قسط نمبر 1

435 14 11
                                    


رات کی تاریکی ہر سو پنکھ پھیلا چکی تھی۔ گرم، حبس زدہ دن کے بعد لاہور کی رات کافی خوشگوار تھی۔ افق پر بادلوں اور چاند کی آنکھ مچولی جاری تھی۔  ہوا سے ہلتے پتوں کی تھرتھراہٹ اور سڑک پر کچھ توقف سے گزرتی گاڑیوں کے ٹائر کی چرچراہٹ کی آواز خاموش فضا میں ارتعاش پیدا کر رہی تھی۔
وسیع رقبے پر پھیلے ایک خوبصورت اور عالیشان گھر کے باہر آویزاں تختی پر چاند کی روشنی پڑنے سے اس پر لکھا "منہاس ہاؤس" جگمگا رہا تھا۔
لاہور کے پوش علاقے میں واقع یہ گھر بھی رات کے اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ ہر کوئی لحاف میں دبکا سویا ہوا معلوم ہو رہا تھا۔
رات کے دوسرے پہر وہ ٹیرس پر کھڑا ریلنگ سے ٹیک لگائے سگریٹ پر سگریٹ پھونک رہا تھا، وہ کوئی چین اسموکر نہیں تھا مگر جب بھی کوئی بات اسے بےچین کرتی تو وہ یونہی رات کے اندھیرے میں سگریٹ کا سہارا لے لیتا تھا۔
سامنے نظر آتی سڑک کی طرف اس کی پشت تھی جیسے ہی اس نے اپنا رخ سامنے گھر کے بیرونی دروازے کی طرف کیا تو وہاں بیٹھا چوکیدار اس کو دیکھتے ہی مزید چوکنا ہو کر بیٹھ گیا۔
ارد گرد نظر دوڑاتے اسے کار پورچ کی بائیں جانب بنے چھوٹے سے لان میں کوئی ہلچل محسوس ہوئی، ہلکی سی نسوانی چینخ کے بعد کچھ ہیولے گھر کے اندرونی جانب جاتے دکھائی دیے۔ وہ اپنی بھوری آنکھوں کو چھوٹا کیے ناگواری اور غصے کے ملے جلے تاثرات سے سامنے کا منظر ملاحظہ کر رہا تھا۔
ان ہیولوں کے غائب ہو جانے کے کچھ دیر بعد اسے اپنے کمرے کے دروازے پر دستک سنائی دی۔ وہ اپنے بکھرے بالوں کو مزید بگاڑتا چہرے کو یکدم سپاٹ کرتا کمرے کے اندر چلا گیا۔ جب کچھ دیر بعد دوبارہ وہ ٹیرس پر آیا تو اس کے بےتاثر چہرے پر نافہم سے تاثرات ابھرے، جلد ہی لب کچھ سوچتے محظوظ ہوتی مسکراہٹ میں ڈھل گئے، آنکھوں میں بھی ایک الگ سی چمک اتر آئی تھی۔

•••••••••

جہاں ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی وہیں 'منہاس ہاؤس' کی دوسری منزل پر موجود ایک کمرے سے آتی آوازیں کسی کے جاگنے کی چغلی کھا رہی تھیں۔
کمرے کی کھڑکی بند ہونے اور پردوں کی وجہ سے چاند کی روشنی اندر داخل ہونے کی اپنی کوشش میں ہر بار ناکام لوٹ رہی تھی۔
سائیڈ لیمپ کی مدھم روشنی کمرے میں نیم اجالا کیے ہوئی تھی۔ کوئی وجود جائے نماز پر سجدہ ریز تھا۔ کمرے کے وسط میں پڑے بیڈ کی جانب نظر آتے ہیولے کمرے میں موجود کچھ اور لوگوں کی نشاندہی کر رہے تھے۔
جائے نماز پر سجدہ ریز لڑکی کی سسکیوں کی آواز ہچکیوں میں بدلنے لگی، اس نے ایک جست میں سجدے سے اٹھتے سر آسمان کی طرف بلند کیا۔
"اے میرے اللّٰہ، آپ تو 'السمیع' ہیں سب کی سننے والے۔ میری بھی دعا سن لیں، اسے قبول کر لیں۔" چہرے پر تکلیف دہ تاثرات لیے وہ گویا ہوئی۔
"بس اس بار بچالیں، آئندہ پکا کبھی ایسی غلطی نہیں کروں گی، بس یہ آخری بار ہے۔ وعدہ نہیں کرتی مگر ایسی غلطی دوبارہ نہ کرنے کی پوری کوشش کروں گی۔" لہجے میں درد اور التجا سموئے وہ بول رہی تھی، آنکھوں سے بھل بھل آنسو بہہ رہے تھے۔
"بس کردیں آپا، آپ ہر بار ایسے ہی کہتی ہیں۔ اب کی بار تو آپ کے جھوٹ پر شیطان نے بھی اپنے کانوں کو ہاتھ لگایا ہو گا۔" کمرے میں ایک کھکھلاتی آواز کے ساتھ کئی قہقہے گونجے تھے۔
اس نے جائے نماز تہہ کر کے میز پر رکھنے کے بعد ایک ناراض نظر اپنی چھوٹی بہن پر ڈالی جو منہ پر ہاتھ رکھے جمائی روک رہی تھی مگر منہ سے کچھ نہ بولی کیونکہ وہ اس سے بگاڑ کر اپنی متوقع سزا میں اضافہ نہیں کروانا چاہتی تھی۔ بیڈ کی ایک طرف رکھے صوفے پر نیم دراز ہو گئی۔
"ہائے میرا پاؤں، ہائے مما میں مر گئی۔" بیڈ کے وسط میں لیٹے وجود نے پاؤں میں اٹھتے درد پر کراہتے ہوئے رونا شروع کر دیا تھا۔
"بس کردو پاؤں کی موچ سی کوئی نہیں مرتا۔" دوسرے وجود کی آواز اب کی بار کھکھلاتی ہوئی نہیں بلکہ بیزاری لیے ہوئی تھی۔
"تمہیں لگتی تو میں پوچھتی تم سے۔" روہانسی لہجے میں کہتے اس نے ناراضگی سے منہ موڑ لیا تھا۔ اسے اپنی چھوٹی بہن کی بات کافی ناگوار گزری تھی۔
"ہاں تو میں نے تم سے کہا تھا کہ بندروں کی طرح اچھلتے دیوار پھلانگ کر ساتھ والوں کے آم کے درخت پر چڑھ جاؤ۔" ایک تو نیند زوروں کی آرہی تھی اوپر سے بڑی بہنوں کے واویلے نے اسے جھنجھلا کر رکھ دیا تھا۔
"اس درخت پر لگی کیریاں دیکھ کر سب سے زیادہ پانی بھی تمہارے منہ میں ہی آتا تھا۔" پاؤں کا درد بھلائے وہ بھی اپنا لڑاکا موڈ اون کرتی میدان میں اتر آئی تھی۔
"ہائے اب اس کا الزام بھی مجھ معصوم پر۔۔۔۔۔" وہ چہرے پر معصومیت سجائے بچارگی سے بولنا شروع ہوئی ہی تھی کہ اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی کاٹ دی گئی۔
"بس اب آپ دونوں تو لڑنا بند کرو۔ آپا آپ بھی اٹھیں ہم اپنے کمرے میں چلیں، اگر ابھی تک کسی کو کچھ پتا نہیں چلا نا تو اس سارے ڈرامے سے ضرور پتا لگ جائے گا۔" پاؤں میں چپل اڑستے دھیمے لہجے میں اپنی دونوں بہنوں کو سرزنش کرتی آخر میں وہ بڑی بہن سے مخاطب ہوئی تھی جو صوفے کی پشت پر سر گرائے انکھیں موندے نیم دراز تھی۔
"ہاں صحیح کہہ رہی ہو تم ویسے بھی اس ہٹلر کی اولاد کے کان بڑے تیز ہیں۔" اس عظیم ہستی کے یاد آنے پر ہمیشہ کی طرح وہ منہ کے زاویے بگاڑتی صوفے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
"آپا، آپ بڑے بابا کو ہٹلر کہہ رہی ہیں؟" صدمے سے چور، معصومیت سے لبریز، غالباً یہ کمرے میں موجود آخری وجود کی آواز تھی۔ جب سب ہی بول رہے تھے تو وہ کیسے خاموش رہ سکتی تھی۔
"نہیں تو، میں نے کب کہا؟" اپنی سب سے چھوٹی بہن کی غلط بیانی پر وہ دنگ ہی تو رہ گئی تھی۔
"یہ دیکھیں میرے جڑے ہوئے ہاتھ، خدا کا واسطہ ہے ابھی کیلیے اتنا ہی کافی ہے، باقی کی بحث صبح کر لینا آپ، ابھی اپنے کمرے میں چلی جائیں۔" آنکھوں سے چشمہ ہٹاتے نیند سے بوجھل ہوتی آنکھوں کو مسلتے اس نے اپنی سب سے بڑی بہن کے سامنے باقاعدہ ہاتھ جوڑے تھے۔
"اچھا، اچھا جارہے ہیں چلو روحی، ہنی اپنے کمرے میں چلیں۔"  احسان کرنے والے انداز میں کہتے وہ کمرے سے نکل گئی، اس کے پیچھے ہی کمرے سے دو اور لڑکیاں بھی نکلی تھیں۔
ان تینوں کے جانے کے بعد کمرے میں مکمل خاموشی چھا گئی تھی۔ تھوڑی ہی دیر بعد خاموش، پر سکون ماحول میں ہلکے ہلکے خراٹوں کی آواز ابھر رہی تھی، دوسرا وجود اس آواز سے بے نیاز خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھا۔

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Aug 29, 2021 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

آنچل میں مہکتے پھولWhere stories live. Discover now