قسط:۱۴

32 5 0
                                    

ہیں زندگی کے مختلف پہلو__!

"میں زارون بھائی کا چھوٹا بھائی ہوں اور یہ ہیں دادا سائیں"اُس نے مسکراتے ہوئے کہا جبکہ دادا سائیں کا سن کر حیات صاحب کشمکش کا شکار ہو گئے۔
گھڑی صبح کے دس بجا رہی تھی۔
"آئیے بیٹھیے پلیز!"حیات صاحب نے اُنہیں بیٹھنے کا کہا تو دادا سائیں اور وہ خوبرو جوان صوفے پر بیٹھ گئے۔جبکہ گل شل سی وہیں کھڑی تھی۔
حیات صاحب اُنہیں بٹھائے کمرے میں گئے اور زوبیہ سے باہر آنے کا کہنے لگے۔جبکہ گل چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتی دادا سائیں تک آئی اور ان سے سلام کیا۔جواب میں انہوں نے مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھا۔
"السلام علیکم بھابھی کیسی ہیں آپ؟"احمر نے بھی پرجوش انداز میں اُسے سلام کیا جس کا جواب بس اُس نے سر کو خم دے کر ہی دیا تھا۔
حیات صاحب زوبیہ بیگم سمیت باہر آچکے تھے اور اب وہ دونوں بھی صوفے پر آکر بیٹھ گئے۔
"بیٹا آپ کہیں جا رہی تھی؟"دادا سائیں نے گل کے ہاتھ میں بیگ دیکھ کر سوال کیا
"ج۔۔جی یونیورسٹی جا رہی تھی کچھ اسائنمنٹ جمع کروانی تھیں"اُس نے نظریں جھکائے جواب دیا۔
"بھابھی میں آپ کو ڈراپ کر دوں؟"احمر نے فوراً سے کہا جبکہ وہ اپنی امی بابا کے سامنے بھابھی کہے جانے پر تھوڑا جھینپی۔
"نہیں نہیں اٹس اوکے میں چلی جاؤں گی باہر خان لالا انتظار کر رہے ہوں گے"اُس نے نظریں جھکائے ہی جواب دیا۔
"میں جاؤں؟"پھر اُس نے سوال کیا اور کسی کے بولنے سے پہلے ہی دادا سائیں نے جواب دیا۔
"ہاں ہاں بیٹا آپ جاؤ کام ضروری ہے"اور وہ خاموشی سے سب کو الوداع کیے یونیورسٹی کے لیے نکل گئی۔
سارا راستہ وہ سوچوں میں گم رہی تھی۔یونیورسٹی آچکی تھی خان لالا کو اُس نے باہر ہی کھڑا رہنے کو کہا اور خود اندر کی جانب بڑھ گئی۔
یونیورسٹی میں فریشرز ویک چل رہا تھا اسی لیے پڑھائی کم کم ہی ہورہی تھی سو اسی لیے اُس نے بس اسائنمنٹ جمع کروانے کا ہی سوچا تھا۔
وہ چلتی آفس کی جانب بڑھ رہی تھی جب پیچھے سے میرہ نے اُسے پکار لیا،وہ پلٹی مسی بھی اُس کے ساتھ تھی۔
"کیسی ہو؟تم تو نظر ہی نہیں آتی ہو"میرہ نے اُس کے گلے لگتے سوال کیا اور ساتھ میں گلا بھی کیا۔
"نہیں ایسی بات نہیں ہے پڑھائی تو آج کل ہوتی نہیں ہے تو بس اسی لیے میں بھی کم کم ہی آتی یونیورسٹی۔یہ فریشیرز ویک ختم ہو جائے پھر سہی سے سب کچھ سٹارٹ ہوگا"گل نے وضاحت دی۔
"ہمم یہ تو سہی بات ہے۔خیر یہ چھوڑو اور بتاؤ؟آج کیسے آگئی؟"
"اسائنمنٹ سبمٹ کروانی تھی تو بس اسی لیے"گل نے جواب دیا۔
"پھر رکو گی یا نکل رہی ہو واپسی کے لیے؟"میرہ نے پھر سے سوال کیا۔
"نہیں خان لالا باہر انتظار کر رہے ہیں تو میں جاؤں گی واپس"
"تم ایسا کرو ہمارے ساتھ چکی چلنا واپس ویسے بھی رش کافی ہے دیر ہو جائے گی تمہیں"اور گل نے یونی میں نظریں دوڑائیں رش تو واقعی بہت زیادہ تھا اور ٹائم بھی کافی لگ جانا تھا۔
"رکو میں خان لالا کو کہہ دوں"اور اُس نے فون کر کے اُنہیں جانے کا کہا اور پھر وہ تینوں چلتی باغ میں آکر بیٹھ گئیں۔مسی خاموش سے تھی جبکہ میرہ گل سے نارملی بات کر رہی تھی۔
"گل ایک بات بتاؤں؟"میرہ نے سنجیدگی سے کہا۔جبکہ گل اُس کی جانب متوجہ ہوئی۔"ہمم بولو"
"چلو رہنے دو ایسے ہی موڈ خراب ہوگا تمہارا"میرہ جو اُسے کچھ بتانے کا ارادہ رکھتی تھی خود ہی خاموش ہوگئی۔
"مسی تمہیں کیا ہوا ہے؟میں دو دن سے نوٹ کر رہی تم کافی خاموش خاموش ہو؟"میرہ اب کی بار مسیرۃ سے سوال کرنے لگی۔
"تمہیں ایسے ہی کوئی غلطی لگی ہے۔بھلا تم بتاؤ گل میں چینج لگ رہی؟"مسی نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔
"نہیں آپ ویسے ہی لگ رہی ہیں"گل کو وہ ویسے ہی لگی تھی یا شاید اُس نے ایسے ہی کہا تھا۔
"اچھا چلو چھوڑو سب کینٹین چلیں؟آج اتنے دن بعد اکٹھے ہوئے تو پارٹی تو بنتی ہے"میرہ مسکرائی جس پر وہ دونوں بھی مسکرا دیں۔
"اور اگر یہاں زارون ہوتا تو پتہ ہے کیا کہتا؟"مسی پھیکا سا مسکرائی جبکہ میرہ خاموش ہوئی اور گل اس کی تو دھڑکن تیز ہوگئی تھی اس نام پر۔
"موٹو تمہیں ہر وقت کھانے کی پڑی رہتی ہے؟یہ احمر کی روح تم میں کہاں سے آگئی"میرہ نے جواب دیا جبکہ لہجے میں اُداسی صاف واضع تھی۔اور گل سمجھ نہیں پائی کہ اچانک ان دونوں کو ہوا کیا ہے اور اُس نے پوچھنا مناسب بھی نہیں سمجھا۔
جبکہ دوسری جانب وہ چاروں اس وقت لاؤنج میں بیٹھے تھے۔
"دیکھیے حیات صاحب! اب کہ نکاح کی رسم تو ادا ہو چکی ہے تو میں چاہتا ہوں کہ شادی بھی اب کر دی جائے۔آپ بھی بتا دیجیۓ اور میں گھر میں بھی اپنے بیٹوں سے بات کروں گا پھر ہم مل کر تاریخ رکھ لیں گے"اور دادا سائیں جس کام کے لیے یہاں آئے تھے کہنے لگے جبکہ احمر کے چہرے سے مسکراہٹ ہٹ نہیں رہی تھی۔
"جی جی! گل اب ہمارے ساتھ ساتھ آپ کی بھی بچی ہے۔ان شاء اللہ پھر تاریخ بھی رکھ لیں گے"حیات صاحب دھیرے سے مسکراتے جبکہ زوبیہ بیگم کی آنکھیں نم ہوئیں۔
"اب ہمیں اجازت دیں"دادا سائیں کہے اٹھے۔
"ایسے کیسے آپ پہلی بار آئے ہیں ہمیں اپنی تواضع کا کچھ تو موقع دیں"زوبیہ بیگم فوراً سے بولیں جبکہ دادا سائیں مسکرا دیے۔
"اللہ خوش و سلامت رکھے۔ان شاء اللہ آئیں گے اب تاریخ فیکس کرنے تب آپ کو تواضع کا موقع دیں گے"دادا سائیں نے خوشگوار انداز میں کہا۔
"جی جی آپ کا اپنا گھر ہے جب چاہیں آئیں"اور پھر وہ دونوں باہر نکل گئے۔
انہوں نے زارون کو گھر سے نکالنے کی بات کسی کو نہیں بتائی تھی یہ بس گھر والے ہی جانتے تھے۔
وہ دونوں گاڑی میں بیٹھے تھے۔احمر سڑک پر نظریں مرکوز کیے گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا جبکہ دادا سائیں خاموش بیٹھے تھے۔
"دادا سائیں مجھے یقین نہیں آرہا سب کچھ اتنا جلدی ہوجائے گا"احمر کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا جبکہ دادا سائیں مسکرا دیے اور اندر کہیں پچھتاوا بھی ہوا کہ اتنی سی بات پر وہ کتنوں کے چہروں سے مسکراہٹ دور کر بیٹھے تھے۔
"دادا سائیں آپ کو پتہ ہے سب یہ خبر سن کر کتنا خوش ہوں گے"
"جانتا ہوں۔جہاں سب کو اتنے دکھ دیے میں نے وہاں خوشی دیکھ کر شاید میں کچھ بہتر محسوس کروں"دادا سائیں نے گہرا سانس بھرا۔
"دادا سائیں یو آر دا بیسٹ!!"احمر مسکرایا۔
"چل اب مسکے نہ لگا"
"نہیں نہیں دادا سائیں میں سنجیدہ ہوں"احمر نے فوراً صفائی پیش کی جبکہ دادا سائیں اب کی بعد مسکرا دیے۔
"ویسے دادا سائیں آپ کو زارون بھائی کے ساتھ احان بھائی کے بھی ہاتھ پیلے کر دینے چاہیے"
"اوئے گدھے! لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہوتے ہیں"دادا سائیں ہنسے۔
"ایک ہی بات ہو گئی دادا سائیں اب جب لڑکی آجائے گی دونوں کی زندگیوں میں تو اُن کی زندگی بھی تو پہیلی ہو جائے گی"احمر ہنستے ہوئے بولا۔
"بعض آجاؤ برخوردار!"دادا سائیں مصنوئی سنجیدگی سے بولے تو احمر مسکرا دیا۔گاڑی گھر کے راستے پر گامزن تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ابھی میٹنگ سے فارغ ہوئے تھے۔زارون کو جس کمپنی میں جوب ملی تھی وہ بھی جانی مانی کمپنی تھی۔وہ فروغ ہوئے آفس میں آیا تھا اور لیپٹوپ پر پروجیکٹ اسٹڈی کرنے لگا۔
کچھ دیر یونہی بیٹھے رہنے کے بعد اُس نے لیپ ٹاپ سائڈ پر کیا اور پیچھے ہو کر بیٹھ گیا۔
اُسے گھر کی یاد ستانے لگی۔سب کا مل کر شغل میلا کرنا،ایک دوسرے کو تنگ کرنا،سب کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنا،کتنا خوبصورت خاندان تھا اس کا۔
اور اب وہ بن بتائے اپارٹمنٹ چھوڑ کر ہوٹل آگیا تھا تو کسی کو بھی نہیں پتا تھا کہ وہ کہاں ہے؟کہاں جوب کر رہا ہے؟سوچوں کا تسلسل ٹوٹا جب وائرلیس پر کال آنے لگی۔اُس نے رسیور کان سے لگایا۔
"ہیلو! جی،میں نے اچھی طرح اسٹڈی کی ہے اور میرے خیال میں یہ بیسٹ رہے گا۔پہلی بات جگہ بھی کافی اچھی ہے اور اوپر سے ویو بھی۔۔۔۔۔"اور وہ فون پر بات کرتا پروجیکٹ کی تفصیل دے رہا تھا۔آواز مدھم ہوتی جا رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح جانے جب شام میں ڈھلی اور شام کو رات میں ڈھلے بھی کچھ وقت ہی لیا تھا۔
سب ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے دادا سائیں کا انتظار کر رہے تھے۔بظاھر خود کو نارمل شو کرتے وہ اندر سے کافی ایکسائٹڈ تھا۔دادا سائیں آئے اور سربراہی نشست سنبھالی۔
انہوں نے ایک طائرانہ نگاہ سب کی جانب دوڑائی اور پھر ذرہ سا کھنکھارے۔
"میں نے ایک فیصلہ کیا ہے"انہوں نے کہا جبکہ سب بغور اُن کی بات سننے لگے۔اور احمر تو کب سے اس موقع کا انتظار کر رہا تھا۔
"بہوؤں کل سے شادی کی تیاری شروع کرو"دادا سائیں نے اُن کی جانب دیکھتے کہا جبکہ سب کو تقریباً سانپ سونگھ گیا۔
"کس کی شادی دادا سائیں؟"مدیحہ نے سوال کیا۔
"ارے بچا اس عمر میں میں شادی کروانے سے تو رہا"ان نے کہا جبکہ بچا پارٹی کے چہرے پر مسکراہٹ رینگی۔
"میں زارون کی شادی کی بات کر رہا ہوں۔اب کیا صرف نکاح ہی کرنا ہے؟بھی کو گھر لانے کہ ارادہ ہے کہ نہیں؟"دادا سائیں کا انداز سنجیدہ تھا جبکہ سب حیرانگی سے اُن کی جانب تکی گئے۔
"دادا سائیں آپ۔۔آپ سچ کہہ رہے ہیں؟"احان نے بے تابی سے سوال کیا۔
"ہاں بیٹا"
"تو مطلب آپ نے گل کو قبول کر لیا؟"
"زارون گھر آجائے گا؟"اسی طرح کے مزید سوال پوچھے گئے۔
"ہاں اب بس اپنے جگر کو جتنی سزا دینی تھی دے دی اب بس اُسے سینے سے لگانا چاہتا ہوں"دادا سائیں کا لہجہ افسردہ ہوا۔جبکہ عائشہ بیگم کی آنکھوں میں نمی آگئی۔
"دادا سائیں آپ جلدی سے زارون بھائی کو فون کریں"زارا چہکتے ہوئے بولی۔
"نہیں نہیں ایسا کرتے ہیں خود چلتے ہیں اُسے لے کر آتے ہیں"اور اچانک ہی ڈائننگ کا ماحول خوشگوار ماحول میں بدلا تھا۔
"ہم اُسے نہیں لینے جا سکتے"احان نے سنجیدگی سے کہا جبکہ ایک دم خاموشی ہوئی۔
"کیا مطلب؟"
"چاچی زارون اس وقت اپارٹمنٹ میں نہیں رہ رہا بلکہ اپارٹمنٹ تو وہ کب کا خالی کر چکا ہے"اور یہاں پھر سے پریشانی سب کے چہروں پر بکھر گئی۔
"یہ تم کیا کہہ رہے ہو احان؟زارون بھلا اپارٹمنٹ کیوں چھوڑے گا؟"سکندر صاحب نے اچھنبے سے سوال کیا۔
"یہ میں بھی نے جانتا چاچو لیکن وہ کب کا خالی کر چکا ہے اور اُس نے مجھے بتایا بھی نہیں بلکہ جب میں خود اُس سے ملنے گیا تو پتہ چلا کہ صاحب جا چکے ہیں اور نہ ہی پتا ہے کہ وہ کس ہوٹل میں رہ رہا ہے اور نہ ہی پتا کہ کہاں جوب۔۔۔۔"اور جوب کے لفظ پر سب کو ایک بعد پھرسے دھچکا لگا۔
"احان اب یہ جوب کہاں سے بیچ میں آگئی؟"مصطفیٰ صاحب نے سوال کیا جبکہ اُس نے باری باری ان کی جانب دیکھا۔
"دادا سائیں،بابا،چاچو مجھے معاف کیجیۓ گا۔یاد ہے آپ کو جب میں پہلے دن آفس گیا تھا آپ لوگوں کے ساتھ اور رات میں کسی فرینڈ کے ساتھ جانے کہ کہے باہر چلا گیا تھا؟"
"ہاں یاد ہے بیٹا آگے بولو"زینب بیگم نے جواب دیا تھا۔
"اس رات مجھے زارون نے بلایا تھا یہ بتانے کے لیے کہ اُسے جوب ملی ہے۔کمپنی بھی اچھی ہے اور میرے لاکھ منع کرنے کے باوجود بھی اُس نے نہیں سنا تھا اور کہتا کہ دو مہینے میں یہ جوب نہیں چھوڑ سکتا کیوں کے وہ کنٹریکٹ سائن کر چکا تھا۔۔۔"اُس نے ساری داستان سنائی۔
"اللہ زارون کب سے اتنے بڑے بڑے فیصلے لینے لگا؟"ذیشان نے کہا جبکہ احان خاموش رہا۔
"تمہیں تو میں بعد میں دیکھتا ہوں پہلے زارون سے ذرا نمٹ لیں"ذیشان نے احان کو وارن کیا اور زارون کا نمبر ملاتے ملاتے رکا۔
"دادا سائیں آپ بات کریں۔وہ آپ کی سنتا ہے"مان تھا اس کے لہجے میں کر دادا سائیں ہار گئے۔اپنا غرور،اپنی انا سب کو چھوڑے وہ اُسے فون ملا رہے تھے۔گھنٹی جا رہی تھی۔
ایک،دو،تین لیکن دوسری جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا تھا۔انہوں نے افسوس سے فون ابھی ٹیبل پر رکھا تھا کہ کچھ ہی سیکنڈز بعد کال آنے لگی انہوں نے فون اٹھایا۔
"ہیلو!"اسپیکر پر اُس کی آواز گونجی۔
اور وہ جو اس کی آواز سننے کو بیتاب تھے سنتے ہی جیسے اُنہیں سکون ملا اور عائشہ بیگم کی آنکھیں تو اشک بار ہو گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مراسمِ دل از:ماہی (مکمل)حيث تعيش القصص. اكتشف الآن