گیارھویں قسط

214 13 0
                                    

وہاج کی موت کو ایک ہفتہ مزید بیت گیا۔ میرویس جب سے لاہور سے لوٹا تھا کچھ خاموش سا تھا۔ روٹین ویسے ہی ٹف تھی۔ صبح آٹھ بجے آفس جانا اور بارہ بجے لوٹنا۔ وہ اتنا کام کرتا کہ تھک جاتا۔ طرح طرح کے لوگوں کو فیس کر کے رات تاخیر سے پہنچتا تو خاموش ہی رہتا تھا۔
آج رات بھی دروازے سے اندر داخل ہوتے ہوئے اس کے تاثرات سپاٹ تھے۔
"لاؤ مجھے لیپ ٹاپ بیگ دے دو۔" اس نے میرویس کے ہاتھوں سے بیگ لینا چاہا مگر میرویس نے بیگ دور کیا۔
"ضرورت نہیں ہے۔" وہ اسے کوئی بوجھ اٹھانے دینا نہیں چاہتا تھا۔ عشنا نے اس کی ٹائی ڈھیلی کرتے ہوئے اتاردی۔
"میں نے تمہارے لیے کپڑے نکال دیے ہیں۔ اب کھانا نکال دیتی ہوں۔" وہ ضرورت کے علاؤہ کوئی اور بات نہیں کر رہی تھی۔ میرویس کی پیشانی پر شکنیں نمودار تھیں۔
"کیا بنایا ہے؟۔"
"آلو مٹر۔۔ تمہارا پسندیدہ۔" کہتے ہوئے لبوں پر مبہم سی مسکراہٹ پھیل گئی۔
"ہوں۔ میں شاور لے کر آتا ہوں۔" کپڑے بستر سے اٹھاتے ہوئے مزید ٹھہرے بنا واش روم کی جانب بڑھ گیا۔

تقریباً آدھے گھنٹے بعد وہ دونوں ہی ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے تھے۔ عشنا جو پہلے ہی کھانا کھا چکی تھی اب اس کے حکم پر ساتھ بیٹھی تھی۔ میرویس نے کھانے کا پہلا لقمہ ڈالتے ساتھ ہی سالن کے پیالے کو دیکھا تھا۔ شاید کھانے میں نمک نہیں تھا۔۔ نمک میں کھانا تھا۔ منہ میں نمک محسوس کرتے ہوئے میرویس نے عشنا کو دیکھا اور دوبارہ کھانے میں مصروف ہوگیا۔ وہ کسی ارادے سے اٹھنے لگی تھی جب میرویس نے ترچھی نگاہ اس پر ڈالی۔
"کہاں جا رہی ہو؟۔"
"تمہارے لیے پانی لے کر آتی ہوں۔"
"ضرورت نہیں ہے۔۔ بیٹھ جاؤ۔" نگاہوں میں سختی تھی۔
"اچھا چاول اور لانے دو۔" اس نے ٹرے اٹھانی چاہی مگر میر نے اس کا پکڑ کر زبردستی بٹھایا۔
"اتنا ہی کھاؤں گا۔ مزید کی ضرورت نہیں۔۔" گیلے بال بکھرے ہوئے تھے۔ چہرے پر سنجیدگی کے بھرپور آثار نمودار تھے۔
"تم نے آج کل اپنا کھانا پینا کافی کم کیا ہوا ہے۔ تمہاری صحت گر رہی ہے۔ اپنی حالت دیکھو۔ صبح اٹھ کر بھی جم جانا ضروری ہے مگر رات کا کھانا تم روما سے بھی کم کھاتے ہو۔ آخر چاہتے کیا ہو میرویس؟۔" وہ فکرمندی سے اسے تقریباً ڈانٹتے ہوئے بولی۔
"کھانا کھا لیا ہے تم نے؟۔" اس کی بات کو نظرانداز کرتا ہوا وہ دھیرے سے پوچھنے لگا۔
"ہاں۔"
"تو میرا دماغ کیوں کھا رہی ہو؟۔" پیشانی پر غصے کے بل نمودار ہوئے۔ عشنا کی چلتی زبان خاموش ہوئی۔ وہ اسے بہت آرام سے لاجواب کر گیا تھا۔
"میں آئیندہ تمہارے ساتھ نہیں بیٹھوں گی۔ اکیلے کرنا ڈنر!۔" منہ پھیرتے ہوئے وہ دوسرے جانب رخ کرکے بیٹھ گئی۔ اس نے ذرا سا مسکراتے ہوئے عشنا پر نگاہ ڈالی اور کھانا ختم کرنے لگا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"مجھے اب بھی ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ سب کل کی بات ہو۔" غنایہ کی آواز نے اس کی نیند میں خلل پیدا کیا تھا۔
"اور مجھے لگتا ہے جیسے وہ ہمارے درمیان ہو۔" ساویز کی بھاری آواز ابھری۔
"ان کی امی کے لیے مجھے بہت تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ میرویس بھائی نے بتایا تھا کہ وہ اب تک اس کی موت کو قبول نہیں کر پائیں۔"
"جوان اولاد کا دکھ ایسا ہی ہوتا ہے غنایہ۔"
"ایسے کیسے ہو سکتا ہے وہ ایکسیڈنٹ ہو جبکہ وہ پل اکثر سنسان پڑا رہتا ہے۔" غنایہ کی بات پر ساویز نے کچھ سوچا تھا۔ کم از کم یہ اکسیڈنٹ نہیں تھا۔
۔۔۔★★★۔۔۔
"کتنا سر کھاتی ہو تم!۔" آدھے گھنٹے سے اس کی مستقل باتیں سنتے ہوئے وہ بلآخر سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔
عشنا جی بھر کر چونکی۔۔ بلکہ بوکھلا گئی۔ اسے کیا ہوا تھا؟ ابھی تو اچھا خاصا بیٹھ کر اس کی باتیں سن رہا تھا۔۔
"میں تم سے آج کے دن کی باتیں کر رہی تھی۔" خفا خفا سا لہجہ۔۔
"باتیں؟ باتیں وہ ہوتی ہیں جو دو لوگ آپس میں کرتے یعنی کچھ تم کہو، کچھ میں! مگر یہاں صرف تم ہی کہہ رہی ہو وہ بھی آدھے گھنٹے سے۔۔" اس کی ٹھوڑی کھینچتے ہوئے وہ اپنی جگہ پر لیٹ گیا۔
عشنا کو اس کا یوں کہنا بہت برا لگا۔ آنکھیں بھر آتیں اگر وہ رخ موڑ کر اپنی جگہ پر جلدی سے لیٹ نہ جاتی۔ میرویس نے اسے تیزی سے لیٹتے ہوئے دیکھا تو جان گیا کہ وہ ناراض ہوگئی ہے۔
"مذاق کر رہا ہوں یار۔ دیکھو تمہارے لیے ہی لیٹا ہوں تاکہ زیادہ سکون سے بات سن سکوں۔" وہ کہتا ہوا اس کا بازو تھپتھپانے لگا تاکہ وہ اٹھ جائے۔
"تم سے نہیں کرنی مجھے کوئی بھی بات!۔" بھرائی ہوئی آواز میرویس کے کانوں پر پڑی تو سٹپٹا گیا۔
"عاشی اٹھو!۔" وہ اب لیٹے لیٹے ہی اس کا بازو کھینچ رہا تھا۔
"میں نے کہا نا میرویس نہیں کرنی مجھے کوئی بات۔ ہاتھ دور کرو سونا ہے مجھے۔" غصے سے اس کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے وہ تھوڑا آگے سرکی۔
"عاشی تنگ نہیں کرو۔" اس کو بازو سے کھینچ کر سختی سے جانب کیا۔ "اتنی دنوں بعد ایسا ہوا کہ آفس سے آنے کے بعد میں غصہ نہیں کر رہا۔ پلیز غصہ مت دلاؤ۔" اسے اپنے نزدیک کرتے ہوئے وہ اس کا موڈ مزید خراب کر گیا۔
"غصہ نہیں کر رہا؟ کھانے کے دوران بھی تم نے غصہ کیا۔" وہ جھٹکے سے اٹھ کر اس سے لڑنے کے لیے بیٹھی۔
"اچھا؟ بتاؤ کیا کہا تھا؟" دلچسپی سے کہتے ہوئے وہ اسے بغور سننے لگا۔
"دماغ کیوں کھا رہی ہو میرا اگر کھانا کھا لیا ہے تو۔۔" اس کی نقل اتارتے ہوئے وہ بھڑکی۔ "میرے پاس بیٹھے رہا کرو۔۔ ہزار بار کہا ہے کھانے کے دوران میں باتیں نہیں کرتا۔ میرے پاس سے ہلنا بھی مت۔۔ کھانا حلق میں پھنسنے کی وجہ سے میں مر بھی رہا ہوں تو بھی پانی لے کر آنے کے لیے میرے پاس سے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔" باری باری اس کے سارے جملوں کی نقل اتارتے ہوئے وہ میرویس کو زور سے قہقہہ لگانے پر مجبور کر گئی۔
"اتنا بھیانک انداز مہں کہتا ہوں میں؟۔" اس کے شریر لہجے پر وہ ہنسی نہ روک سکی۔
"اچھا مجھ سے باتیں کرو۔ پھر آگے کیا کہہ رہی تھیں؟ اصغر نے تمہاری ہی چائے میں چینی نہیں ملائی اور تمہیں پھیکی پینی پڑی۔۔ غصہ تو آیا ہوگا۔۔ آگے؟۔" بے حد وثوق سے اسے دیکھتے ہوئے اشتیاق بھرے لہجے میں بولا۔
"اب نہیں کرنی مجھے اس موضوع پر بات۔" ناراضگی دوبارہ واضح ہونے لگی۔
"مگر مجھے کرنی ہے۔ میں تمہیں چھیڑ رہا تھا۔ سچ کہوں تو اس لیے لیٹا تھا تاکہ سکون سے بات سن سکوں۔" اس کا ہاتھ چومتے ہوئے وہ محبت سے بولا تو عشنا کو غصہ آیا۔
"تم بہت زیادہ غصہ کرنے لگے ہو۔"
"ابھی کب کیا میں نے؟۔" وہ الٹا حیرت زدہ ہوا۔
"تو جب سے تمہاری روٹین ٹف ہوئی ہے تب سے تو غصہ کر رہے ہو نا۔"
"یار میں تھک جاتا ہوں۔" اس کے ہاتھوں کو اپنی آنکھوں پر رکھتے ہوئے وہ اس کا لمس محسوس کرنے لگا۔ "دن میں اتنے لوگوں کا سامنا کرنا، ڈھیر سارا کام، پھر سب ایمپلائیز کو دیکھنا۔ صبح آٹھ بجے کا نکلا شخص جب رات بارہ بجے گھر میں داخل ہوگا تو دو پل سکون ہی مانگے گا نا۔" نظروں میں اس کے لیے بے پناہ محبت امڈی۔
"میں تمہیں سکون نہیں دیتی؟" عشنا کا دل بوجھل ہوا۔
"تم ہی تو سکون دیتی ہو۔ اس لیے کھانے کے بعد میں تم سے آدھی رات تک باتیں کرتا رہتا ہوں۔"
"مجھ سے اکتا جاتے ہو گے۔" عشنا نے لب کچلے۔
"تم سے؟۔" قہقہہ گونجا۔ "ہوش میں ہو؟۔"
"درست کہہ رہی ہوں۔"
"بلکل غلط کہہ رہی ہو۔ آفس میں پورا وقت بس وقت گزرنے کا انتظار کرتا ہوں۔ تاکہ گھر آسکوں۔ اور گھر میں کون ہے؟ تم! ورنہ گھر تو میں پہلے بھی آتا تھا۔ مگر پہلے اتنی دلچسپی نہیں تھی جلدی گھر آنے کی۔۔ اب ہے!۔" وہ بھلا اس سے کیسے اکتا سکتا تھا۔ "دن میں آٹھ دس بار کال کرتا ہوں لیکن تم بڑی ظالم ہو۔ مجھے آج کال پر ہی ڈانٹ دیا یہ کہہ کر میں آفس میں مصروف ہوں اور مجھے کال کم کیا کرو!۔" آخر میں وہ خفا ہوا۔ عشنا مسکرا دی۔
"مجھے اس وقت غصہ تھا۔ اپنے حصے کا کام کر کے میری آف ہونے لگی تھی مگر مینجر نے اور کام پکڑا دیا۔ اس لیے تم سے یوں کہہ دیا۔" اس کی سیاہ آنکھیں بولتی تھی۔ عاشی اس کی آنکھوں کو دیکھتی رہ گئی۔ وہ صاف بتاتی تھیں کہ اسے عشنا سے کتنی محبت ہے۔
"اگر تم نے مجھے اب یوں ڈانٹا نا تو۔۔" دھمکی۔
"کیا کرو گے؟۔" اس نے بھی بنھویں اچکائیں۔
"گھر نہیں آؤں گا۔ انتظار کرتی رہنا میرا۔۔" وہ اس کے جواب کا انتظار کرنے لگا۔
"پھر میں اپنی ڈارلا کو لے کر تمہیں ڈھونڈنے باہر چلی جاؤں گی۔" وہ بھی جواباً بولی۔
"یا خدایا نہیں! تم اور تمہاری بےشرم ڈارلا۔۔" ساتھ ہی ہنسی کی آواز آئی۔
"اف ہو! میں نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ تمہیں میری ڈارلا سے شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ ہاں ٹھیک ہے! وہ نہیں ہے تمہاری کرولا کے برابر مگر عشنا کی جان ہے اس میں۔۔"

تو دل سے نہ اتر سکاWhere stories live. Discover now