باب ۱

56 3 9
                                    

"ڈیڈ پلیز اسے بند کر دیں۔" وہ چہرے پر مکمل بیزاری لئے اپنے والد کو دیکھ رہی تھی۔ آنکھوں میں خماری، اور چہرہ سونے کے وجہ سے پھولا ہوا تھا۔ کمر تک آتے ہلکے بھورے بالوں کو اس نے چوٹی میں باندھ رکھا تھا دراز قد اور گندمی رنگت اس وقت خماری کی وجہ سے سرخی مائل ہوئی تھی۔ ملائم بالوں کی چند لٹیں اسکے چہرے کے اطراف تھیں اور چند کو اس نے کان کے پیچھے اڑوسا ہوا تھا۔ ٹی وی پر چلتے معاروف سیاست دان اشرف سلطان کے بیان کو دیکھ کر اسکے چہرے پر بیزاریت فوراً آ گئی تھی۔ سلمان صاحب کے چہرے پر ہمیشہ کی طرح نرم سی مسکان تھی، انہوں نے ٹی وی کو رینوٹ کی مدد سے بند کر دیا اور اپنے پاس صوفے پر اسکے لیے جگہ بنائی۔ "لو! کر دیا بند، آ جاؤ، میرے پاس بیٹھو۔" وہ نہایت ہنس مکھ انسان تھے۔ کبھی کبھی انکی نوک جھوک سے لگتا نہیں تھا کہ باپ بیٹی کے درمیان گفتگو ہو رہی ہے۔
"ڈیڈ مجھے یہ الٹے سیدھے سیاست دان بلکل پسند نہیں ہیں۔" وہ منہ بسور کر انکے پاس بیٹھ گئی انہوں نے مسکرا کر اسکو ساتھ لگا لیا۔ یہ ایک بڑے سے گھر کی شاندار سی بیٹھک تھی۔ لکڑی کا فرش، داخلی دروازے کے ساتھ ایک لمبا سا ایل شیپ صوفہ، اور اسکے سامنے والی دیوار پر اسی اینچ کا ٹی وی نسب تھا۔ ٹی وی کے پیچھے دیوار پر کالے رنگ کی ٹائیل لگی تھی جس کے اندر سنہری اور سفید رنگ کی ایک لکیر تھی۔ دائیں دیوار پر دو ٹو سیٹ صوفے رکھے تھے اور بائیں دیوار پر دو لکڑی بین کی کرسیوں کے درمیان ایک چھوٹی میز تھی۔ درمیان میں ایک کافی ٹیبل رکھی تھی۔ "دفع کرو ان سیاست دانوں کو تم بتاؤ، اسکول کیسا رہا تمہارا۔" وہ معملہ رفع دفع کرنا چاہ رہے تھے لیکن بات اب شاید ان پر آنے والے تھی۔ "ڈیڈ دن بہت اچھا تھا لیکن میں اسکول نہیں جاتی۔ میں یونی ورسٹی جاتی ہوں۔ اور اب تو وہ بھی ختم ہونے والی ہے۔" وہ سیدھی ہو کر بیٹھی اور افسوس اور حیرت کے ملے جلے تاثر کے ساتھ انہیں دیکھنے لگی۔
"لیں جی گرما گرم سموسے!" صفا بیگم ہاتھ میں ایک ٹرے لیے کمرے میں داخل ہوئیں۔ دونوں باپ بیٹی نے مڑ کر پیچھے دیکھا۔
"ارے واہ ! یہ کہاں سے آئے؟" سلمان صاحب کی تو جیسے بھوک چمک اُٹھی۔
"وہ حماد اسپتال سے واپسی پر لایا ہے۔" صفا بیگم نے میت پر ٹرے رکھی جس میں، سموسے چٹنیاں، نمک پارے، جلیبیاں اور پیلیاں رکھیں تھی۔
"مام! یہ کنجوس حماد کیسے اتنا فراغ دل ہو گیا؟" زیمل نے نمک پارے باؤل سے نکال کر ہاتھ میں پکڑ لیے۔
"بڑا بھائی ہے۔ نام سے مت بلایا کرو۔" صفا بیگم نے اسے گھرکا۔
"ڈیڈ! مام پھر اپنے لاڈلے کی سائڈ لے رہی ہیں۔" اس نے بیٹھے بیٹھی اپنے باپ کو پکارا اور ہاتھ میں رکھے نمک پارے انکے آگے کئے۔
"صفا! اسے کچھ نہ کہو۔" انہوں نے بھی مکمل توجہ نمک پاروں کو دے رکھی تھی لیکن مخاطب وہ صفا بیگم  سے تھے۔
"جی جی اسے کچھ نہ کہیں۔ یہ سب کو کچھ نہ کچھ کہتی رہے۔" کالی شلوار قمیض میں ملبوس کچھ تھکا تھکا سا حماد بیٹھک میں داخل ہوا۔ چہرہ لیکن ہمیشہ کی طرح کِھلا کھِلا تھا۔ چھ فٹ دو انچ کا قد اور دبلی مگر کسرتی جسامت پر کالا شلوار قمیض ملیجے حولیے میں بھی وجیہ لگ رہا تھا۔ زیمل کھسیانے انداز میں سیدھی ہو کر بیٹھی اور زبردستی کی مسکان چہرے پر سجا کر حماد کو دیکھنے لگی۔
صفا بیگم نے دونوں کو باری باری دیکھا۔ حماد اسکو چہرے پر ہاتھ پھیر کر بدلہ لینے کا اشارہ کر رہا تھا۔ جبکہ زیمل اسے چپ رہنے کا اشارہ کر رہی تھی۔
"اب کیا کیا ہے اس لڑکی نے! گاڑی تو نہیں مار آئی کہیں؟" صفا بیگم سر پکڑ کر سلمان صاحب کے ساتھ بیٹھ گئیں۔
"مام ماری نہیں ہے بس باہر ہی ستوں کے ساتھ ٹکرائی ہے۔ اور ستون کو کچھ نہیں ہوا۔ بس گاڑی کا ہلکا سا پینٹ اترا ہے۔" وہ معصومیت سے ٹھہر ٹھہر کر بتا رہی تھی۔
"مام تھوڑا سا پینٹ؟ پورا ڈینٹ پڑا ہے گاڑی پر۔ اسے سمجھائیں یہ کوئی بچی نہیں ہے اب۔ اسی طرح چلتا رہا تو ہمارا کوئی نہ کوئی نقصان کرواتی رہے گی۔" حماد مکمل سنجیدگی سے سمجھا رہا تھا۔
"او پاگلوں کے ڈاکٹر! اپنی نصیحتیں اپنے پاس رکھو۔ میں نے جان بوجھ کر کچھ نہیں کیا وہ تو بس..." وہ بولتے بولتے اس کے پاس جا رہی تھی جب اسکا ہاتھ ٹیبل پر رکھی چٹنی کو لگا اور وہ فرش پر گر گئی۔
"ہاں بلکل ایسے ہی بلکل ایسے ہی، تم نے گاڑی ماری ہے۔" حماد نے فوراً جملہ بیچ میں اچک لیا۔
"زیمل خدا کا نام لو اورسدھر جاؤ۔ کب تک یہ بچوں جیسی حرکتیں کب ختم ہوں گی تمہاری۔" صفا بیگم ایک دفع پھر سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔
"کبھی ختم نہیں ہوں گی!" سلمان صاحب نے ایک دم سب کو خاموش کروا دیا۔
"ڈیڈ آپ کے لاڈ پیار نے اسے بگاڑ دیا ہے۔"
"اور کونسا باپ ہے جو اسے بگاڑے گا۔ اگر گاڑی لگ بھی گئی ہے تو کیا ہوا۔ لگنے والی چیز تھی لگ گئی۔ زیمل تم سموسے کھاؤ۔" سلمان صاحب نے لاپرواہ اور ہنستے مسکراتے انداز میں انگڑائی لے کر کہا۔
"ہینا ڈیڈ میں نے بھی یہی کہا تھا اسے۔ لیکن یہ تو میرا سر کھا گیا۔ خیرچھوڑیں آپ بتائیں اب ہم آپکی سائٹ دیکھنے کب جائیں گے؟"
"کل شام کو؟" وہ سوالیہ انداز میں اس سے پوچھ رہے تھے۔
"اس دفع میں بھی آپ کے ساتھ چلوں گا۔ کل میری چھٹی ہے۔" حماد نے نے سموسے کا آخری لقمہ لے کر بات میں حصہ ڈالا۔
"تم کوئی انٹیرئیر ڈزائینر ہو؟ " اب کی بار وہ اپنی انگلی پر لگی چٹنی کو چکھ رہی تھی۔
"بات سنو، تم..." اس سے پہلے کہ حماد کچھ بولتا اسکا فون بجنے لگا۔ اسپتال سے کال دیکھ کر وہ اٹھ کر کمرے سے باہر چلا گیا۔
زیمل ٹیک لگا کر ایک دفع پھر صوفے پر بیٹھ گئی۔
"زیمل...حماد ٹھیک کہہ رہا تھا۔ تمہیں دھیان سے گاڑی چلانی چاہیے۔ اس طرح بار بار نقصان کرنا کوئی اچھی بات تو ہے نہیں اور نہ ہی اس بات کا ثواب ملتا ہے۔ اسی لئے بہتر ہے کہ زرا آنکھیں کھول کر دماغ لگا کر گاڑی چلاؤ۔" سلمان صاحب کا لہجہ سخت تو نہ تھا لیکن تنبیہہ کا واضع انصر نمایا تھا۔ زیمل سر جھکا کر بس جی بابا کہہ سکی۔

رنجش   RANJISH Dove le storie prendono vita. Scoprilo ora