باب ٢١| سحر و سحرکار

101 16 132
                                    

Oops! This image does not follow our content guidelines. To continue publishing, please remove it or upload a different image.

  اَلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَتَطۡمَٮِٕنُّ قُلُوۡبُهُمۡ بِذِكۡرِ اللّٰهِ‌ ؕ اَلَا بِذِكۡرِ اللّٰهِ تَطۡمَٮِٕنُّ الۡقُلُوۡبُ

Oops! This image does not follow our content guidelines. To continue publishing, please remove it or upload a different image.

  اَلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَتَطۡمَٮِٕنُّ قُلُوۡبُهُمۡ بِذِكۡرِ اللّٰهِ‌ ؕ اَلَا بِذِكۡرِ اللّٰهِ تَطۡمَٮِٕنُّ الۡقُلُوۡبُ

وہ جو ایمان لائے ان کے دل اللہ کی یاد سے سکون پاتے ہیں، سن لو اللہ کی یاد ہی میں دلوں کا سکون ہے.

سورة الرعد | 28

__________

جنیوا، سوئٹزرلینڈ
Geneva, Switzerland

وہ ایک مکلمل آفیشل ڈریس کوڈ میں ملبوس تھا۔ سفید شرٹ نفاست سے پہنے جس پر گہرا نیلا ویسٹ کوٹ، پینٹ اور کوٹ فرانس کے مشہور ڈیزائنر کی کاوش تھا۔ آستین سے 'M' کے سلور برانڈڈ کف لنکس جھانک رہے تھے۔ چہرے کی شیو کیے اور بال سلیقے سے سیٹ کیے، دو گہری بھوری...

Oops! This image does not follow our content guidelines. To continue publishing, please remove it or upload a different image.

وہ ایک مکلمل آفیشل ڈریس کوڈ میں ملبوس تھا۔ سفید شرٹ نفاست سے پہنے جس پر گہرا نیلا ویسٹ کوٹ، پینٹ اور کوٹ فرانس کے مشہور ڈیزائنر کی کاوش تھا۔ آستین سے 'M' کے سلور برانڈڈ کف لنکس جھانک رہے تھے۔ چہرے کی شیو کیے اور بال سلیقے سے سیٹ کیے، دو گہری بھوری لٹیں ہمیشہ ماتھے پر آگرتی اور شخصیت کو مزید نمایاں کر دیتی تھیں۔ سیاہ برانڈڈ جوتے پہنے خاموش لابی اسکے قدموں کی چاپ سے گونج رہی تھی۔ لابی کے دونوں اطراف ہر ملک کا جھنڈا قطار در قطار لگا تھا جن کے عین وسط میں وہ چلتا آتا دکھائی دے رہا تھا۔ قدآدم شیشوں سے دھوپ جھانک رہی تھی جس کا سایہ اس کی آنکھوں کے شہد نما انگاروں کو نمایاں کر رہا تھا۔ وہ بلاشبہ ایک وجیہہ اور بارعب شخصیت رکھے ہوئے، تمام آفیشلز کے مقابلے سب سے کم عمر تھا۔ لابی میں اسکے پرفیوم کی مہک قریبا ہر سٹاف ممبر کو چلتے ، بیٹھتے یا کوئی بھی کام کرتے چھوڑ کر اسکی جانب مڑ کر دیکھنے پرمجبور کر رہی تھی۔ مگر وہ شاید واحد تیس سال کا نوجوان تھا جسے دنیا کے سحر اور سحرکاروں سے دلچسپی نہیں تھی۔ اسے پر اب تک ہر طرح کی ہزاروں لڑکیاں مسکرا کر مرنے کو تیار تھیں مگر وہ شخص دنیا سے بےنیاز کسی انمول آب حیات کی تلاش میں تھا۔ اس ہی لیے ان تیس سالوں میں نہ آج تک کسی پر نظر ٹھہرتی تھی نہ وہ خود۔

اع راف Where stories live. Discover now