پارٹ ٣

119 8 5
                                    

گلستانِ پری زاد
از
عاٸشہ منیر

قسط نمبر 3:

"اریشتہ تم لوگ چلو میں نے علی سے نوٹس لینے ہے" حماد نے کہا

"ٹھیک ہے جلدی آجانا" اریشتہ نے کہا اور وہ تینوں یونیورسٹی کی روڈ پر چلنے لگیں۔

"رامشہ تم تو ادھر آٶ نہ "عاٸشے رامشہ کو پکراتی بولی

"میں نے کیا ہے؟ "وہ اریشتہ کے پیچھے چھپی تھی۔
"میرے نوٹس پر گند کس نے مارا ہے" وہ اسکو پکڑانے کی کوشش کررہی تھی۔

"میرے ساتھ حماد بھی تھا" وہ دونوں بول رہی ساتھ اریشتہ کے اردگرد گھوم رہی تھی۔

"اچھا نہ بس کرو" اریشتہ نے ابھی بولا ہی تھا جب اپنے سامنے کھڑے ایک لڑکے اور دو لڑکیوں پر اسکی نظر پڑی۔

"جی آپ کو ہم سے کوٸی کام تھا "اریشتہ آگے آٸی۔

"عرفان یاد ہے" ایک لڑکی آگے آتی بولی

"ہوں جس نے ہم سے بدتمیزی کی تھی" رامشہ بولی

"اور تم لوگوں نے اسے مار کر ہسپتال پہنچادیا" دوسری لڑکی آگے آتے بولی

"ہم نے اتنا بھی نہیں مارا تھا "عاٸشے بولی کہ بروقت پہلے والی لڑکی نے اس کے منہ پر پانی پھینک دیا
سردیوں کے آغاز میں ٹھنڈی ٹھنڈی صبح میں ٹھنڈا
یک پانی عاٸشے کے ہوش اڑا گیا تھا۔

"بدتمیز" رامشہ آگے بڑھی ہی تھی کے دوسری لڑکی نے اسکے بال پکڑ لیے

"چھوڑو مجھے بدتمیز "رامشہ اپنے بال چڑوا رہی تھی

"تم نے میری دوست کے بال پکڑے" عاٸشے اور اریشتہ ان دونوں لڑکیوں پر چر گٸی اور پھر ان تینوں نے مل کر ان کو سبق سکھایا۔

پاس کھڑا لڑکا عاٸشے اور رامشہ کے پیچھے سے سر پر ہاکی مارنے لکا کے سامنے اریشتہ آگٸی۔

"اریشتہ "حماد چیخا اور دورتے ہوٸے اس لڑکے تک آیا
"تمھاری ہمت کیسے ہوٸے افندی فیملی سے پنگا لینے کی" حماد اس کو لیٹا کر مکے مار رہا تھا۔

"تمھیں پتہ ہے تم نے کس کو مارا ہے حماد افندی کی بہن اریشتہ افندی کو" وہ اسے مارتے ہوٸے چیخ رہا تھا انکی آوازیں سن سب بچے کلاسس سے باہر آگٸے

افندی فیملی روکڈ ساری یونیورسٹی شوکڈ

"حماد حماد "رامشہ حماد کو روک رہی تھی
اس نے ایک دم حماد کو اس کے جیکٹ سے کھینچا تھا
اسکی آنکھیں لال تھی اور گردن کی رگیں تنی ہوٸی
تھی رامشہ کو ایک پل اس سے خوف آیا تھا لیکن خود کو کمپوز کرتی بولی
camn down hamad.....

"اریشتہ" اسنے اس سے پوچھا

"اسکو ہم ہوسپٹال لے کر جارہے ہے چلو "رامشہ یہ کہتی آگے بڑھ گٸی اور پیچھے حماد

گلستانِ پری زاد از عائشہ منیرWhere stories live. Discover now