Episode 4:

4 1 0
                                    

کیا محسوس کیا ہے تم نے کبھی
کسی اپنے کو کھو دینے کے ڈر کو؟
کیا محسوس کیا ہے تم نے کبھی
سب کچھ مٹی میں مل جانے کے ڈر کو؟
کیا محسوس کیا ہے تم نے کبھی
اپنی دعاؤں کے قبول نہ ہونے کے ڈر کو؟
کیا محسوس کیا ہے تم نے کبھی
انکشاف ہو جانے کے ڈر کو؟
کیا محسوس کیا ہے تم نے کبھی
اس درد کو جب ہوتا ہے انکشاف ؟
کیا محسوس کیا ہے تم نے کبھی
اس سرشاری کو جب ہوتا ہے انکشاف ؟

20 اپریل بروز منگل؛

منگل کی رات تھی ، ہر طرف فضا میں ایک بوجھل پن محسوس ہوتا تھا۔۔ ہر طرف ایک سکوت سا طاری تھا جس میں وقفے وقفے سے کڑکتی بجلی خلل پیدا کر رہی تھی۔ ماحول کچھ پر اسرار بھی معلوم ہوتا تھا جبکہ لگتا یوں تھا جیسے یہ عجیب خاموشی کسی طوفان کے آنے کا سندیسہ سنا رہی ہو۔۔ وہ اپنے کمرے سے ملحقہ بالکونی میں ریلنگ سے ٹیک لگا کہ کھڑی تھی۔ بارش کی بوندوں نے اسے پوری طرح بھگو دیا تھا لیکن اسکے چہرے پہ کچھ تھا ہاں وہ آنسو تھے، وہ بارش نہیں تھی۔۔ بارش میں کھڑے رہنے کی وجہ سے کوئی بھی یہ فرق محسوس نہیں کر سکتا تھا آیا وہ رو رہی ہے یا یہ بارش کے ننھے قطرے ہیں جنہوں نے اسکے چہرے کو گیلا کیا ہوا ہے۔ تھوڑی دیر تک بارش رک چکی تھی لیکن وہ ہنوز تر چہرے کے ساتھ کھڑی تھی۔ وہ مصور کا ایک خوبصورت شاہکار معلوم ہو رہی تھی جس میں مصور نے مسکراہٹ کی کمی رہنے دی تھی اور یہ چیز اس منظر میں کھڑی ُاس مصور کے شاہکار کو اور پر کشش بنا رہی تھی،،،، شاید وہ کسی کا انتظار کر رہی تھی اس لیے نظریں ہر تھوڑی دیر میں گیٹ کی طرف اٹھتی تھیں،،، اور پھر وہ نیچے گیلے فرش پہ بیٹھتی چلی گئی۔۔ سر کو گھٹنوں میں چھپائے وہ بیٹھ گئی تھی۔ کچھ خوف انسان کو ساری زندگی لاحق رہتے ہیں۔ ایک ایسا واقعہ ہماری زندگی میں ضرور پیش آتا ہے جس کے دوبارہ ہونے کا دھڑکا ہمیں ہر ہر لمحے رہتا ہے۔ کچھ ایسا ہی مسئلہ اس کے ساتھ تھا، ماضی کی ِاک ایسی یادگار جو بھلائے نہیں بھولتی تھی اور وہ چاہتی تھی کہ وہ سب کچھ دوبارہ کبھی نہ ہو لیکن کیا اس کے چاہنے سے تقدیر بدل سکتی تھی ؟  باپ کے بغیر رہنا بہت مشکل ہوتا ہے جن کے باپ زندہ ہیں اُنہیں اپنے رب کا شکر ادا کرنا چاہیے۔۔۔
"زرمینے!!!!!!" اسے آواز سنائی دی لیکن وہ نہیں ہلی۔۔۔
"زرمینے!!!! یار کدھر ہو؟ ماہنور نے بتایا ہے تم روم میں ہو ، کدھر ہو؟" ایک بار پھر وہی آواز سنائی دی لیکن وہ بے حس بنی بیٹھی رہی شاید ناراضگی کا اظہار تھا۔ وہ قدموں کی چاپ سن سکتی تھی وہ جو بھی تھا اب اس طرف آ رہا تھا۔۔۔
"یار تم کدھر۔۔۔۔۔۔۔۔" باقی الفاظ اس کے منہ میں ہی دم توڑ گئے تھے جب اس نے زرمینے کو گھٹنوں میں سر چھپائے گیلے فرش پہ بیٹھے دیکھا تھا۔۔۔ ایک دم وہ اسکی طرف لپکا تھا۔۔
"زرمینے واٹ از دس نان سنس؟ یہ۔۔ یہ سب کیا ہے؟" ایک ہاتھ سے اسکا سر اوپر کو کرتے وہ پریشانی اور غصے کے ملے جلے انداز میں بولا تھا۔۔
"آپکو کیا ہے۔ آپ جائیں آپکی جاب مجھ سے زیادہ ضروری ہے" ُاس کی آواز اونچی نہیں تھی لیکن کچھ تھا اس آواز میں۔ آج سے پہلے شاھمیر نے اسے اتنا سنجیدہ نہیں دیکھا تھا جبکہ شاھمیر کو اس بات پہ ایک زوردار جھٹکا لگا تھا۔ اسکا دل چاہا کہ وہ اپنا سر دیوار میں دے مارے، کوئی اتنا بیوقوف کیسے ہو سکتا ہے؟
"وہاٹ؟؟؟ لائیک سیریسلی!!!!! تم اس وجہ سے یہاں بیٹھی ہو؟ چلو اٹھو شاباش" وہ اس کو کھڑا کرتے ہوئے بولا "پہلے جا کہ کپڑے چینج کرو پھر ہم اس مسئلے پہ بات کرتے ہیں" وہ اسے ڈریسنگ روم کی طرف بھیجتے ہوئے بولا۔۔۔
"ہونہہ!!! مسئلے پہ بات کرتے ہیں جیسے ساری باتیں میری ہی تو مانو گے" وہ منہ میں بڑبڑاتی ہوئی ڈریسنگ کی طرف چلی گئی جبکہ شاھمیر گرنے کے انداز میں صوفے پہ بیٹھا تھا،،، ماتھے پہ شکنوں کا جال تھا۔ وہ زرمینے کی حالت سمجھ سکتا تھا لیکن وہ اتنی اچھی جاب بھی نہیں چھوڑ سکتا تھا۔
"ادھر آؤ اور اب بتاؤ مجھے یہ کیسا بچپنا ہے" وہ کپڑے چینج کر کہ باہر آئی تو شاھمیر اسے دیکھ کہ بولا، مسٹرڈ کلر کی شلوار قمیض جسکی قمیض پہ میرون رنگ کا ہلکا سا کام ہوا تھا اور مسٹرڈ ہی دوپٹہ دونوں شانوں پہ پھیلائے وہ سنجیدگی سے صوفے پہ اس سے تھوڑے فاصلے پر بیٹھ گئی۔۔
"اب بولو بھی کیوں رونے ڈالے ہوئے ہیں؟ میں کون سا ہمیشہ کیلئے جا رہا ہوں" اب کہ انداز ذرا ہلکا پھلکا تھا۔ ُاس کی بات پہ زرمینے نے ایک شکوہ کناں نظر اس پہ ڈالی تھی لیکن بولی اب بھی کچھ نہ تھی۔۔۔۔
"میں جانتا ہوں تم میرے جانے سے پریشان نہیں ہو، بات کچھ اور ہے" وہ جیسے اس پر انکشاف کر رہا تھا اور زرمینے حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی،،، اس کی مسلسل خاموشی اب شاھمیر کو زچ کر رہی تھی۔۔۔
"تمہیں ڈر ہے کہ میں بھی سکندر انکل کی طرح جاؤں گا اور واپس نہیں آؤں گا۔۔۔۔ تمہیں ایسا کیوں لگ رہا ہے زرمینے" اس نے ایک نظر زرمینے کو دیکھا جو آنسو ضبط کرنے کے چکر میں سرخ ہو رہی تھیں۔۔ وہ تھوڑا قریب ہوا اور اسکے ہاتھوں پہ اپنے دونوں ہاتھ رکھے۔۔۔۔ بے اختیار زرمینے کی ایک بیٹ مس ہوئی اور آنسوؤں کا جو بندھ وہ باندھے بیٹھی تھی وہ ایک دم ٹوٹ گیا اور وہ ہچکیوں سے رونے لگی۔
"مجھے پتہ ہے آپ بھی بابا کی طرح جائیں گے اور پھر واپس نہیں آئیں گے۔ شاھمیر پلیز آپ کل مت جائیں مجھے بالکل بھی اچھی وائبز نہیں آ رہی" تھوڑا سنبھل کہ وہ آہستہ آواز میں بولی تھی جبکہ شاھمیر بالکل بھی حیران نہیں ہوا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ اسی وجہ سے رو رہی ہے۔۔۔۔
"اچھا میں پرسوں چلا جاؤں گا،،،،" وہ اسے بہلاتے ہوئے بولا۔۔۔
"نہیں آپ اگلے ہفتے چلے جائیں " وہ ضدی انداز میں بولی تھی۔۔۔
"مادام!!! میں جہاں کام کرتا ہوں وہاں میری حیثیت نوکر کی ہے مالک کی نہیں جو میں اپنی مرضی سے اتنی چھٹیاں کر لوں۔ دیکھو میں کل چلا جاتا ہوں کیونکہ ایک بہت امپورٹنٹ میٹنگ پینڈنگ ہے اور ویسے بھی اتوار کو میں آ جاؤں گا ولیمے پہ" اتنی تفصیلی بات وہ کبھی نہ کرتا اگر مقابل اسکی ضدی اور بیوقوف بیوی نا ہوتی تو۔۔
"ویسے یار شادی سے پہلے تم اتنی ضدی تو نہیں تھی " لہجہ میں شرارت پنہا تھی جو فلحال زرمینے سمجھنے سے قاصر تھی۔
"ٹھیک ہے آپ جائیں کل اور مجھ سے بات مت کیجیئے گا" وہ جھٹ سے کھڑی ہو کہ بیڈ کی طرف جاتے ہوئے بولی،،، بیڈشیٹ درست کر کہ وہ کمفرٹر کو منہ تک اوڑھ کہ لیٹ گئی تھی جبکہ شاھمیر بےبسی کی تصویر بنا کھڑا تھا لیکن وہ جانتا تھا کہ وہ زیادہ دیر اس سے ناراض نہیں رہ سکے گی۔
"پھنس گیا شادی کر کہ" وہ ہولے سے بڑبڑایا اور دبے قدموں سے زرمینے کی طرف بڑھا۔ ایک دم اسکا کمفرٹر چہرے سے ہٹایا تو زرمینے خونخوار نظروں سے اسے گھورنے لگی۔
"میں چیک کر رہا تھا تم رو تو نہیں رہی،،،،، کیری آن سو جاؤ صبح بہت کام ہیں ویسے بھی" بالوں پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ مسکراتے لہجے میں بولا تھا جبکہ زرمینے بے اختیار اسے دیکھے گئی اور ایک بار پھر اسکی آنکھیں بھر آئیں لیکن وہ کروٹ بدل گئی تھی،،،، مقابل کھڑے شاھمیر کی آنکھوں سے وہ منظر چھپ نہیں سکا تھا لیکن وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔۔۔۔۔

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Jan 09 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

عنکبوت Where stories live. Discover now