پارٹ 1 ماضی

382 22 44
                                    


وہ حسن کا بادشاہ تھا
تو وہ دولت کی ملکه تھی
وہ بے دین تھا
تو وہ دین والی تھی
وہ بے اصول تھا
تو وہ اصول پرست تھی
ایک کو محبّت ہو گئی تھی
تو دوسرے نے محبّت نبھا لی تھی
ایک کو شطرنج میں مات ہوئی تھی
تو ایک نے شئے پر ہوتے ہوئے بھی مات کھائی تھی
محبت کی اس کہانی کے دو کرداروں نے محبّت کو الگ ڈھنگ سے دیکھا تھا

میں بہاروں کی ہر رُت تیرے نام لکھتا ہوں
میں نظاروں کی ہر گرد تیرے نام لکھتا ہوں
میں خوابوں کی ہر شب تیرے نام لکھتا ہوں
میں خیالوں کی ہر زد تیرے نام لکھتا ہوں
میرا دل، دھڑکیں اور میں
یہ سب میں نکاح میں تیرے نام لکھتا ہوں

▫▫▫▫▫▫▫▫▫▫▫▫▫▫▫▫▫▫▫▫▫▫▫▫▫▫

وہ سفید گھیردار فراک میں ملبوز تھی اس کے کمر تک آتے ریشمی بال ہوا کی لؤ سے اڑتے بکھرتے تھے۔ وہ دونوں ہاتھوں کو ہوا میں پھیلائے ہلکے ہلکے گول گول گھومتی تھی اس کا آنچل اور فراک کا گھیر اس کے ساتھ ساتھ گھومتا تھا۔ وہ مسکراتی جھومتی، گھومتی، بھاگتی، قہقے لگاتی اس باغ میں موجود تھی جہاں چاروں اطراف قدآور درخت پھلوں اور پھولوں سے لدھے تھے دور دور تک سبزہ پہلا تھا پھول اپنی محتاب اس کی روح میں اترتے بتا رہے تھے کہ بہار کا موسم اپنی آمد عبور کر چکا تھا۔

وہ یونہی سبزے پر بھاگ رہی تھی اس کے پیروں میں موجود چاندنی کی پایل کی چھن چھن پورے باغ میں سنی جا سکتی تھی اس کی پیال کی آواز کے ساتھ ساتھ اس باغ میں چرند پرند کی آوازیں بھی ایک حسین ساز معلوم ہوتے تھے کہ یک دم اسے وہ نظر آیا۔۔۔۔ہاں وہ اسے نظر آیا۔۔۔اس کے قدم وہیں ٹھہر گئے۔۔۔۔چلنا بھول گئے ہوں جیسے۔۔۔۔پایل کی چھن چھن دم توڑ گئی چڑیاں ، کبوتر ، ،کویل ، طوطے اور مختلف چرند پرند اس کے ساتھ ہی خاموش ہو گئے مانو دم سادھے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ اس شخص نے بھی سفید ہی رنگ پہنا تھا اس کی پشت اس کی طرف تھی وہ اس کا چہرہ نہ دیکھ سکی تھی کہ وہ پلٹا اس کی نظریں سب سے پہلے اس کی آنکھوں پے پڑیں تھیں ان آنکھوں میں جہاں ایک طرف میٹھے پانی کا سمندر تھا تو دوسری طرف کھارے پانی کا ایک اور سمندر موجود تھا اس کی آنکھوں میں عجیب سحر تھا اس کی آنکھیں عجیب طرح سے لوگوں کو اپنی طرف اٹریکٹ کرتیں تھیں۔ وہ بغیر پلکوں میں جنبش پیدا کئے اسے دیکھ رہی تھی کہ اس شخص نے اس کا ہاتھ تھاما تو یک دم ہی اس کا ارتکاز ٹوٹا اور اس کی نظریں اپنے اور اس کے ہاتھ پر ٹک گئیں۔

خوش قسمت ہونے کی آخری چابی بھی اس کے ہاتھ لگ گئی تھی کون تھا جو اسے کہہ دیتا کہ وہ خوش قسمت نہیں تھی کیوں کہ جن تین چیزوں کے ہونے پر دنیا خوش قسمت کا لیبل آپ کو دیتی ہے وہ تینوں اس کے پاس تھیں دولت، حسن اور۔۔۔اور محبّت۔۔۔کہیں نہ کہیں اس کی قسمت اچھی تو ضرور تھی کیوں کہ اکثر لوگوں کے پاس یہ تین چیزیں بیک وقت نہیں پائی جاتی تھیں پر اس کے پاس تھیں تو کیوں کر وہ خود کو خوش قسمت تصور نہ کرتی لیکن کچھ ہی دیر میں اس شخص کا ہاتھ اس کے ہاتھ سے دھوئیں کی صورت فضا میں غائب ہوا تھا پھر اس کا چہرہ اس کا جسم اور رفتہ رفتہ وہ حسنِ نظر دھواں ہوا تھا۔ اس نے گھبرا کر اپنے ادر گرد اس کو ڈھوڈھنے کی کوشش میں دیکھا تو کیا دیکھا ہر چیز دھواں ہو رہی تھی۔۔۔۔ہریالی، درخت، پھول، محتاب، کویل، چڑیاں، کبوتر، طوطے غرض کے ہر شئے اس کی آنکھوں کے سامنے سے اوجھل ہو گئی تھی اور وہ کچھ نہیں کر سکی تھی۔۔۔کچھ دیر پہلے ہر سو چھائی ہریالی ایک پل میں دھواں ہوتی اپنے پیچھے صرف سوکھے پتے چھوڑ گئی تھی جو اس کی راہوں میں بکھرے پڑے تھے۔
ویران درخت تھے جو اپنی ویرانی اس میں اتار رہے تھے۔

سُکھے ہوئے پھول Where stories live. Discover now