باب ۶

7 1 2
                                    

سیون سیٹر، رینج رووّر میں سوار وہ چھ لوگ مکمل خاموش تھے۔ فرنٹ پر زمان اور اشرف سلطان بیٹھے تھے۔ پیچھے، دلاور سمیت زین اور زیغم جبکہ زیمل نے اپنی مرضی سے سب سے پیچھے بیٹھنے کا انتخاب کیا تھا۔ وہ کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے آنکھیں موندے جانے کن سوچوں میں گم تھی۔ صبح سے رات تک زندگی نے ایسا پلٹا کھایا تھا کہ وہ ابھی تک زلزلوں کی زد سے باہر ہی نہیں آئی تھی۔ گاڑی چالاتا زمان گاہ بگاہے زیمل پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ صبح وہ سارا کی شادی کی تیاریاں کر رہی تھی اور اب اس وقت وہ اپنے شوہر کی گاڑی میں بیٹھی اسکے گھر جا رہی تھی۔ لاشعوری طور پر وہ زمان کو شوہر تسلیم کر چکی تھی؟ عجب فلسفہ تھا قسمت کا۔ کون کہاں کب کیسے کسی کی زندگی میں آ جائے بھلا کہاں کسی کو خبر رہتی ہے۔
  جھٹکے سے گاڑی ایک ماڈرن طرز پر بنے بڑے سے گھر کے آگے رکی۔ چند سیکنڈ بعد آنکھیں ملتے ہوئے گارڈ نے گیٹ کھولا۔ گھر تھا یا فلموں میں دکھائی جانے والی کوئی مینشن۔ دو کنال کے رقبے پر بنا گھر اتنے نفیس انداز میں تعامیر کیا گیا تھا کہ دیکھنے والا ایک دم دنگ رہ جائے۔ گاڑی رکی تو سب اندر داخل ہوئے۔ زیغم زیمل کا سامان لے کر زمان کے کمرے تک پہنچانے چلا گیا۔ زین، زیمل اور لاؤنج میں موجود باقی تینوں کے لیے پانی لایا۔ بیٹھک میں مکمل خاموشی تھی۔ پانی کے گلاس درمیان میں رکھ گول پر رکھ کر، اشرف سلطان مناسب الفاظ کا چناؤ کر کے بات شروع کرنے لگے۔ انہوں نے گلا کھنگالا۔
"زیمل بیٹا...مجھے معلوم ہے کہ یہ ایک بہت مشکل وقت ہے۔ ہم سب سے زیادہ آپ کے اور زمان کے لیے۔ یہ سب کسی اور حالات میں ہوتا تو میں بہت ریج سے آپکا استقبال کرتا۔  ابھی میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔ میں آپ سے بہت شرمندہ ہوں...لیکن میں صرف اتنا کہوں گا کہ یہ اب ہم سب کے ساتھ ساتھ آپکا بھی گھر ہے۔ اسکو بھی اپنا گھر سمجھو... میں چاہتا ہوں کہ آپ زمان کے ساتھ رہیں...(کچھ دیر خواموشی رہی۔ زیمل کے چہرے پر ایک رنگ آ کر گزرا۔) رات بہت ہو گئی ہے، باقی باتیں انشااللّہ صبح کریں گے۔" اشرف سلطان سانس خارج کر کے اپنی نشست سے کھڑے ہو گئے۔ ان کی تقلید میں سب کھڑے ہو گئے۔ وہ کسی سے بھی نظریں ملائے بغیر، زیمل کا سر تھپتھپا کر بیٹھک سے چلے گئے۔
ماحول میں کچھ تناؤ سا ہو گیا۔ سب خاموش ہو گئے۔ آہستہ سے دلاور نے گلا کھنگال کر ماحول کا تناؤ ختم کرنے کی کوشش کی۔ "بچوں تم لوگ جا کر سو جاؤ۔ یہ نہ ہو کل، روحیل کے ولیمے پر تم سب کی آنکھوں کے نیچے ہلکے پڑے ہوں۔ کالی آنکھوں کے ساتھ زورو لگو گے۔" وہ ہلکا سا ہنس دیے۔
"ہاں لیکن زین بھائی پہلے ہی زورو لگتےہیں۔ ساری رات شفٹیں جو کرتے ہیں۔ ویسے آپکے بھائی کا بھی یہی حال ہوگا۔ کبھی کبھی raccoon جیسے نہیں لگتے۔" وہ ہنس پڑا۔ لیکن وہاں کھڑے ہوئے ایک بھی شخص کو ہنسی نہیں آئی۔
"زیمل۔ تم زرا میرے ساتھ آؤ۔ میں تمہیں تمہارا کمرہ دکھاتا ہوں۔ زیغم بھابھی کا سامان انکے کمرے میں رکھ آؤ۔" زین اسے ساتھ لے کر سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ زمان اس وقت تک خاموش تماشائی بنا کھڑا رہا۔ وہ ابھی کسی کی بات میں بھی نہیں بولا تھا۔ ان دونوں کے جاتے ہی زمان دھڑام سے صوفے پر گرا۔ اس نے اپنی کنپٹاں مسلیں۔ "یار زیغم ایک گلاس پانی لے آؤ۔"
"ویسے اب بیوی آگئی ہے تو میرے کاموں میں کچھ کمی ہو گی یا نہیں ؟"
"بکواس بند ہو سکتی ہے ؟" زمان نے بند آنکھوں سے تھکے ہوئے لہجے میں کہا۔
"اب تو میں برا ہی لگوں گا۔" اس نے افسوس سے کہا۔
"تم جا رہے ہو یا میں خود چلا جاؤ؟"
"جا رہا ہوں! انکار کب کیا ہے؟" وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے کچن میں چلا گیا۔
"یا اللّہ مجھے اور اسے صبر دے۔" وہ کنپٹی مسلتا رہا۔
وہ دونوں ٹہلتے ٹہلتے، اب کمرے تک جا رہے تھے۔ زیمل بلکل خاموش تھی۔ کسی بات کا نہ جواب نہ کوئی سوال۔ زین بول رہا تھا۔
"تمہارا بھائی ہونے کے ناتے میں تمہیں دو چار باتیں کہنا چاہتا ہوں۔ اگر میری کوئی حقیقی بہن بھی ہوتی تو شاید اسکے لیے میں زمان کا ہی انتخاب کرتا اور تم اس خانے کو میرے لیے پر کر چکی ہو۔ ایک بھائی ہونے کی حثیت سے میں تمہیں یہ نصیحت کروں گا کہ، زمان ایک بہت اچھا لڑکا ہے، اگر تم دونوں ایک دوسرے کو سمجھ کر چلو گے تو زندگی آسان ہو گی۔ یہ وقت تو نہیں ہے کہ میں کہوں کہ کسی خوشگوار ماحول میں باتیں کرو لیکن ایک دوسرے کو مارجن ضرور دینا۔" زین سمجھاتا جا رہا تھا۔ پھر وہ اسکے کمرے کے باہر رک گیا اور آخری بار مسکرا کر کہی۔ اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر کمرے کا دروازہ کھول دیا۔ زیمل بمشکل زبردستی مسکرا کر کمرے میں چلی گئی۔
زین ابھی اپنے کمرے کا رخ کرنے ہی والا تھا کہ زیمل کا سامان تھامے، زمان کمرے کے باہررکا۔
"کر لی باتیں؟ اب کوئی بات مجھ سے بھی کر لو۔" زمان نے اسے مخاطب کیا۔
"یار تم سے میں کیا بات کروں؟ تم تو ہمارے سوپر مین ہو۔" زین ہلکا سا ہنس دیا۔ زمان بھی ہنس دیا۔
"صبح ملتے ہیں پھر یار۔" زین اسکی پیٹھ تھپتھپا کر آگے بڑھ گیا۔
﴿※...※...※﴾
حماد پلنگ پر لیٹا ہوا تھا۔ سلیمان صاحب کو نیند کی گولی دے کر وہ سولا چکا تھا۔ صفا بیگم اب تک سلما کے پاس بیٹھیں انہیں معملات سمجھانے کی ناکام کوشش کر رہی تھیں۔ یا شاید اب اپنے کمرےمیں جا کر سو چکی تھیں۔ حماد نے فون اٹھایا اور گیلری کھول لی۔ کچھ عرصہ پہلے، کے ایک ٹرِپ کی فوٹو تھی۔ وہ تینوں دبئی میں موجود تھے۔ حماد کی سالگرہ تھی اور سارا اور زیمل نے اسے ایک فینسی سا ڈنر دیا تھا۔ وہ تینوں اس تصویر میں اتنے خوش لگ رہے تھے۔
ایک ہی رات میں، حماد سے اسکی دو قیمتی چیزیں چھن گئیں تھیں۔ ایک اسکی محبت تو دوسری اسکی بہن۔ اسکے کب کے رکے آنسو ایک دفع جھلک ہی گئے۔ نرمی سے وہ آنکھیں بند کر گیا۔ آنسو گرتے جا رہے تھے اور وہ روک بھی نہیں رہا تھا۔ وہ بری طرح ٹوٹ چکا تھا۔ زندگی اتنی غیر متوقع ہو سکتی ہے اس نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔ ابھی تو اس نے جی بھر کے سارا کو کھونے کا غم بھی نہیں منایا تھا۔ سارا جا چکی تھی۔ زیمل جانے کیسی تھی اور وہ...وہ بہت تھک چکا تھا۔ ایسے لگ رہا تھا ایک ہی رات میں وہ جانے کتنا بوڑھا ہو گیا ہے۔ اس نے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر زین کو ایک میسج لکھ دیا۔ "مجھے امید ہے کہ تم لوگ زیمل کا خیال رکھو گے۔" ، یہ دھمکی نہیں تھی۔ یہ آس تھی یہ ایک امید تھی کہ وہ اسکا خیال رکھے گا۔ زین اسکا بہترین دوست تھا لیکن زیمل اسکی بہن تھی۔
﴿※...※...※﴾

رنجش   RANJISH Where stories live. Discover now