پانچویں قسط

190 18 1
                                    

ایک ہاتھ اسٹیئرنگ پر تھا اور نظریں شیشے کے پار سامنے جمی تھیں۔ گاڑی میں خاموشی توقع کے برعکس تھی۔ پندرہ منٹ سے وہ سفر میں تھے اور اب اس کی چیخیں بھی تھم چکی تھیں۔ میرویس نے شیشے کے عکس میں پیچھے اسے دیکھا جس کے چہرے پر الگ سے ایک خوف کا سایہ محسوس ہو رہا تھا۔ جسے وہ چھپانے کی ناممکن کوشش کر رہی تھی۔ میرویس کا دل بوجھل ہوا۔ اپنے ساتھ کچھ غلط ہوجانے کا خوف اب بھی اس کے چہرے پر واضح تھا۔ میر نے خشک ہوتے لبوں پر زبان پھیرتی ہوئے سامنے دیکھا۔ کیا وہ واقعی اس کو اتنا جاننے کے باوجود بھی خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہی تھی۔ اس نے کچھ دیر کے وقفے سے ایک بار پھر بیک مرر میں عشنا کو دیکھا جو اب اسے دیکھ رہی تھی۔
"کہاں لے کر جارہے ہو؟۔" عجیب طرح سے پوچھا گیا۔۔ شاید خوف سے الفاظ لڑکھڑا گئے تھے۔ بس اسی وقت میر نے اپنا ارادہ بدلا تھا۔ گاڑی سیدھے ہاتھ پر موڑنے کے بجائے بائیں طرف موڑ لی۔ لبوں پر خاموشی کا راج تھا۔ ہاں وہ بھول ہی تو گیا تھا کہ اب بات پہلی جیسی نہیں رہی تھی۔۔ اگر وہ یہ سب پانچ سال پہلے کرتا تو عشنا یوں خاموش نہ رہتی بلکہ چیخ چیخ کر اپنی منوا چکی ہوتی۔ نجانے میر کو کیا ہوا۔۔ وہ کیوں بھول گیا تھا کہ اب درمیان میں پانچ سال تھے۔۔ اب کچھ بھی پہلے جیسا نہیں تھا۔ اس نے جواب دیے بغیر ایک جگہ گاڑی روکی۔ عشنا کے لیے جگہ کو پہچاننا مشکل تھا۔ تاثرات اب کچھ مختلف تھے۔ وہ اب سنجیدہ تھا۔ ڈرائیونگ سیٹ سے اتر کر اس نے پیچھے کا دروازہ کھولا۔ عشنا نے دروازہ کھلتے ہی ماتھے پر بل چڑھا کر اسے دیکھا۔
"کہاں لائے ہو تم مجھے؟۔" بیگز اٹھا کر وہ اسے دیکھتی باہر نکلی۔ سڑک ویران تھی۔ اس نے نگاہ باہر ڈالی تو ٹھٹھک گئی۔ میرویس اسے کہیں اور نہیں بلکہ اس کے اپنے ہی گھر لے آیا تھا۔ حیرت سے جھٹ پلٹ کر میر کو دیکھا جو اب بھی پیچھے کا دروازہ کھول کر کھڑا تھا۔
"اب تم سے کیا بدلہ لینا۔" بےتاثر لہجہ۔۔ عشنا کی آنکھیں پوری کھلی ہوئی تھیں۔ اس کا یوں ہار ماننا ناقابل یقین تھا۔
"خیال رکھنا۔۔" وہ مزید کچھ کہے بغیر گاڑی اسٹارٹ کرنے لگا۔ عشنا اب تک حیرت زدہ کھڑی اسے سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ خاموش ماحول میں گاڑی اسٹارٹ ہونے کی آواز ابھری تھی۔ میرویس ایک نظر اسے دیکھتا ہوا گاڑی آگے بڑھا کر لے گیا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"صاحب نے کہا ہے آپ تیار ہوجائیں۔ آپ کے گھر والے آتے ہی ہوں گے۔" وہ ادھیڑ عمر ایک ملازمہ تھی جس نے اس کے سامنے بستر پر جوڑا بچھایا تھا۔ ایک گھنٹے سے صوفے پر بیٹھی غنایہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
"صاحب کہاں ہیں؟۔" اس نے تیزی سے پوچھا۔ ملازمہ اس کے یوں صاحب بولنے پر چونکی۔۔ "مطلب ساویز۔۔ ساویز کہاں ہیں؟۔" غلطی محسوس کر کے وہ تصحیح کرنے لگی۔
"وہ ابھی گھر پر نہیں ہیں۔ ان کی کال پر یہ جوڑا آپ کے پاس لے آئی۔" غنایہ نے وہ آسمانی رنگ کا جوڑا دیکھا جو بےحد خوبصورت تھا۔ اسے گھر آئے نجانے کتنے گھنٹے بیت چکے تھے اور ساویز اسے ملازمہ کے حوالے کر کے گھر سے ہی چلا گیا تھا۔ ملازمہ جا چکی تھی۔ اس نے وہ جوڑا اٹھایا اور تبدیل کر آئی۔ جانے کیوں دل گھبرانے لگا۔۔ ماحول میں گھٹن کا احساس بڑھ گیا۔ بیگ برش سے نکال کر بالوں میں پھیرا۔ میز پر رکھا وہ چھوٹا سا ڈبہ جو ملازمہ جوڑے کے ساتھ رکھ کر گئی تھی اسے کھول کر کانوں کی بالیاں نکالنے لگی۔ آج اسے احساس ہوا کہ یہ سب بہت جلدی اور اچانک ہوگیا۔ اس نے ڈھیلی سی پونی بنا کر خود کو ایک آخری بار آئینے میں دیکھا۔ یہ سب بہت اچھا تھا مگر یہ کمرہ یہ جوڑا اس کا دل مطمئن نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے ایک بار پھر کمرے پر نگاہ ڈالی۔ کشادہ خوبصورت یہ کمرہ اسے پہلی ہی نظر میں بھایا تھا۔ پورے کمرے میں سیاہ اور سفید کا جوڑ تھا۔ کالے رنگ کا فرنیچر اور سفید رنگ کے خوبصورت پردے۔۔ سیاہ صوفے اسے بےحد پسند آئے تھے۔ گھبراہٹ بڑھنے لگی تو وہ کھڑکی پر آکھڑی ہوئی۔ موسم بدل رہا تھا۔۔ ٹھنڈی تیز ہوا اس کے چہرے کو پر سکون کرتی کمرے میں داخل ہو رہی تھی۔ ایک عجیب سا خوف تھا جو دل میں اب ٹھہر گیا تھا۔
"غنایہ؟۔" وہ پیچھے سے کمرے میں داخل ہوا۔ غنایہ اس کی آواز پر سہم کر چونکی۔ ساویز نے غنایہ کی ہڑبڑاہٹ صاف محسوس کی۔ وہ سیاہ پینٹ کوٹ میں ملبوس اندر داخل ہوا۔
"جی۔" اس نے کھڑکی کے ساتھ لگے پردے کو مٹھی میں بھینچا۔ اس کی تمام حرکات ساویز نوٹس کر رہا تھا۔ کمرے میں چھوٹے دو فانوس کی ملگجی سی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ فوراً کچھ کہے بنا وہ صوفے پر بیٹھ کر جوتے اتارنے لگا۔ غنایہ وہیں کھڑکی کے پاس کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔
"آپ کے ابا کی طبیعت بہتر نہیں اس لیے وہ آج دعوت میں نہیں آسکیں گے۔" وہ اسے نہیں دیکھ رہا تھا۔
"کیا ہوا انہیں؟۔" اس کا دل گھبرایا۔۔
"کچھ مختلف نہیں۔۔ بس وہی کمزوری اور نقاہت۔ میں نے ملازم بھجوایا ہے ان کی طرف۔۔ میں خود چلا جاتا اگر آپ گھر پر اکیلی نہ ہوتیں۔" جوتوں کو کنارے پر کرتا ہوا وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ غنایہ اسے بغور دیکھنے لگی جو اب وارڈروب سے کپڑے نکال رہا تھا۔ سفید ٹی شرٹ اور جینز کی پینٹ نکال کر اس نے بستر پر کپڑے رکھے اور پلٹ کر اسے دیکھنے لگا جس کی نظریں پہلے سے اس پر تھیں۔
"آپ کو گرمی لگ رہی ہے؟۔" پندرہ منٹ سے کھڑکی کے پاس کھڑی غنایہ کو دیکھ کر وہ یہی سمجھ سکا تھا۔ "میں ائیر کنڈیشنر کھول دیتا ہوں۔" ریموٹ سے ائیر کنڈیشنر کھول کر وہ اس کی جانب کھڑکی بند کرنے بڑھا۔ غنایہ اسے نزدیک آتا دیکھ کر دور ہٹی۔ بظاہر نظر انداز کرتا ساویز اس کو اچھی طرح نوٹس کر رہا تھا۔
"میں شاور لینے جا رہا ہوں۔" اطلاع دیتے ساتھ وہ کپڑے اٹھاتا واشروم میں گھس گیا۔ غنایہ لب بھینچتے ہوئے سنگھار میز تک آئی اور آئینے میں دیکھنے لگی۔ ہلکی گلابی لپ اسٹک اور کانوں میں بالیاں۔۔ نجانے وہ کیوں تیار ہوئی تھی۔ گہری سانس خارج کرتے ہوئے برابر رکھے صوفے پر گرنے کے انداز میں بیٹھی۔ کون جانے بقایہ زندگی کیسے گزرنے والی ہے؟ آنکھیں نیند سے بوجھل تھیں مگر دل کے خوف نے اسے اب تک جگائے رکھا تھا۔۔ یہ گھر اور ساویز اس کا نیا خوف تھے۔ وہ اس کے واش روم سے نکلنے تک یونہی بیٹھی رہی۔ تقریبا دس منٹ بعد واش روم کا دروازہ کھلا تھا اور ساویز سر تولیے سے رگڑتا ہوا باہر نکلا تھا۔ اسے وہی گم بیٹھا دیکھ کر سنگھار میز کے سامنے آکھڑا ہوا۔
"اتنی خاموشی کی وجہ؟۔" بات کا آغاز کرتے ہوئے اس نے تولیہ بستر پر پھینک کر برش اٹھایا۔
"کوئی وجہ نہیں۔۔ میں ایسی ہی ہوں۔" دھیمی سہمی آواز ابھری۔ ساویز کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی۔
"کوئی ایسا خود سے نہیں ہوتا۔" وہ بھاری آواز میں گویا ہوا۔ 'وقت اور حالات بنادیتے ہیں۔' آدھا جملہ وہ خود سے دل میں بولا تھا۔ غنایہ اسے بالوں میں برش پھیرتا دیکھنے لگی۔ کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ ساویز خود پر پرفیوم چھڑکتا ہوا اس کی جانب بڑھا۔ پرفیوم کی مہک پورے کمرے میں پھیل رہی تھی۔ وہ اسے اپنے نزدیک بڑھتا دیکھ کر تھوک نگلتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی۔
"امی ابا نہیں آرہے تو کیا میں کپڑے تبدیل کرلوں؟۔" یہ اس کا دیا ہوا جوڑا تھا۔۔ اجازت طلب کرنی ضروری تھی۔ اس کے بےحد نزدیک پہنچ کر ایک نظر اس کی آنکھوں دیکھتا وہ غنایہ کو آنکھیں جھکانے پر مجبور کر گیا۔ وہ گھبرانے لگی جب اسے سوئچ بٹن کھلنے کی آواز آئی۔ اس نے چونک کر آنکھیں اٹھائیں۔ کمرہ سفید لائٹ سے روشن ہوگیا تھا۔ نگاہیں اب بھی اس پر تھیں اور دایاں ہاتھ غنایہ کے پیچھے کی دیوار پر لگا سوئچ بٹن پر۔۔ وہ مسکرا کر تھوڑا فاصلہ رکھتے ہوئے اسے بغور دیکھنے لگا۔ ہلکے آسمانی رنگ میں وہ اسے بلا کی پرکشش معلوم ہوئی۔۔ نازک سی بالیاں بلکل اس لڑکی کی طرح۔۔ وہ بمشکل نظریں ہٹاتے ہوئے اس کی بھوری آنکھوں کو دیکھنے لگا جو الجھی ہوئی تھیں۔
"اگر کمرے کی بڑی لائٹ ابھی کھلی نہ ہوتی تو شاید میں اس سوال کا جواب ہاں میں دے دیتا۔۔ مگر اب نہیں۔۔" مبہم سی شریر مسکراہٹ۔۔ غنایہ کو اپنی سانسیں رکتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ "یہ رنگ آپ پر بے انتہا اچھا لگ رہا ہے۔" ٹھوڑی سے اس کا چہرہ اٹھاتے ہوئے بے حد پیار بھرے انداز میں کہا گیا۔ یہی وہ وقت تھا جب غنایہ بدک کر دور ہٹی۔۔ پیچھے کھڑکی پر لگے پردے کو مٹھی میں بھینج کر پکڑا۔ اس کی سانسیں بکھری ہوئی تھیں۔ آنکھوں میں ایک خوف نمایاں تھا اور وہیں ساویز ششدر ہوا۔۔ وہ اسے ایسے دیکھ رہی تھی جیسے وہ کوئی غیر مرد ہو۔ اس کی پھٹی آنکھیں غنایہ کے چہرے پر تھیں اور وہ ساکت کھڑا تھا۔
"ایسا نہ کریں۔" الجھا لہجہ، نم آنکھیں۔۔ ساویز کے لیے اس کا یوں کہنا تکلیف کے باعث بنا۔ اسے معلوم نہیں کہ وہ کب تک اسے یوں دیکھتا رہا اور غنایہ کب تک نم آنکھوں سے سسکتی رہی۔ تھوڑی دیر بعد ہی وہ چونک کر پیچھے ہٹا۔
"ڈنر ساتھ کرتے ہیں۔" ابھی ہوئے واقعے کو سرے سے بھلا کر وہ اسے کھانے کی میز پر چلنے کو کہنے لگا۔
"میرا دل نہیں چاہ رہا کچھ بھی کھانے کا۔۔ یہاں بہت زیادہ گھٹن محسوس ہو رہی ہے۔" ائیر کنڈیشنر کی وجہ سے ٹھنڈا ہوتا کمرہ بھی اس کے اندر کی گھٹن کم نہ کرسکا۔ وہ تیزی سے دہلیز عبور کرتی ٹیرس میں چلی گئی۔
ساویز وہیں ٹھہر گیا۔ چہرہ بےتاثر تھا۔ اس کا یوں بدک کر پیچھے ہٹنا اور ساویز کے ہاتھ کو خود سے چھڑانا اسے ششدر ہی تو کر گیا تھا۔ میز سے گاڑی کی چابی اٹھاتا وہ نیچے اتر گیا۔ مزید یہاں ٹھہرنا بہتر محسوس نہ ہوا۔ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے اس نے ایک نظر اوپر ٹیرس میں کھڑی غنایہ کو دیکھا جو سہمی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ وہ فالحال یہاں نہیں ٹھہرنا چاہتا تھا۔ گاڑی اسٹارٹ کرتے ساتھ آگے بڑھالی گئی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
اس کی آنکھوں میں ہلکا ہلکا خوف نجانے اس سے کیوں نہ دیکھا گیا۔ بظاہر بڑا فیصلہ اس نے یکدم ہی بدل ڈالا۔ اگر وہ یہی سب پانچ سال پہلے کرتا تو عشنا کی آنکھوں میں یہ خوف نہ ہوتا۔ وہ اسے جانتی تھی۔۔ میرویس کچھ بھی کرسکتا تھا مگر غلط ارادے نہیں رکھ سکتا۔۔ مگر پھر یہ کیا ہوا تھا؟ اس کی آنکھوں میں کچھ غلط ہوجانے کا خوف نمودار ہونا میرویس کو ساکت ہی تو کر گیا تھا۔ ہاں وہ پانچ سال۔۔۔ ان پانچ سالوں میں شاید سب بدل گیا تھا۔ اس نے گہری سانس اندر کھینچتے ہوئے چپل میں پیڑ ڈالے اور ٹیرس پر آکھڑا ہوا۔ اس کی آنکھوں کے پاس وہ گہرا تل میرویس کو پانچ سال پہلے بھی اچھا لگتا تھا۔۔ سیاہ آنکھیں جب اس کی آنکھوں میں دیکھتی تو کشمکش میں پڑ جاتیں۔ جانے اس کی آنکھوں کا رنگ کیا تھا۔۔۔ یا وہ پہچان نہیں پاتا تھا۔۔ کبھی بھوری معلوم ہوتیں کبھی سیاہ۔۔ کاش کہ وہ جان پاتا۔۔ پانچ سال پہلے اور اب میں کافی باتیں ملتی تھیں۔۔۔ کہ وہ آج بھی اس کی آنکھوں کا رنگ ہی سوچتا رہ گیا تھا۔۔ ٹھنڈی تیز ہوا موسم بدلنے کی علامت تھی۔ آج آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔ بھرے بھرے بازو ریلنگ پر ٹکاتا ہوا وہ باہر کی دنیا دیکھنے لگا۔۔ کاش کہ ان چہروں میں کوئی شناسائی مل جائے۔
۔۔۔★★★۔۔۔
ائیر کنڈیشنر کی ٹھنڈک اور سیگریٹ کے دھوئیں سے بھرے اس کمرے میں خاموشی کا عالم تھا۔ بستر پر ایک وجود تھا جس کے ہاتھ کے نیچے نرم تکیہ دبا تھا۔ گہری نیند میں سوتے وجود کی آنکھ موبائل کے بجنے سے یکدم کھلی۔ چادر خود پر سے اٹھاتے ہوئے اس نے پیر زمین پر رکھے۔
"ہیلو؟۔" کانوں سے فون لگا تھا۔ نیند سے بوجھل آنکھیں اور ماتھے پر ہلکے ہلکے بل۔۔ دوسری طرف سے خرم کے خبر دینے پر وہ چونکا۔
"کیا؟؟؟ کب؟؟۔" وہ چیخا۔ اس کی آنکھیں اس خبر پر پوری کھل سی گئیں۔ خرم اب بھی کچھ بول رہا تھا جسے وجاہت بہت غور سے سننے لگا۔
"اس نے شادی کرلی۔۔" الجھا ذہن۔۔۔ بھلا اتنی جلدی مگر یہ کیسے ممکن تھا؟۔ "ٹھیک ہے اس کی معلومات کل صبح تک اکھٹی کر کے دو۔ میں انتظار کروں گا۔" مزید بولنے کا موقع دیے بغیر اس نے کال رکھ کر موبائل بستر پر پھینکا۔
"کسی کام کے نہیں یہ!۔" مٹھیاں بھینچ کر کہتے ہوئے وہ اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی جب لبوں پر مسکراہٹ پھیلی۔
"شادی کرلی اور دوست کو بھی نہیں بلایا؟۔" دماغ کھیل سوچنے لگا۔ "لگتا ہے اب زیادہ مزہ آنے والا ہے۔" ڈمپل مزید گہرا ہوا اور وہ اپنا لائٹر بستر پر اچھالتا آگے بڑھ گیا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
سورج کی روشنی ٹیرس کے کھلے دروازے سے اندر آتی کمرے کو روشن کر رہی تھی۔ رات اس کے گھر سے جانے کے بعد وہ ائیر کنڈیشنر بند کر چکی تھی۔ روشنی آنکھوں میں چبھنے لگی تو وہ اٹھ بیٹھی۔ یکدم ہی نئی جگہ کا احساس ہوا۔ اس نے جلدی سے گھڑی دیکھی جو گیارہ بجا رہی تھی۔ بستر کے بائیں طرف بیٹھی غنایہ نے ارد گرد نظریں دوڑائیں تو اسے صوفے پر آڑا ترچھا لیٹا ساویز نظر آیا۔ بے آرامی سے سوتے ہوئے وہ بار بار کروٹیں بدل رہا تھا۔ یکدم ہی اسے دکھ ہوا۔ کاش کہ وہ صوفے پر سوجاتی تو ساویز کو اپنا بستر نہ چھوڑنا پڑتا۔ ہلکی سی چادر اس کا بدن ڈھانپی ہوئی تھی۔ بنا آواز پیدا کیے وہ فرش پر پیر رکھتی کھڑی ہوئی۔ ڈوپٹہ سختی سے درست کرتے ہوئے اس نے پیروں میں چپل پہنی اور چلتے ہوئے ساویز کے برابر سے گزرنے لگی جب اس کے سوتے وجود نے اسے ٹھہرنے پر مجبور کیا۔ بکھری سی شیو اور بال جو اس کی آنکھوں تک آرہے تھے۔ ٹی شرٹ کی آستینوں سے جھانکتے بھرے بھرے بازوؤں پر نگاہ ڈالتی وہ واش روم سے فریش ہو آئی۔ بستر کے ارد گرد پھولوں کے گلدستے رکھے تھے جس کی وجہ کمرے میں خوشگوار سی مہک پھیلی تھی۔ دوسری طرف کنارے پر اس کا سوٹ کیس رکھا تھا جسے دیکھتے ہی غنایہ اس کی جانب بڑھی۔ سوٹ کیس بستر پر رکھ کر کھولا گیا۔ اندر موجود کپڑوں میں سے وہ کوئی اچھا سادہ سا سوٹ نکالنے لگی۔ صوفے پر لیٹے ساویز کو ہلچل محسوس ہوئی تو ادھ کھلی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا۔ چھ فٹ کا مرد ایسے صوفے پر لیٹا تھا جس میں اس کے پاؤں بھی پورے نہیں آتے تھے۔
"میں بستر پر سو جاؤں؟۔" اسے دیکھتے ہوئے نیند میں پوچھا گیا۔ آواز قدرے بھاری تھی۔ غنایہ نے چونک کر اسے دیکھا جو اپنے بستر کے لیے اس سے اجازت طلب کر رہا تھا۔
"جی۔۔۔" اس کی آواز مزید دھیمی ہوگئی۔ "میں اب ویسے بھی اٹھ گئی ہوں۔" وہ نیند سے بھری آنکھیں غنایہ کو دیکھ رہی تھیں۔ ساویز چادر پکڑ کر اٹھ کھڑا ہوا۔ اپنا موبائل صوفے پر ہی چھوڑ کر تکیہ اٹھائے بستر کی دوسری طرف گھوم کر آیا اور غنایہ کی جگہ پر لیٹ گیا۔۔ جبکہ غنایہ بستر کے دائیں طرف اوپر کھلے سوٹ کیس سے کپڑے اور ضروری سامان نکالنے لگی۔ آنکھیں موند کر لیٹے ساویز نے پلکیں ذرا سا اٹھا کر اسے دیکھا۔ آسمانی رنگ روشنی میں مزید کھل رہا تھا۔ بال کھل کر شانے پر بکھرے ہوئے تھے اور وہ سختی سے اپنے ارد گرد ڈوپٹہ لپیٹے کپڑے دیکھ رہی تھی۔ مخروطی انگلیاں بار بار مڑوڑی جا رہی تھیں۔ اسے اب تک اندازہ ہوچکا تھا کہ یوں انگلیوں پر تشدد صرف تب ہی ہوتا تھا جب وہ پریشان یا گھبرائی ہوئی ہوتی تھی۔ غنایہ کے علم میں بھی نہیں تھا کہ ساویز ادھ کھلی آنکھوں سے اسے دیکھ رہا ہوگا۔ اس گھر میں گویا کسی کا اضافہ ہوچکا تھا۔ سورج کی شعائیں غنایہ کے آدھے چہرے پر پڑ رہی تھی اور ساویز کی نظریں تھیں کہ اس پر سے ہٹنا ہی نہیں چاہتی تھیں۔ وہ آنکھیں جھکاتی تو اس کی لمبی گھنی پلکیں ساویز واضح دیکھ پاتا۔ کل رات کا واقعہ یاد آیا تو گہری سانس اندر کھینچتا وہ دوسری طرف کروٹ لے کر لیٹ گیا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"کل رات کس کی خیر نہیں تھی پھر؟۔" حسام کا چھیڑتا لہجہ میر کا دل جلا گیا۔ وہ جو فائل دیکھ رہا تھا اس کی آواز پر فائلز بند کرتا سی پی یو پر کہنی ٹکا کر کھڑا ہوا۔
"کس کی خیر نہیں تھی؟ مجھے بھی بتاؤ۔" غصہ آنکھوں پر ٹھہرا تھا۔
"اس کی ہی جس کی معلومات نکلوائی تھی۔ کوئی تو چکر ضرور ہے! کیا ہوا تھا اور کون لڑکی تھی وہ؟؟۔" ہر کام سے فارغ وہ مستقل اسے تنگ کر رہا تھا۔ چہرے پر شریر مسکراہٹ تھی۔ میر نے لب بھینچ کر اس کا چہرہ دیکھا اور سانس باہر کھینچی۔
"معاویہ! نائٹ ڈیوٹی میں حسام اختر کا نام لکھو۔" کوٹ کا بٹن لگاتے ہوئے وہ آگے بڑھ گیا۔ لال رنگ کی فائل رابعہ کی میز پر رکھتے ہوئے وہ آفس کے ٹیلیفون سے کال ملانے لگا۔ حسام اس کی بات پر منہ لٹکاتا خود کو کوستا ہوا سیٹ پر بیٹھا۔ ڈیزائن پر کام کرتا معاویہ ہنسا۔ شاید وہ بھول گیا تھا کہ میرویس مینجر ہے۔۔۔ اور اس سے پنگا لینا بھاری پڑ سکتا ہے۔
"نائٹ ڈیوٹیز کے میمبرز مکمل ہیں سر۔۔" لسٹ میں سب کے نام دیکھتے ہوئے معاویہ نے اطلاع دی۔ حسام جہاں خوش ہوتا وہیں میرویس نے اس کا چہرہ دیکھا۔
"آخری نام کس کا ہے؟۔" وہ دور کیبن سے بولا۔
"مدحت اکبر! یہ اس پوری لسٹ میں پہلی لڑکی ہے۔" دستخط کرتے ہوئے پھر بتایا گیا۔
"اگر اسی لسٹ میں ارسلان کا نام ہے تو مس مدحت اکبر کا نام ہٹا دو! مگر اس کی جگہ ہمارے پیارے ورکر کا نام لکھنا مت بھولنا۔" نگاہیں حسام پر تھیں۔ "ہم ارسلان کو پہلے بھی وارن کر چکے ہیں۔۔ یہ اسے دی گئی آخری وارننگ ہے لیکن اگر اس نے پھر کچھ کیا تو شاید ہم اسے ابھی فوراً نکالنا افورڈ نہیں کر سکتے۔ وہ اس کمپنی کا بہترین ڈیزائینر ہے اور ہمیں فالحال اس کی ضرورت ہے۔" اس کے کلون کی خوشبو ارد گرد پھیل رہی تھی۔ رابعہ اپنے کیبن میں داخل ہوتے ہی کرسی پر بیٹھی۔
"مگر سر یہ نائٹ ڈیوٹیز وقتی ہیں۔ اگلے ہفتے پھر سب نارمل ہو جائے گا اور مسٹر ارسلان کی ڈیوٹی بھی بحال ہوجائے گی۔" معاویہ کا یوں کہنا اس کے چہرے پر دل جلانے والی مسکراہٹ لے آیا۔
"تم سب کے لیے میرویس کافی ہے۔ کمپنی کا مینجر اور وہ بھی میرویس! خطرے کی گھنٹی معلوم نہیں ہوتی؟۔" ہلکی مسکراہٹ۔ "وہ کچھ نہیں کرے گا۔۔ کم از کم جب تک میں اس کمپنی کا حصہ ہوں تب تک تو بلکل بھی نہیں۔۔" اپنے روم کی چابی اچھال کر پکڑتے ہوئے اس نے باری باری سب کو دیکھا اور رابعہ کو روم میں آنے کا اشارہ دے کر آگے بڑھ گیا۔ معاویہ اور حسام ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے تھے۔ اس بات سے بھلا کون انکاری تھا کہ اس کام کے لیے میرویس ہی کافی ہے۔۔
۔۔۔★★★۔۔۔
اس کی آنکھ جانے کب کھلی تھی اور وہ کتنی دیر تک سویا تھا۔۔ اٹھ کر یاد رہی تو صرف غنایہ۔۔ ارد گرد نگاہ دوڑا کر اس نے خالی کمرے کو دیکھا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ پیروں میں چپل اڑستے ہوئے وہ اسے ہر جگہ دیکھتے ہوئے باہر نکلا۔ ملازمہ رات کو ہی جا چکی تھی اور چوکیدار ابھی تک آیا نہیں تھا۔
"غنایہ؟۔" اس نے عام سے لہجے میں پکار کر جواب سننا چاہا۔ اوپر منزل میں اچھی طرح دیکھنے کے بعد وہ زینے اترتا نیچے آرہا تھا۔ غنایہ کو گھر میں موجود کمروں اور رستوں کا زیادہ علم نہیں تھا اور بھلا وہ ڈری سہمی کمرے سے باہر کہاں جا سکتی تھی؟ ذہن مختلف سوچوں سے الجھ رہا تھا۔ دل میں طرح طرح کے خدشے پھیل رہے تھے۔ وہ زینے اترتا نیچے بڑھ رہا تھا جب ذہن میں جھماکا ہوا۔ وجاہت؟ یہ سوچتے ساتھ ذہن مفلوج ہونے لگا۔ رنگت فق ہونے لگی۔۔ وہ تیزی سے نیچے اترتا اسے ہر جگہ دیکھنے لگا۔ لاؤنج، کچن، ڈرائیونگ روم حتی کہ گیسٹ روم میں بھی۔۔ خدشے یقین میں بدلنے لگے۔
"غنایہ؟؟؟۔" اس بار بلند آواز میں پکارا گیا۔ دل ڈوب رہا تھا۔۔
"جی۔۔" گھبرائی سہمی سی آواز کانوں میں پڑی تو سانس میں سانس آئی۔ وہ آواز کا تعاقب کرتے ہوئے لاونج سے باہر نکلا۔ غنایہ اس کی آواز پر اندر ہی آرہی تھی جب اسے دیکھ کر ٹھہری۔ پیشانی پر خوف کے تاثرات تھے۔ اس کے یوں چیخ کر پکارنے پر وہ گھبرا گئی تھی۔ ساویز نے اسے دیکھتے ہوئے آنکھیں موند کر گہری سانس اندر بھری۔۔ یہ لڑکی کیسے اس کے چھکے چھڑا گئی تھی۔
"نہیں، بس میں آپ کو دیکھ رہا تھا۔ کہیں نہیں ملیں تو دل میں عجیب خدشے پیدا ہونے لگے۔" وہ شاید لان میں تازہ ہوا کے لیے بیٹھی تھی۔ غنایہ نے تھوک نگل کر نگاہ موڑ لی۔ ساویز کی موجودگی میں وہ خود کو بے آرام محسوس کرنے لگی۔ ساویز اپنے بھرے بازو پر ہاتھ رکھتا ہوا اسے بغور دیکھنے لگا۔ ہلکے گلابی رنگ کے سوٹ میں بھی وہ کتنی پیاری لگ رہی تھی اگر وہ جانے تو۔۔ یا شاید وہ ساویز کے لبوں سے جاننا ہی نہیں چاہتی تھی۔ کل رات کے بعد وہ بہت کچھ سمجھ چکا تھا۔ یہ بھی جانتا تھا کہ اس سب میں غنایہ کا کوئی قصور نہیں۔۔ جس ماحول میں وہ بڑی ہوئی تھی اس کا یوں ہر کسی سے گھبرانا بڑی بات نہیں تھی۔ باصم کا چہرہ اب بھی اسے ڈراتا تھا۔ اب اسے ہر مرد کے چہرے پر باصم کی پرچھائیاں نظر آتی تھیں۔ یہ سب اس کا ذہن ختم کر رہے تھے۔
"غنایہ۔" وہ کہتے ساتھ آگے بڑھنے لگا جب وہ تیزی سے دور ہٹی۔۔
"جی۔۔" وہی مخصوص ہکا بکا لپجہ۔۔ جیسے وہ اسے اپنے نزدیک نہ آنے دینا چاہتی ہو۔ ساویز ایک بار پھر ٹھہر گیا۔ گہری سانس خارج کرتے ہوئے اس نے لب بھینچ لیے۔۔۔
"کچھ نہیں۔۔" دل بوجھل ہوگیا۔ آسمان پر سیاہ بادلوں کا راج تھا۔ دور ہلکی بجلی چمک رہی تھی۔ جلد بارش ہوجانے کے امکان تھے۔
"بارش ہونے والی ہے۔ آپ کمرے میں آجائیں۔" مزید رک کر غنایہ کو بے آرام کرنے کا ارادہ نہیں تھا اس لیے مڑ گیا۔
"مگر کیوں؟۔" وہ تیزی سے بولی۔ اندر بڑھتا ساویز رکا اور پھر پلٹ کر اسے دیکھنے لگا۔ کیا وہ اسے سفاک مرد سمجھتی تھی؟
"میں آپ کو اپنے لئے نہیں بلا رہا غنایہ۔۔ مگر اپنے اطمینان کے لیے ضرور کہہ رہا ہوں کہ اندر آجائیں۔ موسم خراب ہے اور چونکہ میں کمرے میں جا رہا ہوں تو آپ کی فکر رہے گی۔ بجلی چمک رہی ہے اور یہ اچھا نہیں۔۔" اسے تاکید کرتے ہوئے وہ اوپر چلا گیا جبکہ غنایہ اس کی پشت تکتی رہ گئی۔ ہاتھوں کی انگلیاں بار بار مڑوڑنے پر تکلیف کر رہی تھی۔ یکدم ہی زور دار بجلی کی آواز وجود کو کپکپا گئی تو وہ تیزی سے لاونج میں بڑھی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"بجلی کے ساتھ تیز بارش برس رہی ہے۔ کاش میں ابھی گھر پر ہوتی۔" گلاس وال سے باہر وہ حسرت سے دیکھ رہی تھی۔
"تمہیں بارش میں نہانا پسند ہے؟۔" صوفیہ مسکرا دی۔
"بہت زیادہ! مجھے بارش میں نہانا ہمیشہ سے پسند ہے، مگر جب سے علیحدہ رہنے لگی ہوں اپنی اس خواہش کی تکمیل نہیں کرسکی کیونکہ میں جانتی ہوں کہ اگر میں بارش میں بھیگی تو شاید بیمار پڑ جاؤں۔ میرا خیال رکھنے والا کوئی نہیں ہے۔ اب مجھے اپنی دیکھ بھال خود کرنی پڑتی ہے۔" دونوں ہتھیلیاں گلاس وال پر تھیں اور نگاہیں حسرت سے باہر دیکھ رہی تھیں۔
"لیکن میں ساون کو بہت انجوائے کرتی ہوں۔ خوب سارے پکوڑے بنا کر سراقہ کے آگے رکھتی ہوں اور خوب بارش میں نہاتی ہوں۔" اسے اپنا شوہر یاد ایا۔
"پھر تم بارش میں بھیگتے ہوئے بے فکر ہوتی ہوگی۔ تمہاری فکر کرنے والا تمہارے ساتھ موجود ہوتا ہے۔" لبوں پر مسکراہٹ تھی۔
"تمہارے ساتھ بھی کوئی موجود ہو سکتا ہے۔۔ اگر تم کسی کو موقع دو تو۔" لہجہ ذو معنی تھا۔ اس کی بات پر عشنا نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔
"تم کس کی بات کر رہی ہو؟۔" ایک آئبرو اچکا کر پہلے پوچھنا مناسب سمجھا۔
"جس کا ذکر تم کرنے لگی ہو۔" لبوں پر مبہم سی مسکراہٹ تھی۔ عشنا کے ماتھے پر بل پھیلے۔
"تم رافع کی طرف اشارہ کر بھی کیسے سکتی ہو صوفیہ؟ کیا واقعی تم ایسا سوچتی ہو؟۔" اسے برا لگا تھا جبکہ صوفیہ گڑبڑا گئی تھی۔
"رافع؟ رافع کہاں سے درمیان میں آگیا؟ میں میرویس کی بات کر رہی ہوں۔ وہی لڑکا جس کا تم نے مجھے بتایا تھا۔" جلدی سے بات کی تصحیح کی گئی۔ عشنا نے ماتھے پر ہاتھ مارا۔ نجانے وہ آج کل رافع کی حرکتوں کی وجہ سے اسے زیادہ ڈسکس کیوں کرنے لگی تھی۔
"میرویس؟ اس نے مجھے کل رات کڈنیپ کیا!۔" برہم ہوتے ہوئے یاد دلا گیا۔
"مگر اس نے تمہیں کہیں لے کر جانے کے بجائے گھر ہی چھوڑ دیا تھا۔" صوفیہ نے بھی اپنے حصے کا یاد دلایا۔ عشنا لاجواب ہوئی۔
"اس کا کیا ذکر یہاں؟۔" وہ مرویس پر بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔ کل رات کے بعد سے ذہن ایک کشمکش میں دوچار تھا۔
"مجھے لگتا ہے وہ تمہیں اب بھی پسند کرتا ہے۔ تم نے خود ہی بتایا تھا کہ جب تم دونوں یونیورسٹی میں پڑھا کرتے تھے تو وہ تم سے شادی کی خواہش بھی کیا کرتا تھا۔"
"یہ سب باتیں پانچ سال پرانی ہیں صوفیہ۔۔ اور کل اس نے جو کیا وہ مجھ سے بدلہ لینے کے لیے تھا۔" وہ مزید نہیں سوچنا چاہتی تھی۔
"بدلہ لینے کے لیے تمہیں تمہارے گھر ہی چھوڑ دیا؟ یہ کون سا بدلہ ہوا بھلا؟ کوئی اور معاملہ ہے۔ خیر تم زیادہ بہتر جانتی ہوگی اسے۔۔ میں تو بس اتنا کہہ رہی تھی کہ تمہیں اگر کسی کے ساتھ کی ضرورت ہے تو تمہیں کسی کو یہ موقع دینا ہوگا۔ تم کہتی ہو تمہاری بہن اپنے باپ کے سوا سب مردوں سے ڈرتی ہے صرف باصم کی وجہ سے۔۔ اگر وہ ڈرتی ہے تو تم بھی مقابلہ نہیں کر پاتی عشنا۔" اس نے کندھے اچکائے۔
"میں خود مختار اور ایک مضبوط لڑکی ہوں۔" وہ تیزی سے بولی۔ ماتھے پر بل گہرے ہوئے۔
"خود مختار جسے کسی کا ساتھ چاہئیے اور مضبوط جو رافع کے آگے ایک لفظ بول کر اسے ڈانٹ نہیں سکتی۔" وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ "میں مینجر کی روم سے آتی ہوں۔" کچھ ڈاکومنٹس اٹھاتے ہوئے وہ باہر نکل گئی جبکہ عشنا اس کے جملے پر ہی ٹھہر گئی تھی۔ اس نے گردن پھیر کر ایک بار پھر باہر دیکھا جہاں سے دنیا نظر آتی تھی۔ میرویس کا خیال خود بخود دماغ پر چھانے لگا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
وہ شاور لے کر واش روم سے باہر نکلا تھا۔ غنایہ کمرے میں کہیں بھی نہیں تھی۔ اچانک کان پھاڑ دینے والی بجلی چمکی۔ وہ تیزی سے کھڑکی کی جانب بڑھتا ہوا نیچے جھانکنے لگا۔ لان خالی تھا۔ ماتھے پر الجھن کے آثار پھیلے۔ اس کی تاکید کے باوجود وہ کمرے میں نہیں آئی تھی۔ موبائل وہیں رکھتے ہوئے وہ نیچے بڑھا۔ ماتھے پر پریشانی کی شکنیں نمودار ہوئیں۔ زینے اتر کر نیچے ہی آرہا تھا جب اسے لاونج کے صوفے پر سمٹ کر بیٹھی غنایہ نظر ائی۔ تاثرات مخصوص بوکھلائے ہوئے تھے۔ آدھی سیڑھیوں کے درمیان کھڑا ساویز اسے تکتا رہ گیا۔ تو وہ لاونج میں بیٹھی تھی۔۔ حالانکہ وہ اس کے بلانے پر اوپر بھی تو آسکتی تھی؟ اپنی سوچوں کو جھٹکتا ساویز ریلنگ سے ٹیک لگاتے ہوئے اسے دیکھنے لگا جس کی اس کی جانب پشت تھی۔ دماغ میں ابھرے ان سوالوں کا جواب اسے ڈھونڈنا نہ پڑا۔۔ وہ جان گیا تھا کہ غنایہ یہ سب اس سے دور رہنے کے لئے رہی ہے۔ وہ اوپر بھی ساویز کی وجہ سے نہیں آئی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس کا ساویز سے سامنا ضرور ہوگا۔ اسے کوئی موقع دیے بغیر وہ اس سے الگ اور تنہا لاونج میں ہی ٹھہر گئی تھی۔ ساویز نے لب بھینچ کر تھکے تھکے سے انداز میں اسے دیکھا۔ اس کی ذہنیت سمجھتے ہوئے بھی وہ خاموش تھا کیونکہ اس کے پاس غنایہ کی پریشانیوں کا حل نہیں تھا۔ اس کا دل برا ہونے لگا۔
"اوپر نہیں آئیں گی؟۔" ساویز نے نرمی سے پوچھا۔ اس کی آواز پر وہ چونکتے ہوئے اسے پلٹ کر دیکھنے لگی۔
"اوپر کیوں؟۔" وہ الٹا اس سے سوال کرنے لگی جبکہ ساویز اس کے سوال پر ہی حیران تھا۔
"کیونکہ وہ آپ کا کمرہ ہے غنایہ!۔"
"مم۔مجھے اوپر نہیں جانا۔" ہچکچا کر کہتی ہوئی وہ مزید سمٹی۔ ساویز حیرانی سے اس کے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔
"اس کا کیا مطلب ہوا؟۔" وہ زینے اترتا ہوا نیچے آیا۔
"آپ کمرے میں ہیں؟۔" پھر سوال کیا گیا۔
"ناشتے کے بعد کمرے میں جاؤں گا۔ آپ کیوں پوچھ رہی ہیں؟۔" اسے سمجھنا بہت مشکل ہورہا تھا۔
"پھر میں نہیں جانا چاہتی۔" اس نے ایک بار بھی ساویز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کی تھی۔ اس بات پر وہ بھونچکا رہ گیا۔ تو کیا وہ اس کے ساتھ کمرے میں رہنے پر بھی آمادہ نہیں تھی۔ لمحے گزر گئے مگر وہ یوں ہی بےیقینی سے کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ بمشکل دل کو قابو کرتے ہوئے وہ ملازم کو ناشتے کا کہنے باہر نکل گیا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"مہینہ ختم ہونے والا ہے۔ ہفتے کو کلائنٹ کے ساتھ میٹنگ کنفرم کردی ہے۔" دیوار کے ساتھ لگی فائلز کو اکھٹی کرتے ہوئے رابعہ کے آگے رکھا۔
"ہفتے کو؟ یعنی چار دن بعد! تم مجھے اب بتا رہے ہو؟۔" وہ حیرانی سے اس کے ہاتھ سے فائلز لیتی میز پر رکھنے لگی۔
"میرا ارادہ اب بھی بتانے کا نہیں تھا مگر خیر۔۔ تم ان فائلز پر توجہ دو کیونکہ ان کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔" وہ کرسی پر بیٹھا۔
"ریسٹورینٹ؟۔"
"ٹیبل کی بکنگ کا حسام سے کہہ دو۔ وہ کروادے گا۔"
"بارش تیز ہو رہی ہے۔ اگر اس دن بھی ایسے ہی بارش ہوگئی تو؟۔" چہرے سے پریشانی چھلک رہی تھی۔ میرویس اس کی بات پر قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔
"میں جانتا ہوں تم میٹنگ سے کترا رہی ہو۔ یہ فائلز اتنی مشکل نہیں رابعہ! تم انہیں پہلے بھی پڑھ چکی ہو اور ویسے بھی تمہارے کافی پر تبصرے ہر کلائنٹ کو پسند آتے ہیں۔۔ تو گویا اس بار بھی ہمارا کام بننے والا ہے۔" کافی کا کپ لبوں سے لگاتے ہوئے اس نے آخری بار رابعہ کو دیکھا۔ وہ اٹھ کر ایک نظر اس کو گھورتی ہوئی میز سے فائلز اٹھانے لگی۔
"وہ تبصرے نہیں بلکہ حقیقت ہوتی ہے!۔" چبا کر کہا گیا۔ "آپ کے لیے چار چھ اور کافی کے کپ لے آؤں؟۔" اس کے میز پر رکھے مزید تین کافی کے خالی مگ دیکھ کر طنز کیا گیا۔ وہ ہنس پڑا۔
"ہاں پلیز! مگر خدارا ان میں سے کوئی چائے کا نہ ہو! میں چائے کا شوقین نہیں۔۔"
رابعہ نے بیچارگی سے نفی میں سر ہلایا۔
"ذرا ٹھہرو!۔" وہ مڑ رہی تھی جب میرویس کی گھمبیر آواز نے اسے روکا۔
"ہاں؟۔"
"اس دن فریال تم سے کیا کہہ رہی تھی؟۔" اسے یکدم ہی آیا تھا۔
"باس کی سیکرٹری؟ تمہارے بارے میں پوچھ رہی تھی۔"
"میرے بارے میں؟ کام کے متعلق بات تھی؟۔"
"نہیں۔۔ اسے تمہارے بارے میں بات کرنا اچھا لگتا ہے۔" وہ کھلکھلا کر آگے نکل گئی جبکہ میرویس ہنس کر رہ گیا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا! کیا یہ واقعی ہمیں پارٹی دے رہا ہے؟۔" وہ اب تک بےیقین تھی۔
"دو بجے کا وقت دیا ہے۔ پانچ بجے تک پارٹی ختم ہو جائے گی۔ سراقہ نے کہا ہے وہ مجھے شاپنگ کروائے گا! کتنا مزہ آنے والا ہے۔" اس کے چہرے سے خوشی چھلک رہی تھی۔
"مجھے اپنی بہن سے ملنے بھی جانا ہے مگر یہ مینجر موقع نہیں دے رہا! اچھا خاصا پارٹی والے دن ہفتے کو چھٹی کرسکتی ہوں مگر صوفیہ تمہاری ضد! افف!!۔" کوریڈور سے نکلتے ہوئے وہ لفٹ کا انتظار کر رہے تھے۔
"رخصتی ہوئی ہے تو ولیمہ بھی ہوگا۔ تم اس سے ولیمے کے دن مل لینا۔ پلیز عشنا یہ ایک پارٹی مس مت کرو! میرے لیے آجاؤ۔۔ تم جانتی ہو تم سے زیادہ اچھا میرا یہاں کوئی دوست نہیں! اور میں اس پارٹی کو انجوائے کرنا چاہتی ہوں۔" اس کے اصرار پر وہ خاموش ہوگئی تھی۔
"میں آؤں گی یار! تم فکر مت کرو۔" لمبی خاموشی کے بعد دوستانہ انداز میں کہتے ہوئے اس کے کندھے پر ہاتھ پھیلادیا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
اس کا لہجہ اور انداز وہ ان دو دنوں میں اچھی طرح سمجھ گیا تھا۔ اس سے کٹ کر کترائے پھرنا۔۔ قریب آنے پر جھٹکے سے دور ہوجانا۔۔ سہما لہجہ اور نم انکھیں۔۔ اس کی باتوں کے جواب میں اکثر خاموش اور سمٹ کر رہنا۔ ساویز کمرے میں جاتا تو وہ باہر نکل جاتی تھی۔ یہاں تک کے سونے کے لیے بھی تب ہی آتی جب ساویز صوفے پر سوچکا ہوتا۔ صبح جلدی اٹھ جاتی اور جب ساویز اسے ڈھونڈتا تو لان میں بیٹھی تازہ ہوا لے رہی ہوتی۔ وہ کوئی ایسا حل ڈھونڈنے لگا جس سے یہ سب بہتر ہوسکے۔ پہلے یہ سوچا گیا کہ اسے اس کے حال میں ہی چھوڑ دینا چاہئیے مگر وہ ایسا نہیں چاہتا تھا۔
آج ولیمہ تھا۔۔ جس کا علم تقریبا سب کو ہی تھا سوائے غنایہ کے۔۔ وہ اسے کل ہی بتا دینا چاہتا تھا مگر وہ اس کا سامنا ہی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ دو بج رہے تھے جب وہ گھر میں داخل ہوا۔ ڈھیروں شاپنگ بیگز بستر پر رکھ کر اس نے کمرے سے باہر جاتی غنایہ کو روکا۔
"آج ولیمہ ہے اس لیے چاہتا ہوں یہ شاپنگ بیگز دیکھ لیں۔ سارا سامان لے آیا ہوں اور اگر اب بھی کچھ رہتا ہے تو۔۔۔" وہ کچھ دیر کو ٹھہر کر اس کو دیکھنے لگا۔ "مجھے بتادے گا۔" یہ جانتے ہوئے بھی کہ کچھ کمی ہونے کے باوجود بھی وہ اسے نہیں بتائے گی پھر بھی کہہ بیٹھا۔ جبکہ غنایہ کے الجھے تاثرات کچھ اور ہی کہہ رہے تھے۔
"ولیمہ؟۔" اسے حیرانی ہوئی۔
"جی۔۔ میں کل ہی بتادیتا مگر آپ نے موقع نہیں دیا۔" اس نے گولڈن لہنگا نکال کر اس کے آگے رکھا۔ ولیمہ کے لیے لہنگا وہ جان کر لایا تھا کیونکہ شادی بے حد سادگی سے ہوئی تھی اور غنایہ ایسا کوئی جوڑا اپنی پسند سے پہن نہیں سکی تھی۔
"بیوٹیشن بھی آجائے گی اور میک اپ بھی لے آیا ہوں۔ کچھ جیولری ہے جو عشنا ہی بہتر پسند کرسکتی ہے۔" آستین کے کف فولڈ کرتا ہوا وہ ایک نگاہ جوڑے پر ڈال کر بولا۔
"عشنا آرہی ہے؟۔" دھیمی تجسس بھری آواز۔۔ ساویز نے اپنی شیو پر ہاتھ پھیر کر اس کی بھوری آنکھوں میں دیکھا۔
"ہاں۔ میں نے اس سے کہا ہے۔" تین گھنٹے اس کام پر خرچ کرنے کے بعد وہ بستر پر دھپ سے گرا اور آنکھیں موند کر تھکن اتارنے لگا۔ غنایہ اس لمبے چوڑے وجود کو دیکھنے لگی جس کے چہرے پر تھکاوٹ کے تاثرات تھے۔ بال چہرے پر گرے تھے۔۔ بازو پر ابھری لکیریں غنایہ کی توجہ کھینچنے لگی تو وہ خود کو مصروف کرنے کے لیے شاپنگ بیگز کی طرف بڑھ گئی۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"یہ تجھ پر واقعی اچھا لگے گا!۔" ہینگر میں لٹکا وہ خوبصورت مہنگا سوٹ اسے ہر طرف سے دکھا رہا تھا۔ لاونج کے دروازے پر ایک ہاتھ ٹکائے کھڑا ساویز پندرہ منٹ سے میر کی ہر بات پر ہاں میں سر ہلا رہا تھا۔
"اور یہ سرخ ٹائی بھی تم پر بہت اچھی لگے گی۔" دوست کے ولیمے پر وہ آج ہمیشہ سے زیادہ خوش تھا۔
"ولیمہ ہے۔۔۔ جاب کا انٹریو نہیں۔" اس کے شانے پر ہاتھ مارتے ہوئے یاد دہانی کروائی گئی۔ میرویس نے ایک آئبرو اچکا کر اسے دیکھا۔
"یہ اتنا مہنگا سوٹ ولیمہ کا ہی ہوسکتا ہے ساویز!۔" انداز ڈپٹنے والا تھا۔ ساویز نے اس کے مسکراتے چہرے کو سنجیدگی میں بدلتے دیکھا تو فوراً سے ہاں میں سر ہلا دیا۔
"بلکل بلکل!! ٹھیک کہہ رہے ہو۔"
دور گھر کا دروازہ کھلا تھا اور عشنا داخل ہوئی تھی۔ وہ دونوں ہی اس سے بےخبر تھے۔ دائیں ہاتھ میں دو شاپنگ بیگز اور بائیں ہاتھ میں گاڑی کی چابی۔۔ اس نے اندر آتے ہی دور ان دونوں کو لاونج کے دروازے پر کھڑا پایا تھا۔ ساویز کا ایک ہاتھ لاونج کے دروازے پر جبکہ دوسرے ہاتھ میں سوٹ کی ٹائی تھی۔ عشنا کی طرف پشت کیے کھڑا میر ساویز کو سوٹ دیکھا رہا تھا۔ وہ اسے دور سے ہی پہچان گئی تھی۔ اب یقینا ایک بار پھر اس سے بحث ہونے والی تھی۔ قدم بڑھاتے ہوئے گیراج سے نکلتی اندر بڑھنے لگی۔ ساویز کی اس پر نگاہ پڑی تو لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ اس کے گھر پہلی بار آئی تھی۔
"دیکھو کون آیا ہے!۔" وہ میر کو متوجہ کرواتا ہوا سیدھا ہو کر کھڑا ہوا۔
"اسلام علیکم۔" وہ خوش دلی سے سلام کرتے ہوئے ان کے قریب آکر کھڑی ہوئی۔ میرویس نے اسے بغور دیکھا۔
"وعلیکم سلام۔۔ ہم تمہارا ہی انتظار کر رہے تھے۔" شیو پر ہاتھ پھیر کر کہتے ہوئے وہ اسے اندر آنے کا راستہ دینے لگا۔
"ہم نہیں۔۔۔ صرف تم! مجھے اس کے آنے کی خبر بھی نہیں تھی!۔" ترچھی نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے اس نے ساویز سے کہا۔ ساویز نے ایک ہاتھ سینے پر رکھ کر دوسرا ٹھوڑی پر رکھا۔ گویا اب تماشہ شروع ہونے والا تھا۔
"اگر خبر ہوتی تو کیا کرلیتے؟؟۔" وہ بھڑک اٹھی۔
"تو یہاں نہ آتا!۔" تڑخ کر کہا گیا۔ عشنا کا چہرہ لال بھبھوکا ہوا جبکہ ساویز میر اور عشنا دیکھ کر سوچنے لگا کہ دونوں ہی لڑنے کا موقع ڈھونڈتے ہیں۔
"تو جاؤ! ٹھہرنے کی ضرورت بھی نہیں۔۔" اس نے منہ پھیر کر بولا۔ ساویز کا دل چاہا زور سے ہنس پڑے۔
"یہ بھی ولیمے میں آئے گی؟۔"
"کیوں نہیں آؤں گی! میری بہن کا ولیمہ ہے۔" جواب عشنا کے سرخ ہوتے چہرے کی جانب سے آیا۔ "یہ سوال مجھے کرنا چاہئیے تھا!۔"
"او ہو!! یہ سوال کرنے کی ضرورت بھی پیش کیسے آتی؟ تمہارے بہنوئی کا یار ہوں!۔" بھاری آواز میں یاد دہانی کروائی گئی۔
"مجھے اس سے اور نہیں جھگڑنا۔ آپ بتائیں ساویز! غنایہ کہاں ہے؟۔" وہ اسے ارد گرد کہیں نظر نہ آئی۔
"غنایہ اوپر ہے۔۔ زینے چڑھ کر اوپر جاؤ گی تو سامنے ہی کمرہ نظر آجائے گا۔" اسے جگہ دیتے ہوئے اس نے سارا راستہ سمجھایا۔ عشنا اثبات میں سر ہلاتی بیگز لیے اوپر بڑھ گئی۔ اس کے بڑھتے ہی ساویز نے میرویس کو دیکھا۔
"تمہیں وہ اب بھی پسند ہے۔ یہ سچ ہے؟۔" وہ اسے بتا رہا تھا یا پوچھ رہا تھا۔۔ میرویس نے آئبرو اچکائی۔
"پسند؟ اور وہ؟ یعنی عشنا ابرار؟ مذق بہت ہوا ساویز!۔" وہ بولتے بولتے ہنس پڑا۔ "اس سے محبت کرنا میرے ماضی کی بےوقوفی تھی۔ شکر ہے اس نے شادی کے لیے ہاں نہیں کی تھی ورنہ باخدا ابھی پچھتا رہا ہوتا۔۔ اور یہ بھی اچھا ہوا کہ ان پانچ سالوں میں بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ یہ بھی سمجھ آگیا کہ اسے پسند کرنا میری کم عقلی تھی۔" اس کا ہلکا پھلکا لہجہ ساویز کو قہقہہ لگانے پر مجبور کر گیا۔
"میں نہیں مانتا!۔"
میر محض مسکرادیا۔
"تم بھابھی سے کب ملوا رہے ہو؟۔" اس نے اب تک غنایہ کو نہیں دیکھا تھا۔
"اب ولیمے میں ہی ملاقات ہوسکتی ہے۔ بیوٹیشن آنے والی ہے تو وہ ابھی کمرے میں ہی ہے۔"

تو دل سے نہ اتر سکاWhere stories live. Discover now