تو ضروری سا قسط 8

331 9 2
                                    

رات اپنے جوبن پر تھی۔۔ چاند اپنی روشنی سے ہر سو چھایا اندھیرا کم کر رہا تھا ایسے میں وہ کافی کا مگ لیے ٹیریس میں پڑے جھولے پر بیٹھی آسمان کو تکنے میں مصروف تھی۔ دل بےحد اداس تھا۔ آج تک اس کی زندگی پھولوں کی سیج نہیں رہی تھی مگر آج دن میں ہوئے واقعے نے اسے بتا دیا تھا کہ آئندہ بھی اس کی زندگی مشکل ہی رہنے والی ہے۔۔
"یااللہ پہلے اس گھر میں سکون نہیں تھا اب کیا زندگی میں بھی سکون نہیں ملے گا۔۔۔ "وہ چاند کو دیکھتے ہوئے اپنے رب سے گفتگو کرنے میں مصروف تھی۔۔
"اللہ آپ سے میں نے عرصہ ہوا شکوہ چھوڑ دیا۔ کیونکہ آپ ہی تو وہ واحد ہستی ہیں جو میرے ساتھ ہیں اور آپ سے اپنے دل کی باتیں کرنا تو اب بھی میری زندگی کا اہم حصہ ہے۔۔۔"
"میں ڈر گئی ہوں اللہ۔۔۔ بہت زیادہ۔۔ دل میں بہت وسوسے ہیں لیکن کیا کروں۔۔۔ کوئی راہ نہیں ہے میرے پاس۔ اگر میں نے یونیورسٹی چھوڑ دی تو ڈیڈ کسی اور میں ایڈمیشن نہیں لے کر دیں گے لیکن مجھے پڑھنا ہے۔۔۔"
" مگر مجھ میں ہمت نہیں ہے دوبارہ وہاں قدم رکھنے کی۔۔"بات کرتے کرتے وہ براؤن سرخ آنکھیں جن میں سرد مہری کا تاثر نمایاں تھا اسکے تصور میں گھومیں تو وہ کپکپا اٹھی۔۔ دل نے خوف سے رب کو پکارا۔۔۔
"اللہ آپ جانتے ہیں نا کہ یہ بات میں کسی کو نہیں بتا سکتی سب مجھے ہی قصوروار سمجھیں گے۔۔۔ میں بس آپ کو بتا رہی ہوں کیونکہ آپ تو اصلیت جانتے ہیں نا۔۔"کافی کا مگ ابھی بھی ہاتھ میں تھا جوکہ اب ٹھندی برف ہوچکی تھی۔۔ اس نے ایک نظر ٹھندی کافی پر ڈالی اور دوسری ہر طرف چھائے مدھم اندھیرے پر اور پھر ایک گہری سانس بھری۔۔۔ کافی کا مگ پاس موجود ٹیبل پر رکھا اور پھر جھولے سے کمر ٹکا کر دوبارہ سے چاند کو تکنے لگی۔۔
"سر کتنے غصے میں تھے! آخر کیوں؟ کیا جو میں سمجھ رہی ہوں وہ سچ ہے؟ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ کیا کروں میں اللہ۔۔۔"
"دل کچھ کہہ رہا ہے اور دماغ کچھ اور۔۔۔ کیا کروں میں۔۔۔ نہیں سمجھ آرہی کس کی سنوں۔۔۔ ان سے دور رہوں یا جیسے زندگی چل رہی ہے چلنے دوں۔۔۔"
سوال کئی تھے مگر جواب کوئی نہیں تھا۔۔۔ آخر وہ اسی تگ و دو میں ہوش کی دنیا سے نیند کی وادی میں کھو گئی بنا اس بات پر دھیان دے کہ جس جگہ وہ موجود ہے اس بات پر بھی اب اسے کئی دن تک طعنے سننے کو ملیں گے۔۔۔ مگر وہ کہتے ہیں نا کہ کچھ چیزیں آپ کی زندگی میں اتنی زیادہ بار ہوتی ہیں کہ آپ ان کے عادی ہو جاتے ہیں جیسے وہ ہوگئی تھی۔۔۔
اس گھر میں ہو کر بھی نہ ہونے جیسی۔۔ جس کے ہونے یا نہ ہونے سے کسی کو فرق نہیں پڑتا تھا۔۔۔ جو صرف کہنے کی حد تک اس گھر کا فرد تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسے یونیورسٹی آئے ہوئے آدھا دن گزر چکا تھا مگر یہ وقت اس نے کیسے گزارا تھا یہ صرف وہ ہی جانتی تھی۔۔۔ لوگوں کے دیکھنے کا انداز اسے بہت پریشان کر رہا تھا اور ساتھ یہ خوف کہ سر کہیں سے نہ آجائیں۔۔۔ یہ دو چیزیں اس کی سانس اٹکانے کے لیے کافی تھیں۔۔۔
وہ ابھی بھی جلدی جلدی قدم اٹھاتی اسی جگہ جا رہی تھی جہاں کل گئی تھی۔۔۔ ساتھ ساتھ ایک نظر اردگرد بھی گھما لیتی کہ کہیں کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔۔۔ جلدی جلدی چل کر وہ وہاں پہنچی مگر سامنے اس شخص کی موجودگی اسے حیرت میں ڈالنے کے لیے کافی تھی۔۔ کہاں وہ اس سے چھپتی پھر رہی تھی اور کہاں وہ وہاں موجود تھا جہاں جانے کا اس نے ابھی ابھی ارادہ کیا تھا۔۔ حیرت سے منہ کھولے وہ وہیں کھڑی اسے دیکھ رہی تھی جو کہ بلیو جینز کے ساتھ آف وائیٹ شرٹ پہنے دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔۔ ایک گھٹنا موڑ کر کھڑا کیا ہوا تھا جس پر اپنی بایاں بازو ٹکایا تھا جبکہ دوسری ٹانگ سیدھی زمیں پر رکھی ہوئی تھی۔۔۔ انداز بتا رہا تھا کہ وہ اس کا ہی انتظار کر رہا ہے۔۔۔ جیسے ہی اس کی نظر آئےکت پر پڑی وہ مسکرا دیا۔۔۔ یہ مسکراہٹ ہر اس مسکراہٹ سے جدا تھی جو کہ آج تک اس کے چہرے تک آئی تھی۔۔۔
وہ دم سادھے پریشانی سے وہاں کھڑی تھی۔۔ جس سے چھپنے کی تگ ودو میں سارا دن گزرا تھا وہ شخص جیسے اس کی سوچوں سے واقف تھا۔۔
پریشانی چہرے پر واضح تھی۔۔۔
"مس آپ پھر آئی نہیں لیکچر سمجھنے۔۔۔"وہ ایک آئی برو اٹھا کر سوالیہ انداز میں بولا۔۔۔
وہ جو پریشان تھی کہ کل کے بارے میں بات ہو گی تو کیا جواب دے گی مگر مقابل کے سوال نے اسے حیران کر دیا۔۔۔
"وہ۔۔ میں۔۔ میں آئی تھی مگر۔۔"جب کچھ نہ سوجھا تو وہ خاموش ہو گئی لیکن جیسے ہی نظر مقابل پر پڑی تو دل کی دھڑکنیں بڑھ گئیں جو کہ پرسکون انداز میں اسے دیکھنے میں مگن تھا۔۔۔
"اب بھی سمجھنے کا ارادہ ہے یا نہیں!"اسے اپنی جگہ سے نہ ہلتے دیکھ کر آخر وہ بول پڑا۔۔
وہ ہڑبڑائی اور جلدی سے اس کے مقابل بیٹھ گئی۔۔۔
تیزی سے ہاتھ چلاتے ہوئے بیگ سے رجسٹر نکالا اور مطلوبہ کتاب نکال کر عائق کے سامنے رکھی۔ اس سارے وقت میں اس نے ایک بار بھی سر اٹھا کر نہیں دیکھا۔۔۔
"کیا کروں اللہ جی۔۔۔ میں ان سے چھپ نہیں سکتی۔۔ مگر سر ابھی غصہ بھی نہیں ہیں اور انہوں نے کل کا بھی نہیں پوچھا۔ شکریہ ایک مسئلہ حل کرنے کے لیے۔۔"
"مس اگر اب آپ کا دھیان کہیں اور گیا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔۔"وہ وارنگ دینے کے انداز میں بولا جس پر وہ جلدی سے سوچوں کو ایک طرف ڈال کر ٹاپک سمجھنے لگی۔۔۔
آئےکت سمجھنے میں اس قدر مگن تھی کہ اسے اندازہ بھی نہیں ہوا کہ کب وہ اپنی شہادت کی نگلی سے اپنی تھوڑی کھرچنے لگی۔۔ یہ اس کی عادت تھی جوکہ جانے انجانے میں وہ عائق کے سامنے واضح کر گئی تھی۔۔۔
اور وہ جس نے پڑھاتے ہوئی ایک نگاہ اٹھائی تھی کہ نظر اس کی اس حرکت پر پڑی۔۔۔ لمحوں میں دھیان بھٹکا۔۔ سب کچھ بھلائے وہ اسے دیکھنے لگا جو کہ نظریں رجسٹر پر جمائے تھوڑی شہادت کی انگلی سے کھرچ رہی تھی۔۔ سیاہ آنکھیں پلکوں کی چادر سے ڈھکی ہوئی تھیں لیکن ماتھے پر لکیریں واضح تھیں۔۔۔چہرے پر نظروں کی تپش محسوس کر کے جیسے ہی اس نے نگاہ اٹھائی تو عائق کی نظروں سے نظریں ٹکرا گئیں۔۔۔ یہ نظروں کا تصادم صرف کچھ لمحوں کا تھا۔۔ کیونکہ وہ ان آنکھوں میں زیادہ دیر دیکھ نہیں پاتی تھی کچھ تو تھا جو اس کے رونگٹے کھڑے کر دیتا تھا۔۔۔
عائق کو جیسے ہی احساس ہوا وہ فورا حقیقت میں لوٹا۔۔۔ نظر اس کی سرخ ہوتی تھوڑی پر پڑی تو ماتھے پر بل گہرے ہوئے۔۔۔
"اوں ہوں۔۔"وہ ناگواری سے بولا تو آئےکت کا ہاتھ تھم گیا۔۔ ایک چور نگاہ عائق پر ڈالی جوکہ اس کی تھوڑی تک جا کے لوٹ آئی۔۔۔ مگر اب اس کے دونوں ہاتھ اس کی گود میں موجود تھے۔۔ وہ بنا اس کے کہے بھی بہت کچھ سمجھنے لگی تھی مگر خود ابھی انجان تھی۔۔۔
اسے اس کی ہر ادا پیاری تھی۔۔ عائق آفندی اس کی ہر ادا سے محبت کرنے لگ تھا مگر اس پر ہلکی سی کھروچ بھی اس کی برداشت سے باہر تھی پھر چاہے وہ آئے کت کے اپنے ہاتھوں سے لگے۔۔۔
وہ سمجھا رہا تھا اور آئے کت ابتسام سمجھ رہی تھی۔۔۔ بنا یہ سوچے کہ اگر کوئی آپ کو بےوجہ توجہ دے رہا ہے تو ضرور کوئی وجہ ہے جس سے آپ انجان ہیں۔۔۔ وہ وجہ آپ کی زندگی کتنی مشکل کر سکتی ہے یہ آئےکت ابتسام کو اندازہ نہیں تھا ورنہ وہ یہ بےوجہ کی توجہ کبھی بھی نہ لیتی۔۔۔

تو ضروری ساWhere stories live. Discover now