Episode 16

8.4K 360 56
                                    

لڑکیوں تم لوگ ابھی تک تیار نہیں ہوئی، سارے مہمان آ پہنچے ہیں اور تم لوگ ہو کے ایسے ہی بیٹھی ہو، چلو جلدی کرو...... آمنہ بیگم انہیں تیار ہونے کا کہتی نیچے کی طرف بڑھ گئیں.
آج عاشی کی مہندی کا فنکشن تھا، جو کہ گھر میں ہی رکھا گیا تھا.
زری تم بھی جاؤ اور تیار ہو جاؤ، یا پھر ایسا کرو تم اپنا سارا سامان لئیے یہیں پر آجاؤں، ہم سب مل کے تیار ہوجاتے ہیں.....  ماہی بولی تھی.

میں پہلے امی اور آغا جان کو دیکھ آؤں، پھر اس کے بعد تیار ہو جاؤں گی.... تم لوگ جلدی کرو. وہ یہ کہ کر کمرے سے نکل گئی.
ویسے تمہارا بھائی بہت لکی ہے  جسے اتنی پیاری بیوی ملی ہے. جو کہ صرف شکل و صورت سے ہی نہیں بلکہ دل کی بھی بہت پیاری ہے.
ہاں!!!! میں جانتی ہوں، بس موم بھی جان جائیں جلد ہی.... وہ بڑبڑائی تھی.
کیا؟
کچھ نہیں..... جلدی کرو، ورنہ پھر سے موم آجائیں گی...
                   
                 _________________

وہ اپنی امی کے پاس سے ہو کر اپنے روم میں آئی تھی.
جب کوئی اس کے روم میں داخل ہوا تھا.
آغا جان آپ؟ میں آپ کے پاس ہی آنے والی تھی...
واو آپ تو ریڈی ہو چکے ہیں. وہ ان کی طرف بڑھتی ہوئی بولی.
زری! میرے بچے مجھے تم سے بہت اہم بات کرنی ہے.
جی آغاجان کہیے میں سن رہی ہوں. وہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے صوفے پر موجود تھے.

آغا جان میں فی الحال ابھی رخصتی نہیں چاہتی،  پلیز آغا جان ایک بار..... صرف ایک بار میری بات سن لیں....
میں نے آپ کا ہر حکم، ہر بات مانی ہے. لیکن اس بار پلیز اپنی زری کی سن لیں. مجھے تھوڑا سا وقت دے دیں آغا جان.... پلیز...... وہ آغا جان کی بات سننے کے بعد التجائی لہجے میں بولی تھی.

                ___________________

رابیعہ بیگم کی رپورٹ کا رزلٹ آچکا تھا.
جب سے اسے ڈاکٹر نے ان کے کینسر کے بارے میں بتایا تھا، تو اسے کافی دکھ ہوا تھا کیونکہ ان کا کینسر لا سٹیج پر تھا.
اسے یہ بات زری کو بتانا دشوار لگ رہی تھی.

آغا جان ابان کو زری کا جواب بتا چکے تھے اور ابان سے اس معاملے میں کچھ ٹائم بھی مانگ چکے تھے.
ابان آغا جان کے سامنے تو کچھ نہیں بولا تھا، مگر جب سے اپنے کمرے میں آیا تھا، وہ سوچ سوچ کر پاگل ہو جانے کو تھا.
وہ سمجھتی کیا ہے خود کو؟ کیا وہ مشرقی لڑکیوں کے طور طریقے بھول گئی ہے؟ وہ آغا جان کو انکار کیسے کر سکتی ہے؟

وہ کچھ سوچتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا تھا.
               ___________________

وہ اپنی لُک کو آخری ٹچ دینے کو تھی، جب دروازہ کھلنے کی آواز آئی تھی. وہ شیشے سے ہی دیکھ سکتی تھی کہ اس کے پیچھے کون ہے.

تم اپنے بارے میں مجھ سے بھی پوچھ سکتی ہو
یہ تم سے  کس نے کہہ دیا، " آئینہ" ضروری ہے

اس کی آواز پر وہ پلٹی تھی. جو اس کے بہت نزدیک آ چکا تھا.
وہ وائٹ شلوار قمیض پہنے ہوئے تھا. وہ شلوار قمیض بہت کم پہنتا تھا، مگر جب پہنتا تھا تو اس پر خوب جچتی تھی.
آج بھی وہ کسی مغرور شہزادے سے کم نہیں لگ رہا تھا.....
وہ آج اسے دوسری بار کھلے بالوں میں دیکھ رہا تھا. اس کے بال کافی لمبے اور خوبصورت تھے، مگر اس سے زیادہ خوبصورت اس کے اوپر والے ہونٹ کا کٹاو تھا، جس پر ہلکی گلابی لپسٹک لگی تھی.
وہ گولڈن شرارے پر نیلے رنگ کی کڑتی پہنے ہوئے تھی اور گولڈن ہی دوپٹہ ایک بازو پر لٹک رہا تھا.
کوئی شک نہیں تھا کہ وہ معصوم ہونے کے ساتھ ساتھ خوبصورت بھی تھی.
وہ اسے اس طرح اپنے سامنے دیکھ کر پزل ہوئی تھی، مگر اپنی زبان کو بولنے سے روک نہ سکی تھی.
آپ آغا جان سے میرا جواب سن چکے ہوں گے. میں جانتی ہوں میرے جواب سے آپ کی انا کو ٹھیس پہنچی ہے لیکن____ وہ آگے بڑھ کر اپنے ہاتھوں سے اس کا منہ دبوچ کر بند کر چکا تھا.
وہ شروع سے ہی آغا جان کا بہت فرمابردار رہا تھا، اس بار بھی وہ آغا جان کے کہنے پر اسے ٹائم دے چکا تھا اور وہ یہاں اسے رابیعہ بیگم کی بیماری کے بارے میں بتانے آیا تھا. مگر زری کی بات پر اپنے غصے کو کنٹرول نہ کر پایا....
تمہیں بہت شوق ہے نا علیحدگی کا، تو اپنے اس ناقص دماغ سے یہ خیال نکال دو کہ ابان لغاری تمہیں کبھی طلاق دے گا اور رہی بات رخصتی کی تو وہ کل ہی ہوگی، کیوں کہ ابان لغاری اپنے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹتا. وہ یہ کہ کر کمرے سے نکل گیا...
وہ مجھ سے بے سبب الجھا نہیں تھا
وہ پہلے تو کبھی ایسا نہیں تھا
بہت اعلی تھا ظرف اس کا لیکن
وہ میری ذات کو سمجھا نہیں تھا
وہ جتنی بے رخی سے چل دیا تھا
میں اتنا بھی گیا گزرا نہیں تھا

              ____________________

مہندی کی یہ رات
آئ مہندی کی یہ رات
لائی سپنوں کی بارات....

لغاری ہاوس میں خوشیوں کا سماں تھا اور ہر فرد خوش تھا. آمنہ بیگم نے اپنی چھوٹی بہن کو بھی شرکت کے لیے کہا تھا. جس پر انہوں نے آنے سے صاف انکار کر دیا تھا. لیکن انہوں نے اپنی بہن کے اصرار پر اپنے دونوں بچوں کو بھیج دیا تھا.
مہندی پر زیادہ مہمان نہ تھے. سات آٹھ ٹیبل ہی تھے. جن پر مہمان موجود تھے.
سمیعہ سٹیج  سے اتری تھی اور سٹیج کے پاس ہی موجود ابان کی طرف بڑھی تھی جو کہ فون میں مصروف تھا.
تم سب کے لیے تحفے لائے، لیکن تمہیں میں یاد نہیں تھی کیا؟؟  وہ شکایتی انداز سے بولی تھی.

ایسا نہیں ہے، تم بتاؤ تمہیں کیا چاہیے؟
اب کیا فائدہ اب تم واپس تھوڑی جاؤ گے.
لیکن گفٹ تو کہیں سے بھی لے سکتا ہوں نا....
ٹھیک ہے تو پھر میرا یہ گفٹ تم پر ادھار رہا.
وہ اس کی بات پر مسکرا دیا.

زری سٹیج پر موجود تھی.  اس کا دل پہلے ہی ان سب چیزوں سے اجاڑ ہو چکا تھا، انہیں یوں ہنستا دیکھ کر اور تپی تھی.....
وہ سمیعہ کے کہنے پر سٹیج کی طرف بڑھا تھا.
وہ عاشی کے ساتھ آکر بیٹھا تھا. اور دوسری طرف زری موجود تھی.
زری اگر تم رسم کر چکی ہو، تو میں بیٹھ جاؤں...
زری نے نظر اٹھا کر اپنے سامنے موجود سمیعہ کو دیکھا تھا. جسے رسم سے کوئی سروکار نہیں تھا، بس اسے ابان کے ساتھ بیٹھنا تھا.
زری نے ایک نظر کچھ فاصلے پر موجود ابان پر ڈالی تھی، اور بنا کچھ کہے سٹیج سے اتر گئی تھی....

  اتنا تو میرے حال پر، احسان کیا کر
آنکھوں سے میرے درد کو پہچان لیا کر

          _______________________

🔘 Vote if you like
🔘 Comment down and share your reviews
🔘 Follow on instagram 👉🏻 @novels_by_nageen

ستمگر کی ستمگری (مکمل ناول) Where stories live. Discover now