تو ضروری سا قسط 16

164 6 4
                                    

ہاتھوں میں پکڑا پھولوں کا گلدستہ اور چہرے پر آزردہ مسکراہٹ اس کی خوبصورتی مزید بڑھا رہی تھی۔ وہ آہستہ آہستہ قدم بڑھاتی اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ اس کے چہرہ کی تھکن بہت واضح تھی۔
جانے کتنے ہی پل یوں خاموشی کی نظر ہوئے تو  وہ خاموشی سے تنگ آکر خود ہی بول پڑا۔
"تمہیں یہاں آنا نہیں چاہئے تھا۔ اس شخص کے کہنے پر تو بالکل نہیں۔"وہ بولنے پر آیا تو جانے کیا بول گیا۔
وہ اب بھی چپ تھی یوں جیسے وہاں موجود ہی نہ ہو۔
"میں کچھ کہہ رہا ہوں آئےکت۔۔۔"وہ تھوڑا غصے سے بولا۔۔
مگر مقابل اب بھی ویسے ہی ساکت تھی جیسے وہ اس کے سامنے ہی نہیں ہے۔ مگر وہ اس کی آنکھوں میں بھرتا پانی دیکھ سکتا تھا۔
"کیا نہ بولنے کی قسم کھا کر آئی ہو۔۔۔" انداز چڑچڑا تھا۔
مگر مقابل کے ردعمل نے اسے حیران کر دیا جب آئےکت نے ہاں میں گردن ہلائی۔
وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔
"یہ کیا حرکت ہے آئےکت؟ ایسا کچھ نہیں ہوتا۔"اسے سمجھ نہیں آئی کہ وہ کیا بول کر اسے قائل کرے۔
آئےکت نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر موبائل کھول کر ٹائپ کرنے لگی۔ وہ کبھی اس کے چہرے کو دیکھتا تو کبھی اس کی حرکت کرتی انگلیوں کو۔ اس کی نظریں آئےکت کے چہرے اور موبائل کے درمیان سفر کررہی تھیں مگر وہ خاموش اپنے کام میں مگن تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں عائق کے موبائل پر ہونے والی میسج ٹون نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا تو اس نے موبائل پکڑ کر جلدی سے میسج کھولا۔
"بہت کچھ کہنے کو ہے مگر قسم کھا چکی ہوں کہ آپ سے بات نہیں کروں گی کیوں کہ آپ غنڈے ہیں۔۔۔ اور اب میں چلتی ہوں۔"
عائق نے میسج پڑھ کر جیسے ہی سر اٹھا کر دیکھا،وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ وہ قدم بڑھاتی اس سے پہلے عائق نے اس کا بازو تھام لیا۔ وہ رکی تھی مگر مڑی نہیں تھی۔
"میں بھی قسم کھاتا ہوں کہ آج کے بعد کوئی لڑائی جھگڑا نہیں کروں گا۔ جب لڑوں گا نہیں تو غنڈا نہیں رہوں گا اور جب غنڈا نہیں رہا میں تو تم مجھ سے بات کر سکتی ہو ایسے تمہاری قسم نہیں ٹوٹے گی۔" وہ جلدی جلدی بولا تو آئےکت نے اسے حیرانگی سے دیکھا۔
"دیکھو اب میں صحیح کہہ رہا ہوں اس لیے شرافت سے بولنا شروع کرو۔ورنہ۔۔۔۔" وہ اب تنبیہ کرنے والے انداز میں بولا۔
"ورنہ کیا؟"وہ بھی اسی انداز میں بولی۔
اس نے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے ہی تھے کہ اندازہ ہوا وہ بول پڑی ہے۔
"آپ بہت تیز ہوگئی ہو۔" وہ کھل کر مسکرایا تھا۔ ساری بیزاری کہیں دور جا سوئی تھی۔
"آپ کو مجھے پہلے بتانا چاہیے تھا۔" وہ شکوہ کرنے لگی۔
'میں ڈرتا تھا آئےکت۔۔ مگر اب پتا چل گیا ہے نا۔۔ اب چھوڑ دیتے ہیں یہ بات۔۔ کوئی اور بات کرتے ہیں۔ وہ اپنا درد،تکلیف سب بھلائے اس سے بات کرنے میں مگن تھا۔
"یہ دو دن کس طرح گزرے ہیں آپ اندازہ بھی نہیں کرسکتے عائق۔۔۔ مجھے لگا شاید اب آپ کبھی نہیں آئیں گے۔ میں نے خود آپ کو اپنے اپ سے دور کر دیا ہے۔ میں خود سے لڑتے لڑتے تھک گئی تھی۔ پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ مجھے خود سے اس قدر لڑنا پڑا۔" واقعی اس کے پاس بولنے کو بہت کچھ تھا۔
"مگر میں نے خود کو جان لیا ہے۔ مجھے کیا چاہیے یہ بھی پتا چل گیا ہے عائق۔ اب اگر ایک طرف زندگی ہو اور دوسری طرف آپ تو بنا سوچے آپ کو چنوں گی۔ آپ کے بغیر زندگی کسی کام کی نہیں ہے۔"
عائق چہرے پر مسکراہٹ لیے اسے دیکھ رہا تھا۔ بھلا محبوب کی زبان سے اعتراف محبت سننے سے بھی اچھا کچھ ہوسکتا ہے۔ وہ سب کچھ بھلائے اسے سن رہا تھا۔ وہ بھول گیا تھا کہ وہ کہاں ہے اور کیوں ہے۔۔۔ اسے صرف یاد تھا تو یہ کہ سامنے اس کی محبوب ترین ہستی تھی اور اس کی زبان سے ہوتا اعتراف محبت۔
"آئےکت ابتسام، عائق آفندی بھی آپ کو بتانا چاہتا ہے کہ آپ عائق کے لیے بہت اہم ہیں، اس دنیا سے بھی زیادہ۔
اور عائق آفندی جلد آپ کو آئےکت آفندی بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ وہ جزب سے بولا۔
"ایک اور چیز آئندہ اگر آپ نے گاڑی تیز چلائی تو پھر میرے سے برا کوئی نہیں ہوگا۔" وہ ورانگ دے رہی تھی اور وہ مسکرا کر اسے سن رہا تھا۔
اس نے ایک نظر اسے دیکھا جو اس کے اعتراف محبت کے جواب میں کہیں اور کا سوال اٹھا لائی تھی مگر پھر مسکرا دیا۔
"جو حکم لیڈی۔۔۔" مسکرا کر اس نے سر جھکایا اور ہاتھ اٹھا کر سینے پر رکھنے کے لیے جیسے ہی ہلایا تو درد کی لہر اٹھی جس نے اسے بات پوری نہیں کرنے دی تھی۔
"کیا ہوا؟" وہ پریشانی سے بولی۔
"کچھ نہیں بیٹھو۔" وہ مسکراتے ہوئے بولا۔ اب اپنی تکلیف اسے کیوں بتاتا جو پہلے ہی اتنا پریشان رہی تھی۔
"بڑی جلدی نہیں خیال آگیا۔" وہ بیٹھتے ہوئے بولی مگر منہ کے زاویے بنانا نہیں بھولی تھی۔
"آپ بہت بگڑ گئی ہیں۔"
"آپ نے ہی بگاڑا ہے۔"اس نے سارا الزام عائق پر ڈال کر خود کو بری الزمہ قرار دے دیا تھا۔
'مجھے فخر ہے۔"وہ ہنستے ہوئے بولا۔ کمر سے اٹھنے والے درد نے اسے ہنسے سے روک دیا تھا مگر وہ اپنی تکلیف آئےکت پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا سو خود کو نارمل ظاہر کرنے کی ہر کوشش کر رہا تھا۔
"اب مجھے جانا چائیے۔"وہ پانچویں بار بولی تھی مگر مقابل کا وہی جواب تھا۔
"تھوڑی دیر ٹہر جاؤ۔"
"نہیں۔ پہلے ہی بہت رک لیا ہے۔۔ اب مجھے جانا ہے۔"وہ اب عائق کی بات سننے کا بالکل ارادہ نہیں رکھتی تھی۔
"اچھا۔۔ رکو۔۔۔"کہنے کے بعد اس نے ایک کال ملائی۔ بات ختم کر کے آئے کت سے مخاطب ہوا۔
'نیچے گاڑی پارکنگ میں کھڑی ہے۔ وہ تمہیں گھر چھوڑ دے گی۔ گاڑی کا نمبر میسج کر دیا ہے۔"اس نے ہاں میں سر ہلایا اور جانے کے لیے مڑی ہی تھی کہ عائق دوبارہ بول پڑا۔
"پھر کب آؤ گی۔" چہرے پر بلا کی معصومیت تھی۔
'اب میں نہیں آپ آئیں گے وہ بھی یونیورسٹی اور جلدی آئیے گا۔"وہ کہتے ساتھ ہی مڑی اور دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔
اور وہ پیچھے جانے کتنی دیر انہی لمحوں کی قید میں رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ پرسکون تھی۔ کہیں اندر جو طوفان دو دن سے اٹھ رہے تھے وہ تھم گئے تھے۔ یہ جانتے ہی کہ عائق کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے اسے اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا تھا اور وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کس طرح وہاں پہنچی تھی۔ وہ آنسو جو وہ سارا راستہ بہاتی آئی تھی انہیں جلدی سے صاف کرنے کے بعد اس نے اندر قدم رکھا تھا۔ وہ اسے نہیں بتانا چاہتی تھی کہ وہ روتی ہوئی آئی ہے مگر عائق کی نظروں کے تاثر نے بتا دیا تھا کہ وہ جان گیا ہے۔
اور پھر وہ سارا دن اس کے ساتھ گزار کر اب گھر جانے کو نکل آئی تھی مگر احساس ایسا تھا جیسے خود کا ایک ٹکڑا اس کے پاس چھوڑ آئی ہو۔ وہ جانتی تھی کہ اگر اور تھوڑی دیر رکی تو گھر میں شاید اسے قدم رکھنے کی اجازت بھی نہ دی جائے گی۔
یہ یاد آتے ہی وہ مسکرائی تھی مگر مسکراہٹ میں چھپی تلخی کوئی بھی دیکھ سکتا تھا۔
وہ اس لمحے خود کو خوش قسمت تصور کر رہی تھی۔ ہاں اور کیوں نہ کرتی آخر وہ اس شخص کے لیے دنیا جہان سے زیادہ اہم ہے۔ وہ اس کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے اس سے زیادہ خوش کن احساس بھلا کیا ہوسکتا ہے۔
اسی حساب کتاب میں وہ گھر پہنچی تھی۔ دروازے سے اندر داخل ہوئی تو نظر سامنے سے آتے اپنے باپ پر پڑی تو وہ سر جھکا گئی۔ کہیں ایک خوف ابھرا تھا کہ اگر انہیں پتا چل گیا تو؟ یہ سوال اس کا رنگ اڑانے کے لیے کافی تھا۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہی تھی کہ احساس ہوا جیسے انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا ہے۔
اس کے قدم تھم گئے تھے۔ وہ بھول گئی تھی کہ وہ کیا سوچ رہی تھی یا کہاں جارہی تھی یاد تھا تو بس یہ کہ آج زندگی میں پہلی بار بنا کسی کو دیکھانے کے لیے انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا ہے۔ اسے لگا شاید اسے کارون کا خزانہ مل گیا ہے اور اب اس بات سے لاعلم ہے کہ وہ خزانہ کہاں رکھے۔
آنکھوں سے بہنے کو بیتاب آنسو منظر دھندلا کر رہے تھے مگر وہ اس سب سے لاپرواہ جلدی جلدی کمرے میں پہنچی۔ کپڑے چینج کرنے اور وضو کرنے کے بعد وہ جائے نماز پر موجود تھی۔ وہ جانے کتنی دیر نفل پڑھتی رہی تھی۔ جب اور ہمت نہ رہی تو وہیں لیٹ گئی۔ آنسو بہہ رہے تھے مگر وہ یقیناً خوشی کے آنسو تھے۔
"اللہ جی میں کیسے آپ کو شکریہ بولوں۔"انداز میں معصومیت واضح تھی۔
"آج میں بہت زیادہ خوش ہوں کہ گن نہیں سکتی۔ دو ایسی ہستیاں جو میرے لیے بہت ضروری ہیں ان کے لیے بھی میں اہم ہوں یہ احساس مجھے ساتویں آسمان پر پہنچا رہا ہے۔ کتنی محبت تھی عائق کے لہجے میں اور کتنی شفقت تھی بابا کے ہاتھوں میں۔۔۔۔ مجھے نہیں سمجھ آرہی کہ میں کیا کہہ رہی ہوں مگر مجھے پتا آپ سمجھ جائیں گے۔"
"اللہ جی آپ سب سے اچھے ہیں۔" وہ ایسے بولی جیسے کوئی چھوٹا بچا اپنی پسندیدہ چیز ملنے پر مقابل کو مکھن لگانے والے انداز میں کہہ رہا ہے۔
وہ معصوم تھی اور سمجھتی تھی کہ دنیا بھی اس کے جیسی ہے اگر وہ اپنی معصومیت ایک طرف رکھ کر دیکھتی تو اسے احساس ہوتا کہ دنیا صرف مطلبی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تھوڑی ہی دیر میں وہاں الگ ہی شور برپا تھا۔ ڈاکٹر اسے سمجھانے کی ناکام کوشش کرتے کرتے تھک گئے تھے مگر وہ با ضد تھا کہ اسے گھر ہی جانا ہے۔ لیکن جب ڈاکٹر کسی بھی حال میں نہیں مانے تو وہ اپنے ہاتھ پر لگی ڈرپ کی سرنج کھینچ کر اتارنے کے بعد بیڈ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ جانتا تھا کہ ڈاکٹر صرف کہنے کی حد تک ہی اسے روک سکتے ہیں۔
وہ بیڈ سے اترا ہی تھا کہ نظر دروازے سے داخل ہوتے نعمان آفندی پر پڑی تو اس کا غصہ تھوڑا کم ہوا۔ وہ اسے جتنے بھی ناپسند تھے مگر وہ ان کی عزت کرتا تھا۔ اسے اپنے باپ کا کہا آج بھی یاد تھا۔۔۔
"بیٹا آپ کبھی بھی اپنے کسی بڑے سے بدتمیزی نہیں کرو گے کیونکہ آپ براق آفندی کے بیٹے ہو۔ یہ بات وہ تب بولے تھے جب انہوں نے اسے ایک بار نعمان آفندی سے بدتمیزی سے بات کرتے دیکھ لیا تھا۔ بچپن میں الگ وجوہات تھیں اور اب الگ، جن کی وجہ سے وہ انہیں بالکل پسند نہیں کرتا تھا۔۔۔ مگر احترام کرنا وہ خود پر لازم کرچکا تھا۔
"کیا ہورہا ہے یہاں؟" انہوں نے باری باری سب ہر نظر ڈالی اور سوالیہ انداز میں بولے۔
"سر وہ ہم سر کو کہہ رہے ہیں کہ ابھی آپ کو ہسپتال سے چھٹی نہیں مل سکتی۔ ابھی وہ ریکور ہی کب ہوئے ہیں۔ مگر ان کی ایک ہی ضد ہے کہ یہاں وہ نہیں رکیں گے۔"
ڈاکٹر کی بات پوری ہوئی تو ان کی سوالیہ نظر اس کی طرف اٹھی۔
"وہ چاچو مجھے نہیں رہنا یہاں۔"کچھ تو تھا اس نگاہ میں جو غیر معمولی تھا۔
"ٹھیک ڈاکٹر آپ ڈسچارج پیپر بنوائی اسے ہم اپنے ساتھ اپنی حویلی کے جائیں گے۔ ہم اس کی دیکھ
کر لیں گے۔ اور تم ہمارے ساتھ ہی جاؤ گے ورنہ یہی رہو گے۔ ڈاکٹر سے بات کرنے کے بعد وہ اسے تنبیہ کر رہے تھے جس پر اس نے ہاں میں سر ہلا دیا۔
"اس کا پہلا ٹارگٹ یہاں سے نکلنا تھا پھر چاہے کیسے بھی۔۔۔ اور وہ اپنے حدف کو حاصل کرنے میں کامیاب رہا تھا۔"
مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ اب اس کی زندگی میں بہت کچھ بدلنے والا ہے، بہت سی ان چاہی تبدیلیاں اس کی نظروں کے سامنے ہوں گی اور اسے احساس بھی نہیں ہوگا۔ اور جب احساس ہوگا تب وقت گزر چکا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے۔۔۔

تو ضروری ساWhere stories live. Discover now