قسط نمبر ٢

59 14 0
                                    

وہ سہمے ہوئے بیٹھے تھے ۔ سب کی نظریں بھارتی افواج پر تھیں۔ انھیں اپنی موت بہت نزدیک نظر آ رہی تھی۔

تم ہو ناں مجاہد کے باپ جہانگير ؟

ایک نے بڑھ کر جہانگير کا گریبان پکڑ لیا۔ بچیاں ماں سے لپٹی بیٹھی تھیں۔

ہاں۔

جہانگیر نے کہا۔

اپنے بیٹے کو سمجھا لو کہ ہمارے راستے میں نہ آئے۔ ورنہ ایسا حشر کریں گے کہ اپنا نام تک بھول جائے گا۔

اسی فوجی نے اس کی کنپتی پر بندوق رکھی۔

وہ ایسا نہیں کرے گا۔ میں نے اسے ہار ماننا نہیں سکھایا۔

جہانگير نے ہمت کر کے کہا۔ مگر اس کی ہمت کی سزا اس کی چھوٹی بیٹی کو ملی۔ پیچھے کھڑے فوجی نے سدرہ کو دبوچ لیا۔

اگر اپنی بیٹی صیح سلامت چاہیئے تو مجاہد کو واپس بلا لے ورنہ۔۔

آہ! ابا ابا بچاو۔

سدرہ نے چیخ کر کہا۔

میری بیٹی کو چھوڑ دو۔ میں اسے واپس بلا لوں گا مگر خدا کے لیئے میری بیٹی کو چھوڑ دو۔

جہانگير کے اندر کا باپ بولا۔

ٹھیک ہے۔ جب تو مجاہد کو بلا لے گا تو ہم اسے چھوڑ جائیں گے مگر یاد رہے کوئی چالاکی نہیں چلے گی۔

اور وہ لوگ پلٹ گئے۔

بھائی ابا بچاؤ۔ آہ بچاؤ کوئی۔

سدرہ چلا رہی تھی اور جہانگير بےبسی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ کچھ سوچ رہا تھا مگر اگلے لمحے قیامت ٹوٹ پڑی جب ایک فوجی مڑا اور حمیدہ کے سینے میں گولی مار دی۔

الله ۔

حمیدہ نے دلخراش چیخ ماری جسے باہر لگے بوہڑ کے درخت نے اپنے اندر جذب کر لیا۔

تجھے مبارک ہو اے ماں!
جو کچھ دیر پہلے تو..
اپنے لعل کی موت سے گھبرائی تھی...
تو روئی تھی اے ماں!
لے خدا کو ترس آ گیا تجھ پر..
فرشتے کا رخ موڑ دیا تجھ پر..
تجھے مبارک ہو اے ماں!
بتا اب جہاد سے واپسی پر..
کون سینے سے لگائے گا؟
چل اِک عہد کرتا ہوں..
میں تجھ سے ملنے آوں گا..
میں تجھ سے ملنے آوں گا..

*ازطوبی کرن!*

جہانگير اس کی طرف بڑھا اور اسے سینے سے لگا لیا۔

حمیدہ! آنکھیں کھول حمیدہ۔۔۔

اماں!! اما...ں۔۔

رات کے اس پہر اس گھر پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ صفِ ماتم بچھنے میں دیر نہ لگی۔ جہانگير بت بنا کھڑا رہ گیا۔

 مجاہد کی قربانی(کشمیر اسپیشل) مکملWhere stories live. Discover now