اقبال یا جون

38 5 3
                                    

سارا دن خوشی کی اداکاری کرنے والے
شام  کو  تھک  کے  غم  مناتے  ہوں  گے

جن کا انتظار ہے بس انہی نے نہیں آنا
باقی    آنے   والے   تو   آتے   ہوں    گے

بے نشاں سے تو  ہیں  یہاں  سبھی نشاں
یہ دیکھنے والے بھلا کیا دیکھتے ہوں گے؟

یہاں با ذوق  لوگوں  کی  محفلوں  میں
بے   ذوق   لوگ   کہاں   جاتے   ہوں  گے

لکھنے   والے    کیا    کیا   نہیں   لکھتے
پڑھنے والے تو سبھی سہم جاتے ہوں گے

مریض کی بگڑتی حالت دیکھ کر
طبیب تو سبھی حرکت میں آ جاتے ہوں گے

شاعری کے سبھی نامور
اقبال اور جون پہ آ کہ اٹک جاتے ہوں گے

میرے ساز کی دھن بنانے والے
تم پہ آ  کہ  رک  جاتے  ہوں گے

کبھی کبھی تو یہ بھی سوچتا ہوں میں
زندگی کو جینے لوگ کہاں جاتے ہوں گے

سب کی خوشی غم کا خیال رکھنے والے
اپنی ذات میں آدھے رہ جاتے ہوں گے

صرف خودہی کو صحیح سمجھنے والے
باقی تو سبھی کو غلط کہتے ہوں گے

اور یہ جو ماتھے پہ آنکھیں رکھتے ہیں
ٹھوکر   لگٹے   ہی   گر   جاتے  ہوں  گے

تنہا ذندگی نہیں گزرتی مانتا ہوں میں نور
مگر نبھانے والے بھی نبھاتے نبھاتے تھک جاتے ہوں گے

شاعریWhere stories live. Discover now