Episode 1

94 7 1
                                    

آغاز

وہ بلیک ہڈ سر پر گرائے ،آنکھوں پر بلیک گلاسس لگائے ، چہرے پر بلیک ہی ماسک لگائے دوڑتا جارہا تھا۔۔۔۔۔
اس کے پیچھے تقریباً دس لوگ ہاتھوں میں ہاکی لیے بھاگ رہے تھے۔
اس کی گلاسس کوئی عام گلاسس نہیں تھیں۔دن میں ٹرانسپیرینٹ دکھنے والی گلاسس اس ٹائم بلیک شیڈ دے رہیں تھیں۔وہ جدید ٹیکنیک کی تیار کردہ ایسی گلاسس تھیں جن میں مائکروفون فٹ کیا گیا تھا۔۔۔ایسی گلاسس اسے ایک مشن کو سرانجام دینے کے لیے مہیا کی گئ تھیں۔
مسں ایلبرڈ۔۔۔۔چینچ مائی لوکیشن ہری آپ ۔۔۔وہ بھاگتے ہوئے اپنی گلاسس میں لگے مائکروفون سے کسی کو ہدایت دے رہا تھا۔۔۔
مس ایلبرڈ خفیہ تہہ خانے میں بیٹھیں اپنے سامنے تین بڑے کمپیوٹرز کی اسکرین کو دیکھتے کی بورڈ پر دھڑا دھڑ انگلیاں تیزی سے چلارہی تھیں۔
ایک اسکرین پر اس ہیلر (Healer) کی لوکیشن دکھائی دے رہی تھی۔
ایک اسکرین پر وہ دوڑتا ہوا نظر آرہا تھا۔۔اور ایک اسکرین پر اس مشن کا میپ تھا۔ جس پر اسے ہائر کیا گیا تھا۔
اس کا اصل نام کیا تھا۔۔۔وہ کون تھا۔۔۔کہاں سے آیا تھا۔۔۔یہ سب بتانے کی اسے اجازت نہیں تھی۔اپنی شناخت چھپانا بھی اس کے مشن کا ایک حصہ تھا۔
ہیلر۔۔۔جمپ ناو۔۔۔مس ایلبرڈ نے اسے ایک چھت پر کھودنے  کا حکم دیا۔۔اس نے مڑ کے اپنے پیچھے آتے ان دس لوگوں کو دیکھا۔
اور مسکرایا۔۔۔طنزیہ مسکراہٹ۔۔جسے وہ لوگ اس کے چہرے پر لگے ماسک کی وجہ سے دیکھ نا پائے۔۔۔اور وہ ایک جھٹکے سے سامنے ایک گھر کی دیوار پر کود گیا۔۔۔اور اس گھر کا بیرونی دروازہ کھول کر جھٹکے سے منظر عام سے غائب ہوگیا۔۔۔
وہ کہاں گیا؟؟ اس کی لوکیشن کیسے چینج ہوئی۔اس کے پیچھے آتے دس لوگ حیرت کے سمندر میں غرق ہوچکے تھے۔
ان کے پاس موجود ٹریکرز میں اس کی لوکیشن شو نہیں ہورہی تھی۔ان کے ٹریکرز کام کرنا چھوڑ گئے تھے۔۔۔
ڈیم اٹ اس بار بھی ہاتھ سے نکل گیا۔۔۔ان میں سے ایک بندہ ٹریکر زمین پر پٹختے ہوئے آنکھوں میں سرخی لیے بولا۔
باس اس بار ہمیں زندہ نہیں چھوڑے گا اب کے دوسرا بولا،۔۔۔ہیلر تم ایک مسٹری بنتے جارہے ہو۔۔۔تمہیں پکڑنے کے لیے تمہارے ہی جتنے شاطر دماغ والے کی ضرورت ہے۔
وہ غصے سے پھنکارتا اپنے آدمیوں کو اشارہ کرتے وہاں سے چل دیا۔

--------
اوو ڈیم اٹ!!!!۔۔۔۔۔۔ ہیلر تم پاگل ہو؟؟ کیا کرنے جارہے تھے اندازہ بھی ہے تمہیں؟؟؟۔۔۔مس ایلبرڈ غصے سے بولی تھیں۔۔۔
مس ایل۔۔۔میں جانتا ہوں میں کیا کر رہا تھا ۔۔۔اگر میں اسطرح نا کرتا تو آپ کو اور مجھے دونوں کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔
اور اگر تمہاری اس بےوقوفی کا باس کو معلوم ہوگیا تو؟؟؟جانتے ہو تمہارے ساتھ مجھے بھی چلتا کریں گے مس ایلبرڈ آواز میں خفگی لیے بولی۔
مس ایل۔۔۔آپ ایک پچپن سال کی تیز دماغ والی عورت ہیں مجھے آپ سے اس قسم کی احمق بات کی امید نہیں تھی۔
کام کو ہمیشہ بنا کسی ڈر کے سر انجام دیا جاتا ہے۔۔ڈرنے سے کوئی بھی کام ٹھیک طریقے سے نہیں کیا جاسکتا۔آپ نے وہ کہاوت تو سنی ہوگی۔
"جو ڈر گیا وہ مر گیا"۔۔۔مس ایل ڈر کے جینے سے کچھ حاصل نہیں کیا جاتا۔۔۔آپ سب سے پہلے اپنے اس نا معلوم باس کا ڈر اپنے دماغ سے نکالے اور اپنے مشن پر فوکس کریں آپ جانتی ہیں اس مشن کو کمپلیٹ کرنا آپ کے لیے اور میرے لیے کس قدر ضروری ہے۔۔۔
وہ جو کوئی بھی تھا لیکن اس کی آواز میں ایک ٹھہراو تھا۔وہ بات کرتا تھا تو اگلے کو خاموش کروادینے کی صلاحیت رکھتا تھا۔مس ایلبڑد مسکرائی تھیں۔چشمے میں سے نظر آتی آنکھوں میں دوگنا چمک بڑھ گئ تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کا دوسرا پہر شروع ہونے میں تھوڑی ہی دیر تھی۔۔۔۔وہ لاؤنچ میں بیٹھی بار بار گھڑی دیکھ رہی تھی۔
آج سے پہلے تو کبھی لیٹ نہیں ہوئے۔۔۔۔ وہ بربڑاتے ہو ہے پریشانی سے اٹھ کر ٹہلنے لگی تھی۔۔۔۔ کالی آنکھوں میں اب بے چینی رقص کر رہی تھی۔۔۔میں کیا کروں؟؟ وہ سوچتے ہوئے اب وہ ہاتھوں وہ مرور رہی تھی۔ کک۔۔۔۔کال۔۔۔ہاں۔۔۔ہاں۔۔۔میں کال کرتی ہوں۔۔۔۔یہ کہتے وہ تیزی سے لاؤنچ سے گزرتی۔۔۔۔ اوپر سیڑھیاں چڑھنے لگی۔۔۔کمرے کا دروازہ کھولتے وہ اندر داخل ہونے ہی لگی تھی کہ ایک دم سے سارے گھر کی لائٹس آف ہو گئیں۔۔۔۔خوف کی  لہر نے اس کے پورے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔۔۔۔آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ کرنے لگے تھے۔۔۔۔ایسی ہی تھی وہ زندگی نے اس کی شوخی چھین لی تھی۔۔۔

"قسمت اکثر ہمارے ساتھ وہ کھیل کھیلتی ہے جس کا ہم نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوتا"

خود کو سنبھالتے وہ اندھیرے میں دٹولتے بیڈ کی طرف بڑھی تاکہ موبائل کی ٹارچ آن کرے۔۔۔۔جب اسے کمرے میں کسی کے بھاری قدموں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔۔۔کوئی تھا جو اب اس کے بلکل قریب کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔اسے اندھیرے سے خوف محسوس ہورہا تھا۔
کک۔۔۔۔کون؟؟؟خوف کے مارے کی اس کی آواز کامنپنے لگی تھی۔
کسی نے آگے بڑھ کر اس کی آنکھوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ لیے۔ایک دم سے کمرے کی لائٹس آن ہوئیں تو اس نے اپنے ہاتھ اس کی آنکھوں پر سے ہٹالیے۔
سامنے کا منظر دیکھ کر اس کی آنکھوں میں نمی آگئ جہاں ایک ٹرالی میں بہت خوبصورت چاکلیٹ کیک رکھا گیا تھا۔جس کی ۸ تہہ تھیں۔اور اس کیک کے وسط میں بہت خوبصورت سی تحریر لکھی ہوئی تھی۔

      "ہیپی بڑتھ ڈے میری زندگی"

تحریر کو پڑھ کے وہ نم آنکھوں سے مسکرائی تھی اور پھر اپنے پیچھے کھڑے اس شخص کو دیکھا جس نے زندگی کے ہر سرد وگرم حالات میں اس کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑا تھا۔
اس نے فوراً آگے بڑھ کے اس کی آنکھوں میں آئی نمی کو صاف کیا۔
"کیا کرتی ہیں مسز ابان آپ کی آنکھوں میں نمی میرا دل ہلا دیتی ہے۔اپنے یہ قیمتی آنسو ایسے ضائع مت کیا کریں۔آپ نہیں جانتی آپ کو تکلیف میں دیکھ کر میرا دل لرزتا ہے۔اس واقع کو ایک ڈراونا خواب سمجھ کر بھول جائے۔یاد رکھے تو صرف ایک بات۔
"ابان مصطفیٰ آپ کے ساتھ ہے اور آپ کا ساتھ اپنی آخری سانس تک نبھائے گا"
انوشے اس کے اس قدر پیار پہ اس کے سینے سے لگی زاروقطار رونے لگ گئ۔۔۔
انوش ایسے نا کریں یار کیوں کر رہیں آپ ایسا میرے ساتھ ابان اس کو خود سے الگ کرتے اس کے گال پر بہتے آنسووں کو پونچھتے مخاطب ہوا۔
آپ بہت اچھے ہیں ابان۔۔۔آپ مجھے۔۔۔ابھی وہ اپنی بات مکمل نہیں کر پائی جب ابان نے اسے وہیں ٹوک دیا۔
پھر سے وہی بات مت دہرائیے گا۔۔۔۔
"آپ میری زندگی ہیں میری چلتی سانسوں کی ایک خوبصورت وجہ ہیں ۔ آپ میرے لیے وہ انمول ہیرا ہیں جس کے علاوہ میں دنیا میں اور کسی چیز کی طلب نہیں رکھتا"
اب چلیں شاباش رونا بند کریں۔۔۔۔ نہیں تو ہمارا یہ جن اٹھ جائے گا۔۔۔۔وہ بید کے وسط میں سوئے ڈھیر سالہ اپنے بیٹے کو محبت بھری نظروں سے دیکھتے بولا۔
انوشے دھیرے سے مسکرائی تھی۔۔۔
کیک کاٹے ابان اسے کندھوں سے تھام 
کر ٹرالی کے پاس لایا جہاں خوبصورت کیک ان کا استقبال کر رہا تھا۔
اس نے انوش کے ہاتھ میں چھڑی پکڑائی اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے کیک کاٹنے لگا۔
ہیپی برتھ ڈے آبان کی انو۔۔۔ابان نے اسے کیک کھلایا اور عقیدت سے اس کے ماتھے پر اپنی محبت کی محر ثبت کی۔
جواب میں وہ مسکرائی اور اس کے ہاتھ سے کیک کا ٹکڑا لے کر اسے کھلایا اور اسی کے کندھے پر اپنا سر رکھے آنکھیں موندھ گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہسپتال میں معمول کی روٹین جاری تھی۔ایسے میں ایک کمرے میں موجود ڈاکٹر زاویار احمد ایک فاہل ہاتھ میں تھامے غصے سے اپنے آفس میں ٹہل رہا تھا۔
سامنے صوفے پہ بیٹھا ڈاکٹر ہادی مصطفیٰ۔۔۔ بظاہر تو ایک فائل اسڈی کر رہا تھا۔۔۔ لیکن دل ہی دل میں زاویار کی حالت دیکھ کر مخظوط ہورہا تھا اور ڈاکٹر زویا کے لیے دل سے دعا گو تھا۔
ہادی گو اینڈ چیک پیشنٹ نمبر ۱۳۔۔۔ہری اپ۔۔۔۔ زاویار کے حکم پر وہ ہڑبڑا کر اٹھا اور اس کے ہاتھ سے دوسری فائل تھامے وارڈ کی طرف بڑھنے لگا جب اسکی نظر سامنے سے آتی ڈاکٹر زویا پر پڑی وہ آنکھوں میں چمک لیے اس کی طرف بڑھا۔
وہ اپنا اوورآل پہنے گلے میں سٹیٹوسکوپ ڈالے ، چہرے پر گھومتی سنہری آوارہ لٹوں کو اپنے بائیں ہاتھ سے کان کے پیچھے آرستی۔
بھاگتے ہوئے ڈاکٹر زاویارکے آفس کی جانب بڑھ رہی تھی۔
ہادی نے اسے وہی روک لیا۔سنیے تو ڈاکٹر زویا۔۔۔
زویا اپنا لب دانتوں میں دباتی ہادی کی طرف متوجہ ہوئی۔" کیا اندر زیادہ خطرناک صورت حال ہے؟؟؟
مجھے تو لگا تھا آپ اپنا انتظام وغیرہ کر کے آئی ہوںگی ڈاکٹر زویا۔ ہادی شرارتی لہجے میں بولا
یااللہ خیر۔۔۔کیا مطلب؟؟؟زویا ہادی کے تاثرات دیکھ کے فوراً گھبڑائی۔
ڈاکٹر زویا۔۔۔آپکے سر۔۔۔جو بدقسمتی سے میرے بھی سینیر ہیں۔ان کا موڈ اس وقت انتہائی خراب ہے۔
اگر آپ سر پر ہیلمٹ وغیرہ پہن کر آتی تو ہی آپ کے بچنے کے چانسس ہیں ورنہ سر نے آج آپ کو زندہ درگور کر دینا ہے۔
ہادی!!!!زویا صدمے سے چلائی۔
ہادی مسکراہٹ دباتے بیسٹ آف لک کہتے۔۔۔وارڈ کی جانب بڑھ گیا۔
زویا آیت الکرسی کا ورد کرتے دروازہ ناک کیا۔
اندر سے کم ان کی آواز پر وہ دروازہ کھولتے قدم اٹھاتی اندر داخل ہوئی۔۔
سر۔۔۔زویا نے دروازہ ناک کرکے ڈاکٹر زاویار کو مخاطب کرنا چاہا۔
اوو آئیے ڈاکٹر زویا آئیے۔۔آپ اتنی وقت کی پابند ہوں گی مجھے اندازہ بھی نہیں تھا۔
آپ سے زیادہ وقت کے پابند تو ہاسپتل میں کام کرتے دوسرے ورکرز ہیں۔جن کی تنہا بھی آپ سے تھوڑی ہے۔لیکن آپ آپ کو کون سمجھائے آپ نے ہمیشہ سے اپنی ہی مرضی کی ہے۔ڈاکٹر زاویار نان سٹاپ اپنا غصہ زویا پہ نکال رہے تھے۔
زویا بظاہر تو پوری توجہ سے ان کی بات سن رہی تھی لیکن اس کی نظریں ہمیشہ کی طرح ڈاکٹر زاویار کے آفس ٹیبل پر پڑے اس باکس کی طرف تھی ناجانے اس میں کیا تھا۔جسے ایک دفعہ پوچھنے پر ڈاکٹر زاویار نے بری طرح اسکی انسلٹ کر ڈالی تھی۔
آپ سن رہیں ہیں ڈاکٹر زویا؟؟؟ڈاکٹرزاویار نے اس کی غیر دماغی پر مخاطب کیا۔
جی ڈاکٹر ۔۔۔و۔۔وہ میرا مطلب سوری سر آہندہ یہ غلطی دوبارہ نہیں ہوگی زویا منمنائی تھی۔
یا اللہ آ ہی نا جائے وہ دن جس دن آپ وقت کی پابندی کرنا سیکھیں گی۔۔۔ڈاکٹر زاویار بڑبڑائے تھے۔
آ ہی نا جائے وہ دن جب پتا نہیں آنا وہ دن تو یہ جتانے کا مقصد ہونہہ زویا دل ہی دل میں زاویار کی نقل اتارتے بول رہی تھی۔
وہ ایک خوبرو۔۔۔۔ پچیس سال کا جوان ڈاکٹر تھا۔صاف شفاف رنگت اور چہرے پر ہر وقت کی سنجیدگی سے اس کی شخصیت میں رعب تھا۔
اس کے رعب سے ہاسپتل کا سارا اسٹاف ڈرتا تھا۔
سوائے ڈاکڑ زویا اور ڈاکٹر ہادی کے ان دونوں کی ریسرچ کے مطابق ڈاکٹر زاویار کو کوئی دماغی بیماری ہے۔جس سے ان دونوں کو پوری پوری ہمدردی ہے۔
سر میں جاووں اب؟؟زویا نے اجازت طلب کرنا چاہی؟
جی جائیے۔۔اور وارڈ میں اپنی ڈیوٹی پوری کریں۔زاویار فوراً سے پہلے سنجیدہ ہوا۔۔وہ کام کے معاملے میں کوئی کوتاہی برداشت نہیں کرتا تھا۔
یس سر زویا یہ کہہ کر پلٹنے ہی لگی تھی جب آفس ٹیبل کے پہ رکھے گئے گلاس سے اس کا ڈوپٹہ مس ہوا اور ایک دم سے گلاس زمین پر گر کے کرچی کرچی ہوگیا۔
زویا نے بے اختیار زبان دانتوں تلے دبائی اور بنا پیچھے دیکھے فوراً سے پہلے آفس سے غائب ہوئی۔
ڈاکٹر زاویار پیچھے تاسف سے اسے جاتا دیکھ رہے تھے۔ان کا کچھ نہیں ہوسکتا۔اس نے انٹرکام سے کسی ہیلپر کو بلوا کر آفس کی صفائی کروانے کا حکم دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی طرح لاہور کی تندہوں تاریک گلیوں میں ایک پرانی طرز کی عمارت میں آئے تو ایک بیس سالہ لڑکی جس کے چہرے پر بلا کا اطمینان تھا۔
برآمدے میں بیٹھی اپنی زندگی اور اپنی قسمت پر خوش تھی بے انتہا خوش۔۔۔۔وہ اپنے سامنے پڑے جوڑے اور زیورات کو کاجل سے لبریز بڑی بڑی آنکھوں سے دیکھتی اپنے آپ کو خوش قست ترین لڑکی گردان رہی تھی۔
ہائے نی ماہ نور تیری قسمت تے بڑی چنگی نکلی۔فریدہ آپا اس کی قسمت پر ہائے وائے کرنے ناجانے کہاں سے ٹپک پڑی تھیں۔
نی فریدا ماشااللہ بول ماشااللہ۔۔۔ماہ نور کی امی انہیں ٹوکٹے ہوئے بولیں۔
ویسے لڑکا ہے کون؟؟؟۔۔۔فریدہ آپا بھی کہاں باز آنے والوں میں سے تھیں۔
لڑکے کا ماشااللہ اپنا بزنس ہے۔۔۔کیا ٹاٹھ باٹھ ہیں ان لوگوں کہ مجھے تو اپنی ماہ نور کی قسمت پر رشک آرہا ہے۔۔۔۔۔۔!!!! سکون سے گزارے گی میری بیٹی اپنی زندگی بہت اچھا خاندان ہے۔ ماہ کی امی انہیں تفصیل بتانے لگیں۔۔۔۔!!!!
یہ سنتے ماہ نور کی آنکھوں مزید چمک بڑی تھی۔۔۔
فریدہ آپا ماہ نور کی امی سے اور گفتگو کرنے میں مصروف ہو گئیں تھی۔
ماہ نور کھوئے کھوئے سے انداز میں ان کی باتیں سن رہی تھی۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھاگنے کے باعث اسکا تنفس بری طرح بگڑا ہوا تھا۔۔سٹاف روم میں آکے وہ گہرے گہرے سانس لینے لگی۔۔۔۔خیریت ڈاکٹر زویا؟؟؟
ایک دم پیچھے سے ہادی کی آواز سے اسکی چیخ نکلتے نکلتے بچی۔۔۔۔
ڈاکٹر ہادی آپ نا کسی دن میری جان لے کر چھوڑیں گے وہ خفگی سے بولی۔۔۔
فلحلال تو آپکی حالت دیکھ کر معلوم ہورہا ہے۔۔کہ آپ کوئی نیا گل کھلا کر آرہی ہیں۔
زویا کے دماغ میں گلاس ٹوٹنے کی آواز پھر سے گھونجی تھی۔۔۔۔اففففف
ڈاکٹر ہادی ایک بات بتائیں۔۔۔یہ جو آپ کے دوست ہیں۔۔۔۔م۔۔۔میرا مطلب ڈاکٹر زاویار۔۔۔
ہادی کی گھوری سے اس نے جلدی سے تصحیح کی۔۔۔
جی؟۔۔۔ایک ابرواچکا کر پوچھا کیا۔۔۔
دیکھے ڈاکٹر سچ چھپانے سے کچھ نہیں ہوگا مجھے ہمدری ہے ان سے میں جانتی ہوں وہ پاگل خانے سے بھاگے ہوئے ایک مریض ہیں جو کھی نارمل نہیں ہو سکتے آپ نا بھی بتائے تو مجھے پتا ہے ان کے ساتھ یہی مسئلہ۔۔۔۔!!!
ایک نمبر کہ کھڑوس سریل اور کریلے ٹائپ انسان کے ساتھ کیسے دوستی رکھ سکتے ہیں آپ؟؟؟۔۔۔۔وہ اپنی ہی دھن میں بولتی جا رہی تھی۔
ڈکٹر زویا وہ۔۔۔۔۔۔ہادی نے کچھ بولنا چاہا۔۔۔
نہیں نہیں سمجھتے کیا ہیں وہ خود کو بڑے آئے مجھ پر رعب جمانے والے سریل کریلا۔۔۔
ڈاکٹر ہادی۔۔۔۔بیڈ نمبر ۱۳ کی فائلز لے کر میرے روم میں پہنچے۔۔۔۔
زاویار کی آواز سے وہ دہل کر پیچھے مڑی۔۔۔کو کن اکھیوں سے اسے گھور رہا تھا۔۔۔
راجر باس۔۔۔۔ڈاکٹر ہادی مسکرہٹ ضبط کرتے ہوئے بولا۔۔
زویا نے بے اختیار اپنی آنکھیں میچ لی۔۔۔اور ہمیشہ کی طرح زیرلب۔۔۔آلتو جلاتو آئی بلا کو ٹال دو کا ورد کرنے لگی!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہیلر ازقلم علیشاء،آمنہWhere stories live. Discover now