chapter:40

193 27 3
                                    

★★★★★★★★★
                       

اگلی صبح اسکی آنکھ سات بجے کھل گئی تھی۔ کمرے میں اسکے سوا کوئی نہ تھا۔دیوارگیر کھڑکیوں کے پردے سمٹے ہوئے تھے۔آسمان سرمئی بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ ہلکی ہلکی بارش ابھی بھی ہو رہی تھی۔ اور پھر زہن میں نیند سے مہو ہو جانے والا ہر دکھ ،ہر قصہ، ہر قضیہ پھر سے واضح ہو گیا۔ وہ بریک لین میں کھو گئی تھی۔ اس نے فارس وجدان سے لڑائی کی تھی۔ وہ خواب میں ڈر گئی تھی۔۔۔اور پھر وہ احساس ۔۔۔۔ اس نے بھیگی آنکھوں کو مسل ڈالا۔ نئی صبح کی شروعات آنسوؤں سے نہیں ہونی چاہیے۔ گلا کھنکھار کر گال تھپتھپا کر خود کو کمپوز کیا۔ ہر منفی خیال کو جھٹک دیا۔ 
۔اس نے اٹھ کر وارڈ روب سے کپڑے نکالے ۔ نیم گرم پانی سے شاور لے کر فریش ہوئی ،بالوں کو ڈرائیر سے خشک کر کے کھلا چھوڑ دیا۔ سفید ٹراؤزر پر گلابی رنگ کی قمیض، اور اس پر گلابی ہی رنگ کا اونی سویٹر زیب تک کیے وہ کمرے سے باہر آئی تو معمول کے برخلاف آج میڈ نہیں آئی تھی۔ کچن میں نیلی جینز پر سفید رنگ کے اونی سویٹر میں ملبوس فارس  ناشتے کا انتظام خود دیکھ رہاتھا۔ اسے شدید حیرت ہوئی۔ مگر خود سے گفتگو کا آغاز کیے بغیر وہ کچن میں چلی آئی۔ اپنے لیے گلاس میں پانی ڈال کر پیا۔ ایک سرسری سی نگاہ میز پر دھرے ناشتے کے لوازمات پر ڈالی۔
ہاف فرائی ایگ،ٹوسٹ،مینگو شیک،کیک، چائے۔۔۔۔
"گڈ مارننگ!" فارس کا رویہ ویسا ہی تھا جیسا ہر صبح ہوتا تھا۔ حالانکہ گزشتہ شب  بریک لین میں جو سین اس نے کریئیٹ کیا تھا اس کے بعد اس رویے کی قطعی کوئی گنجائش نہیں بنتی  تھی۔
"اب تمھاری طبیعت کیسی ہے؟" وہ کانچ کے گلاس میں مینگو شیک ڈالتے ہوئے بولا۔
"بہتر ہے!"وہ  خالی گلاس پر پیانو کے سے انداز میں انگلیوں کو جنبش دے رہی تھی۔
"بیٹھو!" اپنی کرسی سنبھالتے ہوئے اس نے جنت کو بائیں  ہاتھ سے اشارہ کیا۔ایک اور خراش نما سرخ لکیر نظر آ گئی۔
جنت اپنی اس حرکت پر جی بھر کر شرمندہ ہوئی۔پتا نہیں اسے کیا ہوا تھا۔اس نے ایسا پہلے تو کبھی نہیں کیا تھا۔اور پھر جب یاد آیا وہ اسے ایک عدد تھپڑ سے بھی نواز  چکی ہے۔تو نچلا لب بےساختہ دانتوں تلے آ گیا۔ دل شرمندہ تھا، دماغ فورا سے ڈٹ گیا۔  اس تھپڑ کا تو خیر سے وہ بہت مستحق تھا۔۔۔بہت زیادہ۔۔لیکن اب کے جنگلی بلی کی طرح اس نے  حملے کی  جو کوشش کی تھی اس پر دماغ بھی اسکی سائڈ نہیں لے رہا تھا۔اب حواس پوری طرح سے بحال تھے تو  اسنے کچھ خوف،شرمندگی اور پریشانی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ اسے دیکھا تھا۔
فارس  نے  ابھی تک غصہ نہیں دکھایا تھا۔۔  نہ ہی ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ وہ اسکی حالت کے پیش نظر خاموش رہ گیا ہو گا مگر بھلایا تو ہرگز نہیں ہو گا۔۔۔۔۔
پھر اسے یاد آیا اس نے رات بھر اسکا  کتنا خیال رکھا تھا۔۔اور کیسے اسے خوف بھری کیفیت سے نکالا تھا۔
لیکن اسکا مطلب یہ تو ہرگز نہیں کہ وہ سزا کا نہیں سوچ رہا ہو گا؟ وہی واہمے۔۔وہی سرگوشیاں۔۔۔وہی بےاعتباری۔۔۔ اور وہی سوال۔۔۔ ایک ایک حرکت کا حساب لینے والا اب اتنی بڑی بات کیسے نظر انداز کر گیا؟ ۔۔اب کے سر اٹھایا تو نگاہیں فارس سے دوچار ہوئیں۔۔
"نہیں میں انتقام لینے کا نہیں سوچ رہا۔۔اور  نہ ہی میں  نے کھانے میں زہر ملایا ہے۔۔۔"
اور جنت کا دل چاہا زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔لیکن اپنے تاثرات سے بلکل ظاہر نہیں ہونے دیا کہ ایسی کوئی خواہش اسکے اندر جاگ چکی ہے۔
"چاہو توکھانا چکھ کر دے دوں شاہزادی صاحبہ؟"  اسکی آنکھوں میں شرارت تھی۔ وہ اس کی کیفیت سے حظ اٹھا رہا تھا۔
اندر ہی اندر وہ بہت سارا چیخی لیکن باہر سے خود کو کمپوز کیے سنجیدہ سی کھڑی رہی۔
"جس دن زہر دو گے اس دن چکھنے کی بات بھی نہیں کرو گے!" بڑی مضبوطی دکھا کر  کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔ اسکی حاظر جوابی سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکا۔ہاں اب وہ ٹھیک تھی۔فارس کو تسلی ہوئی۔ "میری وائف کتنی جینئس ہے!" اسنے طنز نہیں کیا تھا مگر جنت کو وہ اچھا خاصا طنز ہی لگا۔اوپر سے اسکی مسکراہٹ۔۔۔۔۔ وہ نظر ہٹا گئی۔
ایک ٹوسٹ کھانے کے بعد اس نے کیک کا پیس اور مینگو شیک اپنے قریب کر لیا ۔
فارس کی خاموش نظریں اس پر جمی ہوئی تھیں ۔
اس نے  فورک سے اپنی پلیٹ سے کیک کا حصہ کاٹ کر منہ میں ڈالا ۔فارس وجدان کو  سات سالہ جنت ایک جھلک کی طرح نظر آئی۔ آنکھیں مٹکا کر ،ہاتھ جھلا کر کیک اور مینگو جوس سے انصاف کرتی۔۔۔ بےتحاشا باتیں کرتی ہوئی۔۔ ۔ مگر  جو  سامنے بیٹھی تھی۔۔۔۔بلکل خاموش۔۔کچھ حد تک اداس۔۔۔ بہت حد تک پریشان۔۔۔
"ایسے کیا دیکھ رہے ہو ؟" وہ کچھ جزبز ہوئی۔
"جب میں چودہ سال کا تھا تو ایک چھوٹی سی بچی میری زبردستی کی مہمان بنی تھی!" وہ اپنے کپ میں چائے ڈالنے لگا۔
"اسکی خواہش تھی کہ اسکی خاطر مدارت  مینگو جوس اور کیک سے کی جائے۔۔۔ بھلا کوئی مہمان ایسے کہتا ہے؟" ٹی پاٹ رکھ کر اپنا کپ اٹھا لیا۔
"وہ بہت باتونی تھی۔۔بہت زیادہ۔۔میں چاہتا تھا وہ اپنا جوس اور کیک ختم کرے تاکہ میں اسے واپس اسکے گھر چھوڑ آؤں مگر وہ بہت آہستہ کھا رہی تھی۔۔۔تو میں نے اسکا کیک اور جوس خود ہی کھا لیا!"
جنت نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
" تم تب بھی ظالم تھے؟!" توقع کے عین مطابق اسے  تپ  چڑھی.وہ مسکراتی نگاہوں سے اسے دیکھتا رہا۔
"اب میں دو تین گھنٹوں تک اسکے ساتھ  باونڈ ہو کر تو نہیں بیٹھ سکتا تھا۔اور پھر وہ بہت شرارتی اور active تھی اور مجھے اس پر باقاعدہ نظر رکھنی پڑ رہی تھی۔سو اس کے لیے ضروری تھا میں اسے گھر ہی چھوڑ آوں۔۔" اسنے کندھے اچکا کر اپنی پوزیشن کلیئر کی۔ جنت نے اسے یوں دیکھا جیسے کہہ رہی ہو تمھارا کوئی حل نہیں۔۔۔۔
"ویسے تم کیسی تھیں بچپن میں؟"
"۔۔۔میں؟" وہ اسکے اس طرح اچانک پوچھنے پر گڑبڑا گئی۔۔
"ہاں تم!!"
" میں....." رک کر کچھ سوچا۔ایک ہی لمحے میں  بچپن اور لڑکپن کی بہت سی باتیں ،قصے واقعات ،نانا کی ڈانٹ اور شرارتیں یاد آئی تھیں۔ "میں تو بہت ڈیسنٹ بچی تھی۔ بلکل شور نہیں کرتی تھی ،نہ ہی شرارتی تھی ،اور اتنا کم بولتی تھی۔۔نانا کے سب دوست میری تعریف کرتے تھے۔۔"
لب بھینچ کر فارس نے اپنی مسکراہٹ ضبط کر لی۔ "اچھا!"اسکا اچھا ضرورت سے کچھ زیادہ لمبا ہو گیا تھا۔
"ہاں تو اور کیا؟! " یوں ظاہر کیا جیسے وہ تو کوئی بدمعاش ہوا کرتا ہو گا۔
"یعنی اگر ہماری بیٹی ہوئی تو وہ تم پر جائے گی۔۔ خاموش۔پرسکون۔شرارتیں بھی نہیں کرے گی۔ بولے گی بہت کم ۔۔۔۔"
"بلکل!!" فورا سے سر ہلایا ۔پھر ہلا کر پچھتائی۔ ساری گفتگو بچے کی طرف مڑ گئی تھی.
"بیٹا مجھ پر جائے گا پھر!" فارس نے کچھ سوچ کر کہا۔
"مجھے کھڑوس اولاد نہیں چاہیے!" وہ بےساختہ کہہ گئی۔
وہ اسکے انداز اور لہجے پر دھیرے سے ہنس دیا۔ جنت کمال نے اسے لمحے بھر کے لیے مبہوت ہو کر دیکھا۔ وہ ہنستے ہوئے کتنا اچھا لگا تھا۔فورا سے نظریں ہٹائیں۔۔
"کوئی پیدائشی کھڑوس تھوڑی نہ ہوتا ہے۔ وقت اور حالات بنا دیتے ہیں!"وہ کہہ رہا تھا۔
"میں تو نہیں بنی!"
اور وہ رک گیا۔ہاں! یہی تو اسکی خوبی تھی۔ اس نے حالات کو کبھی بھی اپنے رویے اور شخصیت پر حاوی ہونے نہیں دیا تھا۔ وہ تلخیوں سے گزر کر کبھی بھی اپنی زندگی کے لیے تلخ نہیں ہوئی تھی۔
فورک سے کیک کا ٹکڑا منہ میں ڈالتے ہوئے جنت نے سٹرا دانتوں تلے دبایا۔
فارس کو لگا یہی مناسب وقت ہے۔ نئی ابتداء کے لیے پہل کر لینی چاہیے۔
"دوستی کرو گی مجھ سے؟ بہت اچھا لڑکا ہوں میں۔ ساری عمر ساتھ نبھاؤں گا!"
جنت  کی دھڑکن مس ہوئی۔سوال بہت اچانک اور غیر متوقع تھا۔آفر بھی ویسی ہی حیران کن سی تھی۔وہ اسکا جملہ دہرا رہا تھا۔ اسکی جگہ پر آ کر ۔۔۔۔۔اسکی نگاہوں میں آ رہا تھا۔ وہ اسے بلکل بھی نظرانداز نہیں کر پا رہی تھی۔
"اور یہ دوستی کی آفر تم کتنی لڑکیوں کو کر چکے ہو؟" بھنویں سکیڑ کر تندہی سے گھورتے ہوئے پوچھا۔بلکل فارس وجدان کے انداز میں۔۔اور ایسا کرتے ہوئے اسے وہ بہت اچھی لگی۔
"تم پہلی ہو۔۔۔۔ اور تم ہی آخری ہو!"
جنت کا دل زوروں کا دھڑکا۔ حیرت آنکھوں میں سما گئی۔ دل چاہا جھٹ سے عدینہ زبیر کو اس دعوے پر لا  پٹخے مگر پھر رک گئی۔ بات دوستی کی تھی۔۔محبت کی تو نہیں۔۔
"سوچوں گی!"لاپرواہی سے  اترا کر کہا۔پھر کیک کا آخری ٹکڑا منہ میں ڈالا۔اب وہ پہلے سے کافی بہتر لگ رہی تھی۔
"کتنا سوچو گی؟"
"جتنا بھی سوچوں۔۔۔تمہیں اس سے کیا۔۔"
فارس نے تائید میں سر ہلایا۔بہت زیادہ سوچنے میں وہ حق بجانب تھی۔اسے کوئی اعتراض نہ تھا۔
۔"پانچ بجے تیار رہنا! کہیں باہر چلیں گے!" وہ کچن کا بکھیرا سمیٹ رہی تھی جب فارس نے آ کر کہا۔خیال تھا شاید وہ اب بھی غصہ یا ناراضگی دکھائے گی یا کوئی سخت تلخ بات تو ضرور کرے گی مگر اس نے کچھ نہ کہا۔بس رک کر اسے دیکھا۔
تھری پیس سوٹ میں ملبوس وہ مکمل تیاری کے ساتھ ،سیاہ رنگ کا لونگ کوٹ بازو پر ڈالے ،دوسرے ہاتھ میں موبائل اٹھائے کھڑا تھا۔
"وسٹ فیلڈ مال چلیں گے ، شاپنگ کے لیے۔۔۔ باہر کھانا کھائیں گے۔۔۔ موسم کچھ سرد ہے اور بارش کا بھی امکان ہے تو آوٹنگ کے لیے کچھ دن انتظار کر لیتے ہیں!"
وہ رخ بدل کر پھر سے برتن دھونے لگی۔فارس بھی کچھ لمحوں تک خاموش رہا۔ جانے اسکے تاثرات اب کیسے تھے؟ احساسات اور کیفیت کیسی ہوئی تھی۔مزاج تو اسکے لمحوں میں بدلتے تھے۔ کسی لمحے بہت زیادہ خوش۔۔کسی پل بہت زیادہ اداس۔۔۔۔ لیکن اسکی خاموشی میں فارس وجدان کو عناد یا خفگی کا تاثر نظر نہیں آ رہا تھا اور یہ ایک خوش آئند بات تھی اس کے لیے۔۔۔
"اپنا خیال رکھنا!" اس نے کوٹ پہنتے ہوئے جنت کمال سے کہا۔ اور جنت کمال نے  کچھ ہی دیر بعد آٹومیٹک دروازہ کھلنے اور سگنل کے ساتھ بند ہونے کی آواز سنی۔
جھاگ زدہ ہتھیلی کھول کر ہونٹوں تک لائی۔۔پھونک کر اڑایا۔پھر دھیرے سے گنگناتی  بقیہ کام سمیٹنے لگی۔
                     ★★★★★★★★★

𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀Where stories live. Discover now