Episode:2

8 1 1
                                    

کچھ لوگ سمندر گہرے ہیں
کچھ لوگ کنارہ ہوتے ہیں
کچھ ڈوبنے والی جانوں کو
تنکوں کا سہارا ہوتے ہیں
کچھ لوگ کہانی ہوتے ہیں
دنیا کو سنانے کے قابل
کچھ لوگ نشانی ہوتے ہیں
دل میں چھپانے کے قابل
کیا حال سناںٔیں دنیا کو
کیا بات بتاںٔیں لوگوں کو
دنیا کے ہزاروں موسم ہیں
لاکھوں ہیں ادائیں لوگوں کی
) مواخذ: نا معلوم (

            صبح اپنے آنے کی اطلاع دے رہی تھی تمام چرند پرند اپنے گھونسلوں سے باہر آ رہے تھے کہ ایک نئے دن کا آغاز ہو چکا تھا کہ اللّٰہ نے تمام حیوانوں کو ایک اور دن کی مہلت دے دی تھی کہ اللّٰہ بہت رحم کرنے والا ہے وہ بار بار اپنے بندے کو غلطی سدھارنے کا موقع دیتا ہے۔۔۔۔
وہ اپنے بستر پہ گدھے گھوڑے بیچ کہ سو رہی تھی جب الارم کی آواز پورے کمرے میں گونجی۔۔وہ ہڑبڑا کہ اٹھ بیٹھی موبائل پہ ٹاںٔم دیکھا تو صبح کے چھ بج رہے تھے چونکہ سردیاں تھیں اور آزان بھی پونے چھ ہوتی تھی اسلیے وہ ذرا دیر سے اٹھتی تھی۔۔اپنا بستر ٹھیک کر کہ وہ واشروم کی طرف چلی گئی وضو وغیرہ کر کہ نکلی اور نماز ادا کرنے کے بعد قرآن لے کہ بیٹھ گئی ۔۔
سورۃ العنکبوت کی اگلی آیات کی تلاوت کرنی تھی ۔۔۔
"شروع اللّٰہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے"
سورۃ العنکبوت آیت نمبر 4:
"یا یہ سمجھے ہوئے ہیں وہ جو برے کام کرتے ہیں کہ ہم سے کہیں نکل جائیں گے کیا ہی برا حکم لگاتے ہیں "
اب وہ خود سے آیت کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔
(یہ تو بہت آسان آیت ہے یعنی اس میں اللّٰہ تعالٰی ہمیں بتا رہے ہیں کہ ہم لوگ جو بھی برے کام کرتے ہیں تو اسکی سزا ہمیں مل کہ رہتی ہے یعنی کہ ہم لوگ کوئی گناہ کرتے ہیں تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ دیکھا جائے گا کیونکہ اللّٰہ ہمیں ہمارے اعمال کی سزا دیتا ہے اور ہمارا یہ گمان بالکل غلط ہے کہ اللّٰہ ہمیں ہمارے کیے کی سزا نہیں دیگا ُاس کے ذہن کے پردوں میں ایک منظر لہرایا۔۔۔
"ماہ نور ایسے کپڑے نہ پہنا کرو گناہ ملتا ہے کتنی بار کہا ہے تمہیں قبر میں کیا جواب دوگی خدا کو" ماہ نور کی امی برہمی سے بولی تھیں۔۔۔۔
"امی پلیز پھر سے لیکچر مت شروع کیجیے گا جو ہوگا دیکھا جاںٔیگا میں کون سا مرنے والی ہوں" ماہ نور ناگوار لہجے میں بولی تو صوفیہ صاحبہ کو غصہ آگیا۔۔۔
"کیا بکواس کرتی رہتی ہو اور اسلام کوئی مزاق نہیں کہ دیکھا جائیگا اب جا کہ کپڑے بدلو" صوفیہ ُاس کے برہنہ بازوؤں والے لباس کی طرف اشارہ کرتے بولیں۔۔۔۔)
ذہن کے پردوں سے ماضی کی دھند جھٹی تو وہ حال میں واپس آںٔی اور اگلی آیت کی تلاوت شروع کی۔۔۔
"جسے اللّٰہ سے ملنے کی امید ہو تو بےشک اللّٰہ کی معیاد ضرور آنے والی ہے اور وہی سنتا جانتا ہے اور جو اللّٰہ کی راہ میں کوشش کرے تو اپنے ہی بھلے کو کوشش کرتا ہے بیشک اللّٰہ بےپرواہ ہے سارے جہان سے" اب وہ اپنے دماغ میں ان آیات کو سمجھنے کی کوشش کررہی تھی۔۔۔۔
)یعنی کہ جو شخص اللّٰہ سے ڈرتا ہے یا پھر ثواب کی امید رکھتا ہے یا کوئی ایسا انسان جو گناہگار ہے تو اللّٰہ تعالٰی اپنے وعدے کے مطابق ُاسے عزاب یا ثواب سے نواز دےگا یعنی جس کا بھی وہ حقدار ہوگا لیکن ُاس عزاب و ثواب کے لیے ایک وقت مقرر ہے یعنی قیامت کا دن جب ہمارا حساب ہوگا، جب ہمارے اعمال یہ مقرر کریں گے کہ ہم جنت کے حقدار ہیں یا جہنم کے اور ُاسی دن کیلئے ہمیں عمل صالح کرنا ہے تاکہ آخرت میں ہم اپنے نبی کے سامنے شرمندہ نہ ہوں، ہم ِاس بات پر نادم نہ ہوں کہ ہم نے دنیا کی زندگی کھانے،پینے،سونے،موباںٔل استعمال کرنے اور دنیاوی آسائشوں کے پیچھے بھاگنے میں گزار دی)
ِاس آیت کے بارے میں سوچتے ہوئے اسے آج سے چار سال پہلے کا ایک منظر یاد آیا تھا۔۔۔۔۔۔
"یار زرمینے میں ایک بات سوچ رہی ہوں کہ اگر میں پانچوں نمازیں نہ پڑھوں تو گناہ کیوں ملتا ہے؟ مطلب اللّٰہ کے پاس تو پوری کائنات ہے عبادت کیلئے پھر میری عبادت سے کوئی فرق تو نہیں پڑھنا چاہیے" ماہ نور پرسوچ لہجے میں بولی تھی جس پہ زرمینے کا جواب بھی دادطلب تھا۔۔۔۔
"ماہ نور پتہ ہے میں نے ایک ناول پڑھا تھا مصحف ُاس میں ایک لڑکی نے بالکل یہی سوال کیا تھا پھر پتہ ہے کیا جواب دیا تھا ُاس کی ٹیچر نے" زرمینے نے پوچھا تو ماہ نور نے نفی میں سر ہلایا۔۔
"تمہارے سوال میں تمہاری بات کا جواب ہے تم کہہ رہی ہو کہ اللّٰہ کے پاس پوری کائنات ہے عبادت کیلئے تو ہاں اللّٰہ کے پاس تو پوری کائنات ہے جو ُاسکی حمدوثنا بیان کرتی ہے لیکن تمہارے پاس کوئی بھی موجود نہیں ہے جو اللّٰہ سے تمہارے گناہوں کی بخشش کروائے وہ ایک انسان جسکے کہنے پہ اللّٰہ تمہارے گناہ بخش سکتا ہے وہ تم خود ہو"۔۔۔۔۔۔۔ڈراماںٔی انداز میں چھوٹا سا وقفہ لےکے پھر وہیں سے سلسلہ کلام جوڑا " دیکھو اللّٰہ کو بالکل کوئی فرق نہیں پڑتا ہمارے نماز پڑھنے نہ پڑھنے سے بلکہ یہ تو ہمارے لیے ہے کہ ہماری آخرت سنور جائے یعنی ہم نماز اپنے لیے پڑھتے ہیں اپنا نامہ اعمال درست کرنے کیلئے "
"اچھا چلو ٹھیک ہے اب جاؤ تم میرے کمرے سے اگلے سنڈے کو میرا mdcat ہے خود تو ڈاکٹر بن رہی ہے محترمہ مجھے بھی بننا ہے" اور بس ماہ نور کا صبر اتنا ہی تھا ِاس سے آگے وہ تلخ ماضی کو سوچ نہیں سکتی تھی۔ُاسے سخت نفرت ہوگئی تھی پاکستان کے educational system سے اور اس پرانی ماہ نور سے حالانکہ قصور یہاں ناں تو پاکستان کے تعلیمی نظام کا تھا ناں ہی ماہ نور کا بلکہ یہ ہماری قسمت ہوتی ہے جو ہمیں کہیں بھی لے جاتی ہے جو ہمیں ُاس رستے پہ لے کر جاتی ہے جو ہمارے لیے مقرر ہوتا ہے۔۔۔۔۔

عنکبوت Where stories live. Discover now