episode 2

11 3 0
                                    

مرال ہسپتال پہنچی تو اس سے پہلے اس کی ساری ٹیم موجود تھی۔

"آسلام و علیکم میم۔"
مرال کو دیکھ کر تمام لوگوں نے سلام کیا۔ جس کا اس نے سر کے خم سے جواب دیا۔ اس وقت وہ سمپل سے آف وائیٹ سوٹ میں موجود تھی۔ اسکی شخصیت میں ایک وقار تھا۔ سامنے والا ایک بار ضرور اس کی شخصیت کو سراہتا تھا۔

"والیکم سلام۔ کیا ریپورٹ ہے؟"
مرال نے ایک آفیسر سے پوچھا۔ جس نے اسے کال کی تھی۔

"میم ڈاکٹڑز کا کہنا ہے لڑکی اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ لڑکی کی حالت بہت کرٹیکل ہے۔ مزید وہ کسی لیڈی آفیسر سے بات کرنا چاہتے ہیں۔"
حماد نیازی نے اسے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔

"ٹھیک ہے میں ڈاکٹرز سے بات کرتی ہوں۔ تم لڑکی کے گھر والوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کرو۔"
مرال راہداری میں چلتے ہوئے بولی۔

"انسپیکٹر مرال یوسفزئی۔ مجھے لڑکی کے بارے میں تفصیلات چاہئیے۔"
مرال نے ایک لیڈی ڈاکٹر سے کہا۔

"لڑکی کی عمر اٹھارہ سال ہے۔ اسے مولیسٹ کیا گیا ہے۔ کئی گھنٹے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ جس سے لڑکی کی حاکت کافی نازک ہے۔ بظاہر نظر آنے والے زخموں کا علاج تو ہم کرلیں گے۔ لیکن انٹیریل انجریز کو ریکور کرنے میں وقت لگے گا۔ لڑکی فل حال نیم بے حوشی کی حالت میں ہے۔ آپ چاہیں تو لڑکی سے بات کرسکتی ہیں۔"
ڈاکٹر ربا نے مرال سے کہا۔ اور مرال کو ای آر میں لے گئی۔ مرال ڈاکٹڑ ربا کے ساتھ ای آر میں پہنچی تو اس کی نظر لڑکی پہ پڑی۔ لڑکی کو بری طرح سے نوچا گیا تھا۔ اس کے چہرے پہ بازوؤں پہ پورے جسم پہ جگہ جگہ نیل اور زخموں کے نشان موجود تھے۔
(آپی یہاں پہ لڑکیاں اپنی مرضی سے باہر نہیں جاسکتی۔ باہر نکلتے ہوئے ہمیں یہ ڈر رہتا ہے کہ کوئی حوس کا پجاری کہیں ہمیں نوچ نہ لے۔) لڑکی کو دیکھ کر مرال کو مشعل کی باتیں یاد آنے لگی۔ مرال لڑکی کی طرف بڑھی۔ جو آنکھیں کھولنے کی کوشش کر رہی تھی۔

"آپ مجھے سن سکتی ہیں؟"
مرال نے لڑکی کے پاس جاتے ہوئے کہا۔

"جج۔ جی۔"
لڑکی کا لہجے میں لڑکھڑاہٹ تھی۔

"میں انسپیکٹر مرال یوسفزئی ہوں۔ آپ کا نام کیا ہے؟"
مرال نے اس کے پاس جھکتے ہوئے کہا۔

"عنایہ۔"
لڑکی نے اپنا نام بتایا۔

"عنایہ بیٹا کیا آپ مجھے بتا سکتی ہیں آپ کے ساتھ یہ سب کس نے کیا؟"
مرال نے اس کے کان میں پوچھا۔ لڑکی کی سانسیں تیز ہونے لگی۔ اس کے ہاتھ کانپنے لگے۔ مرال نے اس کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھا۔

"ریلکس ہوجائیں بیٹا۔ اگر آپ نہیں بتانا چاہتی تو ٹھیک ہے۔"
مرال نے اس کا ہاتھ تھپتھپایا۔

"وہ پانچ لوگ تھے۔ میم میں نے بہت کوشش کی۔ خود کو بچانے کی۔ وہ زیادہ تھے ایک میری کلاس فیلو کا کزن تھا۔ مجھے بہت درد ہورہا ہے۔ مجھے۔ مجھے لگ۔ رہا ہے۔ وہ ابھی تک میرے۔ آس پاس ہیں۔"
عنایہ رونے لگی۔ مرال نے بھی اسے خاموش نہیں کروایا۔

بول کے لب آزاد ہیں تیرے Where stories live. Discover now