قسط ۱۰

504 34 74
                                    


امسال اپنے گھر کے باہر موجود گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوئی تھی اور کچھ ہی دیر بعد گاڑی جہانگیر انٹرپرائزز کے سامنے رکی تھی۔ امسال گاڑی کے رکتے ہی فورن باہر نکلی تھی، اس وقت جہانگیر انٹرپرائزز میں ابتہاج اور اُس کے گارڈز کے علاوہ اور کوئی نا تھا۔ امسال نے بغیر یہاں وہاں رکے سیدھا ابتہاج کے آفس کا رخ کیا تھا۔

"ہیلو بیب ! آخر کو تم آ ہی گئی، کہا تھا نا میں نے رات تک تم خود آؤ گی میرے پاس۔" امسال کو اندر آتے دیکھ ابتہاج نے شوخی سے کہا تھا۔

امسال غصے میں چلتے ہوئے ابتہاج کی طرف آئی تھی اور اُس کے سامنے آ کر کھڑی ہوئی تھی۔ کچھ سیکنڈ بعد آفس میں زناٹے دار تھپڑ کی آواز گونجی تھی۔ امسال نے ابتہاج کے گال پہ اپنی نرم و ملائم انگلیوں کے نشان چھوڑے تھے۔

ابتہاج کو امسال سے تھپڑ کی امید نہ تھی۔ آج زندگی میں پہلی بار اُسے کسی لڑکی نے تھپڑ مارا تھا اور وہ بھی اُس کی اپنی محبت نے۔۔۔۔۔ابتہاج کو غصہ تو بہت آیا تھا لیکن بہت مشکل سے وہ برداشت کر رہا تھا کیونکہ وہ اپنے غصے کی وجہ سے امسال کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا تھا۔

"ہوگیا ؟ یہ کرنے آئی تھی ؟" ابتہاج نے بہت حد تک کوشش کی تھی اپنے لہجے کو درست رکھنے کی لیکن پھر بھی لہجہ سخت تھا اور ضبط سے آنکھوں میں لالی اترنا شروع ہوگئی تھی۔

امسال کو بعد میں احساس ہوا تھا کہ غصے میں اُس نے کیا کردیا ہے۔ اب اُسے ابتہاج سے ڈر لگ رہا تھا کیونکہ وہ اُس کے غصے کو ہوا دے چکی تھی لیکن ابتہاج کی بات اسکی توقع کے خلاف تھی۔

"کس قسم کے ڈھیٹ اور بے غیرت انسان ہیں آپ !!" امسال کا بس نہیں چل رہا ورنہ وہ ابتہاج کو اس وقت تک قتل کر چکی ہوتی۔

"ڈھیٹ تو بہت ہوں میں لیکن بے غیرت نہیں ہوں۔۔۔۔۔آج مجھ پہ ہاتھ اُٹھانے کی غلطی کرلی ہے، آج کے بعد ایسا کرنا تو دور سوچنے کی بھی ہمت نہ کرنا ورنہ یہ جو تمہارا نازک سا ہاتھ ہے نا اس کو توڑنے کے لیے مجھے زیادہ محنت نہیں کرنی پڑے گی۔" ابتہاج نے اچانک امسال کو اپنی طرف کھینچا تھا اور اُس کا دایاں ہاتھ اُس کی کمر کے پیچھے کر کے موڑا تھا جس کی وجہ سے امسال کو تکلیف ہوئی تھی۔

امسال اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی ساتھ ہی اپنے بائیں ہاتھ کی مدد سے ابتہاج کو پیچھے دھکیل رہی تھی مگر اُس نازک سی لڑکی میں کہاں اتنی طاقت تھی جو ابتہاج کو ہلا پاتی اور بدلے میں ابتہاج اُس کا بایاں ہاتھ بھی کمر کے پیچھے موڑ کر پکڑ چکا تھا۔ ایسا کرنے کی وجہ سے امسال ابتہاج کے بہت قریب ہوگئی تھی، دونوں کے درمیان فاصلہ کم تھا۔

"میرے ہاتھ چھوڑیں اور دور ہٹیں مجھ سے !!" امسال تو ڈر ہی گئی تھی پہلی بار وہ کسی مرد کے اتنا قریب کھڑی تھی اور ابتہاج کے اتنے قریب ہونے کی وجہ سے اُس کے اوسان خطا ہو رہے تھے۔

"ایسے کیسے چھوڑ دوں ؟ اب زخم دیا ہے تو مرحم بھی تو لگاؤ۔" ابتہاج نے ایک جھٹکا دیا تھا جس سے امسال نے جو تھوڑا مزید فاصلہ بنایا تھا وہ ختم ہوگیا تھا اور اُس پہ جھکا تھا۔ اپنی ہنسی کو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے ابتہاج نے اپنی بات کہی تھی۔ اُسے سہمی سہمی، ماصوم سی امسال بہت پیاری لگ رہی تھی جب کے اُس کا غصہ تو نجانے کہاں کھو گیا تھا۔

داستانِ قلب (مکمل)Où les histoires vivent. Découvrez maintenant