Episode 10

98 3 0
                                    

                                                                                                                                                                                                                                                                                              
جنت میں"۔  ان دو لفظوں کا وار انہیں لڑکھڑانے پر مجبور کر گیا تھا۔

اسنے جلدی سے آگے بڑھ کے مس ایل کو دونوں کندھوں سے تھام کر سہارا دیا۔

"وہ بہت اچھی جگہ پہ ہے "۔ اسکے کچھ سیکنڈز پہلے کہے گئے لفظوں کو وہ معاوف ہوتے زہن سے سمجھنے کی کوشش کررہی تھیں، آنکھوں میں آنسو اٹکنے لگے ، جنہیں بہنے سے وہ سختی سے باز رکھے ہوئے تھیں۔

"تم ۔تمہیں ضرور غلط فہمی ہوئی ہوگی ، وہ مہر کے بارے میں نہیں کسی اور کے بارے میں کہہ رہا ہوگا"۔ وہ لڑکھڑاتی زبان سے نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولیں،وہ یہ ماننے کو ہرگز بھی تیار نہ تھیں۔

"وہ زندگی میں پہلی بار اپنی بوڑھی خاتون کو لڑکھڑاتے اور ٹوٹتے ہوئے دیکھ رہا تھا ، اور اسے آج اندازہ ہورہا تھا ، انہیں اس حال میں دیکھنا اس کے لئے دنیا کا سب سے اذیت ناک مرحلہ تھا ، اسکی خود کی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں ، اسکی بہن تو زندہ تھی ، کسی کی بیوی تھی ، مضبوط ہاتھوں میں تھی ، محفوظ تھی ، اسکے دل کو تھوڑا سا تو قرار نصب ہوا تھا ، لیکن وہ مس ایل کو کیسے سمبھالے ، جنہوں نے اتنی لمبی مسافت کے بعد بھی کچھ نہیں پایا ، کوئی امید ، کوئی خوشی ، کوئی نیا سرا ؟ کچھ بھی تو نہیں ۔

"حقیقت تلخ ہوتی ہے مس ایل اور یہی حقیقت ہے "۔ اُنہیں دونوں کندھوں سے تھامے وہ اپنی نظریں چراتے ہوئے بولا۔

" مجھے گھر جانا ہے"۔ اپنے کندھوں سے اسکا حصار توڑتے ہوئے وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولیں۔

"میرے ساتھ چلیں "۔ وہ انہیں اس حالت میں اکیلے نہیں جانے دے سکتا تھا، ہرگز نہیں !

"میں کچھ وقت تنہائی ۔۔میں رہنا چاہتی ہوں ۔۔ھیلر ۔۔میں چلی جاؤں گیں " بھاری ہوتی سانسوں کے درمیان وہ توڑ توڑ کے الفاظ ادا کر رہی تھیں ساتھ ہی اپنے قدم پیچھے کو لینے لگیں ۔

وہ نہیں چاہتی تھیں وہ اس کے ساتھ آئے ، وہ اکیلا رہنا چاہتی تھیں، وہ اس کے سامنے کمزور نہیں پڑھنا چاہتی تھیں، لیکن اس وقت وہ خود کو بہت کمزور محسوس کررہیں تھیں، ایک حصہ انکا چاہتا تھا وہ انکے ساتھ آئے اسے اکیلا نہ چھوڑے ، وہ رونا چاہتی تھیں بہت سارا رونا چاہتی تھیں، لیکن وہ اپنے دکھ میں کبھی کسی کو شریک نہیں کیا کرتی تھیں۔

"آپ ٹھیک نہیں ہیں ، میں آپ کو اسطرح نہیں جانے دے سکتا "۔ یہ تو تہہ تھا وہ چاہے کچھ بھی کہہ لیں وہ انہیں اکیلا نہیں چھوڑے گا۔

وہ اسکی سنے بغیر اس سے دور ہٹتی باہر کا گیٹ تیزی سے پار کر گئیں ، وہ بھی اتنی ہی تیزی سے انکے پیچھے گیا ، جانتا تھا وہ بہت ضدی ہیں ، کبھی نہیں مانیں گیں ، اور وہ اپنی دُکھی، ضدی اور بہادر اولڈ لیڈی کو تنہا نہیں چھوڑ سکتا تھا۔

وہ اپنی بائیک پر سوار کانپتے ہاتھوں سے ہیلمٹ پہننے کی کوشش کر رہی تھیں ، جو ان سے پہن کے ہی نہیں دے رہا تھا ، ان کے کانپتے ہاتھوں سے اس نے ہیلمٹ پکڑ کے انہیں نرمی سے پہنایا ۔

"بائیک سے نیچے اتریے مس ایل  ، ایک لفظ بھی مزید نہیں سنوں گا میں "۔اُنکا کھلتا منہ دیکھتے وہ بہت آرام سے اُنہیں مزید کچھ بھی بولنے سے روک چکا تھا۔

وہ خاموشی سے بائیک سے اتر گئیں ، انکی آنکھیں مزید سرخ ہورہی تھیں ،ایک کونے میں کھڑیں وہ خود کو یہاں رونے سے باز رکھے ہوئے تھیں۔

وہ ایک ترحم بھری نگاہ انکے سراپے پر ڈالتا انکی بائیک پر سوار ہوا ، اپنا ہیلمٹ پہنتے اس نے مس ایل کو پیچھے بیٹھنے کا اشارہ کیا ، لیکن وہ کسی بت کی طرح ویسے ہی کھڑی رہیں ،وہ ایک گہری سانس بھرتا بائیک سے نیچے اترا، انکے گرد اپنا حصار پھیلاتے انہیں سہارا دیتے ہوئے وہ بائیک کے قریب لایا، خاموشی سے ایک لفظ بھی کہے بنا، وہ اس گہری خاموشی میں بھی ان کے اندر اٹھتی درد کی ٹیسوں کو محسوس کرسکتا تھا ۔

دوبارہ سے بائیک پر سوار ہوتے اسنے انہیں نرمی سے پکارا۔

"بیٹھیے مس ایل "۔

وہ خاموشی سے اسکے پیچھے بیٹھ گئیں ۔ سارا  راستہ خاموشی سے کٹا، وہ جانتا تھا اس وقت وہ کس کرب سے گزر رہی ہیں ، بھلا اس سے اچھا بھی کوئی جان سکتا تھا؟ اپنوں کو کھونے کا احساس ، درد ، تکلیف ۔

ان کے گھر کے اوٹ ڈور سے لیکر اِن ڈور تک وہ انہیں سہارا دے کہ اندر لایا تھا، وہ زرا سی دیر کے لیے بھی انہیں اپنے حال پر چھوڑتا تو ان کے قدم لڑکھڑا پڑتے ۔

وہ سارا گھر چھوڑ کے نیچے بیسمنٹ میں بیٹھا کرتی تھیں، کیونکہ باقی کے سارے حصے میں مہر کی یادیں تھیں، اسکی معصوم باتیں، معصوم شرارتیں، انہیں سارا گھر کاٹ کھانے کو دوڑتا تھا ، وہ روزانہ خود سے لڑتی تھیں، اس تک پہنچنے کی امید ہی تو انہیں زندہ رکھے ہوئے تھی، اتنی طاقت کہ دشمن بھی زیر ہوجائے ، وہ طاقت وہ حوصلہ صرف اس ایک "امید " کی بدولت تھی۔

وہ آج بیسمنٹ میں نہیں گئیں ، ان کے قدم آج انکا ساتھ نہیں دے رہے تھے ، اگر ھیلر نہ ہوتا تو یقیناً اس وقت وہ سڑکوں پر خوار ہورہی ہوتیں ، یا شاید کہی گڑی پڑی ہوتیں ۔ وہ ٹی وی لاونج کے ایک صوفے کی پشت کے ساتھ ٹیک لگاتے نیچھے ڈھ گئیں۔

وہ پیچھے ہی کھڑا تھا ، خاموشی سے ان کی ہر حرکت کو دیکھتے ہوئے ، انہیں اس طرح سے بیٹھے خود پر ضبط کرتے ہوئے دیکھتے اسکا دل کٹ کہ رہ گیا تھا ، جیسے وہ اپنے آنسؤوں کو روکے ہوئے تھیں اور انہیں اس کے سامنے بہانا نہیں چاہتی تھیں، وہ دھیرے سے قدم اٹھاتا انکے ساتھ ہی نیچے بیٹھ گیا ، اپنے دائیں کندھے پر انکا سر نرمی سے رکھ کے کسی چھوٹے بچے کی طرح تھپتھپانے لگا۔ اور یہی وہ پل تھا جب مس ایل کے آنسو سارے بندھ توڑ کے بہنا شروع ہوگئے ۔

کبھی کبھی ہم خود پر ضبط کھو بیٹھتے ہیں ، ہم لاکھ خود سے عہد کر لیں کہ ہم اس شخص کے سامنے نہیں روئیں گے ، ہم خود کو کمزور نہیں پڑنے دیں گے ، بس ایک بس ایک پیار کی تھپکی یا بول آپکو کمزور کردینے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔

وہ بے آواز اپنے آنسو بہاتی رہی ، ان کے آنسؤوں سے اس کی شرٹ گیلی ہوگئ تھی، لیکن اسے پراوہ تک نہ تھی ، وہ ان آنسؤوں میں چھپے درد اور تکلیف سے واقف تھا، وہ جانتا تھا ، اپنوں کو کھونے سے کتنا درد ہوتا ہے ، وہ جانتا تھا انہیں اس وقت کسی تسلی کی ضرورت نہیں بلکہ انہیں کسی کے ساتھ کی ضرورت ہے اور وہ ان کے ساتھ تھا۔

جب ہم دکھی ہوتے ہیں یا تکلیف میں ہوتے ہیں تو ہم دوسروں سے فقط دو لفظ تسلی کے نہیں چاہتے بلکہ ہم چاہتے ہیں کوئی ہمیں خاموشی سے سنے ، کوئی ہمارے دکھوں کا مذاق اڑائے بغیر خاموشی سے ہمارا غم بانٹ لے۔ اس سب سے دل کو تسلی تو نہیں ملتی لیکن دل ضرور ہلکا ہوجاتا ہے ۔

"وہ بہت معصوم تھی "۔ کافی دیر اپنے آنسؤؤں کو اسکی شرٹ میں بہانے کے بعد وہ اپنا سر اسکے کندھے سے ہی ٹکائے بھرائی ہوئی آواز میں بولیں۔

وہ خاموش رہا ، جیسے انہیں آگے بولنے پر اکسا رہا ہو۔

"وہ دوسری لڑکیوں کی طرح نہیں تھی ، وہ بہت مختلف تھی ، اسے دوسری لڑکیوں کی طرح نہ تو میک اپ میں دلچسبپی تھی اور نہ ہی شاپنگ میں ، وہ سارا دن چھت پر بیٹھے نیلے آسمان میں چلتے بادلوں کو دیکھا کرتی تھی ، اسے بادل بہت پسند تھے ، جب بھی آسمان پر ڈھیر سارے بادل اپنا گھیرا ڈالتے تھے تو وہ مجھے آواز دیتی تھی ، اس ایک آواز میں کیا کچھ نہیں ہوتا تھا، وہ رکی تھیں۔ شاید اپنے آنسؤوں کو گلے سے اتارنے کی کوشش کر رہی تھیں۔

اس نے دھیرے سے انکا ہاتھ پکڑ کے اپنے گرم ہاتھوں میں لیا ، انکے ہاتھ سرد  ہورہے تھے اور وہ انہیں کمفرٹ کررہا تھا۔

وہ کہتی تھی ، دیکھیں ماما ، کتنا پیارا منظر ہے ، اور مجھے وہ منظر بہت خوبصورت لگا کرتا تھا ھیلر ! کیونکہ ان بادلوں کو دیکھتی ہوئی میری مہر بھی اسی منظر کا حصہ لگا کرتی تھی ۔

قدرت کا حسین اور مکمل منظر ہوا کرتا تھا وہ ۔ آج چاہ کر بھی وہ اپنی آواز ہموار نہیں رکھ پارہی تھیں۔

"قدرت نے ہی اسے سمیٹ لیا ہے مس ایل ، اور وہ بہت اچھی جگہ پر ہوگی بادلوں کو دیکھتی ہوئی ، جنت میں موجود بادل تو اس دنیا کے بادلوں کی بانسبت زیادہ خوبصورت ہوتے ہونگیں ، سوچیں آپکی مہر اس وقت اگلی زندگی کے حسین ترین بادلوں کا مکمل منظر ہوگی "۔ وہ اتنی خوبصورتی سے بولا تھا کہ مس ایل کے روانی سے بہتے آنسو تھمے تھے، وہ مزید کچھ بول رہا تھا ۔
میرے ڈیڈ ، مام اور مہر اس وقت بہت اچھی جگہ پہ ہیں ، میں جانتا ہوں آپ اس وقت کیسا محسوس کر رہی ہیں ، میں یہ سب محسوس کر چکا ہوں ، جب میری ماں میرے سامنے زمین پر گری اپنی آخری سانسیں لے رہی تھیں ، اور جب اسکے عین کچھ منٹوں بعد مجھے میرے باپ کے انتقال کی خبر ملی تھی ، اور میری بہن جو کچھ گھنٹوں پہلے اغواہ ہوئی تھی ، جانتی ہے وہ ایک دن میرے لیے کیا تھا؟ قیامت ۔ وہ دن میرے لیے قیامت کے دن سے کم نہیں تھا ۔ اور میں محسوس کر سکتا ہوں آپ کے لیے یہ وقت کتنا مشکل ہے۔

وہ رونا بھول گئ تھیں، وہ اسے دیکھ رہی تھیں ، اسنے کبھی اس ایک دن کے بارے میں اپنے منہ سے ذکر نہیں کیا تھا ، وہ جانتی تھیں اس کے ماں باب کے بارے میں لیکن یہ نہیں جانتی تھیں وہ سب وہ سب اس طرح ہوا تھا ، کتنا گہرا تھا وہ ، وہ سمجھی تھیں وہ اسے اچھے سے جانتی ہیں ، لیکن وہ غلط تھیں جب انہیں لگنے لگتا تھا وہ اسے جان چکی ہیں ، ٹھیک وہی وہ کچھ ایسا کرجاتا کہ انہیں لگنے لگتا وہ اسے بلکل بھی نہیں جانتیں ، وہ کب کونسا قدم اٹھالے کوئی نہیں جانتا تھا۔

"انوشے سے کب ملنے جاو گے ؟"۔ اچانک اپنا غم بھلائے وہ اس سے پوچھنے لگیں ، اسے بھی تو اپنی بہن کے بارے میں آج ہی معلوم ہوا تھا ۔

"میں ابھی اس ملاقات کے لیے تیار نہیں ہوں "۔ وہ شاید خود سے نظریں چرا رہا تھا۔

"تم نے دن رات اسے ڈھونڈنے میں لگائے ہیں ، اور اب جب منزل تک پہنچ چکے ہو تو تیار نہیں ہو؟"۔ وہ اس کے کندھے سے ہٹتی اسکے سامنے آئیں۔

"مس ایل تب حالات مختلف تھے ، تب تک وہ میری بہن تھی ، میری گڑیا تھی ، اب حالات مختلف ہیں اب وہ میری بہن ہونے کے ساتھ ساتھ کسی کی بیوی ہے ، اور وہ خوش ہے ، میں اس بار اپنی گڑیا کی خوشیوں کو نظر نہیں لگانا چاہتا ، میں تیار نہیں ہوں اسکا سامنا کرنے کے لیے "۔ اسنے اتنے واضع انداز میں اپنا موقف بیان کیا تھا کہ وہ ایک لفظ بھی مزید نہ کہہ پائیں۔

زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے ، ہم سب اللہ کی امانت ہیں ، ہم سب اسی کے لیے بنائے گئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ، یہی حقیقت تھی جو آج نہیں تو کل مس ایل کو تسلیم کرنی ہی تھی ، وہ ساری رات اپنے بیسمنٹ میں بیٹھیں مہر کو یاد کرتی آنسؤ بہاتی رہیں ماں کے دل کو قرار اتنی جلدی نہیں نصب ہوا کرتا۔
وہ بھی اس رات وہی رکا تھا ، وہ اپنوں کو ھیل کرنا جانتا تھا ، وہ انہیں کمفرٹ کرنا جانتا تھا ، جو خود پر گزرا تھا وہ کسی اور کو اس سے گزرتے نہیں دیکھ سکتا تھا، بلآخر اس طویل ترین رات کا اختتام ہوا تھا ، بلآخر ان دونوں کا مقصد پورا ہوگیا تھا۔

کچھ پاہ کر بھی کچھ نہ پایا
تو کیا پایا پھر ہم نے ؟

******************

یہ لاہور کی بلند و بالا عمارت کی ساتویں منزل میں بنے آفس کا منظر تھا ، دلاور خان گرے تھری پیس اور ہم رنگ ٹائی باندھے راکنگ چئیر پر جھول رہا تھا ، اس کی دائیں کلائی میں بیش قیمتی گھڑی بندھی تھی ، چہرہ سنجیدہ تھا ، نگاہیں پرسوچ ،اپنے ہاتھ میں بال پوائینٹ تھامے وہ کچھ سوچ رہا تھا ، کسی گہری سوچ میں۔
دروازے پر ہونے والی مسلسل دستک پہ اسکی سوچوں کا ارتکاز ٹوٹا، ٹھنڈی سانس بھرتے اس نے آواز کو تھوڑا بارعب بنا کے آنے والے کو اجازت دی۔
"کم ان "۔
دروازے میں رمیز نمودار ہوا ، وہ مضبوط جسامت والا رعب دار مرد تھا، اسکا چہرہ سپاٹ تھا۔
"سر " اسنے مشینی آواز میں پکارا
"بولو "۔وہ بے زاری سے کرسی جھولتے ہوئے بولا۔
"سر کل رات تمام لڑکیاں راتوں رات بندرگاہ سے اغواہ کرلی گئیں ہیں "۔ وہ سیدھ میں دیکھتا بے تاثر لہجے میں بولا ، نا کوئی خوف نا کوئی رعب
ایک سیکنڈ کے لیے صرف ایک سیکنڈ کے لیے دلاور خان کی جھولتی کرسی رکی تھی ۔
"وہی تھا ؟" صرف ایک سوال پوچھا تھا دلاور خان نے جسکا جواب اسے بخوبی معلوم تھا۔
"جی ، لیکن !"۔ رمیز کچھ پل کے لیے رکا ۔
"جانتے ہو رمیز مجھے زندگی میں کس لفظ سے بے پناہ نفرت ہے ؟" اسکا لہجہ نہ تو نرم تھا نہ تو سخت تھا ، بس سپاٹ تھا۔
رمیز کسی روبورٹ کی طرح سیدھ میں دیکھتا اسے سن رہا تھا،
"لیکن "سے ، مجھ سے مخاطب ہونے سے پہلے اس لیکن کو اپنی ڈکشنری سے ختم کر کے آیا کرو ، اب بولو بھی ؟ "
"اس بار اس کے ساتھ کوئی لڑکی بھی تھی ، بلکل اسی کے حلیے میں "۔ اسکی بات کو نظر انداز کرتے وہ اسی مشینی انداز میں بولا
وہ ایک دم رکا ، اسنے راکنگ چیئر کا رخ رمیز کی جانب کیا ، اور حیرت سے ابرو اٹھائے ، جیسے پوچھ رہا ہو تم ُپریقین ہو؟ ۔
اسنے سپاٹ انداز میں سر کو ہلکا سا خم دیا۔
"ٹھیک ہے تم جا سکتے ہو "۔ رمیز کے جانے کے بعد اس نے اپنا فون نکالا ، کانٹیکٹ لسٹ میں "جے کے " کے نام سے ایک نمبر جگمگا رہا تھا ، اس نے ایک بھی سیکنڈ کی دیر کیے بغیر کال ملائی۔

تمہیں میں نے ایک لڑکے کی پروفائلنگ کا کہا تھا، کہا تک پہنچا ہے میرا کام ؟ رسمی خال اخوال کے بغیر وہ سیدھا مدعے پہ آیا تھا۔

دوسری جانب سے شاید تھوڑا وقت درکار تھا۔

"اسکی فیملی کا سارا بیک گراونڈ چھانو ، چاہے اسکے لیے تمہیں کچھ بھی کیوں نہ کرنا پڑے ، تمہارا منظر عام پر آنا بہت ضروری ہوتا جا رہا ہے یہ لڑکا  میری کمپنی کو بہت ٹف ٹائم دے رہا ہے " ۔

"دوسری طرف سے تسلی کراوئی گئ تھی ، اسکا کہنا تھا وہ آدھا کام کر چکا ہے ، باقی کے کام کے لئے تھوڑی محلت درکار ہے "۔

"ٹھیک ہے لیکن جتنی جلدی ہو سکے مجھے انفارم کرو "۔اسے ہدایت دیتا وہ دوبارہ چئیر جھولنے لگا۔

اب یہ صرف آخری پتہ کھیلنے کا وقت تھا ، ایک آخری کارڈ ، اسکے بعد سب ختم ۔
*******************

مصطفی انڈسٹرز کے کانفرنس روم میں لمبی میز کے گرد براجمان افراد کی سرگوشیاں آہستہ آہستہ بلند ہو رہیں تھی۔ جیسے کمرہ امتحان میں پرچہ شروع ہونے سے پہلے بھنبھناہٹ سی ہو رہی ہوتی ہے۔ چند ایک افراد سامنے رکھے کاغذات پر جھکے فائلز کی ورق گردانی میں مصروف تھے۔ یہ ایک میٹنگ کے آغاز سے قبل کا منظر تھا۔
دھوپ کی کرنیں سامنے شیشے سے ترچھی ہو کر گر رہی تھیں۔ کانفرنس روم کی سربراہی کرسی کے اب تک حالی تھی۔ ابان مصطفی کے جانے کے بعد ایک میٹنگ یونہی ارینج کی جاتی تھی۔ وہ سب اسی کرسی پر بیٹھنے والی شخصیت کے انتظار میں یہاں اکھٹے ہوئے تھے۔
کانفرنس روم سے باہر آئیں توریسپشنسٹ ڈیکس پر آئی پیڈ  پہ سر جھکائے دراز قد لڑکی کھڑی ، لمبے سیاہ بالوں کو اونچی پونی ٹیل میں بھاندے، سادہ سی شلوار قمیض پہنے، دوپٹہ شانوں پر پھیلائے، کانوں میں تیتلی کے ٹاپس پہنے ہوئے تھی۔ آج کے کاموں کی اہم فہرست ہے نظر دہراتے وہ ریسپشنٹ ڈیکس کے پیچھے بیٹھی لڑکی کی بات بھی توجہ سے سن رہی تھی۔
"میم انوشے سر ابان کی نسبت تھوڑی سی نرم مزاج ہیں۔" وہ لڑکی کہہ رہی تھی۔ "جب بھی سر ابان کام کے سلسلے میں شہر سے باہر جاتے ہیں وہی سب سنبھالتی ہیں یہاں۔ ویسے کام کے معاملے میں وہ بھی رعائیت نہیں دیتیں۔"
ماہ نور اس کی بات پر ہلکے سے مسکرا دی۔ تو ہونٹوں کے پاس پڑتا ڈمپل واضح ہوا۔ وہ خوبصورت تو پہلے ہی تھی، مسکراتی تھی تو دیکھنے والے کا دل چاہتا تھا وہ مسکراتی رہے ۔ وہ آج پہلی باہر انوشے سے لائیو ملنے جا رہی تھی۔ ایک مہینے کے لیے انوشے نے ہی آفس کے سارے معاملات سنبھالنے تھے۔ ماہ نور نے گھڑی دیکھی۔ دس ہونے میں پانچ منٹ رہتے تھے۔ تبھی لیفٹ کے دروازے کھلے اور سرخ بلاک ہیل میں مقید پیر باہر رکھا گیا۔ ماہ نور ریسپشنٹ ڈیکس سے اپنا آئی پیڈ اٹھاتے انوشے کی جانب بڑھی۔ وہ سکن کلرسکلٹ پر خاف وائٹ ٹاپ پہنے، بالوں کو کھلا چھوڑے ، بائیں کندھے پر پرس لٹکائے، ہلکے سے میکپ میں سب کی توجہ اپنی جانب کھینچ رہی تھی۔ 
"السلام وعلیکم! ویکم میم" ماہ نور نے مسکراتے ہوئے اس کا استقبال کیا۔
"وعلیکم السلام! تھینکس " انوشے بھی مسکرائی۔
ماہ نور ساتھ چلتے اسے آج کے سارے شیڈیول کے بارے میں ہلکا سا بریف کر رہی تھی۔ وہ دونوں چلتی ہوئی ابان کے آفس میں داخل ہوئیں۔ انوشے نے اپنا بیگ وہیں ٹیبل پر رکھا پھر دونوں کانفرنس روم کی جانب بڑھ گئیں۔
کانفرنس روم میں ایک صاحب کی نظر شیشے کے پار پڑی سامنے سے باس کی بیوی آتی ہوئی نظر آئیں ان نے ہلکا سا ڈیکس بجایا تو سب کی کمریں سیدھی ہوئیں کوئی فائل پر جھک گیا تو کسی کا لیپٹاپ کھل گیا۔ جیسے کمرہ امتحان میں نگران کے داخل ہوتے ہی خاموشی ہو جاتی ہے۔
ماہ نور نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا انوشے داخل ہوئی اور اس کے پیچھے ہی ماہ نور بھی تھی۔ کرسی سنبھالتے اس کی  گھنی پلکیں سب کی جانب اٹھیں۔
"گڈ مارننگ ایوری ون۔" اسکی گرمجوش سی آواز سنائی دی۔ جواب میں سب نے مسکراتے ہوئے ہلکی سے بھنبھناہٹ کے ساتھ اثبات میں سر ہلایا۔ ماہ نور بھی انوشے  کے بائیں جانب اپنی کرسی سمبھالے ہوئے تھی۔
"جیسے کے آپ سب جانتے ہیں ابان ایک مہینے کے لیے قطر والے پروجیکٹ کے سلسلے میں گئے ہیں۔" اس نے کسی لگی پٹی کے بغیر بات کا آغاز کیا۔ "اب کی بار کم عرصے کے لیے گئے ہیں اس لیے ہم پیچھلے شروع ہوئے پرجیکٹس پر ہی کام کریں گے۔ نئی ڈیلنگز نہیں کرنی۔" بغیر مسکراہٹ کے سنجیدہ سی آواز کانفرنس روم میں گھونج رہی تھی۔
"فیصل صاحب، ارمغان انڈسٹریز کے ساتھ تہہ پانے والے پرجیکٹ کی آج آپ نے پریزنٹیشن پیس کرنی تھی۔ شروع کریں۔" اب کے اس نے ایک ادھیڑ عمر شخص کی جانب دیکھا۔
"یس میم۔" ان صاحب نے سر ہلایا اور اپنا لیپ پاٹ اٹھاتے کھڑے ہوئے اور سامنے لگے پرجیکٹر کے پاس ڈائز پے رکھتے چند بٹن دبائے تو پرجیکٹر پر پریزنٹیشن چلنے لگی۔ کانفرنس روم میں اب بس فیصل صاحب کی آواز گھونج رہی تھی اور سب انہیں توجہ سے سنتے پریزنٹیشن کو بھی دیکھ رہے تھے۔ میٹنگ کا آغاز ہو چکا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گہرے اندھیرے نے آسمان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ یہ دو ڈاکٹروں کے اپارٹمنٹ کا منظر ہے۔ ہادی ابراہیم  گرے رنگ کی ٹی شرٹ پہنے ، اپرن پہنے کھانے کے برتن دھو رہا تھا۔ باہر لاؤنچ  میں زاویار سکائپ پہ اپنے گھر والوں سے باتوں میں مگن تھا۔
"ہادی کہاں رہ گیا۔ زاوی ہادی کو بلاؤ کہاں رہ گیا یہ لڑکا اس کے برتن نہیں دھلے؟ "
"موم آ رہا، ہادی آ بھی جا سالے۔" زاوی کوئی دسویں بار آواز دی۔ وہ سامنے ہی اسے شیلف صاف کرتے نظر آ رہا تھا۔
"بس ہو گیا، میں بس آیا۔" ہادی ایپرن اتار کے دروازے کے پیچھے لٹکاتے باہر نکلا۔
"اوئے یہ ڈائن کیا کر رہی ہے؟" ہادی میں صوفے کے پیچھے سے ہی مانم کو دیکھا جو سکرین میں کتابیں میز پہ رکھے خود نیچے بیٹھی جھک کر ان پہ کچھ لکھ رہی تھی۔
"آسائمیٹ بنا رہی  ہے، تیری طرح نہیں ہے کام چور۔" جواب زاویار کی جانب سے آیا تھا جس نے کہہ کہہ کے اس سے برتن دھلوائے تھے۔
"تجھے تو میرے میں ایسے خامیاں نظر آتیں ہیں۔ جیسے ایک شوہر کو بیوی میں۔" 
"استغفراللہ۔ تیرے سے میں کوئی اچھے جواب کی امید بھی نہیں کر رہا تھا۔ "
"دیکھ لے ہمیشہ تیری امیدوں پے پورا اترتا ہوں۔ پھر بھی محلے کی عورتوں ترے طعنے ہی نہیں ختم ہوتے۔ ہادی ماتھے پہ گرتے بالوں کو پیچھے کرتے بولا اور صوفے پر اس کے برابر میں بیٹھا۔
مانم کتابوں سے نظریں ہٹائے لائیو شو انجوائے کر رہی تھی۔ ثریا صاحبہ اور احمد صاحب بھی ہنستے ہوئے دونوں کودیکھ رہے تھے۔
"انکل آنٹی آپ کہیں جا رہے ہیں؟ " ہادی اب کہ  ان دونوں کی جانب متوجہ ہوا۔
"ہاں بیٹے احمد کے دوست کے بیٹے کی برتھ ڈے پارٹی ہے وہیں جا رہے ہیں۔" جواب زاوی کی موم کی جانب سے آیا تھا۔
"مانم گڑیا تم نہیں جا رہی؟"
"نہیں۔ بھیا، میرا دل بھی نہیں ہے اور ویسے بھی یہ اسائمنٹ کل ہی سبمنٹ کروانی ہے۔" زاوی کو جواب دیتے بولی۔
" ہادی زاویار آج آفس میں پتا کون آیا تھا۔ وہ پڑاپڑٹی ڈیلر جن نے ہادی تمہاری بابا والی کمپنی سولڈ آؤٹ کروانے میں مدد کی تھی۔" اور پھر ثریا کی جانب متوجہ ہوئے اور وہی "جن جو ہمارے خاندانی سنار بھی ہیں۔ چوہدری حسن عمر کی بات کر رہا ہوں۔" ہادی کو بات سمجھنے میں ایک سیکنڈ لگا تھا کہ آگے انکل کیا بولنے جا رہے ہیں۔  "کافی دیر باتیں کرنے کے بعد ان کے اپنے گھر انوایٹ کیا ہمیں۔" احمد صاحب چپ ہوئے تو زاویار بولا۔
"ہاں بابا آج ان کا بڑا بیٹا اویس لاہور آیا تو ہسپتال بھی آیا تھا۔ کافی عرصے بعد وہ باہر سے واپس آیا اس نے شادی کر لی ہے۔"
"ان کا چھوٹا بیٹا یونیورسٹی میرے ہی بلاک میں پڑھتا لیکن میرا سینئر ہے۔" مانم ہادی کو دیکھتے دوبارہ سے کاپی پہ نظر جھکاتے بولی۔( یہ اُسی لڑکے کے گھرانے کی بات ہو رہی ہے جس نے مانم کو پروپوز کیا تھا۔ اور یہ اُسی گھرانے کی بات ہو رہی ہے جس کے پاس ماضی میں ابان مصطفی نے نوکری کی تھی۔)
"اور پیچھلی بار جب ہم آئے اسلام آباد آئے تھے تو میں ان کے چھوٹے بیٹے سے ملا تھا۔" ہادی نے بات کا آغاز کیا۔ زاویار نے ایک بار مانم کو دیکھا پھر ہادی کو۔۔۔۔اور پھر لگا دال میں کچھ کالا ہے۔
"مجھے لگ رہا وہ کسی خاص سلسلہ میں ملنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ کہ ایک بار نہیں دو تین بار باتوں کے دوران ان کے دعوت کا بولا۔ "
"انکل چکر لگانے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔" آپ ایک بار ہو کے آئیے گا۔
"انشاللہ جائیں گے ہم۔ میں کہہ رہا تھا کہ اب تم دونوں بھی اپنا کچھ سوچو۔ اگر کوئی پسند ہے تو آگاہ کرو ہمیں۔۔۔ تا کہ پھر ہم مانم کے بارے میں بھی غور کریں۔" احمد صاحب کسی سوچ کے تحت بولے تھے۔
"ہاں تو انکل میں تو کہہ رہا ہوں۔ فیصل انکل کے گھر جاتے ہیں اور زویا کا ہاتھ مانگ لیتے ہیں زاویار کے لیے۔"
زاویار نے ایک جھٹکے سے ہادی کی جانب مڑا تھا ۔ جیسے اسے یقین نا آیا ہو وہ ایسے منہ کھول دے گا۔
"زاویار کیا تم اور زویا پسند کرتے ہو ایک دوسرے کو؟ "  موم کی خوشی سے بھرپور آواز آئی۔ انہیں تو سنہرے بالوں والی چہکتی ہوئی زویا ویسے ہی اتنی پسند آئی تھی۔ مانم دلچسپی سے دیکھ رہی تھی۔ 
"ان کی بیٹی کنواری ہے وہ کیوں ایک شادی شدہ  مرد اوپر سے ایک بچی کے باپ سے بہائیں گئے۔" زاویار کی سنجیدہ سی آواز گونجی تو ایک دم دونوں گھروں میں سناٹا سا چھا گیا۔
ہادی نے دانت پے دانت جماتے خود کو کچھ کہنے سے باز کیا۔
"ڈیڈ، موم ہم لوگ کل جا رہے ہیں کیمپنگ کے لیے۔ اور بات سنیں انکل کی جانب جائیے گا۔ وہ آپ کو فیملی اچھی لگی تو اپنے طرف کی انوائیٹ کرتے آئیے گا۔" جب کافی دیر کوئی نا بولا تو زاویار ہی دوبارہ سے ماحول ٹھیک کرنے کی کوشش کی۔
"ہممم۔۔۔چلو بچو تم دونوں بہن کو کمپنی دو ہم  لوگ اب نکل رہے ہیں۔"
"ناراض ہو گئی ہے آپ کی گم شدہ بیگم کی سوتن۔ مانم نے ہادی کو مخاطب کیا۔
"سچ جب اِسے کڑوا لگتا تو ایسے ہی اچھلتا ہے یہ، میں پاگل ہوں جو اسے سمجھانے میں اپنا وقت برباد کرتا ہوں۔" ہادی کا موڈ سخت آف ہو چکا تھا۔
"میں شادی شدہ تھا ہادی۔۔۔تمہیں کیوں سمجھ میں نہیں آتا۔" زاویار نے ہاتھ کو مٹھی میں بند کیا۔ جیسے ابھی ہادی کچھ اور بولا تو ابھی مکا اس کے منہ پہ جھڑ دے گا۔
" آپ شادی شدہ تھے۔۔۔مانم نے "تھے" پر زور دیتے بات جاری رکھی۔ آئرہ بھابھی اورہماری گڑیا دونوں اللہ کی امانت تھی اللہ نے واپس لے لی۔ آپ کو اب اپنی زندگی میں آگے بھرنا چاہیے۔"
زاویار کے دل میں ٹھیس سی اٹھی۔۔۔ اس نے گہرہ سانس لیا۔ دونوں ہی اسے بہت غور سے دیکھ رہے تھے۔ پھر ہادی بولا۔
"ایمان سے بتانا زاویار احمد۔۔۔تو زویا سے محبت کرتا نا؟ "
"نہیں میں نہیں کرتا۔" وہ سمبھل چکا تھا۔
"جھوٹا ہے یہ جھوٹ بول رہا۔" ہاتھ لمبا کرکے مانم کو دیکھتے بولا۔۔"میں نہیں مانتا کہ تو اس سے محبت نہیں کرتا۔ "
"ہاں میں نہیں کرتا اس سے محبت کیونکہ میں اس سے عشق کرتا ہوں۔۔۔سن لیا تم دونوں نے؟ یا کچھ اور بھی بتاؤں" زاویار کہتے ہی اٹھ کے چلا گیا۔
"اوئے ہوئے۔۔۔" پیچھے سے ہادی آواز کے ساتھ مانم کا نعرہ سنائی دیا تھا۔ مانم تو دونوں ہاتھ منہ رکھے بے یقین سی بیٹھی تھی۔ جیسے یقین نا آرہا ہو کہ کھڑوس زاویار احمد بھی ایسا اعتراف کر سکتا۔  کچھ دیر سکتے میں رہنے کے بعد بولی۔
"اوئے ہادی بھیا آپ بھی جا رہے ہیں کیمپنگ کے لیے؟ "
"نہیں میں چھٹی پے ہوں۔ " ہادی کی مسکراہٹ اداس سی تھی۔
"کیوں؟ "
"بس تھوڑے بہت کام ہیں ہاں مجھے، اس لیے میں نے ہسپتال سے چھٹیاں لیں ہیں۔ " ایک ہی جملے میں اس نے بات کو سمیٹا۔
مانم سمجھتے ہوئے اثبات میں سرہلایا۔
" گڑیا اسائمنٹ کمپلٹ کر لو کال نا بند کرنا۔" میں زرا زاویار پاس جا رہا ہوں۔
مانم مسکراتے اثبات میں سر ہلایا اور دوبارہ سے اپنی کتابوں کی جانب  متوجہ ہو گئ۔
ہادی زاویار کے کمرے میں  داخل ہوا تو زاویار واش روم سے باہر نکلتے سنگار میز کے سامنے آیا برش اٹھا کے بالوں میں پھیرتے بولا۔ "کیا کچھ ایسا ہے جو تم نے مجھ سے چھپایا ہو، یا مجھے بتانا چاہتے ہو؟"
"جب سے اسلام آباد سے واپس آئے تھے تب سے بتانا چاہ رہا تھا۔ مگر تمہارے سامنے میں ایک کے بعد ایک آزمائش آتی گئی۔" وہ آسودگی سے مسکرایا۔ ہادی کو تکلیف میں دیکھنا کتنا تکلیف دہ تھا نا زاویار احمد کے لیے۔
اب ہادی چلتا وہیں سنگھار میز کے کونے کے ساتھ ٹیک لگاتے اپنی بات جاری رکھی۔ "پیچھلی بار جب ہم اسلام آباد گئے تھے تو تب میں اویس کے چھوٹے بھائی سے ملا تھا۔"
"کس سلسلے میں؟ "
"جب تم زویا کو لے کر گئے تھے اس کے بعد میں اس سے ملنے گیا تھا۔ اس نے یونیورسٹی میں مانم کو پروپوز کیا تھا۔ "
زاویار کا بالوں میں برش کرتا ہاتھ رک گیا تھا۔ اب کے پورا ہادی کی جانب متوجہ ہوا۔
"کیا اس نے سب کے سامنے۔۔۔ ہادی اس کے بات پوری ہونے سے پہلے ہی کاٹ دی۔ "نہیں اس نے ایسا کچھ نہیں کیا اس نے بس مانم سے کہا کہ وہ اپنے پیرنٹس کو ہمارے ہاں بھیجنا چاہتا ہے۔ "
"اور مانم نے کیا کہا؟ مانم بھی پسند کرتی ہے اسے؟ "
"مانم نے اسے جواب نہیں دیا، مجھے بھی بتانے سے ہچکچا رہی تھی، اور پاگل نے رو کے بھی برا حال کیا تھا تبھی تو میں نے اسلام آباد جانے کا پلین بنایا تھا۔ خیر ان شارٹ۔ اول تو وہ فیملی ہماری جاننے والی ہے۔ دوم وہ لڑکا مانم کو واقعی خوش رکھے گا۔ میں اس سے ملا تھا اس کی آنکھوں میں صاف صاف لکھا تھا۔ وہ ہماری بہن کو دنیا کی ہر خوشی دے گا۔ "
ہادی کے خاموش ہونے کے بعد کمرے میں کافی دیر خاموشی رہی تھی۔ پھر باہر سے مانم کی آوازیں آنے لگیں۔ "زاوی۔۔۔بھیا ہادی بھیا میں اکیلی بور ہو رہی ہوں کہاں ہیں۔" اس کی آواز سنتے ہی زاویار باہر کی جانب بڑھتے بولا۔ "آ جا باہر چلتے ہیں مانم پاس۔"
"انکل آنٹی کے سامنے وہ شادی شدہ والی بکواس کرنے کا مقصد ؟" ہادی اس کے پیچھے باہر نکلتے گویا ہوا۔
میں نہیں چاہتا وہ ابھی امید لگایں۔۔۔ میں نہیں جانتا زویا کا سچ جاننے کے بعد کیسا ری ایکشن ہو گا۔
"اب کیمپنگ کے لیے جا رہے ہو تو اسے اچھے سے ٹریٹ کرنا۔"
"ہاں جی پہلے تو میں بندوق لے کے اس کے سر پر ہوتا ہوں نا۔" زاویار تو باقاعدہ برا ہی مان گیا۔
"اس سے کم  ری ایکشن بھی نہیں ہوتے تیرے۔"
"ہادی میں نے تیرا نا منہ توڑ دینا۔ "
وہ دونوں پھر سے شروع ہو چکے تھے اور مانم دوسری جانب ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے بارہ بجے وہ اپنے کمرے میں موجود بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے ناول پڑھنے میں مصروف تھی، وہ بہت انہمناک سے ناول پڑھنے میں مصروف تھی، اتنی کے اسے اندازہ بھی نہ تھا کہ وہ اپنے آس پاس کتنا گند پھیلا  چُکی ہے ، اپنے دائیں طرف پیزے کا کھلا ڈبہ رکھے، بے دھیانی میں کیچپ ڈالتے اسے اندازہ بھی نہیں ہوا تھا کہ وہ آدھی سے زیادہ کیچپ بیڈ پہ بھی گرا چکی ہے، دو سے تین کوک کے خالی کین بیڈ کے دائیں بائیں بکھرے ہوئے تھے ، وہ ہر کام کر سکتی تھی ، ہر چیلنج قبول رکھنے کی ہمت رکھتی تھی ،سوائے ایک کام کے ، اور وہ ایک کام "صفائی"، سلیقے سے رہنا ، مجال ہے جو زویا فیصل کبھی ڈنگ سے نفاست سے رہنا سیکھ لے ، وہ اسی طرح ہر چیز سے بے خبر کتاب میں گم تھی، جب اچانک اسکا فون زور و شور سے بجنے لگا۔

بیل کی آواز پہ اسنے بدمزہ ہوتے کتاب سائیڈ پہ رکھی اور فون پکڑے کالر آئی ڈی چیک کی ، اسکرین پہ  "Mental patient "  کا نام جگمگا رہا تھا۔
"اسے حیرت کا جھٹکا لگا کہ کھڑوس کو اس وقت کونسا کام آن پڑا تھا اس سے ؟ یا اِلٰہی خیر "۔ حیرت پہ قابو پاتے اسنے کال یس کی ۔

"اسلامُ علیکم ، بہت جلد نہیں فون اُٹھانے کی زخمت کرلی آپ نے ؟" حسب عادت سلام کہتے ہی وہ اس پہ برس پڑا۔

"و علیکم اسلام ، زرا ٹائم دیکھ کے بتائیے گا ، کہ یہ رات کا کونسا پہر ہے ؟ " وہ دانت پیس کہ بولی۔

"بارہ بج رہے ہیں ، جیسے کہ آپکی شکل پہ چوبیس گھنٹے بجے رہتے ہیں" وہ جی کڑا کے بولا۔

"بلکل بارہ بج رہے ہیں ، اور عموماً اس وقت شریف لڑکیوں کے سونے کا وقت ہوتا ہے، اور میری شکل پہ بارہ صرف آپ کو دیکھ کے ہی بجتے ہیں " وہ بھی زویا تھی اینٹ کا جواب پتھر سے دینا جانتی تھی۔

"بلکل بجا فرمایا آپ نے یہ عموماً نہیں حقیقتاً شریف لوگوں کے سونے کا وقت ہوتا ہے ، لیکن صرف شریف " وہ اپنی بات پہ زور دیتے ہوئے بولا۔

"کیا مطلب ہے آپکی بات کا میں شریف نہیں ہوں ؟"وہ تنک کے بولی۔

"مس زویا آپ کچھ بھی ہوسکتی ہیں کچھ بھی لیکن ! وہ چند پل کے لیے رُکا
شریف؟ کبھی نہیں !  وہ ٹھہر ٹھہر کے بولتا اسے آگ لگا گیا تھا۔

"آپ نے اسوقت صرف مجھے بے عزت کرنے کے لیے کال کی ہے؟” وہ دانت کچکچا کے بولی۔

"نہیں آپکو آگاہ کرنے کہ لیے کہ کل ہماری ٹیم کیمپ لگانے سوات کی طرف روانہ ہوگی ، صبح وقت پہ ہسپتال پہنچ جائیے گا " وہ اسے آگاہ کرتے ساتھ تنبیہ کرنا نہیں بھولا تھا۔

"میں ہمیشہ وقت پہ پہنچتی ہوں آپکی گھڑی کا ٹائم ہی کچھ زیادہ فاسٹ چلتا ہے " وہ سارا مدعہ اسکی گھڑی پہ ڈال گئ تھی۔

"جی جی بلکل زویا ، ہسپتال کے تالے بھی صبح سویرے جاکے آپ ہی کھولا کرتیں ہیں ، اتنی جو وقت کی پابند ہوئیں " وہ گہرا طنز کرنا نہیں بھولا تھا۔

"الحمداللہ " وہ فخر سے گردن کڑا کے بولی۔

فون کے دوسری طرف وہ اسکی ڈھٹائی پہ سر ہلا کے رہ گیا۔

"اچھا سنیں " وہ ایکدم بے حد نرمی سے بولی۔

"جی سنائیں " اسکی نرمی پہ خوش ہوتا وہ بھی آرام سے بولا۔

"ہادی بھی چل رہا ہے نا؟"۔ معصومیت سے پوچھا گیا تھا۔

"بیرہ غرق " ۔ بے ساختہ زاویار کے منہ سے نکلا تھا۔

"کیا؟” وہ اچنپے سے بولی۔

"نہیں زویا ہادی نہیں جائے گا ، وہ اسلام آباد ہے ، اور اب اپنے ذہن پہ زیادہ زور نہ ڈالیں اور سوجائیں اتنی دیر تک جاگنا جانتی ہیں صحت کے لیے مناسب نہیں ، ایک ڈاکٹر ہوکے آپ اسوقت تک جاگتی ہیں "۔ وہ اپنی عادت سے باز نہیں آسکتا تھا۔

"آپ کا پروفیشن کیا ہے زاویار "۔ اسکی بات کاٹتے اسنے پہلی بار سنجیدگی سے زاویار کا نام پکارا تھا۔

"آپ کا دماغ تو نہیں چل بسا جانتی بھی ہیں ، میں ایک ڈاکٹر ہوں ، پھر بھی پوچھ رہی ہیں " وہ قدرے جھنجھلا کے بولا۔

"اور ایک ڈاکٹر ہوکے آپ اسوقت تک جاگتے ہیں ؟" دانت پیس کے کہتی وہ اسکا جملہ اسے لٹا چکی تھی۔

فون کے دوسرے پار زاویار نے موبائل کو کان سے ہٹا کے یوں گھورا جیسے کہ وہ براہ راست زویا کو گھور رہا ہو، پھر دوبارہ سے فون کان کے ساتھ لگاتے ہوئے بولا۔

"سوجائیں زویا ، فی امان اللہ " اسے خداخافظ کہتے وہ فون کٹاک سے بند کرچکا تھا۔

"کھڑوس ، دماغی مریض "زیر لب اپنے پسندیدہ القاب سے اسے نوازتی وہ دوبارہ کتاب کھول کے بیٹھ گئ ، اسکی بھلا سے وہ تو اپنی مرضی سے سوئے گی ، اور یقیناً اپنی مرضی سے ہی اٹھے گی ۔
***********************
یہ منظر ہسپتال کی پارکنگ ایریا کا تھا ، معمول کے مطابق آج وہاں بہت ہل چل تھی ، کیمپ لگانے انکی ٹیم آج سوات کی جانب روانہ ہورہی تھی ، پارکنگ ایریا میں دو ایس - یو-ویز کھڑی تھیں ، جن پہ سوار ہو کے وہ پوری ٹیم سوات کے لیے روانہ ہونے والی تھی ، صبح کے ۹ بج رہے تھے ، انہیں دس بجے کیمپ کے لیے روانہ ہونا تھا ، سارا اسٹاف اپنے اپنے گیجٹس اور سامان کو ایس-یو-ویز میں لوڈ کر رہا تھا ، کیمپ کی ساری زمہ داری زاویار کے حوالے تھی ، یہ کیمپ اسی نے آرگنائزڈ کیا تھا ، پیلی گول گلے والی ٹی شرٹ کے اوپر بلیک جیکٹ، ساتھ ہم رنگ جینز پہنے ، بالوں کو ایک جانب سلیقے سے سیٹ کیے ، آنکھوں پر کالے فریم کا چشمہ چڑھائے ، پیروں کو وائٹ جاگرز میں مقید  کیے، وہ دلوں کے تار ہلا دینے کی حد تک پرکشش لگ رہا تھا ، وہ اسٹاف کے ساتھ ایس -یو -وی میں روانہ ہونے کے بجائے اپنی گاڑی میں جانے کو ترجیح دے رہا تھا ، گاڑی کی بیک کھولے اپنا سر جھکائے وہ اپنا سامان سیٹ کررہا تھا ، ہر دو منٹ بعد ایک سر سری سی نگاہ اپنی کلائی میں پہنی ورسٹ واچ پر دوڑاتا ، ابھی روانہ ہونے میں ایک گھنٹہ باقی تھا ، وہ سکون سے اپنے کام میں مصروف تھا ، آنے سے پہلے وہ زویا کو وقت پر پہچنے کی تعقید کرنا نہیں بھولا تھا ، واٹس ایپ پر اسکے لیے مسیج چھوڑتا وہ صبح سویرے ہی یہاں پہنچ چکا تھا ، اسے باقی کے انتظامات دیکھنے تھے ، اسنے زویا کو بھی اپنے ساتھ گاڑی میں چلنے کا کہا تھا ، اور زویا نے ایک بھی سیکنڈ کی تاخیر کیے بغیر فوراً سے ساتھ چلنے کی حامی بڑھ لی ۔

وہ سر جھکائے اپنے کام میں مصروف تھا ، جب کان میں پڑنے والی آواز پر وہ کرنٹ کھا کے سیدھا ہوا۔

"اسلام ُ علیکم ڈاکٹر زاویار احمد "اسکے بلکل سامنے وہ کھڑی تھی ، گھٹنوں تک آتی بے بی پنک رنگ کی شارٹ فراک کے ساتھ نیلی جینز پہنے ، پیروں کو بے بی پنک جاگرز میں مقید کیے ، گلے میں مفلر کے سٹائل میں سٹالر ڈالے ، بالوں کو اونچی ٹیل پونی میں مقید کیے ، آنکھوں پر کالے رنگ کا شیڈ چڑھائے، وہ بہت پرکشش لگ رہی تھی ، ایک ہاتھ میں اپنا ہینڈ کیری تھامے ، کندھے پر اپنا بیک لٹکائے اور اسی ہاتھ میں دو مزید بیگ پکڑے وہ زاویار کو ٹھٹکنے پہ مجبور کر گئ ۔

"و علیکم اسلام ڈاکٹر زویا فیصل "۔ وہ اسے سر تا پیر گھور کے بولا۔


"میں حیران ہوں زویا ، وہ رکا اسکی آنکھوں میں واضع حیرت محسوس کی جاسکتی تھی، ایک بھرپور نظر اسکی تیاری کو دیکھ کے اور دوسری نظر اپنی ورسٹ واچ پر دوڑائی جہاں نو بج کر دس منٹ ہورہے تھے پھر بولنا شروع ہوا"۔

"آپ یعنی کے ڈاکٹر زویا پہلی بار زندگی میں پہلی بار وقت سے پہلے پہنچی ہیں از ناٹ دس از اسٹرینج ؟" وہ گاڑی کی ڈگی بند کرتا اسکی جانب آیا۔

زویا نے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔

"پہلے میں سمجھتی تھی آپکو میرے وقت پہ نا پہنچنے سے پرابلم ہے ، آج مجھے اس بات پر یقین آچکا ہے ڈاکٹر زاویار کے آپکو میرے وقت پر پہنچنے سے بھی مسلہ درپیش ہے "۔ اسکے دونوں ہاتھ بیگ تھام تھام کر تھک چکے تھے ، زرا جو اس بے مروت انسان میں احساس نام کی چیز ہو ، بندہ آگے بڑھ کے بیگ ہی اٹھا لیتا ہے ، وہ اگلے الفاظ دل میں ہی بول سکی۔

وہ لب دبا کر مسکرایا تھا ، ہلکا سا سر جھٹک کے وہ اسکے مقابل آیا۔

"نجانے آپ میرے منہ سے کتنی بار سننا چاہتی ہیں زویا ، میرا سارے کا سارا مسلہ ہی تو آپ ہیں "۔ لوگوں کو زچ کرنا کوئی زاویار احمد سے سیکھے ، اسکی تھکن کا نوٹس لیے وہ پھر بھی ڈھیٹ بن کے کھڑا رہا ، مجال ہو جو اسنے بھی آگے بڑھ کے بیگ تھامنے کی کوشش ہی کی ہو۔

اسے ایک زبردست گھوری سے نوازتی وہ آگے بڑھی راستے وہ کھڑا تھا کسی دیوار کی طرح۔

"ہٹیے سامنے سے "۔ اسنے جھنجھلا کر کہا۔

"کیوں؟"۔ وہ بھی انجان بن کے مسکرا کے اسے زچ کر رہا تھا ، جانتا تھا وہ گاڑی میں اپنا سامان رکھنا چاہتی ہے ۔

"آپ میں تو شرم نام کی چیز ہے نہیں ایک لڑکی کب سے دونوں ہاتھوں میں بیگ تھامے کھڑی ہے انسان میں تھوڑی سی بھی مروت نام کی چیز ہو نہ تو وہ آگے بڑھ کے بیگ ہی تھام لیتا ہے ، اب ہٹیے بھی بھئی سامنے سے "۔ وہ اسے زچ کر رہا تھا اور وہ ہورہی تھی۔

"میں بے مروت آدمی ہوں "۔ وہ تپا دینے والی مسکراہٹ چہرے پر سجائے ، ایک اینچ بھی اپنی جگہ سے ہلے بغیر بولا۔

"جانتی ہوں ، بے مروت آدمی کے نام پر تختی بنا کے اپنے آفس کے اندر باہر لگا لیں ، باقی سب بھی آپکی حصلات سے واقف ہوجائیں "۔ وہ جل کر گویا ہوئی ۔

"خیر وہ تو میں لگا لوں گا ، آپ زرا بتانا پسند کریں گیں؟ آپ سوات جارہی ہیں یا سوئزرلینڈ ؟" وہ اسکے ڈھیڑ سارے سامان پر چوٹ کرتے ہوئے بولا۔

"جہنم میں ! آپ نے بھی جانا ہے؟"۔ اسکا بس نہیں تھا چل رہا آج زاویار احمد کو ایک دو سنا ہی دے۔

"ولا حول ولا قوة  ، آپ ہی جائیے "، اسے رستہ دیتا وہ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے بولا۔

اور ڈگی کی جانب قدم بڑھاتے زویا مسکرائی تھی ، شیطانی مسکراہٹ ، پورے راستے میں نے آپکی زندگی جہنم نا بنائی تو میرا نام بھی زویا فیصل نہیں ، دل ہی دل میں مسکراتی وہ اپنا ہینڈ کیری ڈگی میں سیٹ کرنے لگی، اور ہاتھ میں تھامے دوسرے دو بیگز اسنے گاڑی کا بیک دوڑ کھول کے بیک سیٹ پر رکھ دیے، دونوں ہاتھوں کو جھاڑتی وہ سیدھی ہوئی ۔

ایک کمی اسے اداس کررہی تھی ، اور وہ کمی تھی ہادی ابراھیم کی ، اسے وہ یاد آرہا تھا ، آہ کاش وہ بھی کیمپ پہ ہوتا کتنا مزہ آتا ، وہ دل ہی دل میں افسردہ ہورہی تھی۔

"اب کونسے ٹراما میں چلی گئیں ہیں ؟" اسکی شکل پر بارہ بجتے دیکھ کر وہ بولے بنا نہیں رہ سکا۔

اسے گھورتی وہ گاڑی کا فرنٹ ڈور کھولتے دھب سے اندر بیٹھ گئ۔

نظر انداز ہوجانے پہ وہ بس نفی میں سر ہلا کے رہ گیا۔

"ٹھیک دس بجے وہ دونوں ایس -یو - ویز اور زاویار کی کار اپنے سفر پر روانہ ہوچکی تھیں"۔
****************

ماضی۔

انوشے کی گمشدگی کو دو سال ہوچکے تھے ، اسکے والدین کو اس دنیا سے رخصت ہوئے بھی دو سال ہی بیت چکے تھے ، سادہ لفظوں میں اسکی دنیا کو اجڑے دو سال بیت چکے تھے ، وہ شوخ پن وہ لاابالی پن آج سے دو سال پہلے اسکے اپنوں کے ساتھ ہی مر گیا تھا، وہ اب کبھی کبھی مسکراتا تھا، وہ بھی زاویار کی بدولت وہ اپنے باپ کے بزنس پہ دن رات توجہ دینے لگا تھا، اسے آگے بڑھانے لگا ، ساتھ وہ اپنی میڈیکل کی ڈگڑی بھی مکمل کر چکا تھا ، زاویار کی ہاؤس جاب لگ چکی تھی ، جبکہ وہ اپنے باپ کے کاروبار پہ دھیان دینا چاہتا تھا ، ان دو سالوں میں وہ بہت بدل چکا تھا ، حد سے زیادہ سنیجدہ اور خاموش رہنے والا ، ان ہیزل براؤن آنکھوں میں ہمہ وقت خالی پن رہتا۔
اس وقت وہ آفس میں موجود آفس چییر پہ بیٹھا تھا ، بلیک تھری پیس سوٹ میں ملبوس ، سلکی کالے بالوں کو نفاست سے ایک طرف سجائے ، ہاتھوں میں ورسٹ واچ پہنے ، وہ سنجیدگی سے اپنے سامنے  ُکھلے لیپ ٹاپ پہ کام کررہا تھا ، سنجیدگی اب اسکی ذات کا ایک حصہ تھی ۔ کام کرتے کرتے اسنے ایک بار اپنی ورسٹ واچ کی جانب نظر دوڑائی ، وہاں ایک بج چکا تھا ، اسے ڈھائی پہ مانم کو سکول سے پک کرنے جانا تھا ، اِن دنوں زاویار ہاؤس جاب میں مصروف تھا ، مصروفیت کے باعث وہ مانم کو سکول سے پک نہیں کرپاتا تھا ، تو اسنے یہ ڈیوٹی ہادی کے سر لگادی، ہادی کے لاکھ منع کرنے پہ بھی وہ راضی نہیں ہوا ، وہ جانتا تھا وہ اسے انکار کیوں کررہا ہے ۔

"ہادی ضروری نہیں جو ایک بار ہوا ہے وہ بار بار ہو ، یہ سب نصیب میں لکھا تھا ، اسے ہونا ہی تھا ، کب تک خود سے ناراض رہے گا ، آگے بڑھ ،جانے والے تو چلے جاتے ہیں انکے جانے سے ُ دنیا نہیں ُرکتی، دنیا آگے بڑھ رہی ہے ، تو بھی آگے بڑھ "۔ اسکے سنجیدگی سے کہنے پہ ناچاہتے ہوئے بھی ہادی کو حامی بڑھنی پڑی ۔

ابھی ُچٹی ہونے میں ڈھیڑھ گھںنٹہ باقی تھا ، اور وہ ٹائم دیکھتے ہی اپنی راکنگ چئیر سے اٹھ کھڑا ہوا ، آفس ٹیبل سے گاڑی کی کیز اٹھاتا آفس کا دروازہ دکھیلتا باہر کی جانب بڑھا ، کوئی ورکر اس سے کچھ پوچھتا تو وہ ایک سنجیدہ  نگاہ اس پہ ڈالتے آگے بڑھ جاتا ، وہ ورکرز پہ غصہ نہیں کیا کرتا تھا ، نا چِلایا کرتا تھا، بس ایک خاموش سخت اندر تک اترجانے والی نظر ڈالتا اور مڑ جاتا۔

باہر نکلتے ہی پارکنگ لاٹ سے اپنی بلیک ہلکس نکالتے اسنے گاڑی مانم کے اسکول کی جانب موڑ دی ، وہ روزانہ ڈیڑھ گھںنٹہ پہلے اسے لینے پہنچ جایا کرتا تھا، ہر روز اسکے کان میں ایک ہی فقرہ گونجتا تھا۔

"آج بھول مت جاہیے گا بھیا " ۔
یہ چند لفظوں کی چھوٹی سی سطر اس پر کاری ضرب لگا جایا کرتی تھی۔

ہر چیز کو بھولنے والا ہادی ابراھیم مانم احمد کو کبھی نہیں بھولا تھا ، وہ اسے لینے سب سے پہلے پہنچ جاتا ، دن کی شروعات سے لیکر اسکی چٹی کے اوقعات تک وہ مانم کو ذہن سے نکال نہ پاتا ۔
اب بھی وہ سکول کے پارکنگ لاٹ میں گاڑی کھڑی کیے اسکی چٹی کا انتظار کرنے لگا ، اسے وہ چھوٹی سی گڑیا چند دنوں میں ہی بہت عزیز ہوچکی تھی، اسے دیکھتے ہی وہ مسکرادیا کرتا تھا، اسکی بے رنگ اور خالی زندگی میں مانم رنگ بڑھنے لگی تھی، زاویار کی گڑیا اسے بہت عزیز ہوگئ تھی ، اس چھوٹی سی گڑیا کی ناراضگی سے اسے فرق پڑھنے لگا تھا، شروع شروع میں وہ اسکے ساتھ بھی سنجیدہ رہتا تھا، لیکن اسکی باتیں اسے زیادہ دیر تک سنجیدہ رہنے نہیں دیتی تھیں۔
ڈھائی ہوچکے تھے اب وہ گاڑی سے باہر نکلتا مین گیٹ کے سامنے جا کھڑا ہوا ، چند ہی منٹس کے بعد مانم کندھے پہ بیگ لٹکائے ، اسکول یونیفارم میں باہر نکل رہی تھی، ہادی پہ نظر پڑھتے ہی اسکے چہرے پہ بہت جاندار مسکراہٹ رینگی ، وہ وہیں گیٹ کے پاس کھڑی رہی ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھایا۔جانتی تھی ہادی بھیا خود اسکی طرف آئے گا، اور ایسا ہی ہوا تھا اسے دیکھتے ہی ہادی کے قدم خودبخود اسکی طرف بڑھے تھے ، اس کے کندھوں سے بیگ اتارتے اپنے ہاتھ میں لیتا وہ اسکا ایک ہاتھ تھامے گاڑی کی طرف چلنے لگا ، خاموشی سے اسے فرنٹ سیٹ پڑ بٹھاتے اسکا بیگ پچھلی سیٹ پڑ رکھتے ، وہ گھوم کر ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھ گیا۔

مانم خاموشی سے اسے ڈرائیو کرتے ہوئے دیکھ رہی تھی ، اسکی خاموش نظریں خود پہ محسوس کرتے وہ دھیرے سے مسکرایا۔

"کیسا گزرا میری گڑیا کا دن "؟ لہجے کو ہشاش بشاش بناتے وہ مسکرا کہ بولا۔

"کسی کا سکول کا دن بھی کبھی اچھا گزرا ہے کیا بھیا؟ " میٹرک اسٹوڈینٹ نے خفگی سے پوچھا۔

" کسی سے لڑائی وڑائی ہوئی ہے جو منہ ُپھلائے بیٹھی ہو؟ " وہ موڑ کاٹتے ہوئے بولا۔

"آپکے دوست کے علاوہ میری لڑائی بھلا کسی سے ہو سکتی ہے؟"

"اب کونسی گستاخی ہوگئ میرے دوست سے ؟" وہ ہنوز مسکراہٹ دبائے ہوئے تھا، جانتا تھا ، مانم کی زاویار کے خلاف کبھی نا ختم ہونے والی شکایتیں شروع ہونے والی تھیں ۔

"دن کی شروعات ہوتی نہیں اور آجاتے ہیں میرے کمرے میں مجھ پہ ہی رعب جھارنے"۔ وہ بُرا سا منہ بناتے ہوئے بولی۔

"بیوی سے لڑ کے آجاتا ہوگا"۔ وہ بھی مکمل لطف لیتے ہوئے بولا تھا۔

"نہیں بھیا آئرہ بھابھی اتنی اچھی ہیں ، میرے بھائی میں ہی کوئی خرابی ہے "۔ زرا جو وہ زاویار کی سائیڈ لے لیں ۔

"مانم " ہادی نے اسے ایک گھوری سے نوازا ۔

"بس جاگ گئ اپنی محبوبہ کے لیے محبت ، یہی تک تھی برداشت ؟ میں جو آپ کے سڑے ہوئے دوست کو برداشت کرتی ہوں اسکا کیا ؟ وہ بڑبڑائی ۔

"دوست ہے وہ میرا  محبوبہ  نہیں "۔  

"ایسا کبھی محسوس نہیں ہوا"۔ وہ دھیمی سی آواز میں بولنے سے باز نہیں آئی۔

میں سن رہا ہوں مانم !!!

"اچھا سنیں" وہ گاڑی کا موڑ مڑ رہا تھا ، جب وہ بات بدلتے ہوئے شیریں لہجہ اپناتے ہوئے بولی ۔

"فرمائیں" وہ اسکے لہجے کی مٹھاس کا نوٹس لیے بغیر بولا۔

"مجھے چاکلیٹس کھانی ہیں" وہ اتنی پیاری شکل بنا کے پیار سے بولی کہ ہادی کو اس پہ  ڈھیڑ سارا پیار آیا۔

"بس اتنی سی بات "؟ مانم کی مسکراہٹ ہادی کی کمزوری تھی اور وہ اس چیز کا بھرپور فائدہ اٹھایا کرتی تھی۔

"آپ کی جگہ اگر زاویار بھیا ہوتے تو جانتے ہیں کیا کہتے"؟ وہ شراتی لہجے میں گویا ہوئی۔
 
"جانتی ہو مانم چاکلیٹ کی ایک بائیٹ میں کتنی شوگر ہوتی ہے "۔ وہ دونوں ہم آواز بولے اور پھر ایک دوسرے کی طرف دیکھ کے قہقہ لگا کر ہنس دیے۔

وہ مانم احمد کے ساتھ ایک مختلف شخص بن جایا کرتا تھا، ہنستا مسکراتا ہادی ابراھیم۔

مانم کو ڈھیڑھ ساری چاکلیٹس دلوانے کے بعد وہ اسے گھر ڈراپ کرکے اسنے اپنی گاڑی واپس آفس کی جانب کی موڑ دی۔
اسنے جیسے ہی اپنی گاڑی آفس کی جانب موڑی تھی  ، ایک ہیوی بائیک تیز رفتاری سے اُسکی گاڑی کو کٹ کرتے عین اسکے سامنے آرکی ، اگر وہ وقت پہ بریک پر پاؤں نہ رکھتا تو قریب تھا اسکا بُری طرح ایکسیڈینٹ ہوجاتا ، ٹائروں کے چڑچڑانے کی آواز کے ساتھ اسکی گاڑی ایک جھٹکے سے ُرکی  ، اسنے دانت پہ دانت جما کر اچانک آنے والے طوفان کو دیکھا ، آنے والا کوئی مرد نہیں تھا ، بلکہ کوئی عورت تھی۔

"کیا یہ لڑکی پاگل ہے ؟" غصے سے دانت پیستا وہ بائیک پر بیٹھی لڑکی کو دیکھ کے بڑبڑایا ، اس عورت کی ہادی کی جانب پشت تھی ، اور اپنی دبلی پتلی جسامت کے باعث وہ ایک ٹین ایج لڑکی ہی معلوم ہوتی تھی ، اگر جو وہ آنے والی آفت کو دیکھ لیتا تو اپنے دیے گئے لقب پر ایک سو ایک دفعہ لعنت بھیجتا، دانت کچکچاتے سیٹ بیلٹ اتارتے وہ غصے سے بنبناتا ہوا گاڑی سے باہر نکلا۔

"سنو لڑکی تمہارا دماغ درست ہے ، اگر مرنے کا اتنا شوق ہے تو کہی اور جا کے مرو  ، میری گاڑی سے مر کے میری جان  کا نقصان کیوں کرنے چلی تھی؟ " سرد لہجے میں وہ مقابل پہ برس رہا تھا ، جس نے سر پہ ہیلمٹ پہن رکھا تھا۔

"اتنی خوبصورت لڑکی کا دماغ درست نہیں ہوگا تو کیا ہوگا  پیارے لڑکے ؟ ، اور مرے میرے دشمن "۔سر سے ہیلمٹ اتارتے وہ اسکی جانب رخ موڑ کے مسکرا کے بولیں، بلیک ہڈ ، بلیک جینز اور بلیک ہی ورسٹ واچ پہنے ، بالوں کو باب کٹ دیے وہ ایک پکی عمر کی عورت دکھائی دیتی تھیں، لیکن اپنی جسامت سے وہ اتنی بھی بڑی نہیں دکھتی تھیں۔

انہیں دیکھتے ہی چند منٹ پہلے اپنے دیے گئے لقب پر ہادی ابراھیم نے ایک سو ایک دفعہ لعنت بھیجی۔

"دیکھیں خاتون "۔ وہ فوراً لڑکی سے خاتون پر اتر آیا تھا۔

Call me miss elberd!

اسکی بات کاٹ کے وہ مسکرا کے بولیں۔


یہ خاتون اب اسکا صبر آزما رہیں تھیں ، اسنے خون کے گھونٹ پی کر ایک نگاہ غلط سامنے کھڑی خاتون کے سراپے پر ڈالی۔

"دیکھیں مس ، سامنے سے ہٹیے مجھے دیر ہورہی ہے ، آپکی وجہ سے پہلے ہی میرا بہت قیمتی وقت ضائع ہوچکا ہے " وہ دانت پیس کے بولا۔

"تم جیسے نوجوانوں کو گاڑی چلانے کی تمیز ہوتی نہیں ، پھر اپنی غلطی کا سارا مدعہ ہم جیسی معصوم عورتوں پہ ڈال کر کہتے ہیں ،میرا اتنا قیمتی وقت ضائع کردیا "۔ ساری بات کا مدعہ وہ مزے سے اسکے سر پہ ڈال چکی تھیں۔

وہ مسکرایا تھا ، بڑی کمینی سی مسکراہٹ تھی وہ ۔

" صاف صاف کیوں نہیں کہتیں کہ اس نوجوان لڑکے پہ دل ہار بیٹھیں ہیں ، جبھی تو بات کو طول دیے جارہی ہیں " سنجیدگی کا خول اتار کے بہت عرصے بعد اسنے مسکرا کے طنز کیا۔

"استغفراللہ ، بے اختیار انہوں نے دونوں کانوں کو ہاتھ لگائے ، دکھتے تو بہت شریف ہو "۔ وہ اسے اوپر سے نیچے تک دیکھتے گھور کے بولیں۔

"خاتون کیا آپ نے سن نہیں رکھا؟ وہ تھوڑا سا جھکا تھا انکی طرف

" Don’t judge a book by its cover "
مقابل سیر تھا تو وہ سوا سیر تھا۔

اب کے وہ مسکرائیں تھیں سکون سے ، انہیں یہ دھوپ چاؤں سا لڑکا پسند آیا تھا ۔

"خاصر جواب ہو، نام کیا ہے تمہارا "؟ کمینی سی مسکان کے ساتھ وہ اس سے اسکا نام  پوچھ رہی تھیں، جیسے کوئی جانتے بھوجتے پوچھ رہا ہو۔

"میری خاضر جوابی سے ابھی آپ فیض یاب نہیں ہوئیں خاتون ، رہی بات نام بتانے کی ۔ وہ رکا تھا آہ کیا مسکرہٹ تھی دل موہ لینے والی ، ایسی مسکراہٹ جو اگلے کو شل کردے ، ساکت کردے ، وہ بہت حسین بولتا تھا ٹھہر ٹھہر کے ۔

"تو میں ہر راہ چلتے انسان کو اپنا بایو ڈیٹا نہیں دیا پھرتا"۔ ہولے سے جھک کے کہتا وہ واپس اپنی گاڑی کی جانب مڑ گیا۔

مس ایل پہلی دفعہ کھلکھلا کر مسکرائیں تھیں ، یوں کے جیسے لفظ "بایو ڈیٹا " انہیں کافی لطف دے گیا ہو۔

"سنو ہادی ابراہیم میں جب تمہارے گھر آؤں تو ہاٹ چاکلیٹ تیار رکھنا ، اسکے بغیر میرا دماغ کام نہیں کرتا ، اور جب میرا دماغ کام نہیں کرتا ، تب تک میں ایک لفظ بھی منہ سے نہیں پھوٹتی "۔ مزے سے اسکے نام کو اونچا پکارتے ہوئے وہ اپنا ہیلمٹ پہنتے ہوئے بائیک پہ سوار ہوگئیں۔

اور ہادی ابراہیم کے گاڑی کی جانب بڑھتے قدم ساکت  ہوئے، وہ اپنے نام کی پکار پہ ساکت ہی تو رہ گیا تھا، اپنے شل اعصاب کو قابو پاتے ہوئے وہ پیچھے مُڑا۔

"آپ میرا نام کیسے جانتی ہیں "۔ وہ اونچی آواز میں بولا ۔

"ہاٹ چاکلیٹ "۔ وہ مسکرا کے کہتی زن سے اپنی بائیک بھگا لے گئیں ۔
مس ایل جانتی تھیں ، اگلے کو اگلی ملاقات کی جال میں کیسے پھنسایا جاتا ہے۔

ایک اجنبی خاتون کی زبان سے اپنا نام سنتے وہ گنگ رہ گیا تھا ، یعنی کے یہ ملاقات حادثاتی نہیں تھی ، پہلے سے پلین شدہ تھی ، اسنے کڑھ کے سوچا اور گاڑی میں سوار ہوگیا۔اتنا تو وہ بے وقوف تھا نہیں ۔

آفس جا کے بھی وہ ان خاتون کے ساتھ ہوئی ملاقات کے بارے میں سوچتا رہا ، اسکا دماغ کام سے ہٹ چکا تھا، وہ بیزار سا جنھجھلایا ہوا دکھائی دینے لگا ، پھر سارے کاموں پہ لعنت بھیجتا وہ گھر روانہ ہوگیا۔

***************

دھوپ کی ہلکی ہلکی کرن چھن کے کمرے میں آرہی تھی ، وہ بیڈ پر چت لیٹا ، سیلنگ کو تک رہا تھا، ان گزرے سالوں میں اسکی پرسکون نیند تو جیسے اس سے روٹھ سی گئ تھی ، وہ چت لیٹا گھنٹوں اپنی زندگی کے بارے میں سوچتا رہتا، اس ایک دن نے ہادی ابراہیم کی زندگی کو بدل کے رکھ دیا تھا ، وہ گھنٹوں انوشے کے بارے میں سوچتا رہتا، اسکی گڑیا کہاں ہوگی؟ وہ ٹھیک بھی ہوگی یا نہیں؟ کہی اسکے ساتھ ؟ اس سے آگے کا وہ سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا ، ابراھیم مینشن میں دو سالوں سے کوئی کھل کار کوئی قہقہہ نہیں گونجا تھا، وہ گھر تو جیسے اجار گھر کی مانند تھا ، اسکی آنکھیں سرخ تھیں ، سرخ انگارہ ، وہ اکثر  پوری پوری رات جاگتا رہتا ، انوش کی ، مام کی اور اپنے آئیڈیل ڈیڈ کی تصاویر دیکھتا رہتا ، وہ اداس تھا، وہ ٹوٹ گیا تھا، کہی بہت اندر اسے تکلیف ہوتی تھی، دل کے بہت اندر اسے چھبن ہوتی تھی، اسے کبھی کبھی اس گھر میں سانس لینا محال لگتا تھا، اسکا دم گھٹتا تھا ، شدید ، لیکن وہ بے بس تھا شدید بے بس ۔

وہ چت لیٹا سیلنگ کو تک رہا تھا، دماغ کافی ساری سوچوں میں اٹکا ہوا تھا ، اور نتیجہ کچھ بھی نہ نکلتا ، وہ ٹھنڈی سانس بھرتے بیڈ سے نیچے اترا ، پیروں میں چپل گھسیٹرے وہ واش روم میں گھسا ، چہرے پر پانی کے چھینٹے پھینکے  جیسے خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کررہا تھا، گیلے چہرے کو ٹاول سے رگڑتے وہ واش روم سے باہر نکلا ، ایک ہاتھ سے ٹاول کو چہرے پر رگڑتے موبائل چارجنگ پلگ سے اتار کے وہ نوٹیفیکشن سینٹر میں آنے والے میسجز کو ایک نظر دیکھ کے وارڈ روب کی جانب مڑا ، اب وہ اس میں سر دیے اپنے لیے کپڑے نکال رہا تھا ، آج اتوار کا دن تھا، مانم کو سکول سے پک کرنے کی ذمہدداری بھی نہیں تھی ، اور آفس بھی بند تھا ، وہ آج گھر پہ رہنا چاہتا تھا ، کچھ وقت اکیلے رہنا چاہتا تھا، لیکن وہ نہیں جانتا تھا یہ تنہائی اسے بری طرح ٹارچر کرنے والی ہے ، وہ تمام شرٹس کو اِدھر اُدھر کرکے دیکھ رہا تھا کہ اچانک اسکے ہاتھ رک گئے اسکی نظر بلیک ہڈ پر پڑی ، زہن کہ پردوں پہ اسکی معصومانہ آواز گونجی ۔وہ ڈریسنگ کے سامنے کھڑا تھا ، بلیک ہڈ ، بلیک جینز پہنے ، وائٹ جاگرز پیروں میں مقید کیے ، وہ برش پکڑے بالوں کو جیل کی مدد سے ایک طرف سیٹ کررہا تھا، اسکے ساتھ بلیک گھٹنوں تک چھوتی فراک میں ملبوس انوشے کھڑی تھی ، بالوں کی بریڈ بنائے ، اپنی سیاہ پرکشش آنکھوں میں اشتیاق لیے وہ ہادی کو دیکھ رہی تھی۔

"اتنی غور سے کیا دیکھ رہی ہو گڑیا ؟" بالوں میں برش چلاتا اسکا ہاتھ تھما تھا ، اسنے ایک نظر انوشے کو دیکھ کے اسکی محویت پہ استفسار کیا۔

"جانتے ہیں بھائی"۔ اسکی آواز کانوں میں رس گھولتی تھی، وہ بے حد پیارا بولتی تھی۔

برش ڈریسنگ ٹیبل پر رکھتے وہ پورے کا پورا انوشے کی طرف گھوما ، اور غور سے اس کے چہرے کے تاثرات کو نوٹ کرتے اسنے سر کو آہستہ سے خم دے کر بات جاری رکھنے کا کہا۔

"آپ پر یہ کلر نظر لگ جانے کی حد تک حسین لگتا ہے "۔ وہ بہت صاف گو تھی ، دل میں جو آتا بول دینے والی ، وہ منافق نہیں تھی، وہ دوسرے بہن بھائیوں کی طرح تنگ نہیں کیا کرتی تھی، وہ کھلے دل سے تعریف کیا کرتی تھی۔

ہادی جانتا تھا اسکی گڑیا بہت معصوم ہے، اسکی معصومانہ بات پر وہ کھلے دل سے مسکرایا تھا، وہ مسکراہٹ بہت اپنی سی تھی، دلکش اور سچی مسکراہٹ۔

"لیکن میری گڑیا پر تو ہر رنگ ججتا ہے ، مجھے میری بہن ہر رنگ میں پیاری لگتی ہے "۔ ٹھہر ٹھہر کر خوبصورت آواز میں تعریف کرتا اسے اپنا بھائی بے حد پیارا لگا تھا، اسکے چہرے پر بڑی خوبصورت سی مسکان آئی ہی تھی کے اگلے پل ہادی کی اگلی بات پر خفگی سے سمٹی۔

"لیکن میں جب بھی خود کو آئینے میں دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے ، ہر رنگ بنا ہی میرے لیے ہے ، میرے حسن کے آگے یہ رنگ بھی پیکے پڑجاتے ہیں کیا نہیں ؟ آخر میں شرارت سے اسکی جانب دیکھتے اسنے تائید چاہی ۔

"انتہا کے خودپسند شخص ثابت ہوئے ہیں آپ ، ہنہہ اپنے منہ میاں مٹھو"۔ خفگی سے اپنے سامنے کھڑے پیارے بھیا کو گھورتے وہ پیر پٹختی اسکے کمرے سے نکل گئ۔

اور وارڈروب کے سامنے کھڑا اب کا ہادی ابراھیم آسودگی سے مسکرایا ، اسکی آنکھیں ضبط کا منہ بولتا ثبوت تھیں، اس ہڈ کو وہی چھوڑے ، اسنے اپنے لیے وائٹ شرٹ اور بلیو جینز نکالیں اور تھوڑی دیر بعد وہ فریش سا وائٹ گول نیک والی شرٹ کے ساتھ بلیو جینز  پہنے باہر نکلا ، نم بال ماتھے پر بکھرے تھے ، وہ عام سے حلیے میں بھی بے حد پرکشش
دکھتا تھا۔

کچھ دیر بعد وہ کچن میں موجود تھا ، وہ جو دیر سے اٹھنے کا عادی تھا ، اب الیلصبح اٹھنے کا عادی تھا ، زندگی کے ان بے رحم دو سالوں نے اسے بہت سے گھڑ سکھادیے تھے، معاشرے میں سروائیو کرنا اسے آگیا تھا۔
کاونٹر کے پاس کھڑا وہ بریڈ پہ جیم لگا رہا تھا ،ناشتے کے نام پہ وہ بس چائے کے ساتھ ایک بریڈ کا سلائس لیتا تھا۔
جب ماں چلی جائے تو سارے نخرے ختم ہوجاتے ہیں ، جب ماں نہ رہے تو ہر کام کی ذمہداری خود اٹھانی پڑتی ہے ، ہر کام کا بوجھ اپنے کندھوں پہ اٹھانا پڑھتا ہے ،جب ماں نہ رہے تو ہر آسائش چھن جاتی ہے ، کسی قیمتی سرمائے کی طرح ، کسی قیمتی شے کی طرح یہ جب ہم سے چھن جاتیں نہ تب احساس ہوتا ہے ، ماں کے وجود کا ، کہ ایک ماں کے بغیر زندگی گزارنا کتنا کھٹن ہے۔
اب بھی وہ بے دلی سے جیم لگاتے سوچ رہا تھا کہ اگر مام ہوتیں توں وہ اسے کتنا ڈانٹتی اسے یاد تھا ایک دفعہ جب وہ یونیورسٹی کے لیے لیٹ ہورہا تھا ، تو جلدی جلدی میں ناشتہ کرنے پہ اسے کتنی جھاڑ پڑھی تھی۔

وہ کچن میں کھڑیں گرما گرم پراٹھے ہاٹ پاٹ میں رکھ رہی تھیں ، جب آندھی طوفان بنا ہادی کچن میں داخل ہوا ، نیلی چیک شرٹ کے ساتھ ہم رنگ جینز پہنے ، کندھے پر بیگ لٹکائے، بالوں کو ایک جانب سیٹ کیے وہ جلدی میں لگ رہا تھا۔
وہ تیزی سے کاونٹر کی جانب بڑھا ، ایک سلائس بریڈ پکڑے اس پہ مکھن لگانے لگا ۔
مسز ابراہیم خفگی سے اپنے بیٹے کی حرکات ملاحطہ فرما رہی تھیں۔
"ہادی " انہوں نے غصے سے اسے پکارا۔
"مام میں آلریڈی بہت لیٹ ہوچکا ہوں ، پلیز بعد میں ڈانٹ لیجیے گا "۔ تیزی سے سلائس کا بائیٹ لیتے ہوئے ، ساتھ گرما گرم چائے کا سپ لیتے ہوئے وہ بے چارگی سے بولا، اور ساتھ ہی چائے کا ادھا کپ کاونٹر پر رکھے وہ قدم باہر کی جانب بڑھانے ہی لگا تھا۔ جب مسز ابراہیم بہت سکون سے اسکا سکون برباد گئیں۔

“ اگر آپ نے ایک قدم بھی گھر سے باہر رکھا تو میں آپ کے ڈیڈ سے کہہ کے آپکے پورے ایک مہینے کی پاکٹ منی بند کروادوں گی"۔ وہ ہاتھ پر ہاتھ باندھے مسکراتی آواز میں سکون سے بولیں تھیں۔

باہر کی جانب بڑھتے ہادی ابراہیم کے قدم زنجیر ہوئے ، وہ بے یقینی سے پلٹا تھا۔

"مام یہ زیادتی ہے "۔ بے بسی سے کہا گیا۔

"اگر اپنے بچوں کا خیال رکھنا زیادتی ہے تو بیٹے زیادتی ہی سہی "۔ وہ بھی اسی کی مام تھیں۔

اور پھر اگلے کچھ ہی منٹوں میں وہ ڈائیننگ ٹیبل پر بیٹھا تھا، اسکے آگے گرما گرم پراٹھا  پیلٹ میں رکھا گیا تھا، جسے وہ بے چارگی سے آرام آرام سے کھا رہا تھا۔

اسکی چائے ٹھنڈی ہوچکی تھی ، ماضی کی یادیں آتی اور اسکی چائے ٹھنڈی کرکے چلی جایا کرتی تھیں، وہ سب بھول کے دوبارہ سے اس منظر میں کھو گیا تھا۔

سربراہی کرسی پر ابراہیم بیٹھے اخبار کا مطالعہ کر رہے تھے، اور بار بار ایک مسکراتی نظر بے چارگی سے ناشتہ کرتے ہادی پر بھی ڈال لیتے۔

"ایک ہی بار کھل کے کیوں نہیں ہنس لیتے آپ "۔ چائے کا گھونٹ بمشکل اپنے گلے میں انڈیلتے وہ خفگی سے بولا۔

"تو بیٹا ایک ہی بار میں سن کیوں نہیں لیتے آپ"۔ انکے لہجے میں بھی شرارت صاف واضع تھی۔

"آپکی بیگم پیار سے بولیں تو سنوں نا، انہیں تو بس دھمکی دینا آتی ہے "۔ انکے دائیں جانب کرسی پر بیٹھتیں مسز ابراہیم کو دیکھتے وہ برا سا منہ بنا کے بولا۔

"میری بیگم کی دھمکیاں عام نہیں بڑی جاندار ہوتیں ہیں ، یہ میں نہیں میرا بچیس سالہ تجربہ بول رہا ہے "۔ وہ مسکرا کے ایک نظر اپنی گھورتی ہوئی بیوی کو دیکھتے ہوئے بولے ۔

"ابراہیم خاموشی سے اخبار پڑھیے ، ورنہ مجھے آپکی اخبار کو آگ لگانے میں ایک سیکنڈ بھی نہیں لگے گا "۔ وہ انہیں گھورتے ہوئے بولی۔

ابراہیم نے "ٹولڈ یو " والی نظروں سے ہادی کو دیکھا تھا، اور پھر وہ دونوں باپ بیٹا ایک دوسرے کو دیکھ کے قہقہہ لگا کے ہنس دیے ، پہلے تو مسز ابراہیم غصے سے ان دونوں کو دیکھتی رہی پھر سر جھٹک کے مسکرادی ۔

اور کچن میں کھڑے ہادی ابراہیم کے لیے ایک اور سیکنڈ اس گھر میں رہنا محال ہوگیا تھا، اسکی آنکھیں سرخ انگارہ ہورہی تھیں، وہ ضبط کے آخری مراحل میں تھا، کچھ دیر بعد وہ گاڑی کی کیز اٹھاتا باہر نکل رہا تھا ، ابھی اسنے مین گیٹ کھولا ہی تھا کہ سامنے وہ خاتون کھڑی تھیں، وہ کل والے حلیے میں تھیں ، شاید وہ خاتون بلیک سے آبسیسڈ تھیں ، وہ بس سوچ ہی سکا ، وہ حیران تھا اور پریشان بھی آخر اس خاتون کو انکے گھر کا ایڈریس معلوم کیسے ہوا۔

"میرے گھر تشریف لانے کا مقصد؟"  ماتھے پر بل ڈالے وہ بنا کسی لگی پٹی کے بغیر بولا۔

"ہاٹ چاکلیٹ"۔ وہ بھی مسکرا کے صرف دو لفظ ہی بولیں تھیں۔

"دکھنے میں اتنی چول لگتی تو نہیں ہیں "۔ وہ انہیں ایسے دیکھ رہا تھا جیسے کوئی عجیب نمونہ دیکھ لیا ہو۔

"لڑکے کیا تم نے ُسن نہیں رکھا " وہ زرا سا بلکل زرا سا اسکی طرف جھکی تھیں۔

Don’t judge a book by its cover .
الفاظ واپس لوٹانے میں سامنے کھڑی خاتون ماہر تھیں۔

اس نے انہیں ایک ذبردست گھوری سے نوازا۔

"آپ نے میرا نام اور گھر کا پتہ کیسے معلوم کیا ؟" وہ وہی دروازے کے ساتھ ہاتھ باندھ کہ کھڑا ہوگیا۔

"اصولاً اگر کوئی مہمان آپ کے گھر تشریف لے آئے تو پہلے اسکی تواضع کی جاتی ہے کوئی خاطر مداری کی جاتی ہے ، تم میں کوئی مینرز نہیں؟" دوسرے لفظوں میں وہ اس سے کہہ رہی تھیں ، پہلے ہاٹ چاکلیٹ پھر کوئی دوسری بات۔

"لیکن آپ مہمان نہیں زحمت ہیں ، اور زحمت کی کوئی خاطرمداری نہیں کی جاتی ، بلکہ ہری جھنڈی دکھا کے گھر سے رخصت کیا جاتا ہے خاتون"۔ سامنے بھی ہادی ابراہیم تھا ، وہ زبانوں کی بولیوں میں آنے والا مرد نہیں تھا۔

"مس ایلبرڈ !!! وہ اپنے نام پر زور دیتے ہوئے بولیں ۔

تمہیں میں کہا سے خاتون دکھتی ہوں ؟ " سخت اعتراز کیا گیا تھا۔

"ہر جانب ، ہر نظریے سے آپ خاتون ہی تو لگتیں ہیں خاتون"۔ ہادی تپا دینے والی مسکراہٹ کے ساتھ بولا ۔

"اسی لیے پہلی نظر میں تم مجھے "لڑکی" کہہ کے پکار گئے تھے ۔اگر کوئی اور ہوتا تو اسکی بات پر تپ بھی جاتا ، لیکن سامنے بھی مس ایلبرڈ تھیں جانتی تھیں کس وقت کس کو کس طرح اور کس طریقے سے ڈیل کیا جاتا ہے۔

"پہلی نظر کا دھوکہ "۔ وہ دانت پیس کے بولا۔

"تمہارے ہاں گھر کے اندر بلانے کا کوئی رواج نہیں ؟" اب کے وہ بھی خفگی سے بولیں۔

"غیر عورتوں کو میں گھر میں نہیں گھسایا کرتا خاتون ، اور آپ کیوں میرے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑ گئیں ہیں ؟ " اب کے وہ بھی زچ ہوکے بولا۔

"تمہاری ماں کے عمر کی ہوں ، تم مجھے اندر بلا سکتے ہوں"۔ مس ایل کا اس وقت وہ حصاب تھا مان نا مان میں تیرا مہمان۔

" آپ پلیز جائیے یہاں سے میرا وقت نا برباد کیجیے "۔ اب کے وہ بے حد سنجیدگی سے بولا تھا۔

"تمہاری ان چھوئی چائے کچن کاونٹر پر پڑی ہے وہی گرم کرکے پلادو "۔ اب کے وہ بھی سنجیدگی سے بولیں۔

وہ جو دروازے کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا تھا ، کرنٹ کھا کر سیدھا ہوا ۔
"کون ہیں آپ ؟" اب کی بار اسکا لہجہ بے حد سرد تھا ، چٹانوں جتنا سرد ، کوئی اسکی ذات کو کھوجے اسے یہ چیز گوارا نہیں تھی ہر گز گوارا نہیں تھی۔

انہوں نے بھی ایک ٹھنڈی سانس فضا میں خارج کی۔

"میرا نام مس ایلبرڈ ہے ، بہت کم لوگ مجھے جانتے ہیں اور جو جانتے ہیں وہ مجھے مس ایل کے نام سے پکارتے ہیں ، میں ایک ہیکر ہوں ، ہیکنگ میرا پروفیشن ہے ، میرا جنون ہے ، میں لوگوں کی کھوج لگانے میں ماہر جانی جاتی ہوں ، اور جو ایک بار میری نظر میں آجائے وہ چاہ کر بھی میرے عتاب سے بچ نہیں سکتا تھا ، اور میں ایک ماں بھی ہوں ایک ایسی لڑکی کی ماں جسے اسکی آنکھوں کے سامنے اغواہ کرلیا گیا تھا"۔ آخر میں انکا لہجہ دھیما ہوا تھا۔

"اغواہ کے نام پہ ہادی کے بھینچے لب وا ہوئے ، وہ بے یقین اور دکھی آنکھوں سے انہیں دیکھنے لگا ، کیا وہ جانتی ہیں کہ اسکی بھی کوئی بہن تھی جو اغواہ ہوچکی ہے ؟"۔

"انوشے ابراہیم "۔ ایک لفظ صرف ایک لفظ بولیں تھیں وہ اور ہادی ابراہیم دروازے کے سامنے سے ہٹ گیا تھا، اسنے انہیں اندر آنے کی دعوت دے ڈالی ہو جیسے۔

کچھ دیر بعد وہ لاونج میں بیٹھے تھے ، اور ہادی نے بھی انہیں وہی ٹھنڈی چائے اوون میں گرم کرکے انکے سامنے پیش کی تھی جو وہ ٹھنڈی کر چکا تھا۔

"انتہائی کنجوس واقع ہوئے ہو، اگر جو میں نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمہیں ہاٹ چاکلیٹ بخش دیا تھا ، کم از کم چائے تو تازہ پلا دیتے "۔ وہ  گرما گرم چائے کا سپ لیتے ہوئے بے حد خفگی سے بولیں۔

"میں ایک مجرم کو تازی چائے پیش نہیں کیا کرتا "۔ انکے سامنے سنگل صوفے پر بیٹھتے وہ کندھے اچکا کے بولا۔

"واٹ مجرم ؟" وہ آنکھیں کھولے اپنے سامنے موجود اس لڑکے کو دیکھ رہی تھیں جسے وہ پہلی ملاقات اور اسکی پروفائلنگ کرنے کے بعد کافی سلجھا اور شریف سا نوجوان تصور کررہیں تھیں۔

"ہیکنگ ایک جرم ہے ، ایک ایسا جرم جو لوگوں کی زندگی تباہ کرکے رکھ دیتا ہے ، انکے ذاتی میسجز اور تصاویر اور وائس میلز سب منظر عام پر لا کے یہ ہیکرز کسی کی بھی زندگی کو تباہ کردیتے ہیں"۔ وہ ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے سپاٹ لہجے میں بولا۔

"لوگ ایسی غلطیاں کرتے ہی کیوں ہیں؟ کہ انکے راز منظر عام پر آجائے اور انہیں اپنی زندگی برباد ہوتی نظر آئے؟" وہ خفگی سے بولی۔

"انسان غلطی کا پتلا ہے ، انسان پرفیکٹ نہیں ہوتے وہ جانے انجانے میں فون پر کسی سے بھی نازیبا گفتگو کرجاتے ہیں ، اور پھر جب انہیں احساس ہوتا ہے تو تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے ، لیکن کچھ معاملات اس کے برعکس ہوتے ہیں جانتی ہیں؟ کچھ لوگوں کے دل اللہ پھیر دیتا ہے ، وہ کبھی بھی دوبارہ اس راستے پر اپنے قدم نہیں رکھتے ، اور ایسے میں اگر ہیکرز نامی بلا انکی زندگی خراب کرنے آئیں تو یہ غیر اخلاقی حرکت ہے ، ہمیں دوسروں کے راز فاش کرنے کے لیے پیدا نہیں کیا گیا "۔ وہ بہت پیارا بولتا تھا لیکن اس وقت بات کرتے ہوئے وہ مس ایل کو زہر لگ رہا تھا۔

"میں ایک اچھی ہیکر ہوں ، صرف گھٹیا لوگوں کے راز فاش کرتی ہوں " وہ خود کو ڈیفینڈ کرنا نہیں بھولیں۔

"ہیکرز کبھی بھی اچھے نہیں ہوسکتے مس ایل" اس ساری گفتگو میں وہ پہلی بار مسکرایا تھا ، انہیں ان کے لقب سے پکارتا ۔

"احمق کہی کا "۔ اور یہ وہ پہلی بار تھا جب انہوں نے اسے اس لقب سے نوازا تھا بے بسی سے ، وہ ایسے ہی تو بے بس کردیا کرتا تھا۔

"انوشے کے بارے میں آپ کیا جانتی ہیں؟" وہ اپنی مسکراہٹ لبوں تک روکتے پھر سے اپنے اسی خول میں سمٹ آیا تھا، کیا دھوپ چھاوں سا لڑکا تھا۔

اب کی بار مس ایل سکون سے مسکرائیں تھیں، ایک سپ چائے کا لیتیں وہ کہنا شروع ہوئیں۔

"جیسے کہ ہیکرز بہت اچھے ہوتے ہیں سو وہ اسطرح کی معلومات اکھٹی کرتے رہتے ہیں ، انوشے ابراہیم کو اور کسی نے نہیں بلکہ ملک کے مشہور و معروف بزنس مین دلاور خان نے اغواہ کیا ہے "۔

ہادی ایک دم دونوں ٹانگیں سیدھے کرتا ، آگے کو جھک کے بیٹھ گیا، آنکھیں مزید خون آشام ہورہی تھیں ۔

دلاور خان اس نے یہ نام سن رکھا تھا اور اکثر اس شخص کی ملکی دوروں کی میٹنگز کی نت نئے پراجیکٹس کی وہ تصاویریں اخبارات اور دیگر آرٹیکلز میں دیکھتا رہتا تھا ، لیکن وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اتنا بڑا بزنس مین اس طرح کی گھٹیا حرکت بھی کرسکتا ہے ۔

"اور آپکی بیٹی؟" وہ بہت ضبط سے سوال کر رہا تھا۔

"میری بیٹی بھی اسی کے قبضے میں ہے ، صرف میری بیٹی اور تمہاری بہن ہی نہیں اغواہ ہوئیں بلکہ ہزاروں لوگوں کی بہن اور بیٹیاں اغواہ ہوئی ہیں ، اور سب سے عجیب بات یہ ہے کہ اغواہ کیس پولیس میں درج تو کروائے جاتے ہیں ، لیکن سوشل میڈیا پر انکی ایک خبر نہیں چھپتی جانتے ہو ایسا کیوں ہے ؟ " وہ بہت سنجیدگی سے بول رہی تھیں، کام کے معمالے میں وہ بھی سنجیدہ ہوجایا کرتی تھیں۔

" کیوں؟" وہ بہت غور سے انہیں سن رہا تھا، اور ٹانگ ایسے گیٹ کی جانب کر رکھی تھی کہ یہاں مس ایل اپنی بات ختم کریں اور وہاں وہ جا کے دلاور کا گریبان پکڑ لے۔

"کیونکہ پولیس اپنی ناکامی کا اشتہار نہیں لگوانا چاہتی ، وہ اپنی نا اہلی چھپانے کی خاطر بہت سی بہن اور بیٹیوں کی زندگیوں کو بھی داؤ پر لگادیتے ہیں"۔

"اور انکی بات سنتے ہادی ابراہیم کو یاد آیا کہ ماں باپ کے دنیا سے رخصت ہوتے ہی اسنے پولیس میں انوشے کی گمشدگی کا کیس درج کروایا تھا، اور آج تک اسکی کاروائی نہ ہوسکی "۔

"میں اسے برباد کرکے رکھ دوں گا "۔ وہ غصے اور ضبط کے مارے اٹھنے لگا تھا جب مس ایل نے اسے انتہائی اونچی آواز میں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

"واپس بیٹھو "۔ حکم دیا گیا تھا۔

وہ ناچاہتے ہوئے بھی بیٹھ گیا۔

"انتقام لینے سے پہلے خود کو ھیل کرو ، خود کے ھیلر بنو ، جب تم خود کے ھیلر بن جاو تو میدان میں آنا ، کیونکہ وہ ایک پل کو ٹھہری اور اطراف میں نظر گھمائی ۔ کیونکہ ! جس جگہ سے زخم ملے ہوں وہ جگہ ھیل نہیں کیا کرتی ، بلکہ آپ کی ذات کو قطرہ قطرہ کرکے راکھ بنادیتی ہے ، خود کو راکھ کا ڈھیڑ نہیں بلکہ ھیلر بناؤ"۔ اسکی آنکھوں میں اپنی آنکھیں ڈالے وہ مضبوطی سے بول رہی تھی ۔

وہ پگھل رہا تھا، اندھیری زندگی میں کوئی فلیش کارڈز دکھا رہا تھا، امید کا سرا تھما رہا تھا، اور وہئ بیٹھے اسنے ایک فیصلہ کیا تھا خود سے ، کہ وہ اب ھیلر بنے گا ، اپنی ذات کا ھیلر ۔

"کوئی بھی آپ کے لیے نہیں آئے گا ، کوئی بھی اندھیروں میں ساتھ نہیں دیا کرتا ، کوئی بھی نہیں ، خود کو خود اٹھاو ، کسی کا سہارا تلاش نہ کرو "۔ وہ مس ایل تھیں وہ بہت مضبوط تھیں ، اندھیروں سے نکالنا وہ بخوبی جانتی تھیں۔

"میں خود کو ھیل کروں گا ، میں ان تمام لڑکیوں کو آزاد کرواؤ گا وہ خود سے کہہ رہا تھا، اور مس ایل اسے مسکرا کے دیکھ رہی تھیں ۔

وہ جو خود سے عہد کرنے میں مصروف تھا یکدم رکا ، اور ایک ابرواچکا کر مس ایل کو دیکھنے لگا ۔

"ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟" مس ایل بھی پتلیاں سکیڑ کر بولیں۔

"آپ کو کس نے بھیجا ہے ؟" اتنا سیدھا تو وہ بھی نہیں تھا۔

"میرے باس نے "۔ وہ بھی سادگی سے پلکے چھپکا کے بولیں۔

"اور کون ہے آپکا باس؟"۔

"اس سوال کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتی میں ، لیکن تمہارے بارے میں صرف سرسری سی معالومات سے آگاہ کیا ہے انہیں ، کیونکہ آج کے بعد تم ہمارے انڈر کام کروگے ہم مل کے دلاور کا کھیل برباد کریں گے "۔ سکون ہی سکون تھا وہاں۔

"اور آپکا باس کس چیز کے پیچھے ہے؟ دیکھیں مس ایل میں اتنا سیدھا نہیں ہوں جتنا آپ مجھے سمجھ رہی ہیں ، مجھے اپنے انڈر لینے سے پہلے میں آپکو کچھ شرائط سے آگاہ کرتا چلو ، نمبر ایک اگر کوئی میری کھوج لگائے یہ چیز مجھے سخت ناگوار گزرتی ہے ، ایک سیکنڈ کے لیے وہ انہیں بھی ناگواری سے دیکھتے ہوئے بولا، نمبر دو کوئی میری بہن کا ذکر کسی دوسرے مرد کے بیچ کرے تو اسے میں معاف نہیں کیا کرتا "۔ وہ بول کے واپس ٹیک لگا کے بیٹھ گیا۔

"میرا باس بھی خود میں ایک مسٹری ہے ، انہیں بس دلاور سے غرض ہے ، تم بے فکر رہو وہ انوشے کے بارے میں کچھ نہیں جانتے "اور یہ وہ پہلا جھوٹ تھا جو مس ایل نے پہلی بار اس گفتگو میں بولا تھا۔

وہ فقط سر ہلا کے رہ گیا۔

So now we are the partners right?

وہ مسکرا کے اس سے تائید چاہ رہی تھیں۔

"آپ کے ساتھ پارٹنر شپ بہت صبر کا کام ہے سو یس وی آر"۔ وہ بھی مسکرا کے بولا۔

اور یہ ہادی ابراہیم کے حالات پلٹنے کا وقت تھا ، یہ ہادی ابراہیم کا ھیلر بننے کا وقت تھا، خود کا دوسروں کا سب کا ، وہ ان گزریں سالوں میں ھیلر بن گیا  تھا ، اس نے ابراہیم مینشن بھیچا نہیں تھا ، اس نے اپنے بزنس کے تمام شئیرز بھیچ ڈالے تھے ، اور ایک ایسا جدید گھر تعمیر کیا جو ایک بار دیکھ لے بار بار وہاں جانے کی خوائش کرے ، لیکن وہ گھر اسلام آباد میں واقع تھا ، اور زاویار لاہور میں جاب کررہا تھا اور اسی دوران اس نے بھی اپنی ہاوس جاب لاہور سے مکمل کی، اس نے خود کو مکمل بدل لیا تھا، اس نے گن تھام لی تھی ، سہی استعمال کے لیے ، اس کا ایک خاص لباس تھا ، خاص گیجٹس تھے ، اس نے اپنی اصلی آنکھوں پہ لینز چڑھا لیے تھے ، نیلی خوبصورت مگر نقلی آنکھیں، اور یوں وہ ھیلر بن گیا ، اچانک ایک خاتون کے آنے سے اسکی زندگی یوں پلٹ گئ تھی، اور اگلے کچھ سالوں میں ڈاکٹر ہادی کے نام سے بھی جانا جانے لگا ، اسی ہسپتال میں جہاں زاویار اسکا سینیر تھا ، اور وہئ انہی سالوں میں زویا سے انکی دوستی بہترین سے بہترین ہوتی گئ ۔

********************
آفس کے معمول کے کام جاری تھے۔ وہ ایک فائل پر نظریں جھکائے ہوئی تھی۔ آج صائم بھی اس کے ساتھ آفس آیا تھا۔ اس وقت وہ کونے میں پڑے صوفے پر بیٹھے کوئی پزل گیم سالو کرتے ساتھ ساتھ برگر سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ وہ ابھی آدھا پزل جوڑ چکا تھا جس سے پتا چلتا تھا کہ کوئی گاڑی کی شکل اختیار کرے گا۔ صائم گاڑیوں کا شوقین، بہت دلچسپی ٹکڑے جوڑ رہا تھا۔
دروازے پے ہلکی سی دستک ہوئی اور ماہ نور ایک فائل ہاتھ میں لیے اندر داخل ہوئی۔
میم یہ پیپر پرنٹ اوٹ ہو گئے ہیں اس نے سامنے ایک فائل رکھی۔ انوشے اپنی پاور سیٹ پر ٹیک لگاتے وہ فائل اپنی جانب کھسکائی اور جس پر وہ پہلے کام کر رہی تھی اسےماہ نور کے سامنے رکھا۔ ماہ نور جھک کے فائل پر کچھ سرخ دائرے پر لگے پائنٹ دیکھنے لگی۔
"یہ تو ارمغان انڈسٹریز کے ساتھ ہونے والا پرجیکٹ تھا نا۔"انوشے نے اثبات میں سر ہلایا۔
"میم ان پوائنٹس کو تو فیصل صاحب نے بھی نہیں اٹھایا۔ امپریسو۔" وہ اب بھی صفحات کو پلٹتے انوشے کو سراہ رہی تھی۔
انوشے کندھے آچکاتے مسکرائی۔" ان پوائنٹس کو ہائیلاٹ کر کے ایک نیا پرنٹ آوٹ نکالو۔ اور ارمغان انڈسٹریز کے ساتھ ایک میٹنگ ارینج کرو۔ اور ہاں میں کل فری نہیں ہوں۔ پرسوں کر لو ارینج۔" انوشے ہدایت دیتے ہوئے بولی۔
" میم۔ آپ یہ والی فائل دیکھ لیجیے گا۔" وہ سامنے پڑی فائل کی جانب اشارہ کرتے باہر کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔۔۔
*******************
وہ اپنے بیسمینٹ میں بیٹھیں کسی کتاب کا مطالعہ کر رہی تھیں ، جب سے انہیں اپنی بیٹی کی موت کی خبر ملی تھی ، تب سے وہ کافی  گُم صُم  رہنے لگی تھیں ، اپنے تمام تر گیجٹس جو وہ ہیکنگ کے لیے استعمال کرتی تھیں ، اسے اٹھا کے وہ اسٹور روم میں رکھ آئیں تھیں، وہ سمجھتی تھیں وہ ان آلوں اور اپنے دماغ کی مدد سے اپنی بیٹی تک پہنچ جائیں گی، لیکن کوئی بھی آلہ ، کوئی بھی ٹیلنٹ مرے ہوئے بندے کو واپس نہیں لاسکتا ، جب ہم اپنے اللہ کی طرف لوٹ جاتے ہیں وہاں سے واپسی کا کوئی امکان نہیں رہتا ، مرنے کے بعد ہم سب ایک روز زندہ ہونگے ، اور وہ دن روزِ قیامت کا دن ہوگا۔
وہ بہت انہمناک سے کتاب پڑھنے میں مصروف تھیں ، بلیک ہڈ سر پہ گرائے ، آنکھوں پر نظر والا چشمہ لگائے ، وہ خود کو انگنت سوچوں سے دور رکھنے کی بھر پور کوشش کررہی تھیں ۔
کتابیں انگنت سوچوں سے فرار حاصل کرنے کا بہترین زریعہ ہیں ، انہوں نے کتاب کا اگلا صفحہ پلٹا ہی تھا جب انہیں کسی چیز کی گرنے کی آواز آئی ،
(انہوں نے کتاب دھیرے سے بند کرکے سائیڈ پہ رکھی )۔
ایک بار پھر زور دار آواز کے ساتھ کچھ نیچے گرا تھا۔
( اب کہ وہ ٹھنڈی سانس بھر کہ رہ گئیں )۔
اب دھیرے سے انکے بیسمنٹ کا دروازہ کھلا تھا ، کوئی دبے قدموں سیڑھیاں اتر رہا تھا۔
"تم سیدھے طریقے سے بیل دے کہ نہیں آسکتے ؟" اپنی نششت سے کھڑی ہوتیں وہ اونچی آواز میں بولیں ۔
“مجھ سے سیدھے کاموں کی امید مت لگایا کریں "۔ اسکی بے زار سی آواز پورے بیسمنٹ میں گونجی۔
"بلکل میرا ہی دماغ خراب ہے ، میں کیسے تم سے سیدھے کاموں کی امید لگا سکتی ہوں "۔
"شاباش مس ایل ایسے ہی خود کو یاد کرواتی رہا کریں ، ذہنی طور پہ انسان کو معلوم ہونا چائیے کہ اسکا ذہن کس قابل ہے “۔
انکے سامنے آتا وہ مسکرا کے بولا ، ایک ہاتھ سے ماسک اتار کے سائیڈ پہ رکھتے ، وہ سیدھا کھڑا ہوگیا ، آنکھوں پہ اس وقت کوئی لینز موجود نہیں تھے، وہ اس وقت اپنی قدرتی ہیزل براؤن  آنکھوں کے ساتھ انکے سامنے موجود تھا، بلیک ہڈ پہنے ، بال ماتھے پر گرائے ، وہ بے حد پرکشش دکھائی دے رہا تھا۔
وہ اسے ہی گھور رہی تھیں۔
"آپکے گھر میں خاموشی سے گھسنا مجھے کسی مصیبت سے کم نہیں لگتا ، جگہ جگہ آپ نے سٹیل کے برتن سجائے ہوئے ہیں "۔ اب کی بار اسکی آواز میں واضع جھنجھلاہٹ نمائع تھی۔

اسکی بات پہ وہ پورے دل سے مسکرائیں تھیں۔

"کیوں بھول جاتے ہو، یہ کوئی عام گھر نہیں ہے ، یہ ایلبرڈ کا گھر ہے ، جو اپنا دماغ  استعمال کرنا  بخوبی جانتی ہے ، جگہ جگہ سٹیل کے برتن میں نے تم جیسے برتن کو خوش آمدید کہنے کہ لیے رکھے ہیں ، مجھ سے پہلے یہ تمہارا ستقبال کرتے ہیں اور مجھے تمہارے آنے کی اطلاح پہنچاتے ہیں"۔

"ویری سمارٹ ، اور یہ مجھے برتن کس خوشی میں کہہ رہی ہیں؟ " اسے بلکل ہضم نہیں ہوا تھا انکا اسے برتن کہنا۔

"تمہارے یہاں آنے کی خوشی میں "وہاں بھی اطمینان قابل دید تھا۔

" میں بھی کن خاتون سے بخث کر رہا ہوں " وہ بڑبڑا کر رہ گیا۔

"خاتون کو ایلبرڈ کہتے ہیں " ایک شان سے اپنا نام دہراتی وہ جھولتی کرسی پہ ٹیک لگا کہ بیٹھ گئیں،

"مس ایل" اب کہ وہ دانت پیس کہ بولا۔

"رات کہ اس پہر تمہیں کونسی بے چیبی میرے غریب خانے کھینچ لائی ہے ؟" اب کہ وہ اسے سر تا پیر گھور کہ بولیں۔

"آپ کی یاد مس ایل ، اور دیکھیں میں کامیاب رہا ، آپ بلکل بھی ٹھیک نہیں ہیں ، آپ کی آنکھیں اسکرین دیکھنے کے لیے بنی ہیں ، نا کہ کتاب پڑھنے کے لیے !! انگلی سے سائیڈ پہ رکھی کتاب کی طرف اشارہ کیا۔ انسان دکھ میں اپنی محبوب شے کو خود سے دور کیوں کردیتا ہے ؟ "۔ وہ سکون سے کہتا انکے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا ۔

"کام کی بات پہ آو ھیلر بے ، میرے گیجٹس سے ہمدری تمہیں کب سے ہونے لگی "۔ کبھی جو یہ بندہ سیدھے طریقے سے اپنی بات بتائے۔

"آہ میں اتنا بھی خودگرز نہیں اب"۔ وہ دانت نکوس کے بولا۔

“خودگرز تو ہو "۔ وہ بھی مسکراتی آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولیں۔

"اپنوں کے لیے نہیں "۔ اب کہ وہ سنجیدگی سے بولا۔

"تم مجھے اپنا سمجھتے ہو ؟" لہجے میں ہلکی سی نمی گھلی تھی۔

" اگر اپنا نا سمجھتا تو اتنے دن سے جو میں یہاں چکر لگا رہا ہوں ، وہ نہ لگاتا "۔ تحمل سے انہیں جواب دیتے ہوئے بولا۔

"اور اس پچھلے ایک ہفتے میں تمہیں کبھی میرے گیجٹس کا خیال نہیں آیا ، تو اب سیدھی طرح بتاؤں کونسا کام تمہیں میرے غریب خانے اس وقت کھینچ لایا ہے "۔
وہ مس ایل تھیں اسکی ایک ایک رگ سے واقف ، کب وہ سنجیدہ ہوتا ، کب وہ شراتی انداز اپناتا ، کب وہ اداس ہوتا ، وہ اسے جانتی تھیں۔

"زرا جو آپ میرے  سچے جذبات کی قدر کریں"۔ وہ خفگی سے گویا ہوتے انہیں اس وقت سب سے زیادہ معصوم لگا تھا۔

" جذبات ہی تمہیں یہاں کھینچ لائیں ہیں اتنا تو میں جانتی ہوں، لیکن کس قسم کے جذبات یہ نہیں  جان پاہ رہی ، تو اب بتانا پسند کرو گے ؟ "۔

"اگر آپ جان ہی گئیں ہیں تو آپ سے کیا چھپانا ، مجھے ایک آدمی کا بایو ڈیٹا نکلوانا ہے "۔وہ ٹھنڈی سانس بھر کے اٹھ کھڑا ہوا ۔

"ریحان کا ؟" وہ اسکی بات اچک کے مسکرا کے بولیں۔

شاک سے اسکے لب وا ہوئے ، وہ بے یقین پھٹی پھٹی نگاہوں سے مس ایل کو دیکھنے لگا۔

ایسے نا دیکھو احمق ! تم دونوں کے کان میں موجود دونوں آلے میرے بنائے گئے تھے، اور تمہیں کیا لگتا ہے؟ تمہاری گفتگو سے میں فیض یاب نہیں ہوئیں ہونگیں؟چہرے پہ شرارتی مسکان سجاتے وہ اسے مکمل طور پہ زچ کرچکی تھیں۔

"آپ نے اسکی اور میری شروع سے تمام گفتگو سن رکھی ہے ؟" اسے گہرا صدمہ پہنچا تھا۔

جواب میں انہوں نے مسکرا کے کندھے اچکادیے۔

"یہ ایک نہایت غیر اخلاقی حرکت تھی " وہ دانت پیس کہ بولا۔

"اتنا جل کیوں رہے ہو اس لڑکے سے "۔ اسکی بات کاٹ کے وہ ایک دم سے بولیں۔

چند لمحے وہ یونہی کھڑا انہیں دیکھتا رہا ، ماتھے پر گرے سلکی بال ، اسکی دلکش پرسنیلٹی پر خوب ججتے تھے ، اسنے دھیرے سے آنکھیں بند کرکے چند پل بعد کھولیں۔

"میں اس سے جل نہیں رہا ، میں اپنی تسلی کے لیے یہ سب کررہا ہوں، میں جاننا چاہتا ہوں وہ لڑکا کون ہے ، وہ ماہ نور سے شادی کیوں کرنا چاہتا ہے، وہ واقعی میں اس کے قابل ہے یا نہیں ، یا کہیں وہ دلاور کا بھیجا ہوا بندہ تو نہیں ، میں بس اپنی تسلی کرنا چاہ رہا ہوں"۔ وہ بے حد آہستگی سے کہہ رہا تھا۔

"کیوں وہ تمہاری کیا لگتی ہے، اسکے لیے اتنی فکرمندی کیوں ؟" وہ کچھ اور سننا چاہ رہیں تھیں شاید۔

انکی بات پہ وہ مسکرایا تھا ، دھیرے سے سکون سے ، جیسے وہ مس ایل کی بات کا مطلب اور مقصد جان گیا ہو۔

" کیا وہ ہزاروں لڑکیاں میری کچھ لگتی تھیں؟ ، جن کی ہم نے مدد کی ، جن کو ہم دلاور کے چنگل سے آزاد کروا لائے تھے ؟ نہیں !! اسی طرح شیرنی بھی میری کچھ نہیں لگتی ، لیکن میں پھر بھی اسکی طرف سے اپنا ہر خدشہ دور کرنا چاہوں گا"۔ بہت ہوشیاری سے وہ انہیں انکے سوال کا جواب دے گیا تھا، اگر وہ اسکی رگ رگ سے واقف تھیں، تو وہ بھی انکی ایک ایک ادا سے واقف تھا۔

"ھیلر وہ ایک لڑکی ہے ، اسکی شادی ہونے والی ہے ، ایک لڑکی کی عزت بہت قیمتی ہوتی ہے ، اگر تمہارے دل میں اسکے لیے کوئی جذبات ہیں تو انہیں یہی دبا دو ، اور پیچھے ہٹ جاو ، مت کھوج لگاؤں اسکی ذاتیات کی ، وہ تم سے بدظن ہوجائے گی "۔ وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولیں۔

" آپ کو کیا لگتا ہے ؟ یہ سب میں اسکی شادی رکوانے کے لیے کررہا ہوں ، میں مرسکتا ہوں لیکن کسی عورت کی عزت خراب کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ، میرے لیے عورت کی رضامندی اولین ترجیح ہے ، میں عورت کی "ہاں “ کو "ہاں" اور ناں کو "ناں " سمجھنے والا مرد ہوں، میں ان کمزور مردوں میں سے نہیں ہوں ، جو عورت پہ دباؤ ڈال کے ذبردستی نکاح کرلیتے ہیں ، میری کچھ اپنی حدود ہیں ، اگر ریحان واقعی اسکے قابل ہوا تو میں ایک قدم بھی شیرنی کی طرف نہیں بڑھاؤ گا ، ایک قدم بھی نہیں ، اگر وہ اسکے قابل نہیں ہوا تو میں اسے ایک بار صرف ایک بار آگاہ کرنے ضرور جاؤں گا ، آگے سب اس پر منخصر ہوگا ، وہ اپنی زندگی کا فیصلہ بہتر طریقے سے کرسکتی ہے "۔ وہ بولنے پہ آیا تو خفگی سے بولتا چلا گیا ۔

"مجھے تم پہ فخر ہے ، ریحان کا ڈیٹا میں کل تک نکال لونگی ، تم بے فکر رہو"۔ وہ سرشاری سے مسکرادیں۔

"وہ بھی انہیں دیکھتا تھکن سے مسکرادیا ، اس نے ہمیشہ اپنے دل کو روندھا تھا ، اب ایک بار اور سہی ، کیا فرق پڑھتا ہے "۔
********************


صبح اپنے پر ہر سو پھیلا چکی تھی ، ایسے میں وہ بیسمنٹ میں بیٹھیں خاتون مسکراتی آنکھوں سے کٹا کٹ کی بوڑد پر انگلیاں دوڑا رہی تھیں ، بالوں کا رف سا جوڑا بنائے ، آنکھوں پر نظر کا چشمہ لگائے ، بلیک ہڈ  پیچھے کو گرائے ،دو چار کافی کے خالی مگ جو کہ ٹیبل پر دھرے تھے انکی ساری رات کی مسلسل محنت کا ثبوت دے رہے تھے ، وہ کی بورڈ پر مسکرا کے انگلیاں چلا رہی تھیں ، رات کو وہ جس غم میں مبتلا تھیں ، ھیلر کے نئے کام سونپنے پہ وہ سب بھلائے دل و جان سے ریحان کے بارے میں چھان بین کرنے میں مصروف تھیں ، اور کافی حد تک اپنے کیے ہوئے کام سے خوش بھی دکھائی دے رہی تھیں ، ایک آخر پزل سالو کرتے انہوں نے کٹ سے یو -ایس-بی کمپیوٹر سے کھینچی ، اور دونوں ہاتھوں کو باہم پھنسائے تھکن سے انکے کڑاکے نکالے، ابھی وہ ٹھیک سے خوش بھی نہیں ہوپائی تھیں ، جب انہیں گھر میں پھر سے سٹیل کے برتن گرنے کی آواز آئی ، ایک کے بعد ایک ، ان برتنوں کے گرنے سے آواز پورے گھر میں گونجا کرتی تھی ، انہیں نے نفی میں سر ہلاتے ایک ٹھنڈی سانس فضا میں خارج کی ۔
“دنیا بدل سکتی ہے پر اس انسان کا چور طریقے سے گھر میں گھسنے کا انداز نہیں "۔ وہ بڑبڑائی تھیں ۔
قدموں کی آہٹ اب سیڑھیوں تک پہنچ چکی تھی ، کوئی آہستہ آہستہ سیڑھیاں اتر رہا تھا، وہ ان قدموں کی آہٹ کی عادی تھیں ، وہ پہلا قدم رکھتا نہیں تھا اور وہ جان جاتی تھیں آنے والا کون ہے۔

"صبح بخیر مائی لیڈی " ۔ انکی راکنگ چئیر کے ٹھیک پیچھے کھڑے وہ جھک کے انکے کان میں بولا۔

"صبح بخیر احمق "۔ وہ بھی مسکرا کے بولیں تھیں۔

"کیسی ہیں؟ " ۔ آواز میں ہلکی سی فکرمندی سموئے وہ ان سے دریافت کررہا تھا ، وہ اپنے اسی مخضوص حلیے میں موجود تھا ۔

"جب تک تم میرے ساتھ ہو تب تک کوئی بھی غم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا "۔ اپنی چییر کا رخ اسکی جانب موڑتیں وہ آنکھوں میں نرمی سموئے بے حد دھیمے لہجے میں بولیں۔

وہ ہلکا سا مسکرایا تھا ، وہی اسکی دل موہ لینے والی جان لیوا مسکراہٹ ، پھر جھکا تھا مس ایل کے گھٹنوں کے پاس بیٹھے ، وہ بے حد دھیمی آواز میں بولا۔

"میں جس مس ایل کو جانتا ہوں ، وہ ہر غم سے ھیلر کے بغیر بھی لڑنا
جانتی ہیں ، میں جنہیں جانتا ہوں وہ تو دوسروں کو اندھیروں سے نکال کے روشنی میں لانے کا ہنر رکھتیں ہیں ، انہیں کسی کے سہارے کی ضرورت نہیں"۔ وہ بہت ٹھہر ٹھہر کے صاف گوئی سے بولتا انہیں بے حد پیارا لگتا تھا۔

"احمق "۔ آنکھوں میں آئی ہلکی سی نمی کو پیچھے دھکیلتی وہ مسکرائیں۔

"آ ۔ ام ۔ اہم ۔وہ " کھڑے ہوتے اپنا گلا صاف کرتے کچھ کہنے کی کوشش کررہا تھا۔

وہ اسے ایسے دیکھ رہی تھیں جیسے نظروں میں ہی چبا جانے کا ارادہ رکھتیں ہو۔

"بس بس کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں ھیلر بے ، میں تمہاری رمز رمز سے واقف ہوں، صبح صبح تمہیں ریحان کا تجسس میرے تک کھینچ لایا ہے "۔ زبردست گھوری سے نوازتی وہ واپس اپنے ورک پلیس کی جانب رخ موڑ گئیں۔

"اگر آپ پچاس سال سے زاہد کی نا ہوتیں تو میں اب تک آپ کے گھر اپنا رشتہ بھیج چکا ہوتا مائی لیڈی ، واہ کیا زبردست انڈرسٹینڈگ ہے ہماری ، آپ سے زیادہ مجھے آج تک کوئی نہیں پڑھ پایا "۔ انکی گھوری کے بدلے وہ بے شرمی سے دانت نکوستے ہوئے بولا۔

"اور میں تب بھی تم جیسے احمق کے لیے ہاں نہ کرتی "۔ لب دبا کے اسکرین پر کوئی فائل اوپن کرتے ہوئے وہ بولیں۔

"اسطرح کی گستاخی کی امید میں صرف آپ سے ہی لگاسکتا ہوں "۔ وہ اپنی نیلی آنکھوں سے انکی پشت کو گھورتے ہوئے بولا۔

"ویل ، میں تمہارے سینس آف ہیومر کو داد دینا چاہوں گیں ، تمہارا اندازہ درست تھا ہمیشہ کی طرح "۔ اب کے وہ اسے اپنے ساتھ رکھی دوسری چئیر پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولیں۔

"وہ کلین نہیں ہے ؟" وہ تیزی سے بولتا انکے ساتھ رکھی چئیر کو انکے قریب کیے اسکرین کی جانب دیکھتے ہوئے بولا۔

مس ایل نے مسکرا کے نفی میں سر ہلایا اور ایک فائل کو کلک کرکے اسکے سامنے کیا ، وہ ایک سرمئی ریستوران کی سی سی ٹی وی فوٹیج تھی،اسکے اوپری منزل پر کونے والے ٹیبل پر ریحان مستقیم اپنا سر موبائل اسکرین پر جھکائے بیٹھا تھا ، کوئی خاتون قیمتی لباس میں ملبوس ہاتھ میں قیمتی پرس تھامے اسکے پاس رُکی ، موبائل پر جھکے شخص نے اپنا چہرہ اوپر اٹھایا اور سر سے لے کر پاوں تک ان خاتون کا سرسری سا جائزہ لیا ۔

"غالباً یہ لڑکا ریحان مستقیم ہے "۔ وہ بہت غور سے اس لڑکے کو فوٹیج میں دیکھتے ہوئے بولا۔

"ہینڈسم ہے ناں؟"۔ وہ شرارت سے لب دبا کے وڈیو کو روکتے ہوئے بولیں۔

ایک گھوری سے مس ایل کو نوازتے اسنے دوبارہ وڈیو پلے کی ۔

اب وہ خاتون اسکے سیدھ میں رکھی کرسی پر بیٹھ رہی تھیں، ویٹر پاس آیا اسنے کوئی آرڈر لکھوایا اور چلتا بنا، ان کا چہرہ اب کیمرے میں واضع دیکھا جاسکتا تھا۔

یہ عورت ماہ نور کی تائی ہے "۔ مس ایل نے اسکی معلومات میں اضافہ کیا ۔ اتنی دور سے سی سی ٹی وی فوٹیج میں آواز نہیں ریکارڈ ہوسکی لیکن ایسا لگ رہا ہے یہ عورت ریحان سے کسی قسم کی ڈیلنگ چاہتی ہے ، یہ دیکھو ، مس ایل نے وڈیو کو تھوڑا سا فارورڈ کیا ، جہاں وہ عورت بھاگ کے ریحان کے پیچھے آئی تھی ، اور ریحان اسے غصے میں کچھ کہتے وہاں سے نکل گیا ۔ اور یہی وڈیو ختم ہوگئ ۔

مس ایل نے ھیلر کی جانب دیکھا ، اسکا چہرہ پرسوچ بھی تھا اور کچھ مایوس سا بھی ۔

"لیکن کہی سے بھی اس بات کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا وہ عورت بات کس بارے میں کر رہی تھی ، یہ ایک کمزور ثبوت ہے مس ایل ، اسکے بنا پر میں کچھ نہیں کرسکتا "۔ وہ مایوسی سے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔

وہ اسے ایسے مسکرا کے دیکھ رہی تھیں جیسے کہہ رہی ہوں تھوڑا سا تو میری قابلیت پر بھروسہ رکھو۔

"کیا؟" وہ انکے دیکھنے پر زچ ہوتے ہوئے بولا۔

"لیت می شو یو سمتھنگ ویری انٹرسٹنگ"۔ انکے کہنے پر وہ دوبارہ سیدھا ہوتے بیٹھ گیا۔

" وہ ایک اور فائل نکالتے ، ایک آڈیو پلے کر رہی تھیں ، اسے سنو اب "۔ آڈیو کو پلے کرتیں وہ کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے مسکرا کے بولیں۔

"ممی سے کیا بات ہوئی تمہاری ؟"۔ آڈیو میں ایک بے چین مردانہ آواز گونجی ، ھیلر نے نا سمجھی سے مس ایل کی جانب دیکھا۔

"اسکی تائی کا بیٹا ریحان مستقیم کا دوست ہے "۔

اسکے لب او کی صورت میں کھلے اور وہ پھر سے آڈیو کی جانب متوجہ ہوگیا۔

"دیکھ یار میں تیری ممی سے بتمیزی نہیں کرنا چاہتا تھا، لیکن وہ مجھے کسی ہائیر کیے ہوئے بندے کی طرح ٹریٹ کر رہیں تھیں ۔ ریحان اس لڑکے سے بول رہا تھا۔

"تم کیوں اسکی طرف داری کر رہے تھے ؟ ممی کہہ رہی تھیں تم ایسے بات کررہے تھے ، جیسے تم انکی مدد نہیں بلکہ ماہ نور کی مدد کرنے کے لیے ، اسکے غم مٹانے کے لیے ، اسکو سہارا دینے کے لیے بے تاب ہو "۔ اس لڑکے کی اس بات پر آڈیو میں ریحان مستقیم کے جاندار قہقہوں کی آواز گونج رہی تھی۔

وہ بے چینی سے ایک ٹانگ مسلسل ہلاتے بہت غور سے اس آڈیو کو سننے میں مصروف تھا۔

اویس نامی لڑکا اب ریحان سے اسکا مقصد پوچھ رہا تھا۔

" تمہاری ممی اور بابا کے ساتھ میری ڈیل ہوئی تھی اور انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ جب ماہ نور کو گھر سے نکالا گیا تھا تب آدھے سے بھی کم حصہ دے کر نکالا گیا تھا، لیکن اب جلد ہی وہ اپنا حصہ لینے آپ کی جانب واپس لوٹے گی تماری ممی کا پلین تھا کہ ہم خود ہی انکے پاس جائیں گے اور انکے اوپر اچھے رشتے والا احسان کریں گے ، اور بزنس میں شیئرز والا حصہ آنٹی ( ماہ نور کی ماں ) کو راضی کرکے ہتھیا لیں گے "۔

ھیلر کے لب طنزیہ مسکراہٹ میں ڈھلے تھے ، اس لیے نہیں کہ اسکے ہاتھ کچھ لگ گیا تھا ، بلکہ اس لیے کہ وہ جان چکا تھا ، ریحان مستقیم ایک لالچی شخص ہے ۔

"میں ماہ نور سے شادی کروں گا اور اسکے بعد سب کچھ اسے اپنے سامنے بٹھا کے بتاؤ گا ، اسکو مزید توڑنا چاہتا ہوں ، چلو مانا اسنے ماہ نور مستقیم کو کسی کھاتے میں نہیں لیا ، اب میری منگیتر ہونے کے بعد بھی وہ بے نیاز ہے ، دیکھو اتنا تو حق بنتا ہے نا میرا "۔

آڈیو ختم ہوچکی تھی ، اسکی آخری بات پر ھیلر کے ماتھے پر مزید بلوں کا اضافہ ہوا تھا، اور پھر وہ دھیرے سے مسکرایا تھا۔

"اسکی منگیتر ہے وہ لیکن وہ یہ تک نہیں جان سکا اب تک کہ وہ صرف ریحان مستقیم کو ہی نہیں بلکہ کسی کو بھی کھاتے میں لینے والی نہیں ہے ، میں چند ملاقاتوں میں اسکو جان گیا ہوں مس ایل ، اور میں اس لڑکی کو ان غدار رشتہ داروں کے ہاتھوں ٹریپ نہیں ہونے دوں گا"۔ وہ ایک عزم سے بول رہا تھا۔

کیا واقعی میں ھیلر اس لڑکی کو جان گیا تھا؟ ۔

"اور تم کیا کرنے والے ہو؟"۔ وہ اسکے سامنے یو-ایس-بی بڑھاتے ہوئے بولیں۔

اسنے معصومیت سے کندھے اچکائے ، جیسے کہہ رہا ہو مجھے کیا معلوم ۔

********************
نظریں موبائل پے جھکائے وہ خویلی کے آہنی دروازے کی جانب بڑھ رہی تھی۔ بلیک جینز، وائٹ شرٹ پر بلیک بلیزر پہنے وہ عتماد سے سفید ٹائیلوں پے اپنی کالی ہیل جمائے ہوئے چل رہی تھی۔ اندر آئی تو ملازمہ اِسی جانب آتی دیکھائی دی۔ اُسے آتا دیکھ کر ٹھہری اور پھر سادگی سے مسکرائی تو انوشے بھی مسکرا دی۔
"صائم کہاں ہے؟ "
ہاتھ میں پکڑی فائلز اب اُس نے انوشے کے ہاتھ سے لے لیں اور پھر بتانے لگی۔ "صائم پلے روم میں کھیل رہا۔"
"رویا تو نہیں؟ " جب وہ گھر سے آفس گئ۔ تب وہ سو رہا تھا اس لیے اب سیڑھیاں چڑتے پوچھ رہی تھی۔
"نہیں رویا تو نہیں تھا لیکن شانزے کو بھی نا پا کے موڈ کافی خراب تھا۔ کھانا بھی نہیں کھایا بس کھیل رہا۔" وہ بھی انوشے کے ساتھ بھی اوپر چڑھ رہی تھی۔ سیڑھیوں کے اختتام پے انوشے اس کی جانب گھومی۔
"ایسا کرو فرائز بنا لاؤ صائم کے لیے میں اسے دیکھتی ہوں۔ میرا اور صائم کا ڈریس بھی روم رکھو تھوڑی دیر میں بس ہمیں نکلنا ہے۔" ملازمہ سر ہلاتی واپس مڑ گئ اور انوشے آگے بڑھ گی۔
پلے روم کا دروازہ کھولا۔ وہ ایک وسیع سا چکور کمرہ تھا۔ جہاں اتنے سارے کھلونے رکھے گئے تھے۔ سب ہی صائم کے پسندیدہ۔ ابھی وہ ابان تھوڑے دن پہلے لائی گئی گاڑی چلا رہا تھا۔ وہاں اسی طرح کی ایک کونے میں چار گاڑیاں مزید رکھی گئیں تھی۔ صائم کو گاڑیوں کا کریز تھا وہ ہر کچھ دن بعد ابان کے ساتھ جا کر نئ گاڑی خریدتا۔ دراوزہ کھلنے کی آواز پے اس نے گاڑی کا رُخ دروازے کی جانب کیا۔ انوشے کو کھڑے دیکھ کر مسکرایا پھر چند سیکنڈز میں خفا خفا تاثرات بنا گیا۔
انوشے اس کی حرکت پر بامشکل ہی ہنسی ضبط کی اور آگے بڑھ کے گھٹنوں کے بل اس کے سامنے بیٹھی۔ "اچھا جی میری بلی مجھے ہی میاؤں" اسنے خفا ہونے کا انداز انوشے سے ہی چرایا تھا۔
"ڈونٹ ٹاک ٹو می ماما۔" ماتھے پے بل ڈالے گول گول آنکھیں اپنی گاڑی کے سٹئرنگ جمائیں۔
I just wanna hug my baby.
انوشے نے گھٹنوں کے بل بیٹھتے اسے گلے لگایا۔ 
"او ہو ماما آپکو نظر نہیں آ رہا صائم ناراض ہے۔" وہ اس سے الگ ہوتے بولا۔
"او ہو صائم آپ ناراض ہو؟"  انوشے مسکراہٹ دباتے مصنوعی پریشانی چہرے پر سجائی۔ "اب کیا ماما صائم سے سوری کریں۔؟"
Ooohoo Mama, You don't even know how to convince, it's useless to be angry with you.
(ماما آپ کو تو منانے کا طریقہ بھی نہیں آتا، آپ سے ناراض ہونا ہی بے کار ہے)
وہ افسوس سے کہتے اپنے ننھے ننھے ہاتھ  ہوا میں بلند کر گردن نفی میں ہلا رہا تھا اور انوشے گردن پیچھے پھینک کے ہنستی جا رہی تھی۔"اللہ میرے صائم کتنی باتیں آ گئی ہیں تمہیں۔"
"اللہ میرے ماما آپ اتنی بڑی ہو گی ہیں لیکن ابھی تک آپ کو منانا نہیں آتا۔" صائم گاڑی سے نکلا تو انوشے کھڑی ہو گئی۔
"آپ ناراض ہی نہیں تھے میں کیوں مناتی آپکو؟" انوشے اس کے ساتھ کمرے کی بار کی جانب قدم بڑھاتے پوچھا۔
"فارمیلٹی نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے ماما۔" صائم کی بات پر وہ قہقہہ لگا کر ہنسی۔ "توبہ ہے نا جانے کہاں سے اتنی باتیں آتیں ہیں اس لڑکے کو۔جن کہیں کا!"  وہ بس سوچ کے رہ گئی۔
******************
مس ایل کے گھر سے ثبوت اکھٹے کرنے کے بعد وہ اپنے اپارٹمنٹ میں آچکا تھا ، اپارٹمنٹ آج خالی تھا ، زاویار کیمپ کے لیے روانہ ہوچکا تھا , وہ ہاتھ میں یو-ایس -بی گھماتے مسلسل سوچ میں گم تھا ، صبح سے شام ہو چلی تھی اور وہ تھا کہ کسی نتیجے پر پہنچ ہی نہیں پاہ رہا تھا ، کیسے خبردار کرے ماہ نور کو اس بارے میں ؟ کیسے ؟، اپنی سوچوں سے تنگ آکے اسنے اپنے کان میں وہ آلہ فٹ کیا اور اپنے موبائل میں خاص پروگرام کے ذریعے "اچھی لڑکی" کے نام کے ساتھ کنیکٹ آلے پر رنگ دی ۔بیل جاتی رہی جاتی رہی لیکن جواب ندارد ، کچھ سیکنڈ بعد اسنے دوبارہ سے کوشش کی ، اب دوسری جانب سے ہلکی سی سرگوشی ہوئی۔

"ہیلو"۔ وہ شاید سو رہی تھی یا پھر تھکن کی وجہ سے آواز بوجھل تھی ، وہ سمجھ نہیں سکا۔

"مرحبا ، ھیلر عرض کررہا ہوں "۔ دھیمی سی آواز میں نرمی سے بولتے وہ اپنی ایک ٹانگ مسلسل ہلا رہا تھا۔

"نہ بھی بتاتے تب بھی جانتی تھی کہ کون عرض کررہا ہے "۔ بوجھل آواز میں تھیکے پن سے کہا گیا تھا۔

"تم ٹھیک ہو؟" وہ بے ساختہ پوچھ بیٹھا۔

"ظاہر ہے مجھے کیا ہوگا ، میں ٹھیک ہوں"۔ یہ تو تہہ تھا کچھ بھی ہوجائے شیرنی اپنی کمزوری کسی سے شئیر نہیں کرے گی ۔

"یعنی کے تم ٹھیک نہیں ہو "۔ مقابل بھی ھیلر تھا ، کوڈز کو ڈی کوڈز کرنے میں ماہر شخص بھلا لہجے کی تبدلیوں کو ڈی کوڈ نہیں کرسکتا تھا کیا؟

"میں ٹھیک ہوں "۔ اب کے شیرنی غرائی تھی۔

"اوکے اوکے "۔ ہلکی سی مسکان آئی تھی اسکے چہرے پر ، نجانے کیوں اسے چھیڑ کر اسے الگ ہی مزہ آیا کرتا تھا۔

"کوئی کام تھا تمہیں ؟" زکام زدہ سی آواز میں اسنے دوبارہ سے استفسار کیا ۔

"ہم مل سکتے ہیں ؟ابھی ؟" وہ تیزی سے بولا۔

“ابھی؟ " دوسری جانب حیرت سے سوال کیا گیا۔

"ضروری ہے بہت "۔ اسکے لہجے میں جیسے اسرار تھا ، بے چینی تھی ۔

"ٹھیک ہے لیکن کہاں پہ؟" بوجھل سی آواز میں ایک بار پھر پوچھا گیا تھا۔

"کہی بھی نہیں شیرنی ، میں تمہیں اپنے ساتھ اس وقت کہی لے کر نہیں جانا چاہتا ، کچھ دیر کے لیے میں تم سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں ، بس کچھ دیر ، اگر بات اہم نا ہوتی تو کبھی اسرار نہ کرتا ، ہم تمہارے گھر کی گلی کے کنارے ملے گے"۔اسکا انداز بے حد محتاط تھا۔

"ٹھیک ہے میں انتظار کروں گی "۔ دوسری جانب کوئی احتجاج نہیں کیا گیا تھا ، یقیناً آج وہ ٹھیک نہیں تھی ۔

اس سے بات کرنے کے بعد وہ جلدی سے اٹھا ، وہ صبح والے حلیے میں ہی موجود تھا، بس جلدی سے چہرے پر سیاہ ماسک ، اور آنکھوں پہ نیلے لینز چڑھائے ، اسنے بائیک کی کیز تھامی ایک ہاتھ میں یو-ایس-بی مضبوطی سے تھام رکھی تھی ، اور تقریباً دوڑتے ہوئے وہ باہر کی جانب بھاگا ۔ وہ نہیں جانتا تھا جو قدم جانے کے وقت دوڑتے ہوئے ہیں وہ واپسی پر کتنے بوجھل اور سست ہونگے ، لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ آگے اسکی زندگی کا موڑ کس رخ مڑنے والا ہے ۔
*****************
مہندی رنگ کی پیروں کو چھوتی قمیض کے ساتھ چوری دار پاجامہ پہنے وہ سنگھار میز کے سامنے کھڑی اپنی تیاری کو آخری نگاہ دیکھ رہی تھی۔ صائم وہیں پیچھے کلاس وال کے سامنے پڑی کرسی پر بیٹھا گود میں رکھے فرائز سے لطف اندوز ہوتے اپنی ماما کی تیاری کو بھی دیکھ رہا تھا۔ جو اب سر کو تھوڑا سا بائیں جانب ٹیرھا کیے جھمکا پہن رہی تھی۔سٹریٹ کیے بال بھی بائیں جانب کو سمت آئے۔ مسکارے سے لی دی گھنی پلکیں آئینہ میں اپنا عکس تک رہی تھیں۔ جھمکا پہنتے ہی وہ مڑی۔بیڈ سے صائم کا سفید کرتا شلوار اٹھائی۔
"چلو صائم آ جاؤ تیار ہو ہمیں چلنا بھی ہے۔ دیر ہو رہی ہے۔"
"واہ ماما واہ۔۔۔یو آر لوکنک بیوٹیفل۔" فرائز کی خالی پلیٹ کو گول میز پر رکھتے کرسی اُترا۔
انوشے کو بے اختیار ابان یاد آیا۔ کسی بھی ایونٹ پر جانے سے پہلے وہ اِسے دیکھتے یوں ہی تعریفی جملے بولا کرتا تھا۔ صبح ہی انوشے کی بات ہوئی تھی اس سے وہ کہہ رہا تھا کہ انہی دونوں میں واپس آ جائے گا۔ کنفرم ڈیٹ ابھی نہیں بتائی تھی۔ صائم کو دیکھتے اداسی سے مسکرائی۔ اتنے دن ہو گے تھے اسے دیکھے۔
مالی بابا ان کی حویلی میں برسوں سے کام کرنے والے تھے۔ آج ان کی بڑی بیٹی کی شادی تھی۔شانزے کی بڑی بہن کی۔جہاں پے شرکت کے لیے انوشے اور صائم جا رہے تھے۔ وہ ابان کے بغیر کم ہی تقریبات میں شرکت کیا کرتی۔( وہ آج بھی دوست نہیں بنایا کرتی تھی۔ آج بھی اس کے لیے اس کی فیملی ہی فرسٹ پریارٹی تھی۔ماضی میں اس کے بھائی اس کے دوست تھے تو اب ابان ہی اس کا سب کچھ تھا۔) یہاں تو گھر والی ہی بات تھی۔ مگر پھر وہ اسے شدت سے یاد آ رہا تھا۔
صائم کو تیار کرتے اس نے ملازمہ سے کہہ کے گاڑی فرنٹ دراوزے پہ لانے کا کہا۔ پانچ منٹ بعد وہ سنہری کلاچ ہاتھ میں تھامے، پیروں میں گولڈن ہیل پہنے باہر کی جانب بڑھ رہی تھی۔ صائم سفید شلوار قمیض پہنے، چھوٹے چھوٹے پیر جو کہ کھیڑی میں مقید ، بال ماتھے پر سامنے کو گرتے۔ چہرے پر شیریر سی مسکان لیے وہ انوشے کے پہلو میں چل رہا تھا۔ ایک ملازمہ بھی ان کے پیچھے تھی۔
ملازمہ نے آگے بھر کے آہنی دروازہ کھولا اور سامنے کی ڈرائیور گاڑی فرنٹ پہ لے آیا تھا۔ ملازمہ نے صائم کو اٹھا لیا اور انوشے احتیاط سے زینے اترنے لگی ڈرائیور نے آگے بھر کے گاڑی کا دروازہ کھول رکھا تھا۔ وہ اندر بیٹھی تو دروازہ بند کر دیا۔ دوسری سائیڈ سے ملازمہ دروازہ کھولے صائم کو بیٹھایا۔ انوشے اپنے کان میں پہنے جھمکے کو سہی کرتی ہدایت دے رہی تھی۔
ابان بھی یہاں نہیں  نا جانے یہ لہجے میں اداسی عدو آئی۔
آج وہ چھ سال بعد اُسی گاؤں جا ری تھی۔ جہاں پر ایک حویلی تھی۔ جس کا رُخ ابان نے دوبارہ کبھی نہیں کیا۔ یہ سب اس نے انوشے کے لیے کیا تاکہ دوبارہ کسی تکلیف سے گزرنا نہ پڑے۔ لیکن اس تکلیف کا کیا جس سے وہ اتنے برسوں سے گزر رہا تھا؟ اور اس تکلیف کا کیا جس سے اتنے برسوں سے اسکی ماں، باپ گز رہے تھے؟ مالی بابا اور شانزے ان کا ہمیشہ ساتھ دیا تھا۔ آج خوشی کا موقع تھا وہ پیچھے نہیں ہٹنا چاہتی تھی۔
"میں جلدی لوٹ آوں گی خیال سے حویلی کے سارے دروازے بند کر لینا۔" صائم سیٹ پہ پیچھے کو ٹیک لگائے گول گول آنکھوں سے ماں کو ہدایت دیتے دیکھ رہا تھا۔ ملازمہ نے اس کی تسلی کروائی اور گاڑی کا دروازہ بند کر دیا وہ سیدھی ہوئی ڈرائیور نے گاڑی منزل کی جانب بڑھا دی۔
گاڑی شہر کی حدود میں ہی تھی۔ ابھی وہ سیگنل کھلنے کا انتظار کر رہے تھے۔ پاس ہی صائم گود میں آئی پیٹ پر کوئی کارٹون دیکھ رہا تھا۔ اس کے دل میں عجیب سی اداسی اتر رہی تھی۔ مالی بابا سے ان کے اچھے تعلقات تھے لیکن پہلی بار ان کے گھر جا رہی تھی کسی تقریب پے شرکت کرنے وہ بھی اکیلی۔ ابان سے اُس نے کہا تھا کہ اگر وہ ایزی ہے تو چلی جائے ورنہ جب وہ واپس آئے گا تو مالی بابا کے گھر ایک بار ہو آئیں گے، مگر انوشے نے کہا کہ وہ چلی جائے گی۔۔ لیکن ابھی اس کا دل چاہ رہا تھا کہ بس واپس گھر چلی جائے۔
"اگر وہاں ابان کے بابا سائیں یا بی جان بھی ہوئیں! اففففف نہیں۔۔۔ اس نے اپنی ساری سوچوں کی نفی کی۔
سیگنل کھل گیا اور سڑک پہ ٹریفک پھر سے بہنے لگا۔ وہ اپنی ہی سوچوں میں مگن تھی کہ موبائل پے ہونے والی میسج ٹون نے اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی۔ اسکرین پر چمکتے نام کو دیکھ کے آنکھیں چمکیں۔
نکلنے سے پہلے اس نے اپنی تصویر ابان کے نمبر پے بھیجی تھی۔اب اسی کا میسج آیا تھا۔
" یہ میری جدائی نے آپ کو مزید پرکشش نہیں بنا دیا! ہیں؟"
انوشے مسکرائی اور ٹائپ کرنے لگی۔ "خوبصورتی مجھ پر ہی تو ختم ہوتی ہے۔ جہاں تک رہی بات جدائی کی تو آپ واپس آ جائیں میں اداس ہوں۔ "
کچھ دیر میسج سین رہا لیکن جواب نہیں آیا۔ پھر ٹائیپنگ ہونے لگی اور جواب آگیا۔
"دیکھیے گا بیگم صاحبہ کہیں راستہ میں کوئی سینڈسم لڑکا لیفٹ ہی نا مانگ لے" ساتھ میں آنکھ مارتا ہوا ایموجی تھا۔
"ہاں اگر وہ ہینڈسم بندہ میں شوہر ہوا تو میں لیفٹ دے دوں گی۔" ابان سے بات کر کے وہ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی۔ گاڑی رکی تو وہ ایک دم متوجہ ہوئی۔
"کیا ہوا؟ گاڑی کیوں روکی؟ " 
"میم وہ سر کو پیک کرنا۔" ڈرائیور کہتے گاڑی سے باہر نکلا۔
"سر۔۔۔۔؟" انوشے ناسمجھی سے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ چارمنٹ بعد ہی اسے ڈرائیور ہاتھ میں سامان لیے آتا ہوا دیکھائی دیا۔ پھر ڈکی کھولتے سامان رکھنے لگا۔ صائم بھی اب اپنی جانب کی کھڑی سے باہر دیکھ رہا تھا۔
انوشے نے اپنی سائیڈ کا شیشہ نیچے کیا تا کہ ڈرائیور سے پوچھے کہ کون آ رہا۔ ایک دم سے اس کے ذہن میں ابان کا جملہ گھونجا کہ کسی ہینڈسم لڑکے کو لفٹ؟؟ وہ انہیں سوچوں میں گم اپنی جانب کا شیشہ نیچے کیے ہوئے تھی کہ دوسری جانب سے صائم کی جانب کا دروازہ کھلا۔
"صائم ایک دم سے اُچلا۔۔بابا بابا۔۔۔۔بابا آگئے۔" ڈرائیور معودب سا ہاتھ باندھے گاڑی سے باہر کھڑا تھا۔ وہ اندر بیٹھا۔
انوشے ایک جھٹکے سے مڑتے سانس روکے بے یقین نظروں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ سفید شلوار قمیض پے مٹیالے رنگ کی چادر لیے ہاتھ میں بیش قیمت گھڑی پہنے، بالوں کو سہی سے جمائے۔ اس نے ایک نظر انوش کودیکھا، ایک گہری نظر، نرم سی اندر تک ٹھنڈک ڈالتی ہوئی۔ پھر وہ صائم کو اپنے بومضبوط ہاتھوں میں لیتے بیٹھا۔ 
ڈرائیور کو اشارہ کیا تو اس نے ڈرائیونگ سیٹ سمبھالی وہ اپنے منزل کی جانب روانہ ہو گے۔
انوشے کا چہرہ کسی گلاب کی طرح کھل سا گیا تھا۔ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی۔ وہ ہمیشہ اس کو یونہی حیران کیا کرتا تھا۔ وہ ہمیشہ اس کے ساتھ کھڑا ہوتا تھا۔ وہ بغیر محسوس کروائے کے کندھوں سے ڈھیر سارا بوجھ اپنے کندھوں پے ڈال لیا کرتا تھا۔وہ وقت پر ہی پہنچ گئے۔ سارے راستے صائم کی پڑ پڑ نے گاڑی میں رونک لگائے رکھی تھی۔
"بابا ہنڈسم لگ رہے ہیں۔ "
"شاباش میرا بیٹا اور آسمان پہ چڑھاؤ اپنے بابا کو" انوش نے تھوڑی خفگی سے تبصرہ کیا تھا۔ ابان اس کے انداز پے مخفوظ ہوا تھا۔
" ماما بیوٹیفل لیڈی لگ رہی ہیں۔" صائم اپنی ہی رو میں بول رہا تھا۔
ابان نے ہلکا سا انوش کی جانب جھکتے سرگوشی کی." اس نے ہم دونوں کو سر پہ چڑھا رکھا ہے"۔ پھر دونوں قہقہہ لگا کر ہنس دیئے۔
"اور صائم؟ " اب کہ ابان نے مسکراتے اس سے پوچھا۔
"صائم شو سٹاپر ہے بابا۔" ایک ادا سے ماتھے پے گرتے بالوں کو پیچھے کرتے بولا تھا۔
"اللہ میرے ابان دیکھیں میں آپ کو بتا رہی تھی نا اس کو کتنی باتیں آ گئیں ہیں نا۔" انوشے صائم کو مسکراتی نظروں سے دیکھتے ابان سے بولی۔
ابان اثبات میں سر ہلاتے مسکرا دیا تھا۔ اس کی کل کائنات تھے یہ دونوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام کی نیلاہٹ اب اندھیری رات میں بدل چکی تھی ، اسے یہاں پہنچتے تقریباً گھنٹہ لگ گیا تھا ، وہ گلی کے کنارے اپنی ہیوی بائیک کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا تھا ، بلیک ہُڈ  پیچھے کو گرائے ، ماتھے پر بکھرے گنے سیاہ بال ، ناک تک ماسک چڑھائے ، فقط اسکی نیلی آنکھیں واضع دکھائی دے رہی تھیں ، دونوں ہاتھ سیاہ جینز کی پاکٹ میں اڑسائے ، اسکی نظروں کا ارتکاز اندھیر گلی کی جانب تھا ، وہ اسکا انتظار کر رہا تھا ، دائیں  ہاتھ میں پاکٹ کے اندر ہی اسنے یو - ایس -بی کو مضبوطی سے تھام رکھا تھا ۔ نجانے کیوں اسکی آنکھوں کے ڈورے ہلکے ہلکے سرخ پڑنے لگے تھے ۔ دائیں کان میں آلہ بھی موجود تھا ، جسے شاید وہ جلدی میں اتارنا بھول گیا تھا ۔
تقریباً پانچ منٹ بعد اسے وہ اپنی جانب بڑھتی ہوئی نظر آئی ، گلابی کرتے کے ساتھ ہم رنگ کیپری پہنے ، کالی چادر شانوں اور سر پر ٹکائے ، چادر کے ہالے میں اسکا روشن چہرہ رات کی اندھیری میں بھی چاندنی کی مانند دمک رہا تھا ، اسکی ناک ہلکی ہلکی گلابی ہورہی تھی ، شاید اسے فلیو تھا ، دور سے ہی وہ اسکا سرسری سا جائزہ لے چکا تھا ، اب وہ اس سے چند قدم کے فاصلے پر آرکی تھی ، وہ اسی پوزیشن میں کھڑا رہا تھا ، ایک اینچ بھی اپنی جگہ سے ہلے بغیر ۔

"مرحبا "۔ چند قدم کا فاصلہ رکھتے وہ زکام زدہ سی آواز میں بولی ۔

"مرحبا شیرنی "۔ آنکھوں کی سرخی اسکی ذات کا خاصہ بنتی جارہی تھی۔

جانے کیوں آج کچھ بدلا بدلا سا تھا ، آج کچھ ٹھیک نہیں تھا ، دونوں فریق آج بوجھل تھے، جانے کیوں ، کیا قدرت آنے والے طوفان سے پہلے ہی آگاہ کرجایا کرتی ہے ؟ ۔

شیرنی نے اسکی دھیمی آواز پہ اپنی گہری سیاہ پرکشش آنکھیں اٹھا کر اسکی جانب دیکھا ، چند سیکنڈ صرف چند سیکنڈ کے لیے وہ ان سرخ آنکھوں میں دیکھ پائی تھی ، نجانے کیسی کشش تھی اسکی آنکھوں میں جو ہمیشہ اسے اپنی طرف کھینچتی تھی۔

"تم ٹھیک ہو"؟ نظریں اسکی آنکھوں سے ہٹاتے ہوئے وہ فکرمندی سے بولی۔

"ظاہر ہے میں ٹھیک ہوں "۔ ہلکی سی مسکان سے اُسنے شیرنی کے ہی الفاظ اُسے واپس لوٹائے تھے۔

"یعنی کے تم ٹھیک نہیں ہو "۔ اُسکی بات پر کھلکھلا کر ہنستے ہوئے اُس نے بھی اُسے اُسی کے الفاظ لوٹائے تھے ۔

وہ اسے یوں کِھلکِھلا کر ہنستے دیکھ کر آسودگی سے ُمسکرایا۔

"سب ٹھیک ہے؟ کونسی ضروری بات  تھی؟" ۔اسکے ذہن میں کب سے گردش کرتا سوال اب لبوں پر آچکا تھا۔

وہ جو بائیک سے ٹیک لگائے کھڑا تھا ، اسکے پوچھنے پر سیدھا ہوا ، تھوڑا سا اسکے قریب آیا ، یوں کے ان کے بیچ دو قدم کا فاصلہ تھا ، اپنی نیلی آنکھیں اسکی گہری پرکشش سیاہ آنکھوں پر اٹھائیں ، دونوں ہاتھ ہنوز جیبوں میں اڑسائے ، وہ اسے دیکھ رہا تھا ، آسمان پر کالے بادلوں نے اپنا سایہ ڈال رکھا تھا ، موسم ٹھنڈا ہورہا تھا ، شاید بارش آنے والی تھی۔

وہ ناسمجھی سے اسکی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی ، جو ہلکی ہلکی سرخ ہورہی تھیں، نجانے کونسی ایسی بات تھی جو وہ اس وقت اسطرح یہاں پہ کرنا چاہتا تھا۔ہوا کے زور سے اسکی چادر بار بار پیچھے کو گر رہی تھی ، جسے وہ دونوں ہاتھوں سے تھامے سر پر ٹکانے کی کوشش میں ہلکان ہورہی تھی۔

اسکی آنکھوں میں ابلتا سوال پڑھ کے اسنے ایک ٹھنڈی سانس فضا میں خارج کی ۔

"صرف اتنا کہوں گا تمہارا انتخاب درست نہیں ہے "۔ نیلی آنکھیں اسکی آنکھوں میں ڈال کر اعتماد سے کہا گیا تھا۔

"کونسا انتخاب؟"۔ چادر کو سر پہ ٹکانے کی کوشش کرتے ہوئے اسنے ناسمجھی سے پوچھا۔

"ریحان مستقیم تمہارے لیے درست انتخاب نہیں ہے شیرنی ، وہ ایک لالچی انسان ہے، جو تمہیں اور تمہاری ماں کو دھوکہ دے رہا ہے ، ٹریپ کر رہا ہے ، اور تم ٹریپ ہورہی ہو "۔ ابکی بار وہ پہلے سے زیادہ اعتماد سے بولا، ہاتھوں کی گرفت یو-ایس-بی پہ مضبوطی سے قائم تھی۔

آسمان پر بادل زور سے گرجے تھے ، اور انکے ساتھ ساتھ کچھ ماہ نور کے اندر بھی گرجا تھا ، غصے کی ایک شدید لہر۔

"سنو مسٹر "۔ اسنے دانت پیس کے اسے مخاطب کیا۔

"تم یہ سب کس حق سے کہہ رہے ہو؟"۔وہ غرائی تھی ۔

وہ رک گیا تھا ، کچھ تھا جو اسکے اندر ٹوٹا تھا ، یقین؟ ہاں یقین کچھ تھا جو ھیلر کے اندر ٹوٹا تھا ، اسے لگا تھا کوئی نہیں تو شیرنی اسکی بات پر یقین کرلے گی ، لیکن یہاں تو وہ اسکی آنکھوں میں کچھ اور ہی پڑھ رہا تھا ۔ بے اعتنائی ، بے اعتباری ، وہ آج ماہ نور سجاد کی آنکھوں میں بے اعتباری پڑھ رہا تھا۔

"جانتا ہوں میرے پاس بولنے کا کوئی حق نہیں ہے، جانتا ہوں میں تمہارے اور تمہارے خاندان کے معاملے میں بولنے کا کوئی حق نہیں رکھتا ، لیکن میں تمہیں برباد ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا ، ماہ نور  !! ۔
اسکا لہجہ بکھرا ہوا تھا ، وہ شیرنی سے ماہ نور پر آگیا تھا ۔
"وہ ٹھیک نہیں ہے ، اسکی نیت ٹھیک نہیں ہے ، اسکی نیت میں کوٹھ ہے ، وہ تم سے اور تمہاری ماں سے کچھ اور چاہتا ہے ، وہ تمہارے تا۔

بس ! بس ھیلر بس ، ایک لفظ مزید نہیں ! اسکی بات کاٹ کے وہ بے حد غصے میں بولی ،میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی تم اتنے گھٹیا ہوگے ، اتنے گھٹیا کہ ہر راہ چلتی لڑکی کی زاتیات میں گھسنے کا شوق رکھتے ہوگے ، بہت شوق ہے نا تمہیں جاسوسی کرنے کا ، لیکن اس بار تم غلطی کرگئے ہو ، تم نے ماہ نور سجاد کی پرسنل لائف میں گھسنے کی کوشش ہے ، اور میں معاف کرنے میں بہت بری ہوں ، بہت بری ، دور رہو میرے معاملوں سے دور ۔! اسکی ناک غصے کی شدد سے سرخ ہوگئ تھی۔

"اور یاد رکھنا مسٹر ، ماہ نور سجاد ٹریپ ہونے کے لیے نہیں ، ٹریپ کرنے کے لیے پیدا ہوئی ہے "۔

آسمان پر بجلی زور سے چمکی تھی ، بجلی کی روشنی میں اسکا ماسک سے ڈھکا چہرہ واضع ہوا تھا ، اسکی آنکھیں واضع ہوئی تھی ، اسکی آنکھیں مزید سرخ ہورہی تھی، یو-ایس-بی پر ہاتھ کی گرفت کب کی ڈھیلی پر چکی تھی ، وہ بے یقینی سے ماہ نور کو دیکھ رہا تھا ، اسنے اسے گھٹیا کہا تھا؟ کیا اسنے سہی سنا تھا۔

"تمہیں میں دوسروں سے مختلف سمجھتی تھی ، دوسرے تمام مردوں سے میں نے تمہیں ہمیشہ الگ سمجھا تھا، کچھ تھا جو ماہ نور کے اندر بھی ٹوٹا تھا ، لیکن میں ہمیشہ مردوں کی پہچان میں بہت بری رہی ہوں ، اور اس بار بھی میں غلط ثابت ہوئی ، دیکھو تم میں اور ان میں بھی کوئی فرق نہیں رہا ، تم بھی مفاد پرست ہو وہ بھی مفاد پرست ہیں "۔ اسے نہیں سمجھ آرہا تھا وہ غصے میں کیا کچھ بول گئ ہے ، اسے نہیں اندازہ تھا اسکے الفاظ سامنے کھڑے شخص کے دل پر وار کر رہے ہیں۔

وہ سرخ ہوتی آنکھوں سے خاموشی سے اسکا ہر وار برداشت کررہا تھا، وہ خاموش تھا ، اسے سن رہا تھا، اسے سننا آج سے پہلے اسکے لیے کبھی اتنا دشوار نہیں رہا جتنا کے آج ، آج اسکا دل کررہا تھا وہ خاموش ہوجائے مت بولے ، اسکے الفاظ اسے زخمی کر رہے تھے ، اس سب میں اسکا مفاد کہاں تھا؟ وہ یہ نہیں سمجھ پایا ، وہ بول رہی تھی وہ سن رہا تھا۔

"تم سے اچھا تو ریحان نکلا ھیلر ، وہ میرا منگیتر ہے ، لیکن آج تک اسنے کبھی میری پرسنل لائف میں گھسنے کی کوشش نہیں کی ، آج تک اس نے کبھی میری کھوج نہیں لگائی ، آج تک اس نے کبھی میرے تعلقات کو نہیں کھنگالا ، حالانکہ وہ حق رکھتا تھا، تم نے کیا کیا؟ میں نے تمہیں اپنی شادی کے بارے میں آگاہ کیا اور تم میری کھوج پر نکل چلے ؟ بولتے بولتے وہ اب ہانپنے لگی تھی۔

کیا وہ واقعی مردوں کی پہچان میں بری تھی؟ ، دونوں جیبوں میں ہاتھ اڑسائے ، ماتھے پر بکھرے بے نیاز بال ہوا کے دوش پر اڑرہے تھے ، سرخ آنکھیں جو شاید مزید سرخ ہورہی تھیں ماسک کے پیچھے اسکے ہونٹوں پر ایک طنزیہ مسکراہٹ بکھری تھی ، وہ خود پر ہنس رہا تھا ، وہ جس عورت کے قریب ہوتا تھا ، وہ اسے جانے انجانے میں دکھ پہنچا جایا کرتا تھا ، آج بھی اس سے وہی ہوا تھا ، سب کچھ پچانے کے چکروں میں وہ سب کچھ گنوا بیٹھا تھا۔

کہا تھا میرا مفاد؟ تم سے اس گلی کے کنارے ٹکرانے پہ ، یا تمہیں ان غنڈوں سے ریسکیو کرنے پہ؟ تمہاری مدد کرنے پہ یا؟ تمہیں تمہاری بربادی سے آگاہ کرنے پہ؟ آخر کہاں ہے میرا مفاد!! ، آج تک اسکی آواز کسی لڑکی کے لیے اونچی نہیں ہوئی جتنی کے آج!

وہ ہکا بکا کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔

اگر تم ٹریپ ہونے کے لیے پیدا نہیں ہوئی تو میں ذلیل ہونے کے لیے پیدا نہیں ہوا ،ہمارے راستے الگ ہیں  ، اور ایک اور بات ۔

بہت جلد میں تمہیں ایک آخری فیور دینے جارہا ہوں ، ایک آخری فیور !!
جب تک تمہیں اندازہ ہوگا تب تک میں بہت دور جاچکا ہوں گا بہت دور!
&Do remember this, you can’t catch me unless i want to!

اور وہ وہی سے مڑگیا تھا ، اور وہ وہی کھڑی تھیں ، کونسا فیور؟ ،
وہ دونوں ہی ایک کشتی کے مسافر تھے ، وہ دونوں سروائیولز تھے ، وہ دونوں ہی اپنی سیلف ریسپیکٹ پر کوئی بات برداشت نہیں کرتے تھے ! نجانے اب کیا ہونے والا تھا؟

(جاری ہے )۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔











**********

































ہیلر ازقلم علیشاء،آمنہحيث تعيش القصص. اكتشف الآن