قسط نمبر ١

162 17 3
                                    

سنا ہے بہت سستا ہے خون وہاں کا!
اِک بستی جسے لوگ کشمير کہتے ہیں!!

یہ اس وادی کی بات ہے جہاں صبح کا سورج دھماکوں کی آواز سے طلوح ہوتا تھا اور جہاں کے لوگ دن بھر گھروں میں دبکے بیٹھے رہتے تھے اور جو بہادر گھروں سے نکلنے کی جرات کرتے شام کو ان کے بےجان جسم خون میں لپٹے ہوئے گھر واپس آتے۔ وہ جسم جن سے قربانی کی خوشبو آتی تھی۔ وہ جسم جن کے خون کا ایک ایک قطرہ ان کی شہادت کی گواہی دیتا تھا۔ اور رات کو وادی کے مکین سونے سے بھی ڈرتے تھے۔

اسی وادی میں بوہڑ کے درخت کے ساتھ  جہانگير کا چھوٹا سا گھر تھا جس کے صہن میں وہ روز اخبارات سے لفافے بنایا کرتا تھا۔ اس کی چار اولادیں تھیں۔ سب سے بڑا مجاہد تھا۔ جہانگير کو یاد تھا جب اس نے اپنے بیٹے کا نام رکھا تھا تو لوگوں نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ اس وقت جہانگير نے کہا تھا کہ میرا بیٹا بڑے ہو کر مجاہد بنے گا۔ کشمیر کو آزاد کرائے گا۔ مجاہد سے چھوٹی تین بہنیں تھیں؛ افشیں؛ نگین اور سدرہ۔ مجاہد بچپن سے ہی ذہین تھا اور غصے کا تھوڑا تیز بھی تھا۔ اپنے بوسیدہ سے گھر کے برآمدے میں دھڑے پرانے سے ٹی۔وی پر وہ تاریخی چینل بہت غور سے دیکھتا اور اکثر کڑھتا رہتا۔

ابا یہ لوگ ظلم کیوں سہتے ہیں کچھ کرتے کیوں نہیں۔ اگر پاکستان آزاد ہو سکتا ہے تو کشمیر بھی ہو سکتا ہے۔

اس کی بات پر جہانگير اسے مسکرا کر دیکھتا۔

بیٹا پاکستان آزاد کروانے کے لیے قائداعظم پیدا ہوئے تھے۔

تو کشمیر کا قائداعظم میں بنوں گا ابا۔

اس کی بات سن کر جہانگير اسے گلے سے لگا لیتا۔ اور پھر مجاہد بڑا ہو گیا۔ اس نے کشمیر کو آزاد کروانے کی ٹھان لی تھی۔

ابا جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے تو فضا میں الله اكبر کی صدا بلند ہوتی ہے۔ اور پھر الله اپنا بڑاپن دکھاتا ہے اور قیدیوں کی زنجیریں ٹوٹ جاتی ہیں۔ ظالم زمین میں دھنس جاتے ہیں ۔ پھر مجاہد ہو نہ ہو اس کا نام زندہ رہتا ہے۔

وہ اکثر کہا کرتا تھا اور جہانگير کو اس پر فخر تھا۔ مجاہد کی اماں حمیدہ جہانگير کو سمجهاتی کہ اکلوتا بیٹا ہے اسے قربان مت کرو مگر وہ ہنس کر کہتا۔

حمیدہ!اگر سب مائیں اپنے بیٹوں کو ایسے ہی روکیں تو کیسے ہم آزاد ہوں۔ ہمیں آزاد کروانے کے لیے کوئی فرشتہ نہیں آئے گا ہمیں خود محنت کرنی ہے۔

اور وہ چپ ہو جاتی۔
مجاہد جب بیس سال کا ہوا تو جہانگير نے اس کی منگنی اپنے دوست کی بیٹی قربانی سے کر دی۔ وہ ان کے گھر کے پاس ہی رہتے تھے۔مجاہد سےاس کی پہلی ملاقات تب ہوئی تھی جب وہ اس کے پاس پڑھنے آئی تھی۔

لیکن میرے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ میں آپ۔۔۔

ابھی اس کی بات بھی مکمل نہ ہوئی تھی جب قربانی نروٹھے پن سے بولی۔
آپ کا وقت کسی کے جذبات سے زیادہ اہم ہے؟؟

 مجاہد کی قربانی(کشمیر اسپیشل) مکملWhere stories live. Discover now