قسط:۵

56 7 1
                                    

رازِ من مسیحا ٹھہرا__!   

"تجھے کیا ہوا ہے تیرا کیوں منہ لٹکا ہوا ہے؟"وہ لوگ ٹیبل کے گرد بیٹھے تھے جبکہ ویٹر کھانا رکھ کر جا چکا تھا۔
"مجھے یونیورسٹی سے سسپنڈ کر دیا ہے"اُس نے ضبط کیے کہا۔
"کیا؟کیوں؟"اُس نے حیرانگی سے سوال کیا۔
"آج ایک سالے لڑکے کی وجہ سے یہ سب ہوا ہے۔میں اُسے چھوڑوں گا نہیں!"وہ غصے سے کہہ رہا تھا۔
"آخر ہوا کیا تھا؟"
اور پھر اُس نے آج کا سارا واقعہ سنایا۔
"تجھے کس نے کہا تھا کہ یونیورسٹی میں ایسے کام کر؟"وہ بھی اب کی بار غصے سے بولا تھا۔
"میری چھوڑ تو بتا تو کب آیا ہے واپس؟"اُس لڑکے نے راحم سے سوال کیا۔
"کل شام کو آئے ہیں ڈیڈ کو ڈسچارج کیا تھا چار دن پہلے۔اور تم جانتے ہو ڈیڈ نے میری شادی کی ڈیٹ رکھ دی ہے۔"
"کیا تیری شادی؟کب؟کس سے؟اور یوں اچانک؟"اب سامنے بوتھ لڑکا حیران ہوا تھا۔
"ہاں! ڈیڈ کے فرینڈ کی بیٹی ہے۔اگلے مہینے کے پہلے ہفتے میں ڈیٹس رکھی ہیں"
"اور تو مجھے اب بتا رہا ہے؟"اُس نے خفگی سے کہا جبکہ راحم کندھے اچکا گیا۔
"چلے گا آج تو کلب؟"راحم نے جوس کا گلاس اپنے لبوں سے لگاتے سوال کیا۔
"نیکی اور پوچھ پوچھ!؟"وہ ہنسا تھا جبکہ راحم بھی مسکرا دیا۔
"چل پھر ملتے ہیں!"وہ کہتا اٹھا اور چابیاں اٹھائے باہر نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر وہ دن بھی آگیا جب وہ ہاتھوں میں کسی کے نام کی مہندی سجائے تیار ہوئی تھی۔
مہرون رنگ کے لہنگے پر مہرون دوپٹہ شانوں پر پھیلائے جس پر گولڈن گوٹے کا بھاری کام ہوا وا تھا ساتھ میں گولڈن بڑے بڑے جھمکے پہنے،پیشانی پر سائڈ پر جھومر اور بیچ میں ٹیکہ سجائے،گلے میں جھمکوں کے ساتھ کا سیٹ پہنے،برائیڈل میک اپ کیے وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔
"ماشاءاللہ میری بیٹی بہت خوبصورت لگ رہی ہے"زوبیہ بیگم نم آنکھوں سے مسکرا دیں۔پیچھے حیات صاحب بھی آئے اور اُسے دعائیں دیے باہر نکل گئے۔جبکہ پیچھے مڑ کر انہوں نے اپنی آنکھوں سے نمی صاف کی تھے۔وہ کتنے ہی مضبوط کیوں نہ تھے لیکن یہ نازک لمحہ انہیں کچھ ہی وقت میں آبدیدہ کر گیا تھا۔
دوسری جانب جمال الدین منشن میں بھی تیاریاں چل رہی تھیں۔مسی،میرہ ایک کمرے میں تیار ہو رہی تھیں۔ابھی تھوڑی دیر پہلے یہ دونوں گل کے ہاں سے آئیں تھیں تیار ہونے پھر دوبارہ سب کے ساتھ مل کر جانا تھا۔دادا سائیں اور باقی سب بھی اِنوائٹڈ تھے لیکن انہوں نے جانے سے منع کر دیا تھا۔بس بچے ہی جارہے تھے۔
"زا۔۔۔۔۔۔"احان ابھی اُس کے کمرے میں داخل ہوا تھا کہ نیم اندھیرا دیکھ کر خاموش ہو گیا۔اُس نے بیڈ کی جانب دیکھا تو وہ خالی پڑا تھا۔بیڈ کیا پورا کمرہ ہی خالی پڑا تھا۔اُس کی نظر کھڑکی کی جانب پڑی جہاں پر جہاں گ
کھڑکی پر سے پردہ ہٹایا گیا تھا اور وہ سامنے ہی نظر آگیا تھا۔
بالکنی کی گرل پر دونوں بازو جمائے وہ کسی گہری سوچ میں کھڑا تھا جبکہ ابھی تک وہ تیار نہیں ہوا تھا۔ہلکے گھنگُرالے بال پیشانی پر بکھرے ہوئے تھے۔
"زارون؟"احان نے اُسے پکارا۔لیکن اُس نے جواب نہیں دیا۔
"کیا میں جان سکتا ہوں تیری پریشانی کی وجہ؟مجھے تیری سمجھ نہیں آتی؟پہلے تو نے خود میرے سامنے اُس سے محبت کا اظہار کیا تھا اور پھر تو نے اُس پر شک۔۔۔۔"
"کس پاگل نے اُس پر شک کیا ہے؟"وہ اُس کا جملہ کاٹے دھاڑا تھا۔"مجھے بس یہ غصہ ہے کہ وہ اُس کے ساتھ گئی تو گئی کیوں؟"اب کی بار اُس نے احان کی آنکھوں میں دیکھتے کہا تھا۔
"اُس دن تو نے کیا کہا تھا کیا مجھے یاد کروانا پڑے گا؟وہ اگر شک نہیں تھا تو کیا کہتے ہیں اُسے؟"احان نے اپنے ہاتھ باندھتے اُس سے سنجیدگی سے سوال کیا۔
زارون واپس سامنے دیکھنے لگا۔
"سب ریڈی ہیں تو بھی ہوجا سب انتظار۔۔۔۔"
"میں نہیں جا رہا"زارون نے فوراً جواب دیا جبکہ لہجہ ہنوز سنجیدہ تھا۔
"زار۔۔۔! تو نہیں جارہا تھا مجھے تو پتہ ہے کیوں لیکن امی لوگوں کو کیا کہے گا؟"
"احان۔۔۔!!"
"میں ویٹ کر رہا ہوں نیچے آجا"بغیر اُس کی بات سنے وہ کمرے سے باہر نکل گیا جبکہ زارون گہرا سانس بھر کر رہ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"موم!"گل نے دھیرے سے زوبیہ بیگم کو پکارا۔
"جی بیٹا؟"
"موم! کچھ ہوئے گا تو نہیں؟جانے کیوں میرا دل بہت زور کا دھڑک رہا ہے۔"گل نے پریشانی سے کہا۔
"بیٹا کچھ نہیں ہوگا تم کیوں پریشان ہورہی ہو؟"زوبیہ بیگم نے اُسے تسلی دی۔اس سے پہلے وہ آگئے کچھ کہتیں میرہ،مسی اور زارا کمرے میں داخل ہوئیں۔
"ماشاءاللہ ماشاءاللہ! گل تم کتنی پیاری لگ رہی ہو"میرہ نے دل سے اُس کی تعریف کی۔
"بیٹا آپ لوگ بیٹھو اُس کے ساتھ میں زارا مہمانوں کو دیکھ لوں"زوبیہ بیگم اپنی ساڑھی کا پلو ٹھیک کیے باہر نکل گئیں۔
"گل مجھے ڈر ہے کہیں میری ہی نظر نہ لگ جائے تمہیں"میرہ اُس کے گلے لگے کہنے لگی۔
"تم بہت بہت بہت پیاری لگ رہی ہو"مسی نے بھی اُس کی تعریف کی۔
"بیٹا گل کو باہر لے آؤ"زوبیہ بیگم نے آکر کہا۔گل کا دل معمول سے ہٹ کر زور زور سے دھڑکنے لگا۔
مسی اور گل نے لال نیٹ کے ڈوپٹے سے اُس کا چہرہ ڈھکا۔اور اُن کے ہمراہ گل کو باہر اسٹیج تک لایا گیا۔
اسٹیج کے بیچ میں نیٹ کا پردہ لگا کر دو حصے کیے گئی تھے۔ایک سائڈ پر راحم اور دوسری طرف گل کو بٹھایا گیا تھا۔گل کے بیٹھتے ساتھ ہی راحم کے ساتھ بیٹھا لڑکا اُس کے کان میں سرگوشی کرنے لگا۔
"یہ وہی لڑکی ہے"اُس نے کہا جبکہ راحم ناسمجھی سے اُس کی جانب دیکھنے لگا۔
زارون جو اس سب میں پیچھے پیچھے ہی تھا آگے آیا اور دولہے کے ساتھ بیٹھے لڑکے کو دیکھ کر اُس کی رگیں تن گئیں۔
"کون لڑکی؟کس بارے میں بات کر رہے ہو تم؟"راحم نے سوال کیا جس پر اُس نے اُسے یونی کا حوالہ دیا۔
"یہ لڑکا یہاں کیا کر رہا ہے؟"زارون نے غصے سے احان سے کہا.
"زارون! ریلیکس! ابھی کوئی ہنگامہ مت کرنا"احان نے کہا جس پر زارون غصہ پی کر رہ گیا۔
قاضی نے راحم سے نکاح شروع کرنے کی اجازت چاہی۔
غفور صاحب راحم کے بائیں جانب بیٹھے ہوئے تھے جبکہ دوسری جانب علی (یونی والا لڑکا) بیٹھا تھا۔
راحم نے کوئی جواب نہ دیا۔
"بیٹا قاضی تم سے پوچھ رہے ہیں"غفور صاحب نے دھیرے سے اُسے کہا۔
"مجھے یہ نکاح۔۔۔"راحم نے یہ کہا تھا کہ زارون کا دل زور سے دھڑکا تھا۔آج اُس کی محبت ہمیشہ کے لیے کسی اور کی ہونے جا رہی تھی۔اُس نے زور سے آنکھیں میچ لیں جب احان نے اُس کے شانے پر ہاتھ رکھا گویا تسلی دی تھی۔
اس وقت اُس کے دل نے شدت سے دعا کی تھی کہ کاش! کاش گل ہمیشہ کے لیے اُس کی ہو جائے۔
اگرچہ وہ اس سے خفا تھا،اُس سے غصہ تھا یونی والے قصے کے بعد لیکن یہ ہرگز اُس نے نہیں چاہا تھا کہ کوئی آئے اور گل کو اس سے دور لے جائے،ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔
ایک طرف ناراضگی تھی دوسری طرف محبت،لیکن فلوقت محبت باقی تمام جذبوں پر حاوی تھی۔صرف اسی لیے وہ یہاں نہیں آنا چاہتا تھا۔
"مجھے یہ نکاح قبول نہیں ہے"اُس نے کہا اور ایک دم سناٹا چھا گیا۔سب ساکت کھڑے رہ گئے۔جبکہ زارون کو لگا اُسے سننے میں غلطی لگی ہے۔
اُس کی دعا قبول ہوگئی تھی؟لیکن اس طرح تو اُس نے نہیں چاہا تھا کہ عین نکاح کے وقت اُس کی شادی ہونے سے پہلے ہی ٹوٹ جائے۔تو کیا یہ سب زارون کی وجہ سے ہوا تھا؟
"راحم ی۔۔۔یہ کیا کہہ رہے ہو تم؟"غفور صاحب نے اُس سے سوال کیا۔
سب لوگ کھڑے اب تماشا دیکھ رہے تھے۔
"ڈیڈ مجھے یہ نکاح قبول نہیں ہے"آنسو باڑ توڑ کر گل کی رخسار پر گرنے لگے تھے۔
"غفور یہ کیا کہہ رہا ہے تمہارا بیٹا؟"حیات صاحب کی ہمت جواب دے گئی جبکہ زارون ابھی تک شاک کے عالم میں کھڑا سب دیکھ رہا تھا۔جبکہ غفور صاحب کو خود کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ سب ہوا کیا ہے۔راحم نے ہاں کری تھی اس رشتے کے لیے پھر عین وقت پر انکار،یہ ان کی سمجھ سے باہر تھا۔
"انکل آپ صحیح سمجھ رہے ہیں۔میں آپ کی بیٹی سے نکاح نہیں کر سکتا بلکہ میں کیا کوئی بھی اس سے شادی نہیں کرے گا جب اُسے اس کی سچائی کا علم ہوگا"
"خبردار! خبردار جو تم نے ایک لفظ بھی اپنے منہ سے نکالا ورنہ تمہاری زبان نوچ لونگا"حیات صاحب نے اپنی انگلی دکھائے اُسے وارن کیا اور غصے سے دھاڑے تھے۔
گل کو لگ رہا تھا کہ وہ ابھی بیہوش ہوجائے گئی۔اُس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں درگور ہوجائے۔میرہ اور مسی نے اُس کو سنبھال رکھا تھا جبکہ زوبیہ بیگم تو خود حواس کھوئے کھڑی تھیں۔
"انکل آپ مجھے کیوں چپ کروا رہے ہیں؟پوچھے اپنی بیٹی سے کہ کیا اُس دن یونیورسٹی میں اس کے ساتھ کچھ نہیں ہوا تھا؟"تو آخر آج گل کو اپنے نا کردہ گناہ کی سزا سنا دی گئی تھی۔"کیا اس کا کردار صاف ہے؟"بھری محفل میں اُس کے کردار پر کیچڑ اچھالا جارہا تھا۔گل کو لگا اُس کا سانس رکنے لگا ہے۔
"غفور اپنے بیٹے کو لیے یہاں سے نکل جاؤ فوراً!"ضبط کی انتہا تھی۔
"حیات میری بات۔۔۔"
"اب کچھ کہنے سننے کو رہ گیا ہے کیا؟یہ صلہ دیا ہے تم نے ہماری دوستی کا؟"وہ چیخے تھے۔"اُس سے پہلے کہ میں زبردستی کرنے پر مجبور ہوجاؤں نکل جاؤ یہاں سے"حیات صاحب نے ایک ایک لفظ چبا کر کہا۔
"گل! گل تم ٹھیک تو ہو؟آنٹی انکل دیکھیے گل کو؟یہ بیہوش ہوگئی ہے"میرہ چیخی تھی جس پر حیات صاحب بھاگ کر اس طرف آئے۔زوبیہ بیگم بھی اب حواس میں آئیں تھیں۔
"ڈرائیور سے کہو گاڑی نکالے جلدی"حیات صاحب چیخے تھے جب زارون بھاگ کر باہر گیا اور گاڑی نکال لایا۔
فلوقت بحث کا وقت نہیں تھا۔حیات صاحب گل کو لیے گاڑی تک آئے زوبیہ بیگم بھی ساتھ تھیں۔زارون نے احان کو ڈرائیور کو بلانے کا کہے گاڑی ہسپتال کی جانب بڑھا دی۔
عجیب سا قہرام مچ چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زوبیہ بیگم تب سے روئی جارہی تھیں جبکہ حیات صاحب انہیں حوصلا دے رہے تھے جبکہ زارون مسلسل ادھر اُدھر چکر کاٹ رہا تھا۔
ڈاکٹر باہر نکلا اور زارون کے پاس آیا۔ڈاکٹر کو آتا دیکھ حیات صاحب بھی اٹھے اور یہیں آگئے۔
"ڈاکٹر میری بیٹی ٹھیک تو ہے؟"حیات صاحب نے بے چینی سے سوال کیا۔
"جی ٹھیک ہیں بس اچانک انہیں کسی بات کا صدمہ لگا تھا جس کی وجہ سے وہ بیہوش ہوگئی تھیں انہیں روم میں شفٹ کر دیا ہے ابھی انجکشن لگایا ہے سو رہی ہیں۔کچھ گھنٹوں تک انہیں ہوش آجائے گا"ڈاکٹر نے تفصیل سے بتایا جس پر انہوں نے بے ساختہ شکر ادا کیا۔
حیات صاحب پلٹے اور اب زارون کی جانب دیکھنے لگے۔
"بیٹا! بہت شکریہ"انہوں نے محبت سے کہا۔"میں تمہارا یہ احسان۔۔۔۔"
"انکل کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ؟"اُس نے فوراً سے کہا۔
"تمہیں تکلیف دی اُس کے لیے معذرت!"
"انکل پلیز آپ ایسی باتیں مت کریں۔میں نے جو بھی کیا یہ سب میرا فرض تھا"جبکہ حیات صاحب نے اُس کی جانب دیکھا اور زوبیہ بیگم کی جانب آگئے اور اُنہیں گل کے متعلق آگاہ کرنے لگے۔
زارون خاموشی سے باہر نکل گیا۔سوچوں میں گھرا ہوا وہ گاڑی تک آیا اور گاڑی سٹارٹ کی۔ارادہ اُس کا اب گھر جانے کا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھڑی رات کے دس بجا رہی تھی۔سب اس وقت لاؤنج میں بیٹھے تھے۔احان دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے اپنے دونوں ہاتھ باندھے کھڑا سب کچھ بتا رہا تھا جبکہ دادا سائیں سمیت سب خاموشی سے سب سن رہے تھے۔
"اللہ! اتنا سب کچھ ہوگیا اُس بیچاری بچی کے ساتھ"سب سے پہلے مریم ہوش میں آئیں تھیں۔
"بھابھی! مجھے تو یہ سمجھ نہیں آرہا اب وہ دنیا کا سامنا کیسے کرے گی؟"عائشہ بیگم افسوس سے کہنے لگیں۔
مسی اور میرہ تو بت بنی بیٹھی تھیں جبکہ زارا کچھ سمجھ نہیں پارہی تھی کہ ہوا کیا ہے۔
"ارحم زارون کہاں ہے؟"سکندر صاحب نے سوال کیا۔
"بابا وہ آپی کو ہسپتال لے کر گئے تھے"ارحم نے جواب دیا جبکہ خلافِ معمول وہ سنجیدہ کھڑا تھا۔
"اُسے فون کر کے پتا کرو کہ بچی کیسی ہے؟"زینب بیگم نے احان کو کہا۔
"فون کرنے کی ضرورت نہیں ہے زارون آگیا ہے"مصطفیٰ صاحب نے سامنے دیکھتے ہوئے کہا جہاں سے وہ چلتا ہوا آرہا تھا۔کوٹ اُتار کر اُس نے اپنے کندھے ڈال کر پکڑا ہوا تھا جبکہ بال اُس کے بکھرے ہوئے تھے۔
اُس نے آتے ساتھ ہی سب کو سلام کیا۔
"بیٹا کیسی ہے اب وہ بچی؟"سکندر صاحب نے اُس سے سوال کیا۔ملازم کو پانی کا کہے وہ آکر صوفے پر بیٹھ گیا۔
"ٹھیک ہے ڈیڈ! بس ایک دم سے اسٹریس کی وجہ سے وہ بیہوش ہوگئی تھی۔اب ٹھیک ہے"اُس نے تفصیل سے بتایا۔ملازم پانی لاچکا تھا۔اُس نے پانی پیا اور گلاس واپس ٹرے میں رکھتا اٹھ کھڑا ہوا۔احان اُس کی حالت سمجھ سکتا تھا۔وہ چلتا اپنے کمرے میں چلا گیا۔احان بھی چلتا اُس کے پیچھے آگیا۔اُس نے کمرے میں جاتے ہیں کوٹ صوفے پر رکھا تو پھر سے دروازہ کھلا اور احان کمرے میں داخل ہوا۔
"تم۔۔تم ٹھیک تو ہو؟"احان نے پریشانی سے سوال کیا۔زارون نے اُس کی جانب دیکھا۔ٹائی کو لوز کیا اور شرٹ کے اوپر کے دو بٹن کھولتا صوفے پر بیٹھ گیا۔پینٹ کی پاکٹ سے سگریٹ اور لائٹر نکال کر سگریٹ جلایا اور اُسے پھونکنے لگا۔
وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا جبکہ پریشانی اُس کے چہرے سے عیاں ہورہی تھی۔احان بھی خاموشی سے اُس کے ساتھ بیٹھ گیا۔
وہ سگریٹ پر سگریٹ پھونک رہا تھا جبکہ اُس کی سمیل پورے کمرے میں پھیل چکی تھی۔
"میں گل سے شادی کروں گا"کچھ پل کی خاموشی کے بعد زارون نے کہا۔
"کیا؟یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟"احان نے حیرانگی سے سوال کیا جس پر زارون خاموشی سے سامنے ہی دیکھ رہا تھا۔
زارون اٹھا۔
"اب کہاں جارہے ہو تم؟"احان نے اُس سے سوال کیا۔
"دادا سائیں کے پاس!"وہ کہے رکا کمرے سے باہر نکل گیا جبکہ پیچھے احان بس اُسے پکار کر ہی رہ گیا۔
دادا سائیں ریلیکس سے انداز میں بیڈ پر بیٹھے کتاب پڑھ رہے تھے۔
دروازہ نوک ہوا۔انہوں نے اندر آنے کی اجازت دی۔زارون ابھی تک وہی کپڑے پہنے ہوئے تھا وہ اندر داخل ہوا۔
"دادا سائیں مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے"اُس کے کہنے پر دادا سائیں نے کتاب کی نشانی لگا کرنے کتاب بند کی اور سائڈ پر رکھی اور اُس کی جانب متوجہ ہوئے۔
"کہو؟"
"دادا سائیں!۔۔۔"پل بھر کو وہ خاموش ہوا۔"میں۔۔میں شادی کرنا چاہتا ہوں"اُس کا جملہ غیر متوقع تھا۔دادا سائیں حیران ہوئے۔
"اچھا! یہ تو بہت اچھی بات ہے۔میں اور سب گھر والے بھی یہی چاہتے ہیں۔ہم تم سے یہ بات کرنے والے تھے لیکن پہلے تمہاری اسٹڈیز ختم کرنے کا انتظار کر رہے تھے۔اب کہ جب تم خود کہہ رہے ہو تو میں بات کرتا ہوں سب سے"دادا سائیں نے مسکراتے ہوئے کہا۔زارون حیران ہوا۔اتنی جلدی دادا سائیں مان جائیں گے اُسے یقین نہ آیا۔
"میں بات کرتا ہوں مسیره سے"
"مسيرہ سے؟لیکن دادا سائیں کیوں؟"زارون نے حیرانگی سے سوال کیا۔
"کیوں کہ ہم نے مسيره کو تمہارے لیے پسند کیا ہے"دادا سائیں نے کہا جبکہ زارون حیران کھڑا رہ گیا۔
"دادا سائیں! ی۔۔یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟"اُس نے سوال کیا جس پر دادا سائیں سنجیدگی سے اُس کی جانب تکنے لگے۔
"میں مسیرہ کے ساتھ شادی نہیں کر سکتا دادا سائیں!"زارون نے سنجیدگی سے کہا جس پر دادا سائیں کی پیشانی پر شکنیں در آئیں۔
"برخوردار! تم جانتے ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو؟"دادا سائیں نے غصے سے کہا۔جس پر زارون خاموش رہا۔دادا سائیں نے ضبط سے اپنے جبڑے میچے۔
"دادا سائیں! میں معذرت چاہتا ہوں لیکن میں مسیرہ سے شادی نہیں کر سکتا۔میں کسی اور کو پسند کرتا ہوں"
"اور کیا میں جان سکتا ہوں کہ وہ کون ہے؟"
"گل! گل رخ حیات نام ہے اُس کا"زارون نے جواب دیا۔
"میں تمہیں ہرگز اجازت نہیں دوں گا اُس سے شادی کرنے کی۔میں زبان دے چکا ہوں زینب اور مصطفیٰ کو اور اب میں بالکل پیچھے نہیں ہٹھوں گا"
"دادا سائیں یہ غلط بات ہے! ہم نے آج تک آپ کا ہر حکم مانا لیکن معاف کیجیۓ گا میں آپ کا یہ حکم نہیں مان سکتا"زارون نے جواب دیا۔
"زارون! تم میری نرمی کا غلط فائدہ اٹھا رہے ہو"دادا سائیں غصے سے بولے تھے۔
"دادا سائیں! معاف کیجیۓ گا لیکن میں صرف اور صرف گل سے ہی شادی کروں گا"زارون نے جواب دیا جس پر دادا سائیں غصے سے بیڈ سے اٹھے اور اس کے سامنے کھڑے ہوگئے۔
"تم جانتے ہو اس حویلی میں صرف اور صرف میرا کہا مانا جاتا ہے؟اور تم میرے حکم کے خلاف جا رہے ہو؟جانتے ہو میں اس کی سزا بھی دے سکتا ہوں تمہیں؟"دادا سائیں نے ایک ایک لفظ چبا کر کہا۔
"آپ جو چاہیں وہ سزا دے سکتے ہیں دادا سائیں۔لیکن میں صرف گل سے ہی شادی کروں گا اور کسی سے میں شادی ہرگز نہیں کر سکتا۔مسيره مجھ سے بہتر انسان ڈیسرو کرتی ہے۔بھلا وہ کیسے میرے ساتھ خوش رہ سکتی ہے جب میں کسی اور کو پسند کرتا ہوں؟"زارون نے آرام سے اپنی بات پوری کی۔
"زارون خاموش ہوجاؤ!"دادا سائیں نے غصے سے کہا۔
"دادا سائیں! میں شادی کروں گا تو صرف اور صرف گل سے اور یہ میرا آخری فیصلہ ہے"وہ کہے رکا نہیں بلکہ کمرے سے باہر نکل گیا جبکہ دادا سائیں اپنا غصہ پی کر رہ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مراسمِ دل از:ماہی (مکمل)Where stories live. Discover now