قسط:۱۰

35 6 0
                                    

کچھ ہار کر جیت گئے__!

آج کا سورج بھی کئیوں کے لیے نئی اُمید کے ساتھ آسمان پر چمکا تھا۔جیسے جیسے دن گزر رہے تھے گرمی کی تپش میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔لیکن گرمی کی تپش کو بالا طاق رکھتے وہ شیشے کے سامنے کھڑا اپنے اوپر پرفیوم سپرے کر رہا تھا۔اے سی نے کمرے سے گرمی کی شدت کو دور رکھا تھا اور اس وقت اس کمرے سے ٹھنڈک ہی محسوس ہورہی تھی۔
دھیرے دھیرے منہ میں کچھ گنگناتا اب وہ اپنے بالوں میں برش پھیرنے لگا اور اُنہیں سلیقے سے سیٹ کیا اور پھر پلٹا اور بیڈ پر سے اپنا کوٹ اٹھانے لگا۔اُسے فولڈ کیے اپنے بازو میں ڈال کر وہ خود کو آئینے کے سامنے کھڑا دیکھنے لگا۔اس نے اس وقت بلیو تھری پیس سوٹ کے ساتھ لال ٹائی پہن رکھی تھی اور بلاشبہ وہ اس گیٹ اپ میں بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔اپنے آپ کا مکمل جائزہ لیتے اُس نے ٹیبل سے اپنی گلاسز اٹھائیں اور اپنی آنکھوں پر لگا لیں۔
اپنے جوتوں سے آواز پیدا کرتا وہ باہر تک آیا،اپارٹمنٹ کے دروازے کو لاک کیا اور گاڑی کی طرف اپنے قدم بڑھا دیے۔گاڑی میں بیٹھتے ہی اُس نے پسنجر سیٹ پر پڑی فائل پر نظر دوڑائی،دھیری آواز میں موسیقی چلائی اور گاڑی اپنی منزل کی جانب دوڑا دی۔
آج وہ خوش بھی تھا اور بےچین بھی،یا زندگی میں کچھ نیا کر گزرنے کی سوچ نے اُسے پرجوش کر دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناشتے کی میز مختلف لوازمات سے بھری ہوئی تھی۔سب ناشتے کے لیے بیٹھے تھے۔دادا سائیں خاموشی سے ناشتا کر رہے تھے۔
"زارا! احمر! کیا کر رہے ہو تم دونوں؟جلدی جلدی ناشتہ کرو باہر ڈرائیور انتظار کر رہا ہے تم دونوں کا"اُن دونوں کو سستی سے کھاتا دیکھ کر مریم اور عائشہ بیگم اُنہیں کہنے لگیں۔
"امی نیند آرہی ہے بہت زیادہ آپ اجازت دیں تو جا کر سو جاؤں؟"اپنی آنکھوں کو پٹپٹائے بڑی معصومیت سے احمر عائشہ بیگم سے کہنے لگا۔
"اور پھر یہ ہاتھ مجھے بخوشی اجازت دیں گے کے تمہارے چہرے کا نقشہ بگاڑ دوں"عائشہ بیگم نے بھی اسی کے انداز میں کہا جس پر سب ہنسنے لگے لیکن احمر منہ بنا کرنے رہ گیا اور غصے سے اپنے ساتھ بیٹھی زارا کو جو کہ پاگلوں کی طرح ہنس رہی تھی،گھورنے لگا۔
"تمہیں بڑی ہنسی آرہی ہے؟کہو تو امی کی یہ خواہش میں تم پر پوری کر دوں؟"احمر نے اپنے ساتھ بیٹھی زارا کو گھورتے ہوئے کہا جس پر وہ فوراً سے سنجیدہ ہوئی اور نفی میں سر ہلایا۔
"گڈ! اب تمہاری آواز نہ آئے ہنسنے کی مجھے"اُس پر رعب جھاڑتا وہ ٹیبل سے اٹھا "اچھا بابا چلتا ہوں! میرے پیچھے میری یاد میں آپ آنسو مت بہائیے گا میں جلد ہی لوٹ آؤں گا"سنجیدہ انداز میں اُس نے کہا جس اور ایک بار پھر سے سب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رنگ گئی۔
"بیٹا جی آپ جنگ تو لڑنے جا نہیں رہے؟ہیں نا!؟"سکندر صاحب کی بجائے غضنفر صاحب نے احمر سے کہا جس پر وہ ہونٹ لٹکائے کہنے لگا۔
"تایا جان یار آپ کو کیا پتا یہ کالج جانا بھی کسی جنگ سے کم نہیں ہے"
"اچھا بیٹا جی ایسی بات ہے تو سہی ہے چاچو آپ ایسا کریں اس کے لیے کسی کلرک وغیرہ کی جاب ڈھونڈیں یا کہیں پر کیا اسے اپنے ہی آفس میں ایس آ کلرک رکھ لیتے ہیں اس طرح اس کا بھی مسئلہ حل ہو جائے گا اور ہمارے کلرک کی جگہ بھی خالی نہیں رہے گی۔"ذیشان نے جیسے سارے مسئلہ کا حل نکال دیا۔
"ویسے ذیشان بیٹا یہ اچھی آفر ہے سوچنا پڑے گا"سکندر صاحب نے بھی اس معاملے میں سنجیدگی دکھائی۔
"اہاں! مطلب میں ابھی جو کلرک ہے جو الریڈی ریٹائر ہو چکا ہے اُسے کہہ دوں کہ وہ گھر جا سکتا ہے ہم نے نیا کلرک ڈھونڈھ لیا ہے؟"مصطفیٰ صاحب نے بھی اس سب گفتگو میں حصہ لیا۔جس پر احمر آنکھیں پھاڑے گھر کے بڑوں کو دیکھ رہا تھا۔
"مم۔۔۔میں مذاق کر رہا تھا یار! آپ سب سیریس ہی ہوجاتے"اُس نے ہنسنا چاہا۔
"نہیں احمر یہ واقعی بہت اچھی ڈیل ہے اب میں نے اس پر مائنڈ سیٹ کر لیا ہے"سکندر صاحب نے سنجیدگی سے کہا۔
"بابا۔۔۔۔۔"اُس کا لفظ بابا قدرے لمبا تھا جس پر سب ہنس دیے۔
"چلو جاؤ نکلو اب نہیں تو سارا ٹائم دماغ کھاؤ گے سب کا"عائشہ بیگم نے اُسے جانے کا کہا وہ بھی خاموشی سے حال سے باہر نکل گیا زارا بھی اُس کے پیچھے باہر نکل گئی۔
ان کے جاتے ہی احان تیار شیار ہوا نیچے آیا۔آج اُس نے بھی معمول سے ہٹ کر تھری پیس سوٹ پہن رکھا تھا اور اس پر کافی جچ بھی رہا تھا۔اُس نے آتے ہے سب کو سلام کیا اور کرسی گھسیٹتا ٹیبل کے گرد بیٹھ گیا۔
"ارے ماشااللہ! میرا بیٹا کتنا خوبصورت لگ رہا ہے"مریم بیگم نے آتے ہی اپنے بیٹے کی نظر اتاری جس اور وہ دھیرے سے مسکرا دیا۔
"تائی جان اس میں اس کا کمال نہیں ہے یقین مانیے! رات سے اپنے چہرے پر کچھ نہ کچھ مل رہا ہے کہ خوبصورت دکھے"مسی بھلا کہاں چپ رہنے والوں میں سے تھی۔
"اللہ!! کس قدر جھوٹی ہو تم"اُس نے آنکھیں حیرت سے پھیلائے کہا "امی اصل میں یہ جیلس ہورہی ہے مجھ سے اسی لیے یہ سب۔۔۔۔"
"احان بھائی یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟اپنی سکن کا خیال رکھنا بری بات تو نہیں ہے آپ ہم سے ہی تو پوچھ کے گئے تھے بھلا ہم سے اب کیا چھپانا؟"میرہ نے بڑی معصومیت سے کہا۔
"استغفراللہ!!"اُس نے نفی میں اپنا سر ہلایا "بیٹا ابھی میرا یار نہیں ہے میرے ساتھ ورنہ ایسے تم دونوں ہوا میں نہ اڑ رہی ہوتیں"احان نے بھی حساب برابر کیا۔
واقعی اس سب میں اس کے یار "زارون" کی کتنی کمی محسوس ہورہی تھی۔لیکن اس نے بھی جانے کے بعد گھر کے کسی فرد سے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا اگر کوئی فون کر بھی لیتا تو صرف حال وغیرہ بتا کر مصروفیت کا کہہ کر فون کاٹ دیتا۔
"سکندر صاحب! کیا زارون بھی آپ لوگوں کے ساتھ آفس جا رہا ہے؟"عائشہ بیگم نے سنجیدگی سے سوال کیا جبکہ ٹیبل پر اب خاموشی چھا چکی تھی۔سکندر صاحب پیچھے کو ہوئے اور سنجیدگی سے کہنے لگے۔
"میں نے اس سلسلے میں اس سے بات کرنا چاہی لیکن وہ مجھے اس سب میں انٹرسٹڈ نہیں لگ رہا ٹال دیتا ہے اس موضوع پر جب بھی بات ہونے لگے"سکندر شن نے گہرا سانس بھرے کہا۔
"کیا مطلب وہ آپ کے ساتھ نہیں جائے گا؟"عائشہ بیگم نے حیرانگی سے سوال کیا۔جس پر وہ خاموش ہی رہے۔بظاھر ناشتا کرتے دادا سائیں کا ہاتھ بھی پل بھر کو رکا تھا لیکن فوراً سے پہلے خود کو نارمل کرتے وہ دوبارہ کھانا شروع کر چکے تھے۔
"پھر وہ کیا کرے گا؟مطلب اگر وہ آپ کے ساتھ بھی نہیں جائے گا تو؟"
"یہ تو پھر اُس سے مل کر ہی معلوم ہوسکے گا ویسے وہ ہرگز نہیں بتائے گا"سکندر صاحب نے اتنا کہا تھا جب دادا سائیں اپنا ناشتا ادھورا چھوڑے اٹھے اور کمرے کی جانب بڑھ گئے۔سب یہی سمجھے کے دادا سائیں کی ناراضگی اب تک اُس سے نہیں ختم ہوئی لیکن ان کو اپنا باہر بیٹھنا بہت مشکل لگ رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آفس سے باہر نکلا اور فضا میں گہرا سانس خارج کیا۔اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر چہرہ اٹھائے چندھیائی آنکھوں سے سورج کو دیکھا اور دھیرے سے مسکرا دیا۔پھر سر جھٹکتا گلاسز اپنی آنکھوں پر لگائے وہ گاڑی کی جانب آگیا۔اُس کا ارادہ اپارٹمنٹ جانے کا تھا لیکن کچھ سوچ کر اُس نے گاڑی دوسری راہ کی جانب موڑ لی۔گاڑی میں مدھم سی موسیقی کی آواز گونج رہی تھی۔
ٹریفک سگنل بند ہونے کی وجہ سے اُسے کچھ دیر وہیں انتظار کرنا پڑا۔وہ مسلسل اپنی اُنگلیاں اسٹیئرنگ پر بجا رہا تھا اور ادھر اُدھر بھی نگاہ دوڑا رہا تھا جب اس کی نظر دور کھڑے ایک بچے پر گئی جو ہاتھ میں گجروں کی پٹھی پکڑے اُسے بیچنے کھڑا تھا۔اُس نے گاڑی کا ہارن بجایا اور اُس بچے کے دیکھنے پر اشارہ کر کے اپنی جانب بلایا۔بچا بھاگا بھاگا آیا تو اُس نے شیشہ نیچے کیا آنکھوں اور سے گلاسز اتاریں اور اُس سے سوال کرنے لگا۔
"کتنا کا دے رہے ہو؟"
"صاب جی ایک پچاس کا"اُس بچے نے ایک گجرے کی قیمت بتائی۔
"اچھا مجھے دو دے دو"اُس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔بچہ جلدی سے لکڑی سے دو گجرے اتارنے لگا۔
"یہ لو صاب جی!"اُس بچے نے گجرے آگے کیے جسے اُس نے تھام لیا۔
"یہ لو پیسے"زارون نے ایک پانچ سو کا نوٹ نکال کر اُسے تھمایا۔
"یہ اس کی قیمت تو نہیں ہے"بچہ گڑبڑایا۔
"جانتا ہوں لیکن باقی بھی تمہارے ہی ہیں"زارون دھیرے سے مسکرایا اور اُس بچے کا گال تھپکا۔سگنل کی لائٹ گرین ہو چکی تھی۔زارون گاڑی آگے بڑھا لے گیا جبکہ بچے کی پرنم آنکھوں نے دور تک اُس کی گاڑی کو دیکھا۔بچا مسکرایا اور اپنی آنکھوں کی نمی صاف کرتا آگے بڑھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ یونی سے آئی تھی اور فریش ہونے کی غرض سے اپنے کمرے میں گئی تھی۔شاورلے کر فریش ہوئے ہلکے پھلکے انداز میں وہ نیچے آئی اور باورچی میں زوبیہ بیگم کے پاس چلی گئی۔
"موم! کیا کر رہی ہیں آپ اتنی گرمی میں کچن میں؟"اُس نے شیلف پر دونوں ہاتھ جمائے اُس کے ساتھ ٹیک لگاتے سوال کیا۔
"میں نے سوچا اپنی بیٹی کے لیے بریانی بنا لوں"زوبیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا اور چمچ ہلانے لگیں۔جس پر گل مسکرا دی۔
"اب میری بیٹی کیسا فیل کر رہی ہے؟"
"بہت اچھا"اُس نے دھیرے سے جواب دیا۔
"یہ تو بہت اچھی بات ہے"وہ مسکرائیں۔
"موم آپ کو کتنا ٹائم لگے گا؟"اُس نے سوال کیا۔
"گرمی لگ رہی ہے تمہیں۔تم ایسا کرو باہر لاؤنج میں جا کر بیٹھو میں دم دے کر آرہی ہوں"زوبیہ بیگم نے کہا تو وہ مسکراتے اُس کے گال پر پیار کیے باورچی سے باہر نکل آئی۔
لاؤنج میں صوفے پر بیٹھ کر اُس نے ٹی وی آن کر دیا۔یوں ہی چینلز سرچ کرتے وہ ایک چینل پر رک گئی اور دیکھنے لگی۔ڈرامے کا کافی سنجیدہ سین چل رہا تھا۔اپنے ہاتھ میں کشن پکڑے بڑے مگن انداز میں وہ ٹی وی دیکھ رہی تھی۔
ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی جب مین دوڑ کھلا،اُس نے دھیان نہ دیا اور ویسے ہی بیٹھی رہی۔
وہ دھیرے سے مسکرایا اور چلتا آیا اور صوفے پر بیٹھ گیا۔گجرے اُس نے ٹیبل پر رکھ دیے تھے۔
وہ بھی اُسی کے انداز میں تھوڑی تلے ہاتھ جمائے ٹی وی دیکھنے لگا۔
"کافی سیریس سین ہے"اُس نے کہا جس پر گل نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
"مجھے لگتا ہے ہیرو مرنے والا ہے!"اُس نے پھر سے بولا۔
"ابھی دیکھنا اُسے ہارٹ اٹیک آئے گا اور وہ مر جائے گا"اپنے پاس سے غلط اندازے لگاتے اب کی بار وہ قہقہ مار کر ہنس دیا۔گل جو پوری دلجمعی سے ٹی وی دیکھ رہی تھی اچانک اُس کے ہنسنے پر ٹھٹھکی زارون اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔
اُس نے گردن پلٹ کر اُس کی جانب دیکھا اور ایک زور دار جھٹکا اُسے لگا۔
وہ فوراً سے صوفے سے اٹھی اور ہونقوں کی طرح اُسے دیکھنے لگی۔
اُس کے دیکھنے پر زارون نے مسکرا کر دھیرے سے اُسے ویو کیا اور کھڑا ہوگیا۔
"کیسی ہو؟"وہ ابھی تک اُسے پوزیشن میں کھڑی تھی جب زارون نے ایک بار پھر سے اُس سے سوال کیا۔لیکن وہ ویسے ہی کھڑی رہی۔
زارون پلٹا اور ٹیبل پر سے گجرے اٹھائے اور واپس اُس کی طرف دیکھنے لگا۔
"یہ تمہارے لیے!"اُس نے کہا"یار کیا ہو گیا ہے میں کوئی جن تو نہیں ہوں جو تم اس طرح شاک کھڑی ہو"اُس کے کہنے پر گل ہوش میں آئی۔
"اب یہ تم خود پہنوں گی یا میں۔۔۔"
"نہیں مم۔۔میں میں پہن لوں گی"اُس نے فوراً سے گجرے پکڑے تو اُس کی اس حرکت پر زارون مسکرا دیا۔
"ویسے گجروں کے لیے ویلکم!"زارون نے شرارت سے کہا جس اور گل شرمندہ ہوئی۔
"سوری!! میں شکریہ کہنے والی تھی"گل نے اپنے بال کان کے پیچھے اڑستے کہا۔
"میں مذاق کر رہا تھا یار!"زارون مسکرایا۔"ویسے کوئی نظر نہیں آرہا کہاں ہیں سب؟"اُس نے سوال کیا۔
"ڈیڈ کام پر ہیں اور موم کچن۔۔۔"
"ارے زارون تم! واٹ آ پلیسنٹ سرپرائز!!"گل کے آگے کچھ بولنے سے پہلے ہی زوبیہ بیگم کچن سے باہر آئیں اور زارون کو دیکھ کر خوشی سے کہنے لگیں۔
"اسلام علیکم آنٹی! کیسی ہیں آپ؟"اُس نے اُنہیں سلام کیا۔
"وعلیکم السلام! میں الحمدُللہ بالکل ٹھیک ہوں۔بیٹھو نہ کھڑے کیوں ہوئے ہو؟"
اُن کے کہنے پر وہ دوبارہ صوفے پر بیٹھ گیا۔
"گل بیٹے جاؤ زارون کے لیے جوس لاؤ"انہوں نے گل سے کہا تو وہ سر ہلاتے کچن میں آگئی۔گجرے اُس نے ابھی بھی ہاتھ میں پکڑے ہوئے تھے،اُنہیں شیلف پر رکھا اور گلاس نکال کرنے اُس میں جوس انڈیلنے لگی۔گلاس ٹرے میں رکھے وہ باہر آئی اور تو زارون اور زوبیہ بیگم باتوں میں مشغول تھے۔ٹرے اُس کے آگے کیے اُس نے اُسے جوس تھمایا۔زارون نے مسکرا کر دھیرے سے شکریہ کہا تو وہ ٹرے لیے دوبارہ کچن میں آگئی۔کافی دیر وہ یونہی کچن میں کھڑی رہی شاید اُس کے جانے کا انتظار کر رہی تھی لیکن زوبیہ بیگم اندر آئیں۔
"تم یہاں کھڑی ہو؟بیٹا باہر جاؤ زارون کو کمپنی دو میں نے اُسے کہہ دیا ہے لنچ کیے بنا وہ یہاں سے نہیں جا سکتا۔بس میں ابھی ٹیبل سیٹ کرتی ہوں"انہوں نے اُسے کہا وہ جو اُس کے جانے کا انتظار کر رہی تھی،لنچ ساتھ کرنے پر گہرا سانس بھر کر رہ گئی۔
"تم گئیں نہیں؟"زوبیہ بیگم نے اُسے وہیں کھڑا پا کر کہا تو اُسے ناچار باہر جانا پڑا۔
زارون ریلیکس سے انداز میں صوفے پر بیٹھا ہوا تھا۔زندگی اُس کی کس دہانے پر چل رہی تھی اُسے خود سمجھ نہیں آرہا تھا۔نکالا تو اُسے اُس گھر سے دادا سائیں نے تھا پھر وہ باقی بڑوں سے کیوں زیادہ بات نہیں کرتا تھا؟اُسے شدت سے عائشہ بیگم سے ملنے کو دل کیا لیکن ہائے رے یہ زبان!! وہ یہی سب سوچتا رہتا اگر گل باہر نہ آتی اور سامنے صوفے پر نہ بیٹھ جاتی۔
"زہے نصیب! آپ بھی کوئی بات کر لیجیے!"دھیرے سے مسکرا کر اُس نے کہا۔گل گڑبڑائی۔
"مم۔۔میں کیا بات کروں؟"
"کچھ بھی میرا حال چال ہی پوچھ لیں"زارون نے شرارت سے کہا۔جس پر گل بس خاموش ہی رہی۔زوبیہ بیگم ٹیبل سیٹ کر چکی تھیں اور حیات صاحب کو بھی لنچ کے لیے آج گھر آنے کا کہا تھا۔
"آنٹی میری وجہ سے آپ کو اتنا تکلف کرنا پڑا۔میں تو یونہی آگیا یہاں"
"بیٹا اس میں تکلف والی کیا بات ہے؟اچھی بات ہے تم آگئے تمہارا اپنا گھر ہے جب دل کیے آجایا کرو"زوبیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا۔جس پر زارون بھی مسکرا دیا۔حیات صاحب بھی آچکے تھے اور ڈائننگ پر ان کے ساتھ بیٹھے تھے۔
"آگے کیا پروگرام ہے؟"حیات صاحب نے اُس سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد کا پوچھا۔
"انکل! جوب کروں گا۔ویسے آج میں انٹرویؤ ہی دی کر آرہا ہوں سیلیکٹ کر لیا ہے مجھے"زارون نے مسکراتے ہوئے کہا جس اور حیات صاحب بھی مسکرا دیے۔
"جوب کرنے کی کیا ضرورت ہے میرا بھی اچھا خاصا کام ہے وہ کی نہیں سنبھال لیتے؟"
"ارے نہیں نہیں انکل! جوب میں صرف اپنے شوق کے لیے کر رہا ہوں۔انفیکٹ بابا بھی مجھ سے کئی بار اپنا بزنس جوائن کرنے کا کہہ چکے ہیں"اُس نے فوراً کہا۔
"چلو اللہ خیر کرے! ویسے کس جوب کے لیے اپلائی کیا تھا؟"
"پروجیکٹ مینیجر کے طور پر ابھی کمپنی نے ہائر کیا ہے۔بس کچھ مہینے کا کنٹریکٹ ابھی میں نے سائن کیا ہے اگر مزا نہ آیا تو یہ جوب چھوڑ دوں گا"آخر میں دھیرے سے وہ مسکرا دیا۔حیات صاحب بھی مسکرا دیے۔
اسی طرح لنچ کے بعد وہ واپس اپارٹمنٹ چلا گیا۔
جوب والی بات وہ اُسے بتانا چاہتا تھا اور اس کے ردِ عمل سے اچھی طرح واقف بھی تھا لیکن وہ بھی پھر زارون تھا کسی نہ کسی طرح کنوینس کر ہی لیتا اُسے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام کے قریب وہ سب گھر لوٹے تھے۔احان تو گرنے کے سے انداز میں صوفے پر بیٹھ گیا جبکہ باقی سب اُسے دیکھ کر مسکرا دیے۔
"کیسا گزرا پہلا دن؟"دادا سائیں کا موڈ خوشگوار لگ رہا تھا وہ احان سے سوال کرنے لگے۔ملازم ہاتھ میں ٹرے پکڑے سب کے لیے پانی لے آیا تھا۔
"میں تو تھک گیا ہوں دادا سائیں۔۔۔افف! میں کیا بتاؤں آپ کو"احان نے منہ بناتے ٹرے سے پانی کا گلاس اٹھاتے جواب دیا۔
"غضنفر صاحب! آپ نے احان سے کیا پوری فیکٹری کی صفائی کروائی تھی؟"مریم بیگم اُن سے سوال کرنے لگیں جس پر وہ مسکرا دیے۔
"کہاں؟ برخوردار آج سارا دن آفس کی کرسی پر بیٹھا رہا ایئر کنڈیشنڈ روم میں کہ آج میرا پہلا دن ہے اسی لیے آج نو کام"انہوں نے احان کی تھکاوٹ کی وجہ بیان کی۔
"مجھے لگا پتا نہیں بیچارے نے کون سے پہاڑ توڑے ہیں"مریم بیگم نے اپنا ہاتھ جھلاتے کہا۔
بابا سائیں اٹھ کی اپنے کمرے میں چلے گئے۔بیٹوں سے وہ بات نہیں کر رہے تھے۔تینوں بھائیوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا اور گہرا سانس بھر کر رہ گئے۔
"آپ سب فریش ہو جائیں ہم ڈنر لگواتے ہیں"عائشہ بیگم نے کہ تو سب مرد حضرات اٹھ کر اپنے کمروں کی جانب بڑھ گئے۔
احان نے اپنا کوٹ صوفے پر رکھا اور الماری سے اپنا ٹراؤزر شرٹ نکالنے لگا۔کپڑے پکڑے وہ شاور لینے چلا گیا اور جب باہر نکلا تو اُس کا فون بج رہا تھا۔
زارون کا نام سکرین پر جگمگاتا دیکھ کر اُس کے چہرے پر مسکراہٹ رینگ گئی۔
"خیریت آج کیسے مجھ مابدولت کی یاد آگئی؟"احان نے مسکراتے ہوئے سوال کیا۔
"صرف یاد ہی نہیں آئی بلکہ آج مابدولت تمہیں ڈنر کروانے ما ارادہ رکھتا ہے"زارون نے بھی مسکراتے ہوئے کہا۔
"اوہوہو!! کیا بات ہے واہ!!"احان ہنسا۔
"اچھا اب فوراً سے ریسٹورانٹ آجا میں تیرا انتظار کر رہا ہوں"زارون نے کہا اور ساتھ میں ریسٹورانٹ کا نام بھی بتایا۔احان نے سن کر فون کاٹ دیا۔
اپنے بالوں میں برش پھیرتا وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔نیچے بھی باقی سب آچکے تھے۔
"امی میں اپنے دوست کے ساتھ باہر ڈنر کروں گا"احان کہے گاڑی کی چابی اتارتا باہر نکل گیا۔
"یہ بھلا کیا بات ہوئی ابھی آیا ہے اور پھر جا رہا ہے؟"مریم بیگم کہنے لگیں۔
"کوئی بات نہیں امی جانیں دیں آج کام سے آیا ہے تو سارا ٹائم کسی کو بھی نہیں ملا"ذیشان نے اُس کی سائڈ لیتے کہا جس پر مریم بیگم بس اپنا سر ہلا کر رہ گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈنر کے بعد وہ تینوں بھی دادا سائیں کے ساتھ ہی پیچھے اُن کے کمرے کی جانب بڑھ گئے۔
"بابا سائیں! آپ ہمیں معاف نہیں کر سکتے؟"سکندر صاحب نے التجا کی۔جس پر بابا سائیں اچھنبے سے اُن کی جانب دیکھا۔
"کس بات کی معافی مانگ رہے ہو برخوردار؟"انہوں نے بھی سوال کیا۔
"بابا سائیں جو سب ہوا وہ ہماری مجبوری تھا ہمیں سمجھ نہیں آیا کہ اس وقت ہم کیا کریں اور زارون بھی اُسے بچی سے نکاح کرنے کی ضد میں تھا"مصطفیٰ صاحب نے کہا۔
"تو کی کون سا کچھ کہہ رہا ہوں؟جو تم لوگوں کو صحیح لگا تم نے وہ کر دیا۔"انہوں نے سادہ سے انداز میں کہا۔
"بابا سائیں آپ کچھ کہہ نہیں رہے اسی بات کا تو دکھ ہے"غضنفر صاحب گفتگو میں شامل ہوئے۔
بابا سائیں خاموش رہے۔
"بابا سائیں آپ کی یہ خاموشی ہمیں بہت دکھ پہنچا رہی ہے؟کیا سب کچھ پہلے جیسا نہیں ہوسکتا؟"
"ٹھیک ہے سب کچھ پہلے جیسا ہوگیا"بابا سائیں نے کندھے اچكائے۔وہ تینوں گہرا سانس بھر کر رہ گئے۔
"بابا سائیں تو آپ زارون سے کہیے کہ وہ واپس آجائے"ایک اور التجا کی گئی۔دادا سائیں کے دل کو کچھ ہوا تھا لیکن فوراً سے دل کو ڈپٹے کہنے لگے۔
"مجھے ابھی آرام کرنا ہے۔تم سب جا سکتے ہو"وہ کہتے اپنے بستر کی جانب بڑھ گئے جبکہ تینوں بھائی ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویٹر کھانا سرو کر چکا تھا اور وہ اپنی پلیٹس میں نکال چکے تھے۔احان اُسے آج کی ساری داستان سنا چکا تھا۔جیسے سن مر زارون مسکرا دیا۔
"اچھا شاباش اب تو بتا یہ ڈنر کس خوشی میں؟"احان نے کھانا کھاتے اُس سے سوال کیا۔
"وہ اکچلّی مجھے تُجھے کچھ بتانا تھا"
"ہاں ہاں بول میں سن رہا ہوں"
"مجھے جوب مل گئی ہے"زارون نے سادہ سے انداز میں کہا جسے سن کر احان نے اثبات میں سر ہلایا لیکن الفاظ پر غور کرتے اُسے کھاتے کھاتے اچھو لگ گیا۔اُس نے فوراً پانی کا گلاس اپنے لبوں سے لگایا۔
"یو کڈنگ!؟"احان نے خود کو نارمل کرتے سوال کیا جس پر زارون خاموش ہی رہا۔
"تو پاگل تو نہیں ہوگیا؟"احان تقریباً چلایا تھا جس پر کئی لوگوں نے اُن کی جانب دیکھا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مراسمِ دل از:ماہی (مکمل)Where stories live. Discover now