Lesson

4 1 0
                                    

"میں نے اپنی پہلی بیوی کو فقط اس وجہ سے طلاق دے دی تھی کہ اس کے پیٹ میں پلنے والا بچہ لڑکی تھا اور آج میرے سگے بیٹے نے فقط اس لئیے میرے سر پر اینٹ دے ماری ہے کہ میں نے گرمی سے تنگ آ کر سب سے پہلے نمبر پر پنکھے کے سامنے چارپائی ڈال لی تھی "

میرا نام مدبر خواجہ ہے میں ضلع سرگودھا کی تحصیل بھیرہ کے نواحی گاؤں سے تعلق رکھتا ہوں آج کل لاہور کے ایک مینٹل ہسپتال میں مقیم ہوں اور انتہائی عبرت ناک و اذیت ناک زندگی جی رہا ہوں شاید یہ میرے ظلم کی وجہ سے میرا حال ہوا ہے ۔۔۔

میری نسبت میرے بچپن میں ہی میری خالہ زاد سحر عقیل سے طے کر دی گئی تھی سحر کی قسمت میں شاید جب تک جینا تھا آزمائشیں ہی لکھی ہوئی تھیں لہذا جب وہ نو سال کی تھی تب اس کے والد کا انتقال ہو گیا والد کی موت کے بعد سحر کے دادھیال والوں نے اس کی ماں کو جان سے مارنے کی دھمکی دے کر سب کچھ اپنے نام لگوایا اور پھر نو یا دس سالہ سحر کو ماں کے ساتھ گھر سے نکال دیا سحر کی ماں اسے لے کر اپنے میکے جا بیٹھی مگر جوں جوں بھائیوں کی شادیاں ہوتی گئیں وہ اپنی بہن کی کفالت سے انکار کرتے گئیے یہاں تک ایک بار جب تنگ آ کر سحر کی ماں نے بھائیوں سے جائیداد میں حصہ مانگا تو اس کے بھائیوں نے اسے مار پیٹ کر گھر سے نکال دیا اور وہ ایک بار پھر بے سہارا ہو کر سڑک پر آ گئی ۔۔۔۔۔ ۔

سحر کی ماں نے گاؤں میں کسی کا خالی گھر مانگ کر اس میں رہائش رکھی اور غربت کا یہ عالم تھا کہ بل نہ دے سکنے کی وجہ سے اس نے گیس اور بجلی کی سہولت ہوتے ہوئے بھی استعمال کرنے سے انکار کر دیا اتنے مصائب میں بھی میری ماں نے اپنی بہن ( سحر کی والدہ) کو تنہا نہ چھوڑا اور والد صاحب سے چوری چھپے اپنی بہن کی مدد کرتی رہی میری ماں نے مجھ سے سحر کے متعلق پوچھا تو میں نے اس کی مالی حالات دیکھتے ہوئے انکار کر دیا کیونکہ مجھے ملازمت کرنے والی لڑکی چاہئے تھی تا کہ میں مالی طور پر مزید مستحکم ہو سکوں جب کہ سحر تو اپنے باپ کی موت کے بعد کبھی سکول کا منہ بھی نہ دیکھ پائی تھی اس نے تو اپنی ماں کے ساتھ مل کر لوگوں کے ٹائلٹ تک دھوئے تھے میں بھلا کیسے اس سے شادی کر سکتا تھا ؟

خیر میری ماں نے مجھے منت سماجت کر کے سحر سے نکاح کرنے پر راضی کر لیا میں نے من پسند جہیز لینے کی شرط پر ہامی بھر لی میری ماں نے ضمانت دی کہ جہیز میری پسند کا ہو گا اور ہوا بھی ایسا ہی میری ڈیمانڈ کا جہیز لے کر سحر رخصت ہو کر میرے گھر آ گئی اور اس جہیز کے لئیے اٹھائے گئے قرض کے بدلے میں اس کی ماں لوگوں کے گھروں میں کام کام کرتے کرتے چل بسی مگر قرض ادا نہ ہوا بعد ازاں کچھ لوگوں نے سحر کی ماں کی موت پر اس کو قرض معاف کر دیا اور باقی لوگوں کو اس نے میری اجازت سے گھر کا جہیز بیچ کر رقم ادا کر دی ۔۔۔۔

شادی کے دو سال بعد سحر امید سے ہوئی جس دن مجھے سحر کے امید سے ہونے کی خبر ملی اسی دن میری ماں بھی چل بسی میں نے صبر کا گھونٹ پیا مگر میرے رشتہ داروں نے کہنا شروع کر دیا کہ سحر منحوس لڑکی ہے جہاں جاتی ہے اگلا بندہ مشکلات میں گھر جاتا ہے پہلے اس باپ کی موت پھر اپنے ننھیال کے در سے ٹھکرائے جانا پھر اس کا ماں کا مقروض ہو کر مر جانا اور میرے پاس آتے ہی امید سے ہوئی تو میری ماں چل بسی شومئی قسمت جب پانچ ماہ بعد ٹیسٹ کروایا تو پتہ چلا کہ سحر کے پیٹ میں موجود بچہ لڑکی ہے تو میں ڈر گیا کہ وہ لڑکی بھی سحر کی طرح منحوس نہ ہو اس کے ہوش سنبھالتے ہی میں نہ مر جاؤں ؟
میں نے لوگوں کی باتوں کو بھی دل پر لیا اور ساتھ ہی جب مجھے پتہ چلا کہ آنے والا مہمان بیٹی ہے تو میں نے سوچا اس کی پرورش تعلیم اور صحت شادی جہیز ان سب پر اخراجات کر کے مجھے تو کچھ بھی نہیں بچے گا سو میں نے سحر سے جان چھڑانے کا فیصلہ کر لیا ۔۔۔۔۔۔۔

❤️In Your Heart❤️Where stories live. Discover now