔۔۔۔۔( اسکی بات پہ دانیہ خاموش ہوگئی کیونکہ وہ جانتی تھی )
جانتی ہوں میری جان بس اسی لیے تو تمھیں ایسا بنایا ہے تاکہ تم کسی بھی حالات کا مقابلہ کرسکو۔۔۔۔( دانیہ کے بہت کچھ جتاتے لہجے پہ زونا نے چونک کر انھیں دیکھا )
آپ بےفکر رہیں موم آپکی بیٹی کبھی آپکو نیچا نہیں دکھاۓ گی۔۔۔۔۔( جبکہ زونا کے اٹل لہجے پہ دانیہ نے فخر سے اسے دیکھا )
پھر بھولی تو نہیں کچھ۔۔۔۔؟
نو موم ۔۔۔۔زونا ذاتی نفرت بھی ایسے ہی نبھاتی ہے جیسے محبت۔۔۔۔۔۔( اسکے پرسکون سے مسکرا کر کہنے پہ دانیہ بھی مسکرا دی)...............

TUMHARY BAGHER HUM ADHURE( Season 2 )💖Where stories live. Discover now