پہلی قسط

685 19 1
                                    

گزرے ہوئے دن کے مقابلے میں آج کا دن زیادہ خوشگوار تھا۔ وعدے کے مطابق اس نے اتوار اس گھر میں گزارا۔ کھلی کھڑکی سے آتی ہوا کی جگہ اب تیز دھوپ نے لے لی تھی۔ آنکھوں پر روشنی پڑنا اتنا ناگوار گزرا تھا کہ تکیے کے نیچے سر دبا لیا۔ آڑا ترچھا اوندھا منہ لیٹا ہوا وہ گہری نیند میں تھا۔ گھڑی نو بجا رہی تھی جب اس کے کمرے کا دروازہ پوری قوت سے کھولا گیا۔ تیز آواز کانوں میں پڑی تو آنکھیں یکدم کھل گئیں۔ وہ کمرے میں اس کی موجودگی جان گیا تھا۔ یہ سوچ کر اٹھنے کے بجائے آنکھیں پھر موند لی گئیں۔
"میرو!۔" گیلا لرزتا لہجہ۔۔ اس کی آواز پر خود ہی آنکھیں کھل گئیں۔
"کیا ہوا ہے؟۔" وہ خود کو روک نہ پایا۔ گھمبیر آواز کمرے میں گونجنے لگی۔
"اتنا مت سویا کرو!۔" روتے ہوئے قدرے غصے سے کہا گیا۔۔۔ یا شاید بتایا گیا۔
"تم میرے اتنا سونے پر رو رہی ہو؟۔" وہ اسے اٹھا چکی تھی۔ تکیے پر زور رکھ کر وہ اٹھ کر بیٹھا۔ موبائل، جیکٹ سمیت کافی ساری چیزیں بستر کے آس پاس فرش پر گری ہوئی تھیں۔ ایسا پہلی بار نہیں تھا۔ رات جن چیزوں کو ساتھ لے کر سوتا تھا اگلے دن اسے فرش سے ہی اٹھانی پڑتی تھیں۔
"نہیں میرو۔۔" آنسو رخسار پر بہنے لگے۔ اس نے گہری سانس بھری۔
"مجھے شرٹ چینج کرنی ہے۔ باہر جاؤ میں آرہا ہوں۔" فرش پر پاؤں رکھ کر کھڑے ہوتے ہوئے کہا گیا۔ سونے سے قبل وہ اپنی سیاہ شرٹ تبدیل کرنا بھول گیا تھا۔ وارڈروب سے سرمئی کالر والی شرٹ نکال کر وہ لمحہ بھر کو سنگھار میز کے آگے رکا۔ آئینے میں اپنے آپ کو دیکھتے ہوئے لبوں پر مبہم سی مسکراہٹ پھیلی۔ کشادہ بھرا سینہ اور بھرے بھرے بازو۔۔ ہلکی ہلکی شیو جو اس کے چہرے کو پروقار بناتی تھی۔ آنکھیں ادھوری نیند کے باعث سرخ ہورہی تھیں۔ پیچھے وہ لڑکی اسے بہت غور و غصے سے اسے دیکھ رہی تھی۔
"تم بلکل اچھے نہیں ہو میرو۔۔" آنسوؤں میں روانی آگئی۔ میرو نے اسے آئینے کے عکس میں دیکھا۔ یہ لڑکی اس کے لیے کیا تھی وہ کبھی نہیں سمجھ سکتی تھی۔ دل بوجھل سا ہوا۔ وہ رکی نہیں تھی بلکہ باہر نکل گئی تھی۔ شرٹ تبدیل کر کے اس نے بال سنوارتے ہوئے کسی کو کال ملائی تھی۔ بیل جا رہی تھی مگر کال نہیں اٹھائی گئی۔ دو تین کالز کے بعد وہ خود ہی موبائل جیب میں رکھتا خود پر پرفیوم چھڑکتے ہوئے باہر نکل آیا۔
"وہ کیوں رو رہی ہے اماں؟۔" اس نے دور ماں کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔ آنکھیں اس چھوٹی لڑکی کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ رخ موڑ کر نظر پڑی تو وہ کچھ فاصلے پر بنے کچن میں کھڑی شاید چائے بنا رہی تھی۔
"اتوار ہے اور کام والی نہیں آئے گی۔ میں نے تو بس یہ کہا ہے کہ گھر کی صفائی کرلو۔۔ مگر اس سے یہ بات بھی سہی نہ گئی اور تمہارے پاس روتے ہوئے چلی آئی۔"
"روما سے کام مت کروایا کریں اماں۔ یہ روتی ہے تو میرا دل بہت دکھتا ہے۔" میرو نے ترچھی نگاہوں سے اسے دیکھا جو میرو کو اپنی طرفداری کرتے دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ وہ جو کہتا تھا اماں وہیں مانیں گی۔
"تم نے اسے بہت بگاڑ دیا ہے بیٹا۔" اماں بے چارگی سے نفی میں سر ہلانے لگیں۔
"بس یہ مجھے روتے ہوئے اچھی نہیں لگتی۔" جوتے اٹھا کر وہ لاونج میں داخل ہوا۔ صوفے پر بیٹھتے ہوئے اس نے روما کو چائے کی ٹرے اندر لاتے دیکھا۔ لبوں پر دھیمی مسکراہٹ تھی۔ میرو نے اسے گھور کر دیکھتے ہوئے جوتوں میں پاؤں ڈالا۔
"تم جا رہے ہو؟۔" اماں چائے کی پیالی پکڑتی ہوئی بولیں۔
"ہاں اب چونکہ اس نے مجھے جلدی اٹھا ہی دیا ہے تو دوست سے ملنے چلا جاؤں۔ چھ دن بعد یہ اتوار ہی تو سکون لاتا ہے۔۔ ورنہ آفس میں وقت کا پتا نہیں چلتا۔" جوتے پہن کر کھڑا ہوا تھا روما نے اسے گردن اٹھا کر دیکھا۔ وہ اس کے سینے سے بھی نیچے آتی تھی۔
"دوست کے ساتھ ملاقات کے بعد تم اپنے اپارٹمنٹ چلے جاؤ گے؟۔" روما نے اداسی سے پوچھا۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا اور گھڑی میں وقت دیکھنے لگا۔ دس بج رہے تھے۔
"تم نے اپنے بارے میں کچھ سوچا ہے؟۔"
"مطلب؟۔" وہ اس بار چونکا نہیں تھا۔۔ کیونکہ وہ ان کے سارے مطلب جانتا تھا۔
"اپنی زندگی سنوارنے کے متعلق؟۔"
"آپ کو لگتا ہے شادی سے زندگی سنور جاتی ہے؟۔" لہجہ قدرے سنجیدہ تھا۔
"تمہاری عمر۔۔۔" وہ ابھی مزید بولتیں کہ روما نے بات شروع کی۔
"بھائی سے شادی کون کرے گا اماں؟ یاد نہیں بھابھی کیسے چلی گئی تھیں میرو کو چھوڑ کر۔۔۔" وہ ماں کو یاد کرواتی میرو کا دل جلا۔
"خاموش روما! اسے بھابھی کہنا بند کرو۔" گھوری سے نوازا گیا۔
"میں تو تمہاری طرفداری کر رہی تھی تاکہ اماں تمہارے لیے رشتہ نہ ڈھونڈیں۔" اس نے کندھے اچکائے۔
"آئے ہائے چپ کرو تم تو۔۔ میری بیٹے میں بھلا کوئی کمی ہے؟ لمبا چوڑا خوبصورت مرد ہے۔" اماں بھی اس کی خوبیاں گنوانے لگیں۔ وہ گہری سانس بھر کر نفی میں سر ہلانے لگا جیسے کہہ رہا ہو کہ یہ باتیں کبھی ختم نہیں ہونے والیں۔
"بہرحال میں چلتا ہوں۔" گاڑی کی چابی اچھال کر ایک ہاتھ سے پکڑتے ہوئے وہ روما کے بال سہلانے لگا۔
"تم اب کب آؤ گے۔۔" وہ اس کے قریب آئی۔
"ویک اینڈ۔۔ تم جانتی ہو مگر پھر بھی ہر بار یہی پوچھتی ہو۔" اس کا سر اپنے سینے پر ٹکاتا ہوا وہ بہت پیار سے بولا۔
"تم بیچ میں چکر ضرور لگانا میرو۔ میں تمہیں بہت یاد کرتی ہوں۔" اس کی آنکھوں میں میرو کے لیے بے پناہ محبت تھی۔ وہ ہنس دیا۔
"تمہیں پڑھائی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ چند ماہ میں تمہارے بورڈز ہیں۔ اماں سے بلکل شکایت نہ ملے۔" وقت بڑھ رہا تھا۔ اسے اب جلد سے جلد جانا تھا۔ گھر پر نگاہ دوڑاتے ہوئے وہ باہر کی جانب بڑھنے لگا۔
"تم مجھے اپنے اپارٹمنٹ کب لے کر جاؤ گے؟۔" وہ پیچھے سے آواز لگاتی ہوئے بولی۔
"اگلے ہفتے۔" اس کی بات پر وہ رکا نہیں۔۔ باہر کی جانب بڑھ گیا۔ روما بھاگتے ہوئے ٹیرس کی جانب بھاگی اور وہاں سے نیچے دیکھنے لگی۔ میرو اپنی کالی گاڑی میں بیٹھ رہا تھا۔ وہ تیزی سے ہاتھ ہلانے لگی جبکہ میرو اسے دیکھ کر محض مسکرا کر رہ گیا۔ گاڑی آگے بڑھ چکی تھی اور وہ ہمیشہ کی طرح اتوار کے روز میرو کے چلے جانے پر اداس ہوگئی تھی۔ کاش وہ اس سے روز مل پاتی۔۔۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"کیا آپ کو لگتا ہے وہ اپنا جرم قبول کرے گا؟۔" خرم نے حیرت سے اسے دیکھا۔ اس کی بات پر دور کرسی پر بیٹھا شخص ایک انداز سے مسکرایا۔ اس کے دائیں گال کر ڈمپل گہرا ہوا۔
"ہاں اسے کرنا پڑے گا۔" ٹانگ پر ٹانگ جمی ہوئی تھی۔
"ہم پشت پر گولی مار کر کام تمام کرسکتے ہیں۔ چھ ماہ گزر گئے ہیں۔ وہ اب تک اپنے جرم سے مکر رہا ہے باس۔" خرم نے سمجھانا چاہا۔
"اسے مارنا میرے لیے اتنا آسان نہیں خرم۔۔۔" گھمبیر بھاری آواز کمرے میں گونج رہی تھی۔ سیاہ کوٹ کو درست کرتا ہوا وہ اٹھ کر کھڑا ہوا۔ میز پر رکھی ایک تصویر پر نگاہ پڑی تو دل کٹ کر گیا۔ آنکھیں تکلیف سے میچ لی گئی۔ وہ ایک لڑکی تھی جو تصویر میں اسے دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ "مجھے یقین ہے کہ اس رات وہ قتل اس شخص نے ہی کیا تھا۔ میری زندگی۔۔ میرا سکون۔۔ سب برباد ہوگیا خرم۔۔ کتنا اعتماد تھا مجھے اس پر۔۔ اور اسی نے میری دنیا جلادی مگر یہ دل۔۔ یہ دل اسے پھر بھی مہلت دینا چاہتا ہے۔ یہ چاہتا ہے اسے جرم قبول کرنے تک کی مہلت دی جائے۔" بات کرتے ہوئے اس کی آواز عجیب سی ہونے لگی۔ بھاری آواز مزید بھاری ہوگئی۔ خرم نے نگاہ اٹھا کر باس کو دیکھا۔
"وہ جو چھ ماہ میں نہیں مانا آپ کو لگتا ہے آگے کبھی آسانی سے مانے گا؟ وہ یونہی مکرتا رہے گا باس!۔"
"میں اسے اتنی اذیت دوں گا کہ وہ مجبور ہو کر اپنے جرم کا اعتراف کرلے گا۔" کنپٹی کی رگیں ابھر کر غائب ہوئیں۔ آنکھیں انتقام کی شدت سے سرخ ہو رہی تھیں۔
"مگر باس۔۔۔" خرم نے کچھ کہنا چاہا۔
"شٹ اپ خرم!۔" وہ دھاڑ کو گویا ہوا۔ "وجاہت سلطان بہتر جانتا ہے کہ اسے کیا کرنا ہے۔۔" بھنویں آپس میں ملی ہوئی تھیں۔ چہرے پر مضبوطی تھی جسے خرم نوٹ کرتا ہوا اپنی نگاہیں نیچی کرچکا تھا۔
"معافی چاہتا ہوں۔۔" وہ محض اتنا ہی کہہ سکا۔ وجاہت سلطان نے اسے اشارے سے باہر جانے کا کہا تھا جس پر خرم نے اس کے حکم کی تکمیل کی تھی۔ وہ نیلے ٹاپ میں بیٹھ کر مسکراتی لڑکی اسے اب بھی دیکھ رہی تھی۔ دل چھلنی ہوتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔
"کاش کے یادوں کے ساتھ وقت بھی لوٹایا جاتا تو شاید میں تمہیں بچا لیتا۔" ایک تڑپاتی سوچ۔۔۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"نو بجے ہی تیرے بھائی کو اٹھا دیا گیا تھا۔ کیا یہ ظلم تھوڑا تھا؟۔" آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر وہ اب اس کے بستر پر دوسری طرف لیٹا اپنے دکھڑے سنا رہا تھا۔ ایک طرف بستر پر سوتا وجود اس کی باتوں کو ایک بار پھر نیند میں جانے سے قبل سن رہا تھا۔
"تو سن رہا ہے نا؟۔" کافی دیر تک جب اس کا جواب نہ پایا تو گردن موڑ کر اس کے سوتے وجود کو دیکھا۔ بھنویں آپس مل گئیں۔ ہاتھ اٹھا کر زور سے کمر پر ایک جڑ دیا۔ وہ کراہا۔۔
"ہاں سن رہا ہوں۔۔ پھر؟۔" بھاری آواز کمرے میں گونجی۔ ایک آنکھ آدھی کھول کر میرو کو دیکھا گیا جو اب مطمئن نظر آرہا تھا۔
"پھر میں نے سوچا میری نیند خراب ہو ہی گئی ہے تو کیوں نہ تیری بھی خراب کروں۔ اس لیے بغیر ناشتہ کیے تیرے پاس چلا آیا تاکہ کسی اچھے سے ریسٹورینٹ میں جاکر ناشتہ کرسکیں۔" نگاہیں ایک بار پھر چھت کو گھور رہی تھیں۔ اس کی بات پر وہ آنکھیں موند کر لیٹا شخص اٹھ کر بیٹھا۔
"مجھے کہیں نہیں جانا میر! اور اچھا ہوگا اگر تم دوبارہ سوجاؤ کیونکہ آج چھٹی والے دن میں سونے کا موقع نہیں کھونا چاہتا۔"
ہاں وہ میر تھا۔۔ کسی کا میر تو کسی کا میرو۔۔ مگر نام میرویس!
"پورے ایک ہفتے بعد ملا ہوں تم سے! چلو اٹھو کہیں باہر چلتے ہیں۔" اس کی کمر تھپتھپاتے ہوئے میر بھی اٹھ کر بیٹھ گیا۔ سامنے والے شخص کی آنکھوں میں ڈھیروں غصے جمع تھا۔ چار و ناچار اسے اٹھنا پڑا۔
"تمہیں اٹھانے کا کام کس نے انجام دیا تھا؟۔" وارڈروب سے کالر والی شرٹ نکال کر پہنتے ہوئے اس نے گھور کر پوچھا۔ بال آنکھوں کے آگے آئے ہوئے۔ اس کے بھرے بھرے بازوؤں میں لکیریں نمایاں تھیں۔۔ چوڑے کندھے اور کشادہ سینہ۔۔
"ایک ہی تو میرے دل کا ٹکڑا ہے جو مجھے چین نہیں لینے دیتا۔" گہری سانس بھرتے ہوئے اس نے موبائل سامنے رکھا۔
"روما کا کمال ہے۔" قہقہہ گونجا۔
"پتا نہیں یہ بہنیں بھائیوں کو اس قدر کیوں عزیز ہوتی ہیں کہ ہم ان کی ساری غلطیاں معاف کرنے پر راضی ہو جاتے ہیں۔ بڑی غلطی چھوٹی لگتی ہے اور چھوٹی غلطی نظر ہی نہیں آتی۔۔" میر کے خیالوں میں روما گھومنے لگی تو وہ بے ساختہ مسکرا دیا۔ "اور جب آپ کی بہن آپ سے پندرہ سال چھوٹی ہو تو پھر آپ اسے صرف بہنوں کی طرح نہیں بلکہ بیٹیوں کی نظر سے بھی دیکھتے ہیں۔ تم جانتے ہو یہ احساس کتنا بھلا معلوم ہوتا ہے۔" لبوں پر دھیمی سی مسکراہٹ قائم تھی۔
"میرے گھر میں کوئی عورت نہیں مگر مجھے اندازہ ہے۔۔ ساویز خانزادہ روما کو اپنی ہی بہن مانتا ہے میر۔۔" لبوں پر مسکراہٹ عیاں ہوئی۔ وہ ایک انداز سے مسکراتا ہوا واش روم سے فریش ہو آیا۔ میر نے گھڑی پر نگاہ ڈالی جو بارہ بجا رہی تھی۔
"بارہ بج گئے!!۔" وہ چونک کر اٹھ کھڑا ہوا۔ "اس کا مطلب ہے میں تمہیں پچھلے ڈیڑھ گھنٹے سے اٹھا رہا تھا؟۔" آنکھیں سکیڑ کر چبا کر کہا گیا۔ ساویز نے شانے اچکائے۔
"یاد ہے آخری بار جب میں تمہیں پک کرنے آیا تھا اور تم سو رہے تھے؟ اپنے تین گھنٹے لگا کر تمہیں کتنی محنت سے اٹھایا تھا۔" اس نے میر کی نیند پر طنز کیا۔۔ میر ڈھٹائی سے ہنس دیا۔
"تاریخ میں لکھا جائے گا کہ میر اتوار کے روز جلدی اٹھا تھا۔" خود ہی اپنی بات پر قہقہہ لگاتا ہوا وہ ساویز کے برابر آکھڑا ہوا۔ اس کی سنگھار میز سے پرفیوم اٹھا کر خود پر چھڑکا تھا۔ وہ دونوں ہی اب اپنی اپنی تیاری آئینے میں دیکھ رہے تھے۔ لمبا قد اور چوڑے شانے۔۔ میر کی سیاہ آنکھوں نے دراز کا رخ کیا۔
"یہ پرفیوم؟۔" کچھ چونک کر نیلی بوتل کو دیکھا۔ "پچھلی بار تو تمہارے پاس نہیں تھا؟۔"
"ہاں اس بار سوچا ہے کچھ نیا ٹرائی کروں تو بس اسی لیے لے لیا۔" ساویز آستین کے کف فولڈ کرتا کھڑکی کی جانب آیا۔ دھوپ آنکھوں پر پڑی تو بھوری آنکھیں مزید ہلکی ہوگئیں۔ پردے لگا کر کمرے کو باہر کی روشنی سے محفوظ کرلیا۔ "ہم کس کی گاڑی میں جار رہے ہیں؟۔" وہ جو میز سے گاڑی کی چابی اٹھانے لگا تھا پوچھ بیٹھا۔
"میری۔۔" اس کے سارے پرفیومز خود پر چھڑکتے ہوئے میرویس اب تیار تھا۔ ساویز شرٹ کے بٹن لگاتے ہوئے ایک نظر اسے دیکھ کر باہر کی جانب بڑھ گیا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"میں آج پھر اپنے بیٹے کے لیے تمہارے گھر آئی ہوں۔ پہلے سے جانتی ہو کہ باصم تمہاری بیٹی سے کتنی محبت کرتا ہے۔ وہ اس سے شادی کرنا چاہتا ہے مگر تم میاں بیوی ہو کہ مانتے ہی نہیں!۔" ناک بھنویں چڑھی ہوئی تھیں۔ "غنایہ کا رشتہ میرے بیٹے سے طے نہ کرکے تم لوگ کسی نقصان کو دعوت دینا چاہتے ہو عفت؟۔" وہ تڑخ کر بولیں۔
سامنے بیٹھے عفت خاتون نے ذرا گردن موڑ کر دور غنایہ کو دیکھا تھا جو ڈری سہمی اپنی تائی کی آواز پر لرز رہی تھی۔
"آپ کا بیٹا راہ چلتے میری بیٹی کو چھیڑتا ہے بھابھی۔ اسے تنگ کرتا ہے! کیا شریف لڑکے ایسے ہوتے ہیں؟۔" باصم کا خیال آیا تو زبان کڑوی سی ہوگئی۔
"ہائے ہائے! چھیڑتا نہیں ہے بلکہ اس کے دل میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔" وہ عورت سنبھلنے میں نہیں آرہی تھی۔
"ابرار اپنی بیٹی کی شادی کبھی باصم سے نہیں کریں گے۔ آپ خود جانتی ہیں اس کے مشغلے۔۔ سیگریٹ، جوا اور پھر ایک ماہ پہلے جیل سے ہوکر آیا ہے۔ ہماری بیٹی بوجھ نہیں کہ کسی کے ساتھ بھی بیاہ دیں۔" ان کے دل میں ایک عجیب خوف تھا جس کے باعث وہ کھل کر نہیں بول پا رہی تھیں۔ ایک ڈر۔۔ گردن موڑ کر ڈوبتے دل سے بیٹی کو ایک بار دیکھا۔ اس کے رخسار بھیگے ہوئے تھے۔ نجانے ان آنسوؤں میں کس کا ہاتھ تھا۔۔ باصم کا یا عفت اور ان کے شوہر کا۔۔ جو اپنی بیٹی کو وہ اعتماد نہیں دے سکے جو آج کل کے دور میں ہر ماں باپ کو اپنی بیٹیوں کو دینا چاہئیے۔۔ جو اتنی بھی ہمت والی نہیں تھی کہ اپنا لیے لڑ سکے۔
"تم لوگ ٹھیک نہیں کر رہے ہو! جائیداد ایک ہی صورت میں مل سکے گی! اگر تم نے غنایہ کی شادی باصم سے نہ کروائی تو ابرار کو اتنی بھاری جائیداد سے ہاتھ دھونا پڑے گا!۔" وہ اپنا زور چلانے کے لیے چیخ کر کھڑی ہوئیں۔ چہرے پر نمایاں ہوئی لکیریں ان کے غصے کی نشانی تھیں۔ عفت کا دل کٹ سا گیا۔ ہاں ابرار کی وہی جائیداد جس پر عفت کا جیٹھ قبضہ کر بیٹھا تھا۔ نجانے لوگ دوسرے کی شرافت کا فائدہ کیوں اٹھاتے ہیں۔
"غنایہ بوجھ نہیں۔۔" انہوں نے محض یہی کہا۔ وہ تن فن کرتیں غنایہ کو ایک گھوری سے نواز کر باہر نکل گئیں۔ گھر میں خاموشی چھا گئی۔
"آپ لوگ میری وجہ سے پریشان رہتے ہیں نا؟۔" اس کی ہچکیاں بندھ چکی تھیں۔ "میں اس سے شادی نہیں کرنا چاہتی۔ وہ ایک بلکل اچھا مرد نہیں۔ اس کے سامنے میں خود کو غیر محفوظ محسوس کرتی ہوں۔" دل سہما ہوا تھا۔ اسے خدشہ تھا کہ ایک دن کہیں اس کے ماں باپ اتنے مجبور نہ ہو جائیں کہ خود اسے باصم کے ساتھ نہ بیاہ دیں۔
"میں نے کہا نا کہ غنایہ ہم پر بوجھ نہیں۔۔ تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں۔۔ ہم تمہاری وجہ سے پریشان نہیں رہتے غنایہ۔۔ ہم بس ان ساری تکلیفوں، پریشانیوں کو تم سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ تمہارا باپ تمہیں کبھی ایسے ہاتھوں میں نہیں دے گا جو تمہاری قدر نہ کرسکے۔" ان کا دل گھبرا رہا تھا۔ وہ جانتی تھیں ابرار کے آفس سے لوٹنے پر جب وہ انہیں آج کا واقعہ سنائیں گی تو وہ کتنا پریشان ہوجائیں گے۔ کھانا ادھورا چھوڑ دیں گے اور بستر پر کروٹیں بدلتے رہیں گے۔۔ ایسا ہی تو ہوتا آیا تھا۔ غنایہ کو اطمینان دلا کر وہ خود سوچ میں پڑ گئی تھیں۔
"اگر تائی دوبارہ آئیں تو؟۔" دل میں خدشہ جاگا۔ عفت کی کچھ کہنے کی ہمت نہ ہوسکی۔
"ہم۔۔۔ ہم دیکھ لیں گے مگر تم کسی کو نہ بتانا۔۔ تم اپنی بہن کو آج کے بارے میں بھی کچھ نہ بتانا غنایہ۔ اگر اسے پتا چل گیا تو بھائی جان کے گھر جا کر ایک تماشہ کھڑا کردے گی اور یوں معاملہ خراب ہو جائے گا۔"

تو دل سے نہ اتر سکاWhere stories live. Discover now