دوسری قسط

184 16 0
                                    

"مجھ پر اعتبار کر زیادہ نہیں کاٹوں گا۔" وہ قینچی لیے اس کے مونچھوں پر قینچی چلانے کی کوشش کر رہا تھا۔
"نہیں بلکل نہیں! میں اس بات کی بلکل اجازت نہیں دے سکتا۔"
"بھائی پر بھروسہ رکھ!۔" میر نے سینے پر ہاتھ رکھ کر یقین دلایا۔
"پچھلی بار بھی کیا تھا پوری مونچھیں کاٹ دی تھیں کمینے تو نے! میں خود سیلون جا کر سیٹ کروالوں گا۔" وہ اس سے جتنا پیچھے ہٹنے کی کوشش کر سکتا تھا، کر رہا تھا۔
"اس بار تو ایسی کاٹوں گا کہ اگلی بار سیلون جانے کے بجائے میرے پاس آئے گا!۔" نجانے اسے کیا ضد لگی تھی کہ خود ہی قینچی لیے ساویز کے سر پر کھڑا ہوگیا تھا۔ ساویز نے نگاہ اٹھا کر اسے گھور کر دیکھا۔
"ذرا بھروسہ نہیں ہے تم پر لیکن چلو اس بار دیکھ لیتے ہیں۔" اس کا کہنا ہی تھا کہ میر نے اس کی مونچھوں پر قینچی چلانی شروع کردی۔ ساویز آنے والے وقت سے گھبرانے لگا۔ وہ کسی ماہر کی طرح قینچی چلا رہا تھا۔ تقریباً پانچ منٹ میں ہی وہ اپنا کام کرچکا تھا۔
"آئینے میں دیکھ آؤ! خود کو دیکھ کر سیلون بھول جاؤ گے۔" ایک فخر سے کہتے ہوئے وہ دور ہٹا۔ ساویز کو اس کی زبان پر ذرا اعتبار نہیں تھا۔ ایک نگاہ اس پر ڈال کر وہ اس کے کمرے کی جانب بڑھا۔ میر کالر اونچا کرتے وہیں دروازے سے ٹیک لگائے اسے اندر جاتے دیکھنے لگا۔ ساویز خود کو آئینے میں کچھ جھک کر بغور دیکھ رہا تھا جبکہ اپنی بکھری شیو پر ہاتھ پھیر کر مسکرایا۔ اب وہ ساویز کے لبوں سے اپنے لیے تعریف سننے کا انتظار کر رہا تھا۔
جواب تو نہ آیا البتہ ساویز میز سے چابی اٹھاتا خود چل کر باہر آگیا۔ اس کو ایک نظر کھا جانے والی نظر سے دیکھتے ہوئے اپنا رخ باہر دروازے کی جانب کرلیا۔
"کہاں جا رہے ہو؟۔" میر نے حیرانی مظاہرہ کیا۔
"سیلون!!!۔" چبا کر لفظ ادا کیا اور اسے گھور کر باہر نکل گیا۔ میر کی مسکراہٹ غائب ہوئی۔
"کیا واقعی اتنی بری ہے؟۔" اسے یقین نہ آیا۔ ساویز کا دل چاہا پلٹ کر پوچھے کہ اس میں اچھا کیا ہے؟ ایک طرف سے کم زیادہ کاٹ کر وہ اپنے کس ہنر پر خوش ہورہا تھا۔۔۔مگر بغیر رکے اور کچھ کہے وہ باہر نکل گیا جبکہ میر اس کے انداز پر ہنس پڑا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"وہ ایک بھاری جائیداد ہے عفت جس پر بھائی جان قبضہ کر بیٹھے ہیں۔ مجھے نہیں پتا تھا زندگی یہ رخ بھی دکھائے گی کہ ہم اس قدر مجبور ہو جائیں گے اور لوگ ہمارا فائدا اٹھائیں گے۔ بھائی جان یہ بھی جانتے ہیں کہ ہم غنایہ کی شادی ان کے بیٹے سے نہیں کروائیں گے اس لیے انہوں جائیداد کی شرط رکھی۔" ابرار میز کے ساتھ بیٹھے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے بولے۔ ماتھے پر پریشانی کی شکنیں نمودار تھیں۔ آج تک وہ حق ان کو نہ دیا جاسکتا جس پر ان کا بھائی دس سال سے قبضہ کر کے بیٹھا تھا۔ ان کے اس چھوٹے گھر کے مقابلے میں بھائی صاحب کا گھر بڑا اور عالیشان تھا۔ پچھلے کچھ سال تک وہ اپنے حق کے لیے کبھی نہ بولے مگر انہیں اب ضرورت تھی۔
"مگر ہمارے لیے غنایہ زیادہ اہم ہے۔ ان سے ہمارا اللہ حساب لے گا۔" عفت نے ان کے پریشان چہرے کو دیکھا۔
"اس بار وہ آئیں تو آپ منع نہیں کریں گی۔۔ جو بھی کہوں گا میں کہوں گا۔" انہیں غصہ بھی تھا جس کا اظہار وہ کر نہیں پا رہے تھے۔
"آپ کو لگتا ہے کہ وہ آوارہ لڑکا اس کا پیچھا چھوڑے گا؟ مجھے خوف ہے ابرار۔۔ میں آنے والے وقت سے بہت ڈر رہی ہوں۔" طرح طرح کے خدشے دل میں پیدا ہورہے تھے۔
"ہم غنایہ کی شادی کردیں گے۔" اس پریشانی میں ایک یہی حل نظر آیا۔ وہ چونک سی گئیں۔
"کیا مطلب؟۔"
"ہاں ہم غنایہ کی شادی کردیں گے۔۔ اپنی بیٹی کو تکلیفوں میں نہیں دے سکتا۔ کہیں ہماری مجبوری اسے نہ کھا جائے۔ اب جو بھی اچھا رشتہ آئے اس پر غور و فکر کیجیے گا۔" پریشانی کے مارے سر جھک سا گیا۔ عفت کے دماغ میں اب بھی کئی سوالات تھے۔
"آپ کو لگتا ہے ایسے بھائی بھابھی اور باصم کو علم نہیں ہوگا؟ جھگڑے بڑھ جائیں گے اور اس بدمعاش سے کوئی امید بھی نہیں کہ وہ کیا کر بیٹھے۔"
"بھلے رخصتی فوراً نہ ہو مگر ہم سادگی سے نکاح پڑھادیں گے۔ ایک بار یہ کسی سے منسوب ہو جائے گی تو ہمیں تسلی ہو جائے گی۔ جب کسی کو بتائیں گے ہی نہیں تو کیسے محلے والوں کو علم ہوگا؟ خاموشی سے بیاہ دیں گے۔" انہوں نے گویا بات ہی ختم کردی۔ غنایہ جو چائے کے برتن اٹھانے آئی تھی ان کی بات پر خاموش رہی تھی۔ اسے رونا نہیں آیا اور نہ دکھ ہوا۔ اس کے مطابق شاید یہی فیصلہ درست تھا۔ عفت نے اسے بغور دیکھا کہ کہیں وہ یہ بات سن کر اداس تو نہیں تھی۔ غنایہ نے ماں کو دیکھتے ہوئے پریشان ہوتے باپ کے آگے سے خالی مگ اٹھایا۔
"کچھ چاہئیے ابا؟۔" ان کے ماتھے پر دکھ و تکلیف کی لکیریں غنایہ کا دل چیر گئی۔
"نہیں بیٹا۔" جھکا سر اس کی آواز پر اٹھا تھا۔ چہرے پر جھریاں واضح ہو رہی تھیں۔ اسے یہ سوچ کر بے جا رونا آیا کہ اس کا باپ بوڑھا ہو رہا ہے۔
"آپ کہیں گے تو میں یونیورسٹی جانا چھوڑ دوں گی۔" اس نے خاموش بیٹھے باپ کو دیکھ کر آزردگی سے کہا۔ ابرار نے تیزی سے نگاہ اٹھا کر اسے دیکھا۔
"کیوں؟۔"
"میں جانتی ہوں آپ میرے حوالے سے بہت پریشان ہیں اور طبیعت بہت خراب رہنے لگی ہے۔ آفس سے آج کل بہت جلدی آرہے ہیں۔ اگر میں باہر جانا چھوڑ دوں گی تو باصم سے سامنا نہیں ہوگا۔ تائی اماں بار بار آکر آپ لوگوں پر چیخیں گی نہیں اور باصم دھمکیوں سے باز آجائے گا۔" نجانے اس نے یہ سب کیوں سوچا تھا۔ ہاں وہ بہت کم ہمت تھے مگر اتنا نہیں کی بیٹی کی پڑھائی چھڑوادیتے۔
"نہیں غنایہ پڑھائی نہیں! تم اپنی پڑھائی نہیں چھوڑو گی۔ اس کی ضرورت نہیں۔ جلد از جلد ہم تمہاری شادی کردیں گے۔۔ پھر اگر تم چاہو تو بعد میں پڑھائی جاری رکھ سکتی ہو۔""
اس گھر کے مکینوں میں ہمت اور حوصلے کی کمی تھی۔ غنایہ برتن سمیٹ کر اندر کی جانب بڑھ گئی جبکہ عفت نے کچھ سوچ کر ابرار کو دیکھا تھا۔
"پھر میں مومنہ خالہ سے رشتے کے لیے بات کرلیتی ہوں۔ وہ اب بھی اپنے بیٹے سعدان کے حوالے سے جواب مانگتی ہیں۔" انہیں یکدم ہی خیال آیا تھا۔ ابرار نے اثبات میں سر ہلا کر نگاہ دوسری جانب مرکوز کرلیں۔ عفت پیر میں چپل گھساتی اٹھ کھڑی ہوئیں۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"اس فائل پر میں نے کل ہی کام کر لیا تھا سر!۔" وہ اپنے سسٹم پر کام کرتی پیچھے کھڑے مینجر کو اپنا کام دکھا رہی تھی۔
"یہ کیا ہے؟ ان صفحوں کا کیا کروں میں؟ مجھے پراپر ڈاکومنٹس چاہئیں۔" مینجر کے ہاتھ میں تین چار صفحے موجود تھے جو اس نے میز پر مارے تھے۔ اس کے چیخنے کی آواز عاشی کے کان پھاڑ رہی تھی۔
"پراپر؟ تو یہ اور کیا ہے سر۔۔"
"یہ تین چار بکواس صفحے؟؟ یہ دکھاؤں گا میں باس کو؟؟۔"
"یہ بکواس نہیں ہیں۔ میں ان پر بہت کام کیا ہے سر!۔" اس کے یوں 'بکواس' کہنے پر عاشی کا دل برا ہوا۔
"تو تم مجھے سکھاؤ گی؟ یا تمہیں مجھ سے زیادہ معلوم ہے؟ چنے بیچتا ہوں میں کیا؟۔" اس کی فائل میز پر پٹخ کر کہتا ہوا وہ آگے بڑھ گیا۔ (چنے تو نہیں بیچتا البتہ دماغ بیچ آیا ہوں) اس کی زبان میں کہتی وہ دانت کچکچا کر دل میں بولی۔ اپنے ڈاکومنٹس سمیٹ کر اس نے فائل میں لگائے۔
"اگر تم کہو تو یہ کام میں کر سکتا ہوں۔" اس کے کانوں میں پیچھے سے مردانہ آواز پڑی۔ بیزاریت سے سانس خارج کر کے اس نے گردن موڑ کر پیچھے دیکھا۔ وہ اپنی کرسی سے ٹیک لگائے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
"نہیں شکریہ۔۔" مختصر جواب دے کر کام میں مصروف ہوگئی۔
"ایک بار سوچ لیں۔ باس کو یہ کام ایک گھنٹے میں چاہئیے اور آپ کو یہ ڈاکومنٹس ابھی بھی سمجھ نہیں آرہے۔" عاشی نے آئبرو اچکا کر اسے دیکھا جس کی نظریں اس پر ہی ٹکی تھیں۔ اس کا یوں دیکھنا عاشی کو کبھی نہیں بھایا۔
"یہ کام میرا ہے مسٹر رافع اور اس کی ذمہ داری مینجر نے مجھے سونپی ہے۔ اس لیے یہ میں ہی کروں گی۔" اس کا لہجہ قدرے سنجیدہ تھا۔ (اپنا کام ہوتا نہیں ہے میرا کرے گا) وہ دانت پیس کر صرف سوچ ہی سکی تھی۔ اپنے سسٹم پر متوجہ ہونے کے بعد بھی اسے رافع کی نگاہوں کی تپش اپنی پشت پر محسوس ہو رہی تھیں۔ اس کا یوں بہانے بہانے سے بات کرنے کا موقع ڈھونڈنا، بار بار تکتے رہنا جیسے وہ آفس ہی اس لیے آتا ہو، عاشی کو غصہ دلاتا تھا۔ جانے کیوں وہ اس سب کے باوجود بھی کچھ بول ہی نہ پاتی تھی۔ ایک عجیب سا ڈر تھا جس کے باعث وہ کبھی کچھ نہ کہہ سکی۔ اس نے سامنے لگے وال مرر سے اپنے پیچھے رافع کو دیکھا جو اب بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ اسے الجھن سی محسوس ہونے لگی تو جلدی جلدی کام مکمل کرنے لگی تاکہ بریک پر جا سکے۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"دو دن پہلے ہی مومنہ خالہ سے میری ہوگئی تھی۔ آج ان کا جواب آیا ہے۔" عفت مطمئن تھیں۔
"آپ نے غنایہ کے حوالے سے بات کی؟۔" وہ آفس سے لوٹے تھے۔
"میں انہیں صاف لفظوں میں کچھ کہہ نہ سکی۔ جب اتنا بتایا کہ غنایہ کا رشتہ تلاش کر رہے ہیں تو انہوں نے سعدان کی بات کردی۔ میں نے کہا کہ ابرار سے اس بات کا اظہار کروں گی۔ آپ نے سعدان کی انکوائری کروانے کے بارے میں کیا سوچا ہے؟ ہم مزید دیر نہیں کر سکتے۔"
"ہاں عفت۔۔ یہ سب مجھے ہی کرنا ہے۔ وہ بھی ہوجائے گی۔۔ فالحال انہیں گھر آنے کا کہو۔ میں سعدان سے سامنے بیٹھ کر کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔" اپنی ٹائی ڈھیلی کر کے کسی تھکاوٹ سے بتایا گیا۔ اس عمر میں دو دو، تین تین پبلک بسیں بدل کر آنا بے حد تھکا دینے والا کام تھا۔
"وہ لڑکا ڈاکٹر ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا ان سے کیسے کہوں کہ ہم غنایہ کی جلدی شادی کرنے کا خیال رکھتے ہیں۔ کہیں یہ اتنا اچھا لڑکا ہاتھ سے نہ نکل جائے۔
"اندر کی بات کون جانتا ہے عفت بیگم! صرف ایک اچھا لڑکا ہونا کافی نہیں ہوتا۔ غنایہ کا جہاں نصیب ہوگا، راستے وہیں بنتے جائیں گے۔" دن بھر کی تھکن اور پھر باصم کی وجہ سے پریشانی انہیں نڈھال کر گئی تھی۔ "آپ انہیں دو دن بعد بلالیں۔" چھوٹی سی سنگھار میز پر اپنا والٹ رکھ وہ پلٹ ہی رہے تھے جب آنکھوں کے سامنے اندھیرا آنے کے باعث وہ کچھ لڑکھڑائے۔ عفت تیزی سے ان کی جانب بڑھیں۔
"میں ٹھیک ہوں۔" ایک ہاتھ اٹھا کر انہیں تسلی دیتے ہوئے وہ میز کے سہارے جمے کھڑے تھے۔ چہرے پر تکلیف کے آثار نمودار ہوئے۔
"آپ پریشانیوں کو خود پر حاوی کر رہے ہیں جس کی وجہ صحت بہت متاثر ہو رہی ہے ابرار!۔" ان کا دل کٹ کر رہ گیا۔ شوہر کا ساتھ ان کے لیے سب سے زیادہ محفوظ تھا۔
"دعا کریں یہ پریشانیاں ختم ہو جائیں ورنہ یہ ہمیں ختم کردیں گی۔" بمشکل بستر پر پہنچ کر وہ بیٹھے تھے۔ چہرے کی جھریاں مزید واضح ہوئی تھیں۔۔ آج وہ اپنی عمر سے زیادہ بوڑھے لگ رہے تھے۔ عفت نے لب بھینچ لیے۔۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"تمہارے موبائل میں وہ تصویر کس لڑکی کی ہے؟۔" اس کے آگے جائے کا کپ رکھتے ہوئے وہ مصنوعی بےنیازی سے بولی۔ میر نے آنکھوں کے آگے سے اخبار ہٹایا۔
"تصویر؟ میرے موبائل میں کس لڑکی کی تصویر ہوگی بھلا؟۔" وہ قدرے حیرانی سے بولا۔ روما نے اسے بغور دیکھا۔
میر آفس سے ملے جانے والے بریک سے تھوڑی دیر کے لیے اماں کے گھر آگیا تھا۔ پندرہ منٹ میں اسے پھر جانا تھا۔
"پچھلے اتوار جب میں نے اپنی پسندیدہ سیریز دیکھنے کے لیے تمہارا موبائل کھولا تھا تو گیلری میں ایک لڑکی کی تصویر دیکھی تھی۔" اسے ہر حالت میں اس سوال کا جواب چاہئیے تاکہ سومیہ کو آگاہ کر سکے۔
"نہیں ایسا کیسے ممکن ہے۔" اس کے لیے یہ واقعی حیرت کی بات تھی۔ موبائل جیب سے نکال کر اس نے تصویروں کی گیلری کھولی اور چیک کرنے لگا۔
"نہیں نیچے نہیں۔۔ وہ تصویر بہت اوپر تھی میرو۔۔ کافی سالوں پرانی۔۔۔" اس کی باتوں کے اشارے بھی میر کو یاد نہیں دلا سکے۔۔ میر نے اس کے کہے کے مطابق عمل کیا۔
"ہاں بس یہی! یہ رہی تصویر!۔" روما نے رکنے کو کہا۔
میر نے وہ تصویر کلک کر کے کھولی۔ آنکھیں گویا اس پر ٹھہر سی گئیں۔
"کون ہے یہ؟۔" روما کی آواز پر وہ گڑبڑایا۔
"نہیں کوئی نہیں۔۔ پتا نہیں کہاں سے آگئی۔ بہر حال میں تمہیں بتانا چاہوں گا کہ تم چائے میں چینی ڈالنا بھول گئی ہو۔" اس کے ہاتھ میں جلدی سے چائے پکڑا کر کچن کی جانب بجھوایا۔
موبائل پر متوجہ ہوکر اس نے ایک آخری بار وہ تصویر دیکھی۔ لبوں پر مسکراہٹ آئی اور جیسے قہقہہ چھوٹ گیا۔ وہ زور سے ہنس پڑا۔۔۔ جیسے اسے ماضی یاد آیا ہو۔۔ ایک ہنستا مسکراتا نادان ماضی!
اس نے وہ تصویر موبائل سے ڈیلیٹ نہیں کی تھی۔۔ بلکہ موبائل آف کر کے جیب میں رکھ لیا تھا۔ یہ تصویر کتنے سالوں پہلے اس نے خود محفوظ کی تھی اور اتنے عرصے میں وہ یہ سب بھول بھی چکا تھا۔ کچن سے باہر آتی روما اس کی ہنسی کی آواز پر شک میں مبتلا ہوئی تھی۔ ضرور کوئی نہ کوئی تو ماجرا تھا!
۔۔۔★★★۔۔۔
ایک ہفتہ مزید گزر گیا۔ معمول کے مطابق اس نے پرفیوم خود پر چھڑکتے ہوئے کوٹ پہنا۔ ہلکی ہلکی شیو پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس نے دراز سے گھڑی نکالی تھی۔ آج وہ اپنے وقت سے لیٹ آفس جا رہا تھا۔ اسے علم نہیں تھا کہ وجاہت پر اس کی بات کا اثر بھی ہوگا۔ آج ایک ہفتے سے اوپر ہونے کو آیا تھا مگر اس کا نام و نشان کہیں نہیں تھا۔ نہ وجاہت اور نہ اس کے آدمی۔۔۔ پہلے پہل تو یہ سوچ کر اسے کافی حیرانی ہوئی کہ بھلا ایسے کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ وجاہت خود پیچھے ہٹ جائے؟ نہ کوئی کال؟ نہ کوئی وار؟ مگر پھر وہ خود کو ہی فراموش کرواتا باہر نکل گیا۔اس کا کچھ دنوں سے ذہن کنفیوز تھا۔ وہ آج کل ویسے بھی شادی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہا تھا۔ بارہ بج رہے تھے اور سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ گاڑی تیز رفتار سے آگے بڑھ رہی تھی۔ موبائل پر کال آئی تو وہ رفتار ہلکی کرتا کال اٹھانے لگا۔ آستین کے کف فولڈ ہو کر کچھ اوپر چڑھے ہوئے تھے۔
"ہیلو؟۔" دوسری جانب میر کی آواز ابھری۔
"ہمیں ملنا چاہئیے۔" میر سے بات ہوئے پورے آٹھ دن گزر چکے تھے۔ وہ نہ اس سے مل پایا تھا اور نہ کسی قسم کی بات کر پارہا تھا۔ کچھ میر کی خراب روٹین تھی اور کچھ ساویز کی مصروفیات۔۔
"لنچ پر ہر گز نہیں! میں پہلے ہی آفس لیٹ جا رہا ہوں۔ تھوڑی دیر میں تمہارے لنچ کا وقت ہو جائے گا اور یوں آفس اتنی جلدی چھوڑ کر نکلنا ٹھیک نہیں رہے گا۔" موبائل اسپیکر پر تھا۔ ایک ہاتھ اسٹیئرنگ پر اور دوسرا گئیر پر جمالیا۔
"میرے پاس وقت نہیں ہوتا جانتے ہو نا؟ دوست کے لیے خود بھی وقت نکال لیا کرو۔" میر مسکرا رہا تھا۔
"ہاہا۔۔ میرے پاس تمہارے سوا کوئی ہے کیا؟ بابا دو سال سے سنگا پور میں ہیں اور ان سے کچھ خاص رابطہ نہیں۔" وہ آنے والے وقت سے بےخبر سکون سے گاڑی چلا رہا تھا۔
"دیکھو میں بتا رہا ہوں ابھی بھی موقع ہے مان جاؤ۔ ایسا نہ ہو تمہیں لنچ وجاہت سلطان کے ساتھ کرنا پڑ جائے۔" اسے دھمکی دیتا وہ اپنی منوانے لگا۔ ساویز کا قہقہہ اس کا دل مزید جلا گیا۔
"وجاہت کے پورا ہفتہ آثار نہیں رہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میری باتیں اس پر اثر کر گئیں۔" وہ یہ بات سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔
"چھ ماہ میں جو شخص بات نہ سمجھا وہ اب کیسے سمجھ سکتا ہے ساویز! اسے اتنی جلدی چین نہیں آئے گا۔ تم دیکھنا وہ۔۔" وہ ابھی جملا مکمل کرتا کہ دوسری طرف تیز آواز اور ساویز کے چیخنے پر بوکھلا گیا۔
دوسری گاڑی نے بری طرح اسے ڈرائیونگ سیٹ کی طرف ہٹ کیا تھا۔
"شٹ!!۔" ساویز قوت سے چلایا۔ ڈرائیونگ سیٹ کی کھڑکی کا شیشہ ٹوٹ کر اس کے ہاتھ پر گرا۔ موبائل ہاتھ سے چھوٹ کر گرچکا تھا۔ اس نے مڑ کر تیزی سے دائیں طرف دیکھا جہاں اسے وہی گاڑی نظر آئی۔ وہ گاڑی اور وہی دو آدمی اور ساتھ ہنستے چہرے۔۔ اس کے چہرے پر گویا پورا جسم خون جمع ہوگیا ہو۔ یہ جھٹکا اتنی زور کا تھا کہ ساویز کو بھی سب سمجھنے میں تھوڑی دیر لگی۔ وہ رکے نہیں تھے گاڑی بھگاتے ہوئے آنکھوں سے اوجھل ہوگئے تھے۔ بازو سے نکلتا خون اسے کراہنے پر مجبور کر گیا۔ سڑک پر اکا دکا ہی گاڑیاں تھی۔ ہاتھ کی تکلیف اسے مزید ڈرائیونگ کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔ وہ سیٹوں کے درمیان پھنسے موبائل کو اٹھا کر میر کی کال چیک کرنے لگا۔ وہ اب بھی لائن پر تھا۔
"ہیلو؟۔" آواز میں تکلیف واضح تھی۔ میر کا دل بھاری ہوا۔
"تم۔۔۔ تم ٹھیک ہو نا؟؟۔" وہ جانتا تھا یہ کوئی حادثہ نہیں۔۔
ساویز دروازہ کھول کر باہر نکلا۔
"ہاں بس بازو میں کانچ چبھ گئی ہے۔ مزید ڈرائیو نہیں کرسکتا۔" ہاتھ کو کھینچتا ہوا سیدھا کرتے ہوئے وہ مستقل تکلیف سے دوچار ہو رہا تھا۔
"اللہ تمہیں غارت کرے وجاہت! مجھے اپنی لوکیشن بھیجو۔"
"میں ٹھیک ہوں میر! کچھ فاصلے پر ہی ہسپتال ہے وہاں سے پٹی کروالوں گا۔" گاڑی وہیں چھوڑ کر وہ کنارے پر آیا۔ اس کا حلیہ اتنا بگڑ چکا تھا کہ اس کے لیے اب گھر جانا ہی بہتر تھا۔ کندھے کے ذریعے کان پر فون لگایا ہوا تھا۔ اس کی سیاہ شرٹ میں خون جذب ہورہی تھا۔ آستین کھول کر پوری نیچے کر لی گئیں۔
"تم زخمی ہو! میں کیسے چھوڑ کر اپنے کام میں مصروف ہوجاؤں؟۔"
اس کے برعکس ساویز کی نظریں اس شخص پر تھیں جس کا چہرہ سفید لٹھے کی مانند ہورہا رہا تھا۔
"میر میں نے کہنا نا اس کی ضرورت نہیں۔۔ میں تم سے بعد میں بات کرتا ہوں۔" نگاہیں اس پر ہی ٹکی تھیں۔ کال کاٹ کر اس نے موبائل جیب میں رکھا اور سنبھلتا ہوا اس شخص کی جانب بڑھا۔
"آپ ٹھیک ہیں سر؟۔" وہاں ارد گرد کوئی اور بھی نہیں تھا کہ ساویز انہیں اس شخص کا حال پوچھنے کا کہہ کر ہسپتال چلا جاتا۔ اس بوڑھے آدمی نے ایک ساویز کو دیکھا اور نڈھال پن سے ہاتھ اٹھا کر اشارہ کیا کہ وہ اچھا محسوس نہیں کر رہے۔
"آپ کا گھر کہاں ہے؟۔" وہ آدمی آفس کے حلیے میں معلوم ہورہا تھا۔
"مم۔میں پیچھے والی گلی میں۔۔۔" وہ ابھی مزید بولتے کہ آنکھوں کے سامنے اندھیرا آنے کی وجہ سے لڑکھڑا گئے۔ ساویز نے تیزی سے ان کا بازو تھاما اور ساتھ کھڑا کیا۔
"آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے سر۔۔ کیا آپ اپنا گھر بتا سکتے ہیں؟۔" اپنا زخم وہ یکثر فراموش کر چکا تھا۔ گردن موڑ کر پیچھے ایک نظر اپنی گاڑی دیکھی جس کا دروازہ دب چکا تھا اور شیشہ بکھرا ہوا تھا۔ گاڑی میں لے جانا انہیں ٹھیک نہیں تھا۔ بازو پیچھے سے اپنے گلے میں ڈال کر وہ انہیں لیتا آگے بڑھنے لگا۔
"میں اب بہتر محسوس کر رہا ہوں بیٹا۔" ان کی آنکھیں کمزوری کے باعث تھوڑی سی کھلی تھیں۔
"لگتا ہے آپ اپنا خیال نہیں رکھتے سر! یوں چکر آجانا اچھی علامت نہیں۔۔" وہ مضبوط چوڑا مرد مظبوطی سے انہیں سہارا دیے آگے بڑھ رہا تھا۔
"کوئی خود کو کیسے تکلیف پہنچا سکتا ہے۔" تھکا تھکا سا انداز۔۔ ساویز خاموش رہا۔ گھر واقعی دور نہیں تھا۔ پچھلی گلی کے پہلے گھر کے آگے کھڑے ہو کر اس نے بوڑھے شخص کو اس کے کہنے پر چھوڑا۔
"تمہارا شکریہ بیٹا۔۔" وہ اب خود کو بہتر محسوس کر رہے تھے۔ عفت نے دروازہ کھولا تھا اور اب دونوں کو حیرانی سے دیکھ رہی تھیں۔
"آپ ٹھیک ہیں نا ابرار؟۔" ان کے تاثرات دیکھ کر وہ گھبرا گئی تھیں۔
"ہاں بس آنکھوں کے آگے اندھیرا آگیا تھا۔" وہ بیوی کو پریشان نہیں کرنا چاہتے تھے۔
"انہیں اپنی صحت کا خیال رکھنا چاہئیے۔" ساویز نے گفتگو میں حصہ لیا۔
"مجھے افسوس ہے میں آفس نہیں جا سکا۔" اس مہینے یہ ان کی تیسری چھٹی تھی اور وہ جاب کھوجانے کے ڈر سے پریشان تھی۔
"سر صحت مندی زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔" وہ انہیں مجبور باپ کی طرح معلوم ہوا۔
"لیکن پریشانیاں اچھی صحت کو کھالیتی ہیں بیٹا۔" آواز میں لڑکھڑاہٹ واضح تھی۔ "تمہاری ماں نے تمہاری پروش بہت اچھی کی ہے۔" وہ اس کا جتنا شکر ادا کرتے کم تھا۔ ساویز محض مسکرایا تھا۔ "تم آفس کے حلیے میں معلوم ہو رہے ہو۔ مجھے معاف کرنا۔ میری وجہ سے تمہیں تاخیر ہوگئی۔"
"نہیں اس کی ضرورت نہیں۔۔ میں کوئی ملازم نہیں کہ تاخیر ہونے پر میری خبر لی جائے گی۔" وہ ہلکا سا ہنسا۔ "اپنی کمپنی مالک ہوں اس لیے بےفکر رہیں۔ مجھے آپ کی مدد کر کے بہت اچھا لگا۔ آپ کو اندر جا کر آرام کرنا چاہئیے۔" اس کا کہنا تھا کہ ابرار کی آنکھیں پوری کھل سی گئیں۔ کیا ان کے گھر کسی کمپنی مالک آیا تھا؟ انہیں اندر سہارا دے کر وہ خود لایا تھا۔ گھر میں کوئی مرد موجود نہیں تھا اور عفت کے سہارے اندر آنا مشکل تھا۔ چھوٹا سا گھر مگر نفاست سے بھرپور۔۔ چھوٹے کمرے اور چھوٹا سا صحن۔۔ گھر میں رکھی چیزوں سے اسے اس بات کا تو اندازہ ہو ہی چکا تھا کہ کمانے والا ایک آدمی ہے۔۔ اور مرد جب اکیلا کما رہا ہو تو وہ اپنی خواہشات اور ضروریات نہیں دیکھتا۔
"میرے پاس وقت ہوا تو میں دوبارہ آؤں گا۔ آپ کو ڈاکٹر کی بےحد ضرورت ہے۔" شاید یہی درست تھا۔ اس کی سیاہ آستین نیچے تک تھی تاکہ خون نظر نہ آئے۔۔ وہ ان کی تکلیف میں اپنا درد بھول گیا تھا۔
"اس مہربانی کی کیا ضرورت ہے بیٹا۔" وہ شرمندہ ہونے لگے۔
"سر یہ میں اپنی خوشی سے کر رہا ہوں۔ جب تک طبیعت بہتر نہیں ہوجاتی آفس نہیں جائے گا۔" وہ ساتھ اپنا نمبر ان کے پاس لکھوا چکا تھا۔ "اپنے آفس کا پتا اور اور کچھ تفصیلات مجھے میسج کردیں۔ میں رابطہ کرنے کی کوشش کروں گا۔" انہیں آخری بار خدا حافظ کہتا وہ اس چھوٹے سے لاؤنج سے باہر نکلتا ہوا دروازے کی جانب بڑھنے لگا جو کھلا ہوا تھا۔ ابھی وہ وہاں پہنچتا ہی کہ ایک لڑکی جس کا آدھا چہرہ ڈوپٹے کے پیچھے چھپا ہوا تھا اندر داخل ہوئی۔ آنکھوں میں ڈھیروں آنسو اور ہلکی ہلکی بندھی ہچکیاں۔۔۔ وہ تیزی سے اندر بھاگی۔ ساویز اس کی آنکھیں ہی دیکھ سکا تھا۔ وہ ابھی حیران ہی ہوتا کہ لاونج سے آنے والی آوازوں نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا۔
"اس نے کہا تائی اماں دوبارہ آئیں گی اور اگر اس بار بھی انکار ہوا تو وہ مجھے سب کے سامنے لے جائے گا۔" اس لڑکی کی آنسوؤں کے درمیان کہنا باہر کھڑا ساویز بھی محسوس کر سکتا تھا۔ وہ ہچکیوں سے رو پڑی تھی۔
"کیا وہ بدمعاش پھر آیا تھا؟۔" ابرار صاحب کی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔ "عفت اس کا رشتہ ڈھونڈنے میں دیر نہ کریں۔ میں اپنی بیٹی کو مزید اذیت میں نہیں دیکھ سکتا۔" یہ آخری بات تھی جو ساویز نے سنی تھی اور گھر سے نکل گیا تھا۔ یاد تھا تو اس لڑکی کی روتی آنکھیں۔۔ یہ کہانی ہمارے معاشرے میں بےحد عام تھی۔۔ لڑکیوں کے پیچھے آوارہ لڑکوں کا لگنا اور پھر ماں باپ کا خوف سے اپنی بیٹی کی شادی کردینا تاکہ لڑکی کی عزت نہ لٹ سکے۔ اس کا دل برا ہونے لگا۔ نجانے کیوں وہ اس لڑکی کو بار بار سوچ رہا تھا۔ اس نے موبائل جیب سے نکالا۔
"میں نے لوکیشن بھیج دی ہے۔ میرا ہاتھ زخمی ہے اور گاڑی بری طرح خراب۔۔ مجھے دوست کی ضرورت ہے۔ کیا وہ ملے گا؟۔" بھاری گھمبیر آواز میں جیسے گزارش کی گئی۔ میرویس اس کی بات پر مسکراتا رہ گیا۔ وہ جو پہلے خود اسے منع کر رہا تھا اب خود کال کرکے اسے مدد کے لیے پکار رہا تھا۔
"الو کا پٹھا!۔" گالی دی گئی۔ "آرہا ہوں۔" شاید یہ اچھا انداز تھا اس کے ماننے کا۔۔ ساویز کا قہقہہ گونجا تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
اندھیرا چار سو پھیلا ہوا تھا۔ اس نے پلٹ کر ایک بار پیچھے دیکھا۔ دل میں خوف پھیلنے لگا۔ خدشے جنم لینے لگے۔ وہ جانتا تھا کہ یہ اذیت بھرا وقت یہیں ختم نہیں۔۔
"تم کہاں ہو۔۔ مجھے خوف محسوس ہو رہا ہے۔" اس نے اپنا سینہ مسلا۔ ماحول میں خاموشی اور حبس کا عالم تھا۔ جیسے یہ گھر سالوں سے ویران پڑا ہو۔ دروازہ کھولنا ہی تھا کہ ایک دھیمی روشنی آنکھوں کو چندھیا گئی۔ اس نے آنکھوں پر ہاتھ رکھ آہستگی سے دور کیا۔ دور ایک وجود زمین پر بےجان پڑا تھا۔ آس پاس خون زمین پر پھیل رہا تھا۔ اس کی رنگت فق ہوئی۔ آنکھیں کسی صدمے سے پھٹ رہی تھیں۔ آگے بڑھنا چاہا مگر ٹانگوں نے ساتھ نہ دیا۔ لڑکھڑاتے ہوئے وہ اس بےجان وجود کے برابر گرا تھا۔ اس نے پوری قوت سے چیخ کر اسے جنجھوڑا۔
"نہیں یہ ممکن نہیں!! ایسا نہیں ہوسکتا۔" وہ کوئی لڑکی تھی جس کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ رنگت سفید لٹھے کی مانند ہورہی تھی اور آنکھیں ادھ کھلی تھیں۔ اس کے کپڑے جگہ جگہ سے ایسے پھٹے ہوئے تھے جیسے پھاڑے گئے ہوں۔ اوپر پورے وجود پر سفید چادر ڈالی ہوئی تھی جسے وجاہت نے تھوڑا سا ہٹایا تھا۔ سینے پر لگے وار سے خون مستقل بہہ رہا تھا۔ ہری آنکھیں سرخ ہوگئیں۔۔ شدت ضبط سے۔۔ وہ آج صحیح معنوں میں ٹوٹ کر بکھرا تھا۔ دھڑکنیں تھم سی گئیں۔ وہ پوری قوت سے تکلیف کے مارے چیخا تھا۔ ماحول کی خاموشی ٹوٹی۔ ہونٹ لرز اٹھے۔ وہ لڑکی کے وجود پر جھکا۔ لب اس کی پیشانی پر رکھے اور ہچکیاں روکنے کی کوشش کرنے لگا۔ آنسو آنکھوں سے ہوتے ہوئے اس بے جان وجود پر گرنے لگے اور تب اسے احساس ہوا کہ گھر میں اس کے علاوہ بھی کوئی اور موجود ہے۔ قدموں کی چاپ اسے کچھ دور سے سنائی دی۔ یہ خون تازہ اب بھی جسم سے نکل رہا تھا۔ وہ اٹھ کر لاونج کے دروازے پر کھڑا ہوا۔ قدموں کی چاپ مزید واضح سنائی دینے لگیں۔ تو کیا اس کا سکون برباد کرنے والا شخص اب بھی یہاں موجود تھا؟ دور مدھم روشنی میں اسے کوئی نظر ایا۔ وہ شخص جو کوئی بھی تھا کپڑے سے آنکھوں کے نیچے چہرے کو چھپایا ہوا تھا۔ بڑا دروازہ کھول کر وہ گھر سے باہر نکل رہا تھا جب نگاہ کسی کی موجودگی پر پیچھے مڑی۔ دونوں کی نگاہ آپس میں ملیں۔ ہری آنکھوں نے اس قاتل کی آنکھوں کو دور سے دیکھا جو گھر سے فرار ہورہا تھا۔۔ آنکھوں کے آگے بکھرے بال۔۔ وہ لمحے بھر کو وجاہت کو دیکھنے رکا تھا اور اس کم وقت میں بھی وجاہت نے اس کی آنکھوں کو دیکھ لیا تھا۔ دور جلتی چھوٹی لائٹ اس کی آنکھوں کو دیکھنے کے لیے کافی نہیں تھیں۔ اندھیرے اور ماحول میں دھند ہونے کے باجود وہ جتنا دیکھ سکتا تھا، سمجھ بیٹھا۔ قاتل فرار پاچکا تھا اور وجاہت کی ٹانگیں قدم بڑھانے سے انکاری ہوچکی تھیں۔ وہ آنکھیں۔۔ ہاں وہ آنکھیں کچھ جانی پہچانی تھیں۔۔ تو کیا اس چھپے چہرے کے پیچھے وہی شخص تھا جسے وجاہت نے سمجھا تھا مگر یقین نہیں کر پارہا تھا؟ اس کا چہرہ وحشت ناک ہونے لگا۔ دل میں انتقام کی آگ جنم لینے لگی۔ وہ پل بھر میں پسینے میں شرابور ہوگیا۔ ماحول گھٹن زدہ ہونے لگا۔ اسے سانس لینے میں دشواری ہورہی تھی جب اس کی تکلیف سے آنکھ کھلی۔ وہ تیزی سے اٹھ کر بیٹھا اور سانس اندر کھینچنے لگا۔ ائیر کنڈیشنر کی تیز ہوا کے باوجود اس کا وجود پسینے سے شرابور تھا۔ آنکھیں پوری کھلی ہوئی تھیں۔ حالت بحال ہوئی تو وہ اٹھ کر کھڑا ہوا۔ گہری نیلی جینز پہنے وہ اوپر سے شرٹ لیس تھا۔ آئینے میں خود کو دیکھتے ہوئے اس نے وہ سب باتیں سوچیں جو اس کے لیے تکلیف کے باعث تھیں۔ گہری سانس خارج کی اور وارڈروب سے کپڑے نکال کر شاور لینے واش روم میں بڑھ گیا۔ ٹھنڈے پانی کے نیچے کھڑے ہوکر اس نے خود کو بہت بہتر محسوس کیا تھا۔ ایسے خواب بھی کتنے دردناک ہوتے ہیں جو ماضی یاد دلا دیتے ہیں۔ انسان کا خود پر بھی بس نہیں ہوتا۔ ہم جو چاہتے ہیں اور جس کے بارے میں پریقین ہوتے ہیں کہ یہ ہو کر رہے گا کبھی کبھی وہ سوچ سے پرے اور امید کے برعکس ہوجاتا ہے۔ بالوں کو تولیے سے رگڑتا ہوا وہ باہر آیا۔ کالر والی شرٹ کے بٹن کھلے ہوئے تھے۔ بالوں سے گرتی بوندیں کارپٹ پر جذب ہونے لگیں۔ اس نے تولیہ آنکھوں کے آگے سے ہٹایا تو سامنے دیکھ کر چونکا۔
"تم۔۔" لبوں پر بےاختیار گہری مسکراہٹ پھیلی۔ گیلے بکھرے بال آنکھوں کے آگے آنے لگے۔ سامنے کھڑی وہ لڑکی اسے دیکھ کر مبہم سا مسکرائی رہی تھی۔ کِھلتا پیلا جوڑا اور ڈوپٹہ نفاست سے آگے پھیلایا ہوا تھا۔ کھلے بال جو کندھوں پر بکھرے ہوئے تھے۔ وہ اسے گلاب کی سی معلوم ہوئی۔ بنا وقت ضائع کیے وہ اس کے قریب چلتا ہوا آیا۔
"تھوڑی دیر پہلے۔۔ میرے کہنے پر بابا چھوڑ کر گئے ہیں۔" وہ اس کے لیے ہی اتنا سج سنور کر آئی تھی۔ وجاہت نے اس کو ہاتھوں سے تھام کر خود سے قریب کیا۔
"تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا کہ ملنے آرہی ہو؟۔" ایک یہی تو لڑکی تھی جو اس کے لبوں پر اب بھی مسکراہٹ لے آتی تھی۔ اس کی پلکیں حیا کے باعث کچھ جھک گئیں۔
"پھر سرپرائز کیسے رہتا؟۔" وہ ہنس دی۔ اس کی ہنسی کی آواز وجاہت کے کانوں میں رس گھول گئی۔ کانوں میں لٹکی جمکھیوں کو انگلی سے جھلاتا وہ اسے محسوس کرنے لگا۔
"کیسا سرپرائز؟۔" اس کی ٹھوڑی اٹھاتا وہ اس کی آنکھوں میں جھانک رہا تھا۔
"میں نے شاندار سے ناشتہ بنایا ہے۔ ساتھ مل کر کریں گے۔" وہ خوش تھی۔ رخسار گلابی ہورہے تھے۔ وجاہت نے اس کی پیشانی پر اپنا لمس چھوڑا۔ وہ اس محبت پر آنکھیں موند گئی۔
"میں جلد تمہیں رخصت کر کے لے آؤں گا۔" کانوں میں ہلکی سی بھاری سرگوشی کی گئی۔ وہ کھلکھلادی۔
"مزید انتظار ممکن ہے وجاہت۔" اس کے دونوں ہاتھ وجاہت کی گرفت میں تھے۔
"مزید انتظار مشکل ہے جاناں۔" وہ اس سے اپنی جتنی محبت کا اظہار کرتا، کم تھا۔۔۔ دل اس پر اٹکا ہوا تھا۔ ہری آنکھوں کا مرکز اس کی کاجل زدہ آنکھیں بن گئیں۔
"بہت دشوار ہوتا ہے
کسی کا ساتھ ہو کر بھی
کسی کے ساتھ نہ ہونا" ہونٹوں نے جنبش کی تھی۔ سیاہ آنکھیں وجاہت کے چہرے پر ٹکی تھیں۔ اس کے چوڑے سینے پر ہاتھ رکھ کر وہ دنیا سے غافل ہوئے صرف اسے دیکھ رہی تھی۔
"میں تمہارے گھر میں جلد رخصتی کی بات کرنے والا ہوں۔ یہ دوریاں تڑپا رہی ہیں پریزے۔ محبت سے دور رہ کر تڑپنا نہیں چاہتا۔" گویا محبت کی سرگوشی کردی گئی تھی۔ پریزے اس کی شرٹ کے بٹن بند کرنے لگی۔
"پریزے محمود سے پریزے وجاہت تو بنا ہی چکے ہو۔ اب ہاتھ تھام کر ہمیشہ کے لیے گھر لے آؤ گے تو اف بھی نہیں کروں گی۔" اس کی دھیمی آواز پر وجاہت نے آنکھیں موند کر کھولی تھیں۔
"میں اب مزید انتظار نہیں کروں گا۔" وہ اس کے بلکل نزدیک کھڑی تھی۔ وجاہت کے بالوں پر انگلیاں پھیرتی ہوئی اسے سکون پہنچا رہی تھی۔ وہ اپنی ساری تکلیفیں بھول گیا تھا۔ اس کی خوشی کا سامان۔۔ اس کی پریزے۔۔۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"میٹنگ کینسل کردی ہے۔" وہ عام سے لہجے میں بولا کیونکہ اس کے سامنے بیٹھا بندہ سنجیدگی کی آخری حدوں پر تھا۔ میر نے سرخ ہوتے چہرے کو دوسری جانب پھیر لیا جیسے اس بات کا جواب ہی نہ دینا چاہتا ہو۔ ساویز نے کھانے کا لقمہ منہ میں ڈال کر اسے دیکھا۔
"اب بس بھی کرو! دیکھو میں کتنا نارمل ہوں۔" اس نے کندھے اچکا کر دکھائے۔ "وجاہت کی وجہ سے اپنا موڈ مت خراب کرو۔" زخمی ہاتھ پر اب پٹی بندھی تھی۔
"وہ شخص ہمیں کبھی سکون نہیں لینے دے گا۔ کیا ہوتا اگر گاڑی زیادہ زور سے ہٹ ہوتی؟ جان بھی تو جا سکتی تھی۔" یہ غصہ نہیں بلکہ اس کی حد سے زیادہ سنجیدگی بول رہی تھی۔
"وہ مجھے کبھی نہیں مار سکتا میر۔۔" نگاہ اٹھا کر اس نے میرویس کو تسلی دی تھی۔ "میں اس لیے نہیں کہہ رہا کہ میں اس کا دوست رہ چکا ہوں بلکہ اس لیے کیونکہ وہ خود شیور نہیں کہ قتل میں نے کیا ہے یا نہیں۔۔ اس نے کہا کہ وہ پچھتاوا نہیں پال سکتا۔" ساویز نے لنچ ختم کر کے ٹشو سے منہ صاف کیا۔ میر کی بھنویں اب بھی چڑھی ہوئی تھیں۔ ساویز نے سانس فضا میں تحلیل کی۔ وہ میر کا موڈ ٹھیک کرنے کا حل سوچنے لگا۔
"میں نے تمہاری کال ایک بوڑھے صاحب کے لیے کاٹی تھی۔ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اس لیے انہیں ان کے گھر چھوڑ آیا۔" ہاں یہ اچھا موضوع تھا۔ میر جانتا تھا کہ وہ کیوں اسے یہ سب بتا رہا ہے۔
"تو اس میں خاص کیا ہے؟۔"
"میری بات مکمل سنو۔ میں انہیں ان کے گھر چھوڑ کر باہر نکل رہا تھا جب ایک لڑکی روتے ہوئے اندر داخل ہوئی۔ میں اسے صحیح سے دیکھ تو نہیں پایا مگر اتنا اندازہ ہوگیا ہے کہ وہ ان کی بیٹی تھی۔ اس کا کوئی پیچھا کرتا ہے اور وہ اپنی بیٹی کی اب جلد از جلد شادی کرنا چاہتے ہیں۔ نجانے وہ آوارہ بدمعاش کون تھا۔۔ ہم کچھ مرد بھی خود کو اتنا مضبوط سمجھتے ہوئے سوچتے ہیں کہ عورت کے ساتھ جو کچھ بھی کرلو وہ خاموش ہی رہے گی۔۔ جیسے ہمارا ان پر حق ہو!۔" وہ واقعی یہ موضوع اس سے ڈسکس کرنا چاہتا تھا۔ اس کی آنکھیں اب بھی ساویز کے خیالوں میں گھوم رہی تھیں۔
"یہ تو واقعی برا ہوا۔ تمہیں نہیں لگتا ان کی مدد کرنی چاہئیے؟۔" میر ایک ہاتھ کرسی کی پشت پر رکھتا ہوا بولا۔
"ہاں میں کل جاؤں گا۔" اس نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے گھڑی دیکھی۔ "تمہارا بریک ختم ہوئے پندرہ منٹ اوپر ہوگئے ہیں۔" کہتے ساتھ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ میر نے گہری سانس بھری اور اپنا کوٹ اٹھاتا ہوا باہر جانے لگا۔
"پہلے آؤ تمہیں گھر چھوڑ دوں۔ پھر چلا جاؤں گا۔" ساویز اپنا کوٹ کندھے پر ڈالتا ہوا اپنا پٹی بندھا ہاتھ دھیرے سے اوپر کرتے اس کے پیچھے بڑھ گیا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"یہ رنگ تم پر اچھا لگتا ہے۔" وہ اپنی آفس ٹیبل کے ساتھ بیٹھی کام کر رہی تھی جب وہ آواز اس کے کانوں میں پڑی۔ اس نے مڑ کر رافع کو دیکھا۔
"سوری مگر مجھے نہیں لگتا کہ اس بات کا ہمارے کام سے کوئی تعلق ہے!۔" اس نے ایک آئبرو اچکا کر یاد دلایا۔
"میں تو بس تمہاری تعریف کر رہا تھا۔" اسے ذرا شرمندگی نہیں تھی۔
"میں یہاں صرف کام کے لیے آتی ہوں اپنی تعریف سننے نہیں سر! اس لیے بہتر ہوگا ہم دونوں اپنے اپنے کام پر توجہ دیں۔" اتنا کام ہونے کے باجود بھی وہ ڈھٹائی سے کرسی اس کی طرف کر کے بیٹھا دیکھ رہا تھا۔ نگاہ اوپر سے نیچے تک کا سفر کر رہی تھیں۔ وہ جاب پہلی بار نہیں کر رہی تھی اس لیے جانتی تھی کہ ہر جگہ کوئی کوئی رافع جیسا مرد ضرور موجود ہوتا ہے۔ اس نے دور نعمان کو دیکھا جو آفس کے اس کمرے میں ان کو ملا تیسرا ساتھی تھا۔ وہ فائلز جمع کر کے باہر جانے کی تیاری کر رہ تھا۔
"اگر یہ کہا جائے کہ آپ بہت خوبصورت ہیں تو کچھ برا نہیں ہوگا۔" اس کی آنکھیں تھیں یا اسکینر مشین۔۔ عاشی کو اندر گھستی ہوئی محسوس ہوئیں۔ دل عجیب سا گھبرانے لگا۔ اس کی بات پر کرسی سے ڈاکومنٹس اٹھاتا نعمان چونکا۔ نگاہ اٹھ کر رافع پر گئی جو اب بھی بلا جھجھک عاشی کی پشت تک رہا تھا۔ عاشی نے آنکھوں کے اشارے سے نعمان کو باہر جانے سے منع کیا۔ وہ اس کمرے میں کم از کم رافع کے ساتھ اکیلے کام کرنا نہیں چاہتی تھی۔ ہاں وہ بہت بہادر تھی۔۔ ایک کانفیڈنٹ مضبوط لڑکی جو اپنی زندگی کے فیصلے خود لینے کی عادی تھی۔۔ مگر وہ یہاں کمزور پڑ گئی تھی۔۔ اس سے سختی سے بات کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں تھا۔ وہ اس سب کے باوجود بھی ایسے ہی گفتگو کرتا تھا۔ نعمان وہیں بیٹھ کر رافع کو تکنے لگا۔
"مسٹر رافع!۔" نعمان نے کچھ مضبوطی سے کہا۔ "باس کے ٹیبل سے دستخط کی فائلز اٹھا کر لے آئیں بڑی مہربانی ہوگی۔۔"
رافع نے رخ موڑ کر اسے دیکھا۔
"میں؟؟ میں کیوں؟۔" رافع الجھا۔
"کیونکہ ہم سب یہاں کام میں بےحد مصروف ہیں اور آپ بےانتہا فارغ ہیں۔۔ اور فارغ رہنے کے لیے آفس نہیں آیا جاتا تو پھر جائیں فائلز اٹھا کر لے آئیں مجھے ان کی ضرورت ہے۔"
عاشی کو نعمان کا یوں کہنا اچھا لگا۔
"میں اپنے حصے کا کام کر چکا ہوں۔" رافع نے بھرم دکھایا۔
"تو کیوں نہ دوسروں کو بھی ان کے کام کرنے دیے جائیں؟ ان کی تعریف کر کے ان پر نظر رکھ کر انہیں بےسکون نہ کیا جائے۔" آواز میں کچھ سختی تھی کہ رافع بھی خاموش ہوگیا تھا۔ عاشی کی اس کی جانب پشت تھی۔ وہ کھل کر مسکرائی تھی۔ آج یہ سبق اس کے لیے کافی تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"باس میرویس آیا ہے۔" فراز تیزی سے اس کے روم میں داخل ہوا۔ وجاہت جو کرسی موڑ کر دوسرے رخ پر بیٹھا تھا اس بات پر سیدھا ہو کر بیٹھا۔ فراز کے پیچھے دروازے سے میر دو آدمیوں کو دھکا دے کر اندر داخل ہوا تھا۔
"اوہ! میرا دوست آیا ہے۔" بائیں گال کا ڈمپل گہرا ہوا۔ "وہاں مت کھڑے رہو فراز! یہ کرسی آگے کرو تاکہ وہ بیٹھ سکے۔" نگاہ میرویس پر ٹکی ہوئی تھی۔ میرویس سنجیدگی سے اس کی جانب بڑھا۔ وجاہت نے ٹانگ پر ٹانگ جما کر میز پر رکھا لیپ ٹاپ بند کیا۔ میرویس نے ہاتھ میں لٹکی اپنی جیکٹ خالی چئیر پر پھینکی۔
"تم جو کر رہے ہو وہ ٹھیک نہیں وجاہت!۔" آفس ٹیبل پر دونوں ہتھیلیاں جما کر وہ کچھ جھکا تھا۔
"مجھے نہیں لگتا کہ میں کچھ غلط کر رہا ہوں!۔" ڈھیر سارا اطمینان چہرے پر سجا تھا۔
"اپنی چالوں کو ساویز پر مت آزماؤ! ہمیں جینے دو!۔" وہ چیخ نہیں رہا تھا مضبوطی سے بات کر رہا تھا۔
"میں تم سے پہلے بھی کہہ چکا ہوں یار! مجھے تم سے کوئی غرض نہیں۔۔ تم خوامخواہ مجھے اپنا دشمن بنا رہے ہو۔ مجھ پر غصہ کرو، چیخو۔۔ مگر وجاہت تمہیں پھر بھی کبھی نقصان نہیں پہنچائے گا۔ تم محفوظ ہو میرے یار۔۔" اس کا لہجہ نرم تھا۔ لبوں پر ہلکی مسکراہٹ قائم تھی۔
"تم ہی نے کہا تھا نا کہ اس رات بہت اندھیرہ تھا؟ پھر تمہیں کیسے اس پر ساویز گمان ہوسکتا ہے؟ بےکار بات ہے! تم اپنا وقت ہم پر ضائع کر رہے ہو! میں ساویز کو تنہا نہیں چھوڑوں گا۔ بس بتا رہا ہوں کہ یہ چھ ماہ کسی کا سکون برباد کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ اب ہم سے دور رہو!۔" میز پر ہاتھ مار کر وہ اسے ایک نظر دیکھتا باہر نکل گیا۔ وجاہت خاموش رہا۔ نگاہ وہیں پر ٹکی تھیں جہاں سے میرویس باہر نکلا تھا۔ وہ جس پوزیشن میں بیٹھا تھا، ذرا بھی ہلا نہیں۔۔ چند سیکنڈ بعد اس کی بھاری آواز گونجی۔
"اس کی جیکٹ دے کر آؤ۔" وہ چئیر پر ہی اپنی بھوری جیکٹ بھول گیا تھا۔ فراز اثبات میں سر ہلاتا جیکٹ اٹھا کر باہر چلاگیا جبکہ وجاہت گہری سانس خارج کیے خاموش بیٹھا اپنی سوچوں میں ڈوب گیا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
اگلے دن وہ آفس جانے سے پہلے ان سے ملنے چلا آیا تھا۔ ڈاکٹر کو کال کر کے بلایا گیا حالانکہ ابرار نے کتنا ہی منع کیا مگر وہ یہ کہہ کر خاموش کروا گیا کہ اللہ نے اسے ان کی مدد کرنے بھیجا ہے۔ نگاہیں ارد گرد اس لڑکی کو ڈھونڈ رہی تھیں جسے وہ صرف آنکھوں سے پہچانتا تھا۔ چھوٹے سے ڈرائنگ روم میں شاید کچھ مہمان بیٹھے تھے مگر وہ باہر ابرار صاحب کے ساتھ تھا۔
"کیا کسی ذہنی دباؤ کا شکار ہیں آپ؟ یہ سب آپ کی صحت کے لیے درست نہیں ابرار صاحب۔" ڈاکٹر نے چیک کرتے ہوئے کہا۔ ابرار نے خاموش رہنا بہتر سمجھا۔
"یہ پریشانیوں کو سر پر سوار کرلیتے ہیں ڈاکٹر صاحب۔ پہلے بھی کئی بار کہا ہے کہ اپنا خیال رکھا کریں مگر وہ بھی کیا کریں۔ اب کسی پر بھی ان کی گرفت نہیں رہی۔" عفت پریشان تھیں۔
"آپ مہمانوں کے پاس جائیں عفت۔۔ غنایہ کو مومنہ خالہ اور ان کے بیٹے کے ساتھ اکیلا نہ چھوڑیں بلکہ جائیں سعدان سے باتیں کریں میں تھوڑی دیر تک آتا ہوں۔"
ساویز کو تو جیسے کچھ سمجھ ہی نہ آیا۔
"ذہن پر کم زور ڈالیں۔۔ کھانے کا خاص خیال رکھیں اور زیادہ خود کو مت تھکائیں۔ جب آپ ان باتوں کا خیال رکھیں گے تو ہی بہتر کر سکیں گے۔" ڈاکٹر ہدایات دے رہا تھا۔
"میں کوشش کروں گا۔" ان کی آنکھیں بوجھل تھیں۔
"آپ دوائیاں لکھ دیں ڈاکٹر۔۔" ساویز نے کہتے ساتھ سینے پر ہاتھ باندھے۔ دوائیوں کا پرچا ابرار نے پکڑنا چاہا ہی تھا کہ ساویز نے تھام لیا۔
"تمہارا پہلے ہی مجھ پر احسان ہے بیٹا۔ میں اب مزید تمہیں مشکل میں نہیں ڈال سکتا۔ کوئی بات نہیں یہ دوائیاں میں خود لے لوں گا۔" انہیں ساویز کی نرم مزاجی پہلی ہی نظر میں بھا گئی تھی اور اب وہ بار بار شرمندہ ہورہے تھے۔
"بیٹا بھی کہہ رہے ہیں اور اس تیمارداری کو احسان بھی کہہ رہے ہیں سر!۔ یہ کیا بات ہوئی بھلا۔" وہ مسکرادیا اور ان کی کمر سہلانے لگا۔ "مجھے اپنا بیٹا سمجھیں۔"
ابرار صاحب کا دل چاہا رو پڑیں۔ انہیں آج تک کبھی بیٹے کی کمی محسوس نہیں ہوئی تھی مگر ساویز کا یوں کہنا انہیں نجانے کیوں رلا گیا۔
"اگر میرا کوئی بیٹا ہوتا تو وہ شاید تمہارے جیسا ہوتا۔" آنکھیں نم تھیں۔ ساویز کا دل سکڑا۔ وہ ابھی کچھ کہتا ہی کہ دروازے کے اندر تن فن کرتی ایک عورت گھسی۔ اس نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے ابرار صاحب کو دیکھا جن کی رنگت فق ہوئی تھی۔
"میں نے تم لوگوں سے پہلے بھی کہا تھا غنایہ صرف میرے بیٹے کے ساتھ بیاہی جائے گی۔" وہ ہمیشہ کی طرح اپنا زور چلانے کے لیے چیخی تھیں۔ ڈرائنگ روم میں بیٹھے مہمان چونک کر آنے والی عورت کو دیکھنے لگے۔ "تم لوگوں کو کیا لگتا ہے؟ محلے میں چھپکے سے بیاہ دو گے اور ہم کو خبر بھی نہیں ہوگی بی بی؟؟۔" وہ ڈرائنگ روم میں مہمانوں کے سر پر کھڑی چلا رہی تھیں۔ غنایہ گھبرا کر کمرے میں چلی گئی۔ اس تماشے پر مہمان اٹھ کھڑے ہوئے۔
"کیا بات کر رہی ہیں آپ!۔" ساویز کو باہر کسی مرد کی آواز آئی۔ "ہم خود رشتہ لائے ہیں۔"
"ویسے حیرت ہے عفت!۔" عام عورتوں کی طرح ہاتھ نچا نچا کر بات کرتی وہ عورت ساویز کو پہلی ہی نظر میں بری لگی تھی۔ "تم لوگوں نے بتایا نہیں کہ باصم تمہاری غنایہ سے کتنی محبت کرتا ہے اور شادی بھی صرف اسی سے کرے گا! درمیان میں آنے والی ہر رکاوٹ کو ہٹا کر اسے بیاہ کر لے جائے گا۔ اوہ ہائے تم لوگوں نے سوچا بھی کیسے کہ چھپکے سے اس کی کہیں اور بات چلادو گے۔"
مہمان وہاں سے بڑبڑا کر غصہ دکھاتے ہوئے باہر نکل گئے۔
"تم نے مجھ سے کیوں چھپایا عفت؟۔" مومنہ خالہ کا چہرہ سرخ ہوچکا تھا۔ "اتنا ذلیل کرنے کا کس منہ سے شکریہ ادا کروں!!۔" وہ کٹیلے لہجے میں طنز کرتیں بیٹے کے ہمراہ باہر نکل گئیں۔ گھر میں گویا ایک شور مچا تھا۔ ساویز کو کبھی یوں شور تماشے کی عادت نہیں رہی۔ اپنے گھر میں وہ ایک اکیلا فرد ہی تو تھا۔ عفت سن ہوتے ہوئے وہیں صوفے پر گر گئیں۔
"تم لوگوں کی چلاکیاں ہم مزید برداشت نہیں کریں گے۔ اگلے ہفتے آؤں گی بیٹے اور قاضی کے ساتھ۔۔ جب تک نکاح نہیں پڑھواؤ گے گھر نہیں لوٹوں گی۔۔ اور ہاں یاد رکھنا! باصم کو خبر ہوگئی ہے وہ اب کیسے اپنے غصے کا اظہار کرتا ہے مجھے علم نہیں۔۔ سنبھل کر رہنا۔۔" وہ عورت جس طرح آئی تھی اس طرح پلٹ گئی۔ ساویز نے ایک نظر اس جاتی عورت کو دیکھ کر پیچھے دیکھا ہی تھا کہ بوکھلا گیا۔ ابرار صدمے کے باعث اوندھا منہ گرتے اگر وہ تھام نہ لیتا۔۔
بمشکل ان کی طبیعت قابو میں آئی تھی۔ ڈاکٹر کے کہنے پر انہیں آرام کا انجکشن لگا کر پرسکون کردیا تھا۔ ساویز گھر لوٹ تو گیا تھا مگر دل بےچین تھا۔ اسے رہ رہ کر ابرار اور عفت کا خیال آرہا تھا جو اتنے بڑے صدمے سے دوچار ہوئے تھے۔ باصم نامی وہ شخص جو بھی تھا مگر ساویز کے نزدیک نفرت کے باعث تھا۔ اس رات بار بار سوچ کر بلآخر اس نے ایک فیصلہ لیا۔۔ ایک عجیب فیصلہ۔۔ اگلے دن وہ سب سے پہلے ان کے گھر پہنچا اور ابرار صاحب سے بات کرنی چاہی۔ وہ اس کے یوں آنے پر حیران تھے۔
"مجھے آپ سے بات کرنی ہے سر۔" وہ زندگی میں پہلی بار تھوڑا ہچکچایا تھا۔ ابرار صاحب نے اثبات میں سرہلایا۔
"ہاں بیٹا میں سن رہا ہوں۔"
"میں آپ کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔" وہ یکدم بولا۔ ساویز جانتا تھا کہ اسے اتنے اصرار نہیں کرنا پڑے گا کیونکہ ابرار اور عفت اس عورت کی وجہ سے پہلے ہی پریشان تھے۔ اس نے کہا تھا کہ اگلے ہفتے وہ اپنے بیٹے کے ساتھ آئے گی اور یہ بات انہیں مزید گھبرانے پر مجبور کر گئی تھی۔ ابرار صاحب کی آنکھیں حیرت سے پھٹیں۔ ساویز کی آواز پر عفت کمرے سے باہر نکل کر آگئیں۔ ابرار عفت کو دیکھتے ہوئے اس کی طرف متوجہ ہوئے۔
"کیا کہہ رہے ہو بیٹا بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ کیا تم نے اسے کہیں دیکھا ہے؟۔" ان کے دل میں طرح طرح کے خیالات پیدا ہونے لگے کہ کہیں وہ ان کی بیٹی کو پہلے سے تو نہیں جانتا تھا؟ کیا یہ سب محبت کا چکر تھا؟
"میں نے انہیں کہیں نہیں دیکھا بلکہ مجھے تو علم بھی نہیں ہے کہ وہ کیسی دکھتی ہیں۔ کل جو کچھ یہاں ہوا۔۔ میں نہیں جانتا وہ تماشہ کرنے والی عورت کون تھی اور وہ لڑکا باصم! مگر اب میں ان سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔" وہ ہتھیلیاں دھیرے سے آپس میں رگڑ رہا تھا۔
"کیا یہ سب ہمدردی ہے؟۔" انہیں ایسا گوارا نہیں تھا۔
"نہیں بلکل نہیں۔۔ دراصل چند سالوں پہلے میں نے تہیہ کیا تھا کہ جلد شادی نہیں کروں گا۔ میرے بابا دو سال سے سنگاپور میں ہیں اور گھر میں کوئی اور فرد نہیں۔۔ اب احساس ہوتا ہے کہ بس اب اپنی زندگی بسالینی چاہئیے۔" اس کے علاؤہ بھی اس کے پاس ایک بڑی وجہ تھی جسے وہ بتا نہیں سکتا تھا۔۔ ایک اہم اور اصل وجہ۔۔۔ عفت کہیں حد تک مطمئن تھیں مگر ابرار کے دل میں اب بھی کئی سوالات تھے۔ بھلا ایسا کیسے ہوسکتا تھا کہ جوان مرد ہو اور ساتھ اتنا پیسہ ہو مگر دل کہیں اور نہ لگایا ہو؟ گھر میں کوئی فرد نہیں کیا یہ کہیں کوئی جھوٹ تو نہیں؟ ساویز نے دوسری جانب خاموشی محسوس کی تو ابرار صاحب کو دیکھا۔
"کیا آپ کو یہ سب ٹھیک نہیں لگ رہا؟۔" کہیں شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔
"نہیں ساویز۔۔ بیٹی کا معاملہ ہے جانچ پڑتال کرنی پڑتی ہے۔" وہ پھیکا سا مسکرائے۔
"آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ میں اپنی کمپنی کا ایڈرس اور گھر کا پتہ دے دوں گا۔ اپنے دل کی تسلی کرلیں اور اگر آپ کو کوئی قباحت نظر نہیں آتی تو میں آپ کی کال کا انتظار کروں گا۔" وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اپنے ارادوں میں کتنا سچا تھا اسے اچھی طرح علم تھا۔ اس کی کوئی بھی بات جھوٹ نہیں تھی۔۔ بس وہ ایک بات چھپا گیا تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
اس نے گاڑی کی چابی بستر پر پھینک کر اپنی وارڈروب سے کپڑے نکالے۔ وہ گھر زیادہ بڑا نہیں تھا مگر کیونکہ وہ یہاں اکیلی رہتی تھی اس لیے کافی تھا۔ یہ گاڑی اسے آفس کی طرف سے ملی تھی۔ وہ ہر بار بےتابی سے اتوار کا انتظار کرتی تاکہ سکون حاصل کرسکے اور پورا اتوار سو کر گزار دیتی۔ شاید یہ چھ دنوں کی تھکاوٹ کا نتیجہ ہوتا تھا۔ ڈوپٹہ وہ پہلے ہی اتار چکی تھی۔ گلابی کرتی تبدیل کر کے اس نے ڈھیلی ڈھالی سی ٹی شرٹ اور ٹراؤزر پہن لیا۔۔ فریج سے دو دن پرانا سالن نکال کر گرم کیا اور ڈبل روٹی سینکتی ہوئی ٹرے سجا کر باہر لے آئی۔ کمرے کی کھڑکی کھول کر اس نے کمرے کی میز پر کھانا رکھا اور اوٹ پٹانگ طریقے سے کرسی پر بیٹھ گئی۔ کاش کہ اس پر کام کا بوجھ تھوڑا کم ہو جائے اور وہ گھر والوں سے ملنے جا سکے۔ کتنے ہی دن ہوگئے تھے اور اس نے غنایہ کو کال بھی نہیں کی تھی۔ خود کو پالنے کے لیے کمانا پڑتا ہے جبکہ اپنے گھر میں باپ کے پیسوں پر عیاشی ہوتی ہے۔۔ اسے باپ کی کافی چیزوں سے اعتراض تھا اور یہی بات ابرار اور عاشی کے درمیان تکرار کی وجہ بنتی۔ آفس میں بات کرنے کا دل نہیں کرتا اور گھر پر کوئی بات کرنے والا نہیں ہوتا۔۔ بس گزر رہی تھی زندگی۔۔ کچھ اپنے فیصلوں پر۔۔
۔۔۔★★★۔۔۔
دو دن مزید گزر گئے اور اتوار کا روز آگیا۔ رات میر نے اماں کے گھر ہی گزاری تھی اور ہمیشہ کی طرح روما نے اسے صبح جلدی اٹھادیا تھا۔
"شائستہ باجی نے اپنی بیٹی کا رشتہ دیا ہے۔" اماں ایک بار پھر وہی موضوع لے کر آچکی تھیں۔ وہ چونکا۔
"انہوں نے خود اپنی بیٹی کا رشتہ دیا ہے؟۔" ناشتے کی میز پر لقمہ منہ میں ڈالتے ہوئے پوچھا گیا۔
"ہاں انہیں تم اپنی بیٹی کے لیے کافی پسند ہو۔ کیا کہتے ہو؟ بات چلاؤں؟۔" اماں کو تو صرف موقع چاہئیے تھا۔ میر نے باقاعدہ ہاتھ جوڑے۔
"بس اماں! خدارا اس موضوع کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیں۔" وہ اب گزارش کر رہا تھا۔ برابر بیٹھی روما نے اماں کو اشارے سے خاموش رہنے کو کہا۔
"ارے بھئی کیا ہوگیا۔ بس بھی کرو یہ تماشے! میں نے کہہ دیا میرویس اب میں تمہارے کہنے پر نہیں چلوں گی۔" لہجہ غصیلا تھا۔ روما نے میر کو دیکھا جو سپاٹ تاثرات سے ماں کو دیکھ رہا تھا۔ یقیناً اب جو ہونے والا تھا وہ ٹھیک نہیں تھا۔ میرویس اپنا ناشتہ ادھورا چھوڑ کر اٹھ چکا تھا۔ روما کو دکھ ہوا۔
"اماں یہ کیا کیا آپ نے!۔" میرویس کے کمرے میں جانے کے بعد روما نے روہانسا ہوتے ہوئے پوچھا۔ "وہ اب چلا جائے گا۔" اس کا دل چاہا رودے۔ اماں خاموش غصے میں بیٹھی رہیں۔ تقریبا دو منٹ بعد میرویس اپنا لیپ ٹاپ بیگ اور آفس کا کوٹ لے کر باہر نکلا تھا۔
"میرو مت جاؤ۔" اس کی آنکھیں نم ہونے لگیں۔ وہ باہر نکل رہا تھا جب اس نے روما کی آواز سنی۔
"میں ابھی یہاں مزید ٹھہرنا نہیں چاہتا۔ تم رونا مت! میں شام میں آکر تمہیں اپارٹمنٹ لے جاؤں گا۔" اس کی بات روما کو کچھ مطمئن کر گئی۔ میرویس نے خدا حافظ کہتے ہوئے باہر کی راہ لی۔۔ اماں بے سکونی سے سانس بھر کر رہ گئیں۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"میں ان کی پسند سے شادی نہیں کرسکتا! وہ کیوں نہیں سمجھتیں۔" کام کا دباؤ پہلے ہی بہت تھا اور ایک یہ مزید پریشانی آگئی تھی۔ "میں فالحال شادی ہی نہیں کرنا چاہتا۔"
"مگر میں شادی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہا ہوں۔" ساویز نے یکدم کہا۔ وہ اسے ابھی اس لڑکی سے شادی کے بارے میں نہیں بتانا چاہتا تھا۔
"تو؟ بھلا یہ کیسے ممکن ہوا؟۔" وہ قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔
"جب سے وجاہت دشمن بنا بیٹھا ہے، میری زندگی میں کافی بدلاؤ آیا ہے۔ ایک پل سکون حاصل نہیں ہوا اور اب میں مزید بےسکون نہیں رہ سکتا۔ پہلے لگتا تھا کہ شادی کی ضرورت نہیں مگر میں مزید وجاہت کی وجہ سے اپنا دماغ خراب نہیں کرنا چاہتا۔ اب چاہتا ہوں کہ زندگی بسالوں تاکہ کچھ مصروف بھی ہوجاؤں اور پھر شاید وجاہت کا زور بھی کم ہو جائے گا۔" شادی کرنے کی یہ اہم اور اصل وجہ تھی جو اس نے ابرار سے چھپالی تھی۔ میرویس نے اثبات میں سر ہلایا۔
"مجھ سے پوچھو تو یہ تمہارا ایک بہترین فیصلہ ہے۔" اس کے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا کہ ساویز اس فیصلہ پر پہلے ہی کام کر چکا ہے۔ اگر علم ہوتا تو شاید اتنا سکون سے نہ بیٹھا ہوتا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"دو دن سے جو لڑکا آرہا تھا اس کو تم نے دیکھا؟۔" عفت کا دل جانے کیوں مطمئن تھا۔
"نہیں میں ان کے سامنے نہیں گئی۔ آپ لوگوں سے ہی سنا ہے۔" غنایہ اپنا اسائمنٹ بنا رہی تھی۔ موسم کافی خوشگوار تھا۔۔ لگتا تھا جیسے بادل برس جائیں گے۔
"میں اس کی کوئی تصویر منگوالوں گی تاکہ تمہیں دکھا سکوں۔" وہ کچن میں دوپہر کا کھانا بنا رہی تھیں جبکہ غنایہ کچھ فاصلے پر میز کے ساتھ کام کر رہی تھی۔
"نہیں اس کی ضرورت نہیں۔۔ ان حالات میں میری پسند نا پسند کوئی معنی نہیں رکھتی۔ آپ جن سے کہیں گے میں شادی کرلوں گی۔" اس کا لہجہ بےحد عام سا تھا۔
"یہ تو انکوائری کرنے کے بعد ہی پتا چلے گا کہ وہ کس طرح کا لڑکا ہے۔ تمہارا ابا کا بہت خیال رکھا ہے۔ اچھا لڑکا ہے مگر شادی کے لیے صرف اچھا ہونا کافی نہیں ہوتا۔" ابرار کے دل میں طرح طرح کی خدشے تھے۔ اگر وہ لڑکا درست نہ نکلا تو پھر کیا ہوگا؟ اگلے ہفتے بھابھی اپنے بیٹے کے ہمراہ نکاح نامہ ساتھ لے کر آئیں گی اور تماشے کرنے لگیں گی۔ زبان بار بار خدا کی تسبیح کر رہی تھی۔ ابرار صاحب کو ساویز کے دیے گئے پتے پر جا کر انکوائری کرنی تھی مگر ان کی گرتی صحت انہیں بستر سے اٹھنے نہیں دے رہی تھی۔ انہیں ساویز کے خلوص پر شک نہیں تھا مگر چونکہ بیٹی کا معاملہ تھا اس لیے ہر چیز باریک بینی سے دیکھنا چاہتے تھے۔ محلے میں باصم کی کہانیاں مشہور ہوچکی تھیں۔ نہ اپنا کوئی رشتہ دار تھا جسے وہ انکوائری کا کہتے۔۔ اور جو محلے والے تھے وہ باصم کا سن کر دور ہٹ گئے تھے۔ یہ سب ان کے لیے محض پریشانی کے کچھ نہ لایا۔ باصم کے خوف سے انہوں نے یہ دو دن غنایہ کو یونیورسٹی بھی نہیں جانے دیا۔ وہ پورے گھر میں گھبرائی بوکھلائی پھر رہی تھی۔ آنے والا وقت دلوں میں مزید خوف بڑھا رہا تھا۔ نجانے کیا ہونے والا تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔

تو دل سے نہ اتر سکاDonde viven las historias. Descúbrelo ahora