تو ضروری سا قسط 11

214 8 0
                                    

گہرے اندھیرے میں ہر طرف چھایا سناٹا اور ایسے میں بیابان میں کھڑی وہ وحشت زدہ کر دینے والی عمارت جسے ڈیمن کے لوگ ٹارچر ہاؤس کے نام سے جانتے تھے۔
وہاں کوئی نا کوئی سزا کے لیے ضرور موجود ہوتا تھا۔ کئی لوگ تو برسوں سے قید تھے اور شاید اپنی آخری سانسوں تک وہیں قید رہنے والے تھے۔ کئی ایسے بھی تھے جنہیں لایا جاتا تھا اور سزا دے دی جاتی تھی۔ وہ لمبی قید سے تو بچ جاتے تھے مگر دردناک سزا ان کا مقدر بنتی تھی۔ اس ٹارچر ہاؤس میں جانے کتنے لوگ لائے گئے تھے اور جانے مزید کتنے لائے جانے تھے۔
سفید کمرہ جس میں ہر چیز سفید تھی حتیٰ کہ جس کرسی پر وہ شخص باندھا گیا تھا وہ بھی سفید تھی۔ یہ پرانا ٹارچر کا طریقہ تھا جو تقریبا ہر قیدی کا مقدر تھا۔
جیسے ہی اس کی آنکھوں پر سے پٹی ہٹی اس نے آنکھیں کھولیں مگر بےانتہا روشنی کی وجہ سے اس کی آنکھیں چندھیا گئی۔ دوبار مزید جھپکنے کے بعد جب اس کی آنکھیں روشنی سے شناسا ہوئیں تو اس نے اپنے اردگرد نظر گھمائی۔ خود کو اس حالت میں بندھا ہوا دیکھنا اس کے لیے سب سے زیادہ حیران کن تھا اور دوسرا حیران کن منظر سامنے کھڑے وجود سے منسلک تھا۔
جیسے ہی نگاہ سامنے شخص پر پڑی اس کی آنکھیں حیرت سے بڑی ہو گئی۔ وہ سامنے دائیں ٹانگ کرسی پر ٹکائے کھڑا تھا۔ دائیں کہنی دائیں ٹانگ پر رکھی ہوئی تھی۔ بائیں ہاتھ میں موجود سگار دھواں چارو طرف بکھیر رہا تھا۔ اس کے چہرے اور آنکھوں کا اطمینان بتا رہا تھا کہ آج وہ کسی سزا کے موڈ میں نہیں ہے۔ لیکن ایک تاثر تھا جو سب کے رونگٹے کھڑے کر دیتا تھا وہ تاثر ابھی بھی موجود تھا۔
"ویلکم ٹو مائی ورلڈ علیجاہ مالک۔۔" وہ سگار کا کش لگاتے ہوئے بولا۔
مقابل ابھی بھی حیرت کا مجسمہ بنے ہوئے تھا۔ جیسے ہی دماغ نے تھوڑا کام کیا اور حالات کا ادراک ہوا علیجاہ فوراً بولا۔
ڈیمن یہ سب کیا ہے۔ تم نے یہ کیوں کیا؟ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہے۔
ڈیمن نے اسے مسکراتی نگاہوں سے دیکھا۔
وہ کیا ہے نا تم نے اپنی اسی سلطنت کے گھمنڈ میں مجھ سے دھوکا کرنے کا سوچا، میرے آدمی خریدے اور کافی ہمت دیکھائی۔
نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔۔۔ جب تمہارے پاس نہ لوگ ہوں گے اور نہ ایریا تو تم پھر کسی قابل نہیں رہو گے۔ وہ نپے تلے انداز میں اسے آگاہ کر رہا تھا۔
مگر۔۔ مگر یہ ہوا کیسے؟ سات دنوں میں کیسے؟ کیسے؟
وہ بے ربط بول رہا تھا۔ اور اس کا ایسے بولنا بنتا بھی تھی۔ اپنی دنیا بنانے میں اسے اتنا وقت لگا تھا اور ڈیمن نے صرف سات دنوں میں وہ سب ختم کر دیا تھا۔
دو دن پہلے تک یہ کام ہوگیا تھا بس تھوڑا مصروف تھا اسی لیے دو دن زیادہ لگ گئے۔ انداز بچگانہ تھا جیسے بچہ لیٹ ہونے پر وجہ بتا رہا ہو مگر یہ الگ بات تھی کہ علیجاہ اس کا یہ انداز سمجھ رہا تھا۔
لوگوں کے وفادار ان کے ہی خلاف استعمال کرنے میں مجھے بہت مزہ آتا ہے۔ وہ کرسی پر پر سکون بیٹھا کش ہر کش لگا رہا تھا اور ساتھ مقابل کا خون جلا رہا تھا۔
تمہارے قلعے کا نقشہ تو اسی دن مل گیا تھا مگر مقابل کو زیر تب کرنا چاہئے جب آپ کے پاس کوئی ایسا سیکرٹ ہو جو سب کے ہوش اڑا دے۔
علیجاہ کے ماتھے پر سوچ کی لکیریں ابھری جیسے وہ اندازہ لگانا چاہ رہا ہو کہ کس حد تک ڈیمن پہنچا ہے۔ کون سا راز اس کے ہاتھ لگ گیا ہے۔
ایکس پرائم منسٹر۔۔۔ ڈیمن جانتا تھا کہ اسے کتنا بولنا ہے۔
یہ تین لفظ مقابل کو پریشان کرنے کے لیے کافی تھے۔
وہ غصہ ضبط کیے بیٹھا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ جب تک وہ یہاں قید ہے وہ کچھ نہیں کر سکتا۔ اس لیے خاموش رہنے میں ہی بہتری ہے۔
ڈیمن نے ایک مسکراتی نگاہ اس پر ڈالی اور باہر کو قدم بڑھا دیے۔
ڈیمن آخر ہم اسے زندہ کیوں رکھ رہے ہیں۔ جاوید نے کب سے ذہن میں گھومتا سوال پوچھ ہی لیا۔
ڈیمن نے قدم روکے مڑ کر حیرت سے اسے دیکھا جیسے اسے یقین نہ آیا ہو کہ یہ سوال جاوید نے اس سے پوچھا ہے۔
کیونکہ اس سے وہ راز جاننے ہیں جو اسے اور ایکس پرائم منسٹر کو پتہ ہیں۔ اور پھر پرائم منسٹر سے اپنے کام نکلوانے ہیں۔ وہ جلدی جلدی بولتا آگے بڑھ گیا جبکہ جاوید نے افسوس سے خود کو سامنے موجود شیشے میں گھورا۔ وہ اتنا کم عقل کب سے ہوگیا ہے؟ یہ سوال کو وہیں کھڑا خود سے کرنے میں مصروف تھا جبکہ ڈیمن اپنی گاڑی لے کر اپنی منزل کی طرف بڑھ گیا تھا۔ وہ جانتا تھا اس کے کئی دشمن ہیں مگر پھر بھی وہ اکیلے نکل جاتا تھا جیسے موت کو چیلنج کر رہا ہو۔ یا شاید وہ اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ موت جب آنی ہے تو پھر کسی بھی صورت آپ خود کو بچا نہیں پاؤ گے۔ موت مقدر میں لکھ دی گئی ہے۔ شاید اسی لیے وہ اتنا بے خوف تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تو ضروری ساWhere stories live. Discover now