قسط ۷

10 2 0
                                    

سعد نے میک اپ اتارا اور شایان کے ساتھ رانیہ کو ڈھونڈنے گیا۔
جب اس کے روم میں گیا تو رانیہ تو نہیں تھی ہاں لیکن وہ میک اپ کٹ ضرور تھی۔ سعد گیلری میں گیا رانیہ بینچ پر بیٹھی تھی۔ اس نے رانیہ کو آواز دی۔
"اگر اسے صحیح سلامت دیکھنا چاہتی ہو تو جلدی اوپر آؤ ورنہ میں یہیں سے اسے پھینک دوں گا"
رانیہ جلدی سے اپنے کمرے میں آئی اور سعد سے کٹ لینے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی۔
"اگر تم اسے واپس چاہتی ہو تو جو میں کہوں گا وہی کرو" سعد نے شوخی سے کہا۔
"کیا مطلب" رانیہ نے حیرانی سے پوچھا۔
"مطلب تمہیں ابھی بتاتا ہوں" سعد نے اسے زبردستی کرسی پر بٹھایا۔
"تم نے جو کل رات کیا تھا وہی کر رہا ہوں" سعد بولا
"نہیں" رانیہ اچانک سے کھڑی ہوگئی۔
"سوچ لو اگر تم نہیں مانی تو میں یہ ٹور دوں گا"
"ٹھیک" رانیہ چپ چاپ بیٹھ گئی اور سعد نے تجربہ کاری شروع کی۔
تھورا بہت میک اپ تو وہ بھی جانتا تھا پہلے بہت زیادہ فاؤنڈیشن لگایا، پھر تین الگ الگ کلر کا آئی شیڈو جب کمی محسوس ہوئی تو پوری آنکھ اور آنکھوں کے ارد گرد لائینر لگایا اس کے بعد دونوں گال اور ناک پر رنگ کی طرح بلش اون لگایا اور پھر اپنے کام کی تعریف کی جب کہ رانیہ ایک بھوتنی لگ رہی تھی اس کے بعد اس نے اس کی تصویریں لی اور سوشل میڈیا پر ڈالی بالکل اسی طرح جس طرح رانیہ نے ڈالی تھی اجیب اجیب فلٹرز کے ساتھ۔
"سچ مچ اگر میں یہ تصویر تمھارے سسرال والوں کو جب وہ تمہیں دیکھنے آئینگے بتاؤنگا تو وہ تمہیں ایک ہی بار میں پسند کرلیں گے کہ انھیں ایک کام کی بندی مل گئی" سعد بولا۔
"ہیں وہ کیسے" شایان نے حیرانی سے پوچھا۔
"وہ ایسے کہ رات کو جب ان کے بچے نہیں سوئیں گے وہ کہہ سکیں گی بیٹا سوجا ورنہ رانیہ آجاۓ گی" سعد ہنس کر بولا۔
اب رانیہ کا ضبط ٹوٹ گیا اور خود کو آئینے میں دیکھا
"یہ کیا کیا تم نے؟" رانیہ غصے سے بولی۔
"تمہیں تمہارا اصلی چہرہ دکھایا ہے" سعد بھی شوخی سے بولا۔
"تم بندر میں تمہارا منہ تور دوں گی"
"اور میں تمہاری میک اپ کٹ"
"چپ چاپ مجھے یہ دو"
"تو لے لو"
سعد نے اس کو کٹ دی لیکن اس کا الگ ہی حال تھا زیادہ استعمال ہونے سے جگہ جگہ ٹوٹا ہوا تھا اور سعد نے ایک ہی برش استعمال کیا تھا جس کی وجہ سے جگہ جگہ کالا اور عجیب رنگ کا ہو رہا تھا۔
رانیہ نے غصے میں دونوں کو کمرے سے نکالا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو دن تک عرش چشما پہنے کمرے میں رہا لیکن آج بہتر محسوس ہوا تو کچھ کام کرنے کا سوچا ابھی اپنی فائلز کھولی ہی تھی کہ اندر سے ایک خوبصورت پنک کارڈ نکلا جس کے اوپر سوری لکھا تھا۔ اس نے کارڈ کھولا۔
"دراصل یہ سب غلطی سے ہوا آپ کو میں جان بوجھ کر تنگ نہیں کرتی لیکن ناجانے کیوں آپ کو دیکھ کر غلطیاں ہو جاتی ہے لیکن میں اب کوئی غلطی نہیں کروں گی، وعدہ۔ آپ جو بولیں گے میں وہ کام ٹھیک سے کروں گی۔ میں نے آملیٹ اور پراٹھا بنانا بھی سیکھ لیا ہے۔ تھینک یو آپ نے امی کو میری شکایت نہیں لگائی ورنہ وہ میری اچھے سے خبر لیتی اگر آپ کو کوئی کام ہو تو مجھے بولیے گا۔"
آخری میں نمرہ کا نام لکھا تھا۔
"کارڈ تو بہت پیارا ہے کہیں یہ بھی غلطی سے نہیں بن گیا" اس نے مسکراتے ہوئے کارڈ رکھ دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رانیہ سعد کے کمرے کے سامنے سے گزر ہی رہی کہ اس نے سعد کے ہاتھ میں وہی شرٹ دیکھی۔
"اب آئے گا مزا" رانیہ نے سوچا۔
"ویسے اس لومڑی نے شرٹ استری کر کے دی تھی، کیا بات ہے، آخر میں بھی سعد ہوں ہر کسی کو مات دینا آتا ہے" سعد نے فخریہ انداز میں بولا اور شرٹ چینج کر کے آیا۔
"مات کے بچے ابھی دیکھو خارش کا پاؤڈر کیا کرتا ہے" رانیہ نے اپنا کیمرا آن کیا۔
اچانک سے سعد کو ہلکی کھجلی لیکن بعد میں شدت بڑھ گئی اور وہ اپنے ناخن سے کرنے لگا اس کے بعد دیوار کی مدد سے کھجانے لگا جب کچھ فرق نا آیا تو خود کو چماٹے لگانے لگا اور آواز نکال کر ناچنے لگا۔ اس کے بعد ہینگر اٹھا کر خود کو مارنے لگا کبھی ہینگر سے کھجلی کرتا اور پھر تھک کر لیٹ کر کھجلی کرنے لگا ایسا لگ رہا تھا کوئی پاگل ایک مہینے تک نہیں نہایا اور اچانک باتھ روم بھاگا۔ اس کا حلیہ بالکل بگڑ گیا تھا لیکن یہ سب رانیہ کے موبائل میں ریکارڈ ہوگیا اور وہ خوشی سے وہاں سے چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرش آفس چلا گیا لیکن آج بھی آنکھوں کی جلن کی وجہ سے جلدی آگیا اس کا ارادہ تھا کہ جا کہ نہا کہ سو جائے گا ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ لان میں اس پر زور سے پانی پھینکا گیا جس کی وجہ سے وہ پورا گیلا ہوگیا اس نے سامنے دیکھا تو نمرہ بالٹی  لئے حیرانی سے کھڑی تھا۔
"تھینک یو میں نہانے کا سوچ ہی رہا تھا کہ تم نے یہ کام سر انجام دیا چلو اب نہانا تو نہیں پڑے گا" عرش نے ہلکے سے انداز میں کہا۔
"سوری سوری سچ مچ میں نے جان بوجھ کر آپ پر گندا پانی نہیں پھینکا" نمرہ نے ڈرتے ہوئے کہا۔
"کیا یہ گندا پانی تھا"
"جی"
عرش نے غصے میں اسے شانوں سے پکڑ لیا
"پہلے چائے پھر اچار اب گندا پانی دشمنی کیا ہے مجھ سے" اس نے غصے میں اس پر تھورا جھک کر کہا۔
اچانک سے نمرہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور عرش نے گرفت ڈھیلی کری۔
" اب تم رونا مت شروع کردینا" عرش نے غصے میں کہا کہ نمرہ نے آواز کے ساتھ رونا شروع کردیا اور عرش نے اسے چھوڑ دیا۔
"رونا بند کرو تم" اس نے رعب دار آواز میں کہا جبکہ نمرہ چپ نہیں ہوئی۔
"دیکھو چپ ہو جاؤ پلیز کوئی آیا تو سب مجھے دانٹ دیں گے" عرش نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔
"پلیز چپ ہو جاؤ میں تمھارے سامنے ہاتھ جوڑ رہا ہوں" عرش نے مزید کہا جبکہ نمرہ اور بلند آواز میں رونے لگی۔
"او ہو تم تو ایسے رو رہی جیسے میں مر گیا ہوں" عرش نے غصے سے کہا۔
"آپ کے مرنے پر میں کیوں رو جاؤں" نمرہ نے روتے ہوئے جواب دیا۔
"میں بھی کسے بول رہا ہوں تم ہی تو مجھے مارنے والی  ہوگی"
"اللہ نہ کرے میں کیوں آپ کو ماروں"
"شکر"
"مجھے جیل جانے کا شوق نہیں اگر میری آپ سے کوئی دشمنی ہوئی تو میں کسی اور کو مارنے کا نہ بولوں، میں اس عمر میں جیل نہیں جاؤنگی" نمرہ نے روتے ہوئے کہا جبکہ عرش نے بے چارگی سے سر ہلایا۔
"اچھا سوری تم چپ ہوجاؤ" لیکن نمرہ پر کوئی اثر نہیں ہوا۔
"اوہ ہو تم چپ ہونے کا کتنا لو گی" عرش نے پوچھا۔
"پانچ ہزار" نمرہ بولی۔
"پانچ ہزار تو ایسے مانگ رہی ہو جیسے چپ ہونے کی رقم نہیں بلکہ منہ دکھائی مانگ رہی ہو"
"کنجوس" نمرہ پھر سے رونا شروع ہوگئی۔
"اچھا چپ ہو جاؤ لے لینا تمھیں جتنے چاہیے ہو پر چپ ہو جاؤ"
"ٹھیک" لیکن نمرہ کے آنسو میں کوئی کمی نہیں آئی۔
"چپ ہو جاؤ میری ماں اچھا ایک کام کرو مجھے سزا دے دو چلو بتاؤ میں کیا کروں"
"دس بار اٹھک بیٹھک"
"ٹھیک"
ایک۔دو۔تین۔۔۔۔۔سات
"ٹھیک سے بیٹھیں"نمرہ بولی
اس کے بعد عرش کی ہمت ختم ہوگئی لیکن پھر بھی تین اور کیے۔
"سچ مچ اسکول کی یاد آگئی۔۔اچھا تم میری وجہ سے رو رہی تھی تم نے سزا بھی دے دی لیکن چپ کیوں نہیں ہوئی.
"میں آپ کی وجہ سے نہیں رو رہی ہوں" نمرہ بولی۔
"تو" عرش نے حیرانی سے پوچھا۔
"میرا کبوتر اڑ گیا ہے، اس لئے"
"تمھارا کبوتر اڑ گیا تو تم نے مجھے کیوں اٹھک بیٹھک کروائے"
"آپ نے ہی تو کہا کہ سزا دے دو"
"اف میرے خدایا"
"آپ کو نہیں پتا میں اتنے دن سے اس سے باتیں کر رہی تھی کھانا کھلایا اور پانی پلایا اور وہ اڑ گیا اس نے مجھے دھوکا دے دیا" نمرہ روتی ہوئی بولی۔
عرش نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے بینچ پر بٹھایا اور اس کے آنسو صاف کیے۔
"دیکھو تمہیں کبوتر اچھا لگا اس لئے تم چاہتی ہو کہ وہ تمہارے پاس رہے لیکن اسے تو اڑنا پسند ہے اسے تو قید پسند نہیں یہاں تک کہ کسی کو قید پسند نہیں سوچو اگر میں تمہیں قید کرلوں تو تمہیں برا لگے گا نا" عرش نے اسے سمجھایا۔
نمرہ خاموش رہی،
"اسی طرح اسے بھی غلامی پسند نہیں، تمہیں بھی پسند ہوگا نا کہ تم آزاد رہو جہاں مرضی جا سکو تم پر کوئی روک ٹوک نہ ہو، اسی طرح وہ بھی چاہے گا کہ وہ کسی کی قید میں نہ رہے اپنی مرضی سے اڑے اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہوا میں رہے" عرش نے مزید کہا
"آپ صحیح کہہ رہے ہیں" نمرہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"اچھا اور تمہیں پتا ہے کہ جن سے ہم ہمدردی کرتے ہیں انہیں بھی ہم سے لگاؤ رہتا ہے اور وہ ہمیں نہیں بھولتے وہ دیکھو" عرش نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
نمرہ نے جب اس طرف دیکھا تو وہی کبوتر اپنا چارہ کھارہا تھا نمرہ خوشی سے اچھل پڑی۔
"تھینک یو آپ بہت اچھے ہیں" نمرہ خوشی سے کہہ کر چلی گئی اور عرش مسکراتے ہوئے گھر میں چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شایان صوفے پر بیٹھے موبائل چلا رہا تھا کہ اسے کوئی میسج آیا۔"ہائے"
شایان نے دیکھا کہ کسی پریٹی اریبہ کا میسج آیا ہے اس نے بھی سامنے سے ہائے کیا۔
"کیسے ہیں آپ" سامنے سے میسج آیا۔
"ٹھیک اور آپ؟"
"میں بھی ٹھیک"
" کیا میں آپ کو جانتا ہوں۔"
"نہیں لیکن میں آپ کو جانتی ہوں"
"کیسے؟"
"کل آپ جب اپنے کسی دوست یا رشتیدار کے ساتھ ریسٹورینٹ آئے تھے وہیں آپ کو دیکھا اور نام پتہ چلا بڑی مشکل سے آپ کا اکاؤنٹ ملا۔"
شایان کل سعد کے ساتھ ریسٹورینٹ گیا تھا لیکن اسے یاد نہیں کے کوئی لڑکی اسے دیکھ رہی تھی اسے تو بس یہ یاد ہے کہ اس کے قریب کچھ لڑکوں کی ہی ٹیبل تھی
"جی میں اپنے بھائی کے ساتھ ہی آیا تھا لیکن آپ نے مجھے ہی کیوں میسج کیا." شایان نے میسج کیا۔
"دراصل میں نے جب آپ کو دیکھا تو لگا کہ آپ سے دوستی کرنی چاہیے"
"لیکن پہلے آپ مجھے اپنے بارے میں کچھ بتائیں"
"میرا نام اریبہ ہے میں بیوٹی پالر میں کام کرتی ہوں، میری آٹھ بہنیں ہیں میں نے انٹر کیا ہے اور دو سال بیوٹیشن کا کورس کیا اب چند ماہ سے پارلر میں کام کر رہی ہوں" اریبہ نے ساری تفصیلات دی۔
"آٹھ بہنیں؟"
"ہاں"
"چلو اچھا ہے بھائی نہیں ہے"
"ہاہا اچھا ویسے آپ کچھ اپنے بارے میں بتائیں"
شایان نے بھی ساری تفصیلات دی
"تو دوستی پکی" سامنے سے میسج آیا۔
"ہاں" شایان نے بھی میسج کیا۔

چشم منتظرWhere stories live. Discover now